کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (آخری قسط)
ترجمہ، نصیر احمد
ایلزبیتھ: لیکن پھر بھی ابھی تک تم نے اعتراف تو نہیں کیا۔ تمھاری اچھائی بول تو رہی ہے۔
پراکٹر: گھن مجھے خاموش رکھے ہوئے ہے۔ ان کتوں کو میں جھوٹ کیوں کہوں۔ (پہلی دفعہ ایلزبیتھ کی طرف پورا پلٹتا ہے) تم مجھے بخش دو گی، ایلزبیتھ۔
ایلزبیتھ: بخشش میری بِضاعَت میں نہیں ہے جان۔ میں تو…
پراکٹر: میں چاہوں گا کہ تم اس معاملے میں دیانت داری سے کام لو۔ جنھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا وہ اپنی آتماؤں کی سرکھشا کرتے ہوئے جان دے دیں۔ میرے نزدیک تو یہ بناوٹ ہے، اہنکار۔ ایسا اہنکار جو خدا کو فریب نہیں دے سکتا اور میرے بچوں کو بھی آندھیوں سے نہیں بچا سکتا۔ (رکتے ہوئے) کیا کہتی ہو؟
ایلزبیتھ: (ایک بھاری سسکی کے کنار پر جو ہمیشہ ڈرا دیتی ہے) میرے تمھیں معاف کرنے کے معنی نہیں ہیں جان اگر خود کو تم نہیں معاف کرتے (وہ بڑی ہی اذیت میں تھوڑا پرے ہٹ جاتا ہے) یہ میرا ضمیر نہیں ہے جان، تمھارا ہے، میری آتما نہیں جان، تمھاری ہے۔ (وہ کھڑا ہو جاتا ہے جیسے اس کے جسم میں بہت درد ہو رہا ہو، اپنے سوال کو جواب ڈھونڈنے کی ایک لا فانی تڑپ کے سنگ اپنے پیروں پر اٹھتے ہوئے۔ کہنا کٹھن ہو گیا ہے کہ ایلزبیتھ کے آنسو بس بہنے کو ہی ہیں)۔ مگر ایک بات کا مجھے پکا وشواس ہے کہ میں جانتی ہوں، تم وہی کرو گے جو ایک اچھے آدمی کو کرنا چاہیے۔ (وہ اپنی متجسس اور مشکوک نگاہیں ایلزبیتھ کی طرف پلٹا دیتا ہے۔) پچھلے تین مہینوں سے میں خود کو جاننے کی کوشش کرتی رہی ہوں جان، (تھوڑی دیر رکتے ہوئے) میرے اپنے کھاتے میں بھی کئی گناہ ہیں۔ اک سرد مہر بیوی بد کاری کی ترغیب بھی تو ہوتی ہے۔
پراکٹر: (جز درد کچھ نہیں رہا) بس، بس۔
ایلزبیتھ: (اب اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے) میری حقیقت جان تو لو۔
پراکٹر: میں تم سے آشنا ہوں اس لیے یہ سب نہیں سنوں گا۔
ایلزبیتھ: تم نے میرے گناہ اپنے سر لے لیے ہیں جان۔
پراکٹر: (اذیت میں ہے) نہیں یہ میرے گناہ ہیں، میرے گناہ۔
ایلزبیتھ: جان، مجھے پتا ہے کہ میں دل کش اور دل فریب نہیں ہوں، میری تقویم بھی اچھی نہیں ہے۔ میں ایک شفاف محبت کی اہل ہی نہیں تھی۔ اور جب میں نے تم سے شفاف محبت کی تو تم مشکوک ہو گئے۔ مجھے الفت کا اظہار کا سلیقہ ہی نہیں تھا۔ میں نے تمھارے گھر کے گوشے گوشے اپنی سرد مہری اور سخت گیری پھیلا دی، جان۔ (ڈر کر لہرا جاتی ہے جیسے ہی ہیتھورن اندر آتا ہے۔)
ہیتھورن: کیا ارادے ہیں پراکٹر، سورج نکلنے کو ہے۔
(پراکٹر کا سینہ پھولنے لگتا ہے۔ ایلزبیتھ کی اور مڑتا ہے۔ وہ اس کی طرف سمجھانے بجھانے کے لیے بڑھتی ہے اور اس کی آواز تھرتھرانے لگتی ہے۔)
ایلزبیتھ: جو دل چاہے کرو۔ کسی کو اپنے آپ کو پرکھنے مت دو۔ افلاک تلے پراکٹر سے بڑا کوئی منصف نہیں ہے۔ مجھے بخش دو، جان، مجھے بخش دو۔ میں نے دنیا میں تم سے زیادہ اچھائی کسی میں نہیں دیکھی۔ (وہ روتے ہوئے چہرہ چھپا لیتی ہے۔)
(پراکٹر ہیتھورن کی طرف پلٹتا ہے اور اس کی آواز کھوکھلی ہے۔)
پراکٹر: مجھے زندگی چاہیے۔
ہیتھورن: (برق سی اس کے سراپے میں دوڑ جاتی ہے۔ حیران بھی ہے) تو تم اعتراف کر لو گے؟
پراکٹر: مجھے زندگی ملے گی۔
ہیتھورن: (پُر اسرار لہجے میں) تعریف ہے خدا کی۔ یہ مشیت ہے۔ (وہ تیزی سے دروازے کی طرف لپکتا ہے۔ اس کی آواز راہ داری میں سنائی دے رہی ہے۔) پراکٹر اعتراف کرے گا۔ پراکٹر اعتراف کرنا چاہتا ہے۔
پراکٹر: (روتے ہوئے دروازے کی جانب لمبے قدم بھرتا ہے) تم شور کیوں مچا رہے ہو۔ (گہری تکلیف میں ایلزبیتھ کی طرف پلٹتا ہے) یہ بدی ہے؟ نہیں ہے کیا؟ بدی ہے؟
ایلزبیتھ: (دہشت میں ہے اور گریہ کرتی ہے) میں تمھیں پرکھ نہیں سکتی، نہیں پرکھ سکتی۔
پراکٹر: پھر مجھے کون پرکھے گا؟ (اچانک دونوں ہاتھ بھینچ لیتا ہے) اے آسمانی خدا، جان پراکٹر کیا ہے؟ جان پراکٹر کیا ہے؟ (وہ کسی حیوان کی طرح بڑھتا ہے اور ایک غضب کا احساس اس کے اندر ایک پر کشش جستجو کو جلا بخشنے لگتا ہے) میرے خیال میں یہ دیانت ہی تو ہے۔ میں کوئی سنت تو نہیں ہوں۔ (جیسے ایلزبیتھ نے اس کی اس بات کی بھی نفی کر دی ہو، وہ غصے میں اسے پکارتا ہے) ریبیکا طاہرہ کی مانند رخصت ہوتی ہے تو ہوتی رہے، میرے لیے تو یہ سب فراڈ ہے۔
(ہال سے آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ اپنا جوش دبائے سب باتیں کر رہے ہیں)
ایلیزبