کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ چہار دہم)
ترجمہ، نصیر احمد
پیرس: مجھے یقین ہے جناب مگر یہاں یہ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ اینڈوور میں بغاوت ہو گئی تھی … اور …
ڈینفورتھ: اینڈوور میں کوئی بغاوت نہیں ہوئی۔
پیرس: میں آپ کو بتاتا ہوں کہ لوگ یہاں کیا کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اینڈوور والوں نے عدالت کو نکال باہر کیا تھا۔ وہ جادو ٹونے کی کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتے تھے۔ یہاں بھی وہ خبر ایک جتھے کا حوصلہ بڑھا رہی ہے۔ میں آپ کو سچی بات کہہ رہا ہوں یہاں جلد ہی بلوہ ہو جائے گا۔
ہیتھورن: بلو ۔میں نے تو یہاں ہر پھانسی پر گاؤں والے تو بہت آسودہ دیکھے ہیں۔
پیرس: جج ہیتھورن، آج سے قبل دوسرے کینڈے کے لوگوں کو یہاں پھانسی دی گئی تھی۔ ریبیکا نرس برجٹ نہیں ہے جو بن بیاہی بشپ کے ساتھ تین سال رہتی رہی تھی۔ جان پراکٹر بھی آئزک وارڈ نہیں ہے جس نے شراب پی پی کر اپنا کنبہ اجاڑ دیا تھا۔ (ڈینفورتھ سے) جناب میں بہ نامِ خدا ایک لفظ بھی نہ کہتا مگر یہ گاؤں میں با حیثیت لوگ ہیں۔ اگر ریبیکا دار پر کھڑی حق کی مناجات پڑھتی ہے تو مجھے خوف ہے کہ آپ کے خلاف انتقام کے جذبات گاؤں میں جاگ جائیں گے۔
ہیتھورن: جناب ہم نے اسے ڈائن قرار دے کر مردود کر دیا ہے۔ عدالت نے…
ڈینفورتھ: (بہت فکر مند ہو گیا ہے، ہیتھورن کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے) پلیز، (پیرس سے) پھر تم کیا تجویز کرتے ہو؟
پیرس: عالی مرتبت میرے خیال میں پھانسیاں ملتوی کر دینی چاہییں۔
ڈینفورتھ: پھانسیاں تو ملتوی نہیں کر سکتے۔
پیرس: اب مسٹر ہیل کے آنے سے تھوڑی امید تو بندھی ہے۔ اگر وہ ان میں سے ایک کو بھی صراطِ مستقیم پر لے آتے ہیں تو اس ایک کا اقبالِ جرم بھی عوام کی نظروں میں دیگر لوگوں کو مردُود بنا دے گا۔ اس کے بعد شاید کوئی شبہ نہ رہے کہ یہ سب جہنم کا ایندھن ہیں۔ مگر موجودہ حالات میں اگر وہ اقبالِ جرم کیے بَہ غیر اپنی بے گناہی کے دعوے کرتے مرتے ہیں تو شبہات میں اضافہ ہو گا اور شاید اہلِ ایمان بھی ان کے لیے روئیں، پیٹیں اور ہمارا عظیم مقصد ان کے اشکوں میں کھو جائے گا۔
ڈینفورتھ: (تھوڑی دیر سوچتا ہے پھر چیور کی طرف بڑھنے لگتا ہے) مجھے وہ فہرست تو دو۔
(چیور اپنا تھیلا کھولتا ہے اور کاغذات میں وہ فہرست ڈھونڈتا ہے۔)
پیرس: میں یاد دہانی کرانا چاہوں گا کہ جب میں نے جان پراکٹر کے دینی مقاطعے کے لیے اجتماع ترتیب دیا تھا تو میرا خطبہ سننے کے لیے صرف تیس نفوس آئے تھے۔ یہ نا راضی کی نشانی ہے اور میں …
ڈینفورتھ: پھانسیاں ملتوی نہیں ہوں گی۔
پیرس: عالی مرتبت۔
ڈینفورتھ: اب جناب، تمھاری رائے میں ان میں کسے راہ خداوندی پر واپس لایا جا سکتا ہے؟ میں اجالے تک خود اسے قائل کرنے کی مشقت کروں گا۔ (وہ پیرس کو فہرست تھما دیتا ہے اور پیرس فہرست کا سرسری جائزہ لیتا ہے۔)
پیرس: سویرے تک مگر وقت کم ہے۔
ڈینفورتھ: میں پوری کوشش کروں گا۔ ان میں سے کس سے تمھیں امید ہے؟
پیرس: (فہرست کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا۔ اور لرزتی آواز میں دھیمے سے کہتا ہے) عالی مرتبت، خنجر (اس کے آواز اس کے گلے میں پھنس جاتی ہے۔)
ڈینفورتھ: کہنا کیا چاہتے ہو؟
پیرس: آج میں نے گھر سے باہر آنے کے لیے دروازہ کھولا تو ایک خنجر جھنجھناتا ہوا زمین پر گر پڑا۔ (خاموشی، ڈینفورتھ بات کو ہضم کرتا ہے۔ پیرس پکار اٹھتا ہے) اس قسم کے لوگوں کو پھانسی نہیں دی جا سکتی۔ اس میں میرے لیے خطرہ ہے۔ مجھے تو راتوں کو باہر نکلنے کی جرات ہی نہیں ہوتی۔
(پادری ہیل اندر آتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے سکوت چھا جاتا ہے۔ وہ انتہائی رنجیدہ، نا تواں اور بے جھجک ہو گیا ہے۔)
ڈینفورتھ: عزتِ مآب ہیل، میری طرف سے تمھیں مبارک باد۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ تم نے اپنے کارِ خیر کی پھر سے شروعات کر دی ہیں۔
ہیل: (ڈینفورتھ کی طرف بڑھتے ہوئے) وہ نہیں مانتے۔ جناب کو انھیں معافی دینی پڑے گی۔
(ہیرک اندر آتا ہے، منتظر ہے)
ڈینفورتھ: (ہیل کو مناتے ہوئے) جناب تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں انھیں بخش نہیں سکتا کہ بارہ لوگوں کو اسی جرم میں پھانسی ہو چکی ہے۔ ایسا کرنا بے انصافی ہو گی۔
پیرس: (اس کا دل مرجھانے لگتا ہے) ریبیکا تو اعتراف نہیں کرے گی۔
ہیتھورن: تھوڑی دیر میں جناب سورج نکل آئے گا۔ مجھے زیادہ وقت چاہیے۔
ڈینفورتھ: اب میری سنو اور خود کو جھوٹی تسلیاں دینا بند کرو۔ میں التوا اور معافی کی ایک درخواست بھی قبول نہیں کروں گا۔ جو اقبالِ جرم نہیں کرتے، انھیں پھانسی ہو گی۔ بارہ لوگوں کو پھانسی ہو چکی ہے۔ اور ان ساتوں کے ناموں کا پھانسی کے لیے اعلان ہو چکا ہے اور لوگ توقع کرتے ہیں کہ وہ انھیں صبح مرتا ہوا دیکھیں گے۔ التوا کے معنی یہ لیے جائیں گے کہ میں لڑکھڑا گیا ہوں۔ معافی اور تلافی ان لوگوں کے گنہ گاری کے متعلق شکوک پیدا کریں گے جن کو اب تک پھانسی ہو گئی ہے۔ میں قانون خداوندی کی آواز ہوں اور اب ہوکے بھر کر اس آواز کی قوت اور سلاست بکھرنے نہیں دے سکتا۔ اور اگر جوابی کارِ روائی کا تمھیں خوف ہے تو یاد رکھو تو قانون کے خلاف خروج کرنے والے دس ہزار لوگوں کو بھی میں پھانسی دے دوں گا۔ اور نمکین اشکوں کا بحر بھی قوانین کی پختگی کو نہیں پگھلا سکتا۔ اب مردوں کی طرح ہمت کرو اور میرا ساتھ دو کیوں کہ فلک کے تم پا بند ہو۔ تم نے ان سب سے بات کر لی ہے، مسٹر ہیل؟
ہیل: سوائے پراکٹر کے سب سے کہ وہ تہہ خانے میں بند ہے۔
ڈینفورتھ: (ہیرک سے) اور پراکٹر کے آج کل حالات کیا ہیں؟
ہیرک: وہ کسی بڑے پنچھی کی طرح بیٹھا رہتا ہے۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ زندہ ہے یا مردہ۔ اسی وقت ہی اس کی زندگی کی خبر ہوتی ہے جب کبھی وہ کھانا کھانا کھا رہا ہوتا ہے۔
ڈینفورتھ: (تھوڑی دیر سوچنے کے بعد) اس کی بیوی؟پیٹ میں بچے کی وجہ سے اس کا پیٹ پھول گیا ہو گا؟
ہیرک: جی جناب۔
ڈینفورتھ: مسٹر پیرس، تم اس شخص کو بہتر جانتے ہو۔ اس کی بیوی کی موجودگی اسے نرما دے گی گیا؟
پیرس: ممکن ہے جناب۔ اس نے تین مہینے سے اپنی بیوی کو نظر بھر نہیں دیکھا۔ بیوی کی موجودی اسے نرم کر سکتی ہے؟
ڈینفورتھ: (ہیرک سے) ابھی اکڑا ہوا ہے کیا؟ پھر تو تم پر وار نہیں کیا؟
ہیرک: نہیں کر سکتا، جناب۔ اب دیوار سے زنجیروں میں بندھا ہے۔
ڈینفورتھ: (اس بات پر سوچتے ہوئے) بیگم پراکٹر کو یہاں لے آؤ اور اس کے بعد پراکٹر کو بھی۔
ہیرک: جی جناب (ہیرک جاتا ہے۔ خاموشی ہو جاتی ہے۔)
ہیل: عالی مرتبت، ایک ہفتے کے لیے پھانسیاں اگر آپ ملتوی کر دیں اور اعلان کرا دیں کہ آپ ان کے اقرار کے لیے کوشاں ہیں تو آپ کی مہر بانی گنی جائے گی عزم کی شکستگی نہیں۔
ڈینفورتھ: جیسےخدا نے مجھے چڑھتے سورج کو جوشوا کی طرح روکنے طاقت نہیں دی ویسے میں ان لوگوں کی سزا کی قطعیت بھی نہیں مٹا سکتا۔
ہیل: (سخت ہوتے ہوئے) مسٹر ڈینفورتھ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ خدا نے آپ کو بغاوت بڑھانے کا اختیار عطا کیا ہے تو آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔
ڈینفورتھ: (فوراً) تم نے بغاوت کی بات سنی؟
ہیل: عالی مرتبت، گھر گھر میں یتیم سرگرداں ہیں۔ شاہ راہوں پر گائیں آوارہ پھرتی ہیں۔ چاروں اور سڑتی فصلوں کی باس پھیلی ہے۔ اور کسی کو نہیں پتا کہ کب فاحشاؤں کا غوغا اس کی زندگی تمام کردے۔ اور آپ پوچھ رہے ہیں بغاوت کی بات چلی؟ آپ کو تو اس بات ہر حیرت ہونی چاہیے کہ ابھی تک لوگوں نے آپ کا صوبہ برباد کیوں نہیں کیا۔
ڈینفورتھ: مسٹر ہیل، اس مہینے تم اینڈور میں تبلیغ کرنے گئے تھے؟
ہیل: شکر خدا کا انھیں اینڈوور میں میری کوئی ضرورت نہیں۔
ڈینفورتھ: تم مجھے بے گت کر رہے ہو،جناب؟ یہاں پھر کیوں لوٹ آئے؟
ہیل: سادہ سی بات ہے، میں یہاں شیطان کا کام کرنے آیا ہوں۔ لوگوں سے ان کے بارے میں جھوٹ بلوانے آیا ہوں۔ (اس کا طنز تمام ہو جاتا ہے) میرے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔ تم یہ خون دیکھ نہیں رہے کیا؟
پیرس: ششش … (کہ وہ قدموں کی چاپیں سن رہا ہے۔ وہ دروازے کی طرف مُنھ کرتے ہیں۔ ہیرک ایلزبیتھ کے ساتھ اندر آتا ہے۔ ایلز بیتھ کے ہاتھ بھاری زنجیروں سے بندھے ہیں۔ ہیرک یہ زنجیریں ہٹا دیتا ہے۔ وہ گندے کپڑے پہنے ہے۔ اس کے زرد چہرے کی ہڈیاں نکل آئی ہیں۔ ہیرک باہر جاتا ہے۔)
ڈینفورتھ: (شستگی سے) بیگم پراکٹر (ایلزبیتھ چپ ہے) میں امید کرتا ہوں، تم تَن درست ہو۔
ایلزبیتھ: (جیسےسرزنش کرتے ہوئے کچھ یاد دلا رہی ہو) ابھی میرے چھ مہینے باقی ہیں۔
ڈینفورتھ: پلیز، فکر نہ کرو۔ ہم تمھیں موت دینے نہیں آئے۔ (وہ عرض کرتے ڈانواں ڈول ہے کہ اسے عرض کرنے کی عادت نہیں ہے) مسٹر ہیل، تم اس خاتون سے بات کرنا چاہو گے؟
ہیل: بیگم پراکٹر، تمھارے شوہر کو آج پھانسی دی جائے گی۔
وقفہ ہو جاتا ہے۔
ایلیزبیتھ: (دھیرے سے) میں نے سنا ہے۔
ہیل: تم جانتی ہو کہ میرا عدالت سے کوئی تعلق نہیں (لگتا ہے ایلزبیتھ کو اس بات میں اسے شک ہے) میں اپنی مرضی سے یہاں آیا ہوں، بیگم پراکٹر۔ میں تمھارے شوہر کی زندگی بچا لوں گا کیوں کہ اگر اس کی جان جاتی ہے تو میں خود کو اس کا قاتل سمجھوں گا۔ سمجھ رہی ہو نا؟
ایلزبیتھ: مجھ سے آپ کیا چاہتے ہو؟
ہیل: ہمارے خداوند کی طرح پچھلے تین ماہ سے میں ویرانوں میں ہوں۔ میں مسیحی ڈگر کا متلاشی ہوں کہ اس پادری پر دُہرا عذاب نازل ہو گا جو لوگوں کو جھوٹ بولنے کا پند دیتا ہے۔
ہیتھورن: یہ جھوٹ نہیں ہے۔ تم جھوٹ کی بات نہیں کر سکتے۔
ہیل: جھوٹ تو ہے کہ وہ بے گناہ ہیں۔
ڈینفورتھ: یہ سب کچھ اور اب میں نہیں سنوں گا۔
ہیل: (ایلزبیتھ سے بات جاری رکھتے ہوئے) میں نے اپنے فرض کے بارے میں غلطی کی ہے۔ اپنے فرض کے بارے میں تمھیں وہ غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ اس گاؤں میں میں ایسے آیا تھا جیسے دلہا دلہن کے پاس آتا ہے، دینِ عظیم کے تحائف سے مالا مال۔ میں تو اپنے ساتھ مقدس قانون کے تاج لایا تھا۔ لیکن اس رخشندہ اعتماد میں میں نے جسے چھوا، اسے موت ملی۔ اور جس طرف میرے مہان ایمان کی نگاہ پھری، وہاں لہو بہنے لگا۔ بیگم پراکٹر، تمھیں خبر دار کرتا ہوں کہ اس سمے ایمان سے مت چِمٹو، جس گھڑی ایمان بے گناہوں کا لہو بہانے لگے۔ ایمان کی تفہیم میں نقائص ایمان کے لیے ایسی قربانی کا سبب بنتے ہیں۔ زندگی، خاتون، زندگی خدا کا سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ اور کوئی اصول کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، جان لینے کا جواز نہیں بن پاتا۔ میں تمھاری منت کرتا ہوں خاتون کہ اپنے شوہر کو سمجھاؤ وہ اعتراف جرم کر لے۔ اسے جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنے کا کہو۔ اس معاملے میں حکمِ خداوندی کا خوف نہ کرو کہ خدا جھوٹے پر اس گھمنڈی سے کم نالاں ہوتا ہے جو تکبر کی خاطر زندگی سے دست بردار ہو جاتا ہے۔ کیا تم اسے سمجھاؤ گی؟ میرے خیال میں اور کسی کی وہ مانے گا بھی نہیں۔
ایلزبیتھ: (دھیمے سے) میرے اندازے میں یہ شیطان کے دلائل ہیں۔
ہیل: (مایوسی کے پوروانگ پر) خاتون، قوانین خداوندی کی تفہیم کے معاملے میں ہم خنازیر سے بھی زیادہ نا لائق ہیں۔ اس کی مشیت اور رضا کی تفہیم ہمارے بس کی بات نہیں۔
ایلز بیتھ: میں اس معاملے میں آپ سے اختلاف نہیں کر سکتی۔ میری اتنی تعلیم نہیں ہے۔
ڈینفورتھ: (ایلزبیتھ کی طرف جاتے ہوئے) بیگم پراکٹر، تمھیں یہاں دینی مسائل پر اختلافات فیصل کرنے کے لیے بلایا بھی نہیں گیا۔ تم میں کیا بیگموں جیسی کچھ مہر بھی ہے؟ تمھارا شوہر طلوعِ آفتاب کے وقت پھانسی چڑھ جائے گا۔ پَلّے کچھ پڑ رہا ہے کہ نہیں؟ (وہ اس کی طرف دیکھتی ہے) کیا کہتی ہو؟ اسے سمجھاؤ بجھاؤ گی کہ نہیں؟ (ایلزبیتھ خاموش ہے) پتھر ہو کیا؟ خاتون، میں سچ کہتا ہوں، تمھاری غیر فطری زندگی کے میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ لیکن تمھاری خشک آنکھیں شہادتی ہیں کہ تم نے اپنی روح جہنم کے حوالے کر دی ہے۔ اس بِپتا پر تو بوزنے بھی رو پڑیں۔ شیطان نے کیا تمھارے آنسو بھی خشک کر دیے ہیں؟ (وہ چپ رہتی ہے) لے جاؤ اسے، اس کی پراکٹر سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔
ایلزبیتھ: (آہستگی ہے) عالی مرتبت، مجھے اس سے بات کرنے دیں۔
پیرس: (امید سے) تم پوری کوشش کرو گی ناں؟ (وہ تامل کرتی ہے)
ڈینفورتھ: تم اسے اعتراف پر آمادہ کرو گی یا نہیں؟
ایلزبیتھ: کوئی وعدہ نہیں کر سکتی مگر مجھے اس سے بات کرنے دو۔
(ایک آواز آتی ہے۔ پتھروں پر پاؤں گھسٹنے کی آواز۔ وہ پلٹتے ہیں۔ وقفہ ہو جاتا ہے۔ ہیرک جان پراکٹر کے سنگ اندر آتا ہے۔ اس کی کلائیاں زنجیروں میں بندھی ہیں۔ وہ کوئی اور ہی آدمی لگ رہا ہے۔ بڑھی ہوئی داڑھی، غلیظ، دھندلی آنکھیں جیسے جالوں نے بڑی کر دی ہوں۔ وہ دروازے پر تھم جاتا ہے۔ ایلزبیتھ پر جیسے ہی اس کی نگاہ پڑتی ہے۔ ان کے بیچ رواں جذبات ایک لمحے کے لیے جیسے اوروں کی طاقت گویائی چھین لیتے ہیں۔ ہیل اس منظر سے متاثر ہو کر ڈینفورتھ کے پاس جاتا ہے اور اس سے دھیمے لہجے میں باتیں کرنے لگتا ہے۔
ہیل: پلیز، انھیں تنہا چھوڑ دیں، عالی مرتبت۔
ڈینفورتھ: (بے صبری سے ہیل کو پرے ہٹاتے ہوئے) تمھیں اطلاع دی گئی ہے، مسٹر پراکٹر، کہ نہیں؟ (پراکٹر ایلزبیتھ کی جانب دیکھتا ہے) میں آسمان میں روشنی دیکھتا ہوں۔ مسٹر، اپنی بیوی سے بات چیت کرو اور خدا تمھیں جہنم کی طرف پشت کرنے ہمت عطا فرمائے۔ (ایلزبیتھ کی اور دیکھتے ہوئے پراکٹر خاموش ہے۔)
ہیل: (آہستگی سے) عالی مرتبت، انھیں …
(ڈینفورتھ ہیل کے پاس سے گزرتا ہو باہر چلا جاتا ہے۔ ہیل اس کے پیچھے جاتا ہے۔ چیور کھڑا ہوتا ہے اور ان کی پیروی کرتا ہے۔ اس کے پیچھے ہیتھورن ہے۔ ہیرک بھی چلا جاتا ہے۔ ایک محفوظ فاصلے سے پیرس کلمہ اثبات کہتا ہے۔)
پیرس: سیبوں کی شراب کا اگر ایک پیالہ چاہیے، مسٹر پراکٹر، تو میں، تو میں…
(پراکٹر، اس پر اک سرد نگاہ ڈالتا ہے، جو پیرس کی بات کاٹ دیتی ہے۔ (پیرس پراکٹر کی طرف اپنی ہتھیلی اٹھاتا ہے) خدا اب تمھاری رہ نمائی کرے( پیرس چلا جاتا ہے۔)
(وہ تنہا رہ جاتے ہیں۔ پراکٹر ایلزبیتھ کی طرف بڑھتا ہے، تھم جاتا ہے، ایسے لگتا ہے کہ ان کی دنیا گھوم رہی ہے۔ اندوہ سے یہ اونچی بات ہے، اندوہ سے پرے بھی۔ وہ اپنا ہاتھ ایلزبیتھ کی طرف بڑھاتا ہے جیسے کسی غیر حقیقی تجسیم کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہو۔ جونہی وہ الیزبیتھ کو چھوتا ہے، تو آدھی حیرت بھری ،آدھی ہنسی بھری ایک عجیب مگر لطیف صدا اس کے حلق سے نکلتی ہے۔ وہ اس کا ہا تھ تھپتھپاتا پے۔ ایلزبیتھ اپنے ہاتھوں سے اس کے ہاتھ ڈھانک لیتی ہے۔ اور پھر اس کے رُو بَہ رُو بیٹھ جاتی ہے۔)
پراکٹر: بچہ؟
ایلزبیتھ: دھیما پڑ گیا ہے۔
پراکٹر: لڑکوں کی خبر نہیں آئی؟
ایلزبیتھ: اچھے ہیں۔ ریبیکا کے سیموئیل کے پاس ہیں۔
پراکٹر: تم ان سے نہیں ملیں؟
ایلزبیتھ: نہیں ملی۔ (وہ ناتواں ہو کر نیچی ہو جاتی ہے۔)
پراکٹر: تم ایک … اعجاز ہو، ایلزبیتھ۔
ایلزبیتھ: تم پہ۔ تشدد ہوا؟
پراکٹر: ہاں (وہ خود کو ایک امڈتے ہوئے بحر پر خطر میں خود کو نہیں ڈوبنے دے گی۔) وہ اب میری جان لینے آئے ہیں۔
ایلزبیتھ: جانتی ہوں۔
ایک وقفہ
پراکٹر: کسی نے اقرار کیا ؟
ایلزبیتھ: بہت ساروں نے؟
پراکٹر: کون ہیں وہ؟
ایلزبیتھ: کہتے ہیں سو سے اوپر ہیں۔ ایک تو بیگم بیلرڈ ہے، ایسایا گڈکائنڈ بھی ہے۔ بہت سارے ہیں۔
پراکٹر: ریبیکا؟
ایلزبیتھ: ریبیکا نہیں کرے گی۔ اب تو اس کا ایک پاؤں جنت میں ہے۔ شاید اب اسے کوئی بھی دکھ نہیں دے سکتا۔
پراکٹر: اور جائلز؟
ایلزبیتھ: تم نے سنا نہیں۔
پراکٹر: جہاں میں ہوں وہاں سے کیسے کچھ سنوں؟
ایلزبیتھ: جائلز فوت ہو گیا ہے۔
(وہ اس کی طرف بے یقینی سے دیکھتا ہے۔)
پراکٹر: اسے کب پھانسی ہوئی؟
ایلزبیتھ: (دھیرے سے حقائق بتاتی ہے) اسے پھانسی نہیں ہوئی۔ اس نے اپنی فرد جرم پر نہ تو نہ کی اور نہ ہی ہاں۔ اگر وہ الزام سے انکار کرتا تو وہ اس کو پھانسی بھی دیتے اور اس کی جائیداد کی بولی بھی لگاتے۔ اس لیے وہ گونگا بنا رہا اور قانون کے تحت عیسائی ہی مرا۔ اس وجہ سے اس کے بیٹوں کو اس کا فارم مل جائے گا۔ یہی قانون ہے، فرد جرم پہ نہ ہاں کہنے اور نہ نہ کہنے سے اسے جادُو گر ہونے کی سزا نہیں دی جا سکتی تھی۔
پراکٹر: تو پھر وہ مرا کیسے؟
ایلزبیتھ: (نرمی سے) وہ اسے دبانے لگے تھے، جان۔
پراکٹر: دبانے لگے تھے؟
ایلزبیتھ: اس کے مُنھ سے ہاں یا نہ کہلوانے کے لیے اس کے سینے پر وہ بھاری پتھر دھرتے رہے۔ (بزرگ کے لیے ایک مشفق مسکان ایلزبیتھ کے چہرے پر ابھرتی ہے) کہتے ہیں، اس نے صرف دو لفظ کہے۔ اور بوجھ، یہ کہتے وہ مر گیا۔
پراکٹر: (بے جان ہو گیا۔ ایک تاگہ جس سے وہ اپنی اذیت بن سکتا) اور بوجھ۔
ایلزبیتھ: ہاں، شاندار آدمی تھا، جائلز کوری۔
وقفہ
پراکٹر: (رضا کی پوری قوت صرف کرتے ہوئے مگر ایلزبیتھ سے نظریں چراتے ہوئے،) میں سوچ ر ہا ہوں کہ میں ان کے سامنے اقبالِ جرم کر لوں، ایلزبیتھ۔ (وہ کچھ نہیں ظاہر ہونے دیتی) تم کیا کہو گی اگر میں ان کے سامنے اپنا جرم قبولتا ہوں؟
ایلزبیتھ: میں تمھیں پرکھ نہیں سکتی جان۔
تؤقف در آتا ہے۔
پراکٹر: (سادگی سے ایک شفاف سوال پوچھ لیتا ہے) تم چاہتی ہو میں ایسا کروں؟
ایلزبیتھ: تم جیسا چاہو مجھے منظور ہے۔ (تؤقف) میں یقیناً تمھاری زندگی کی تمنائی ہوں۔
پراکٹر: (تھوڑی دیر تھم جاتا ہے، امید اجاگر کرتے ہوئے) جائلز کی بیوی؟ کیا اس نے اعتراف کر لیا؟
ایلزبیتھ: نہیں، وہ نہیں کرے گی۔
وقفہ
پراکٹر: یہ سب بناوٹ ہے، ایلزبیتھ ۔
ایلزبیتھ: کیا بناوٹ ہے؟
پراکٹر: میں اولیاء کی مانند دار پر نہیں چڑھوں گا۔ یہ فراڈ ہے۔ میں وہ آدمی بھی نہیں ہوں … (ایلزبیتھ چپ رہتی ہے) میری دیانت شکستہ ہے، ایلزبیتھ۔ میں اچھا آدمی نہیں ہوں۔ یہ جھوٹ کہنے سے اس چیز کا کچھ ضیاع نہیں ہو گا جو کچھ مدت پہلے ہی گل چکی ہے۔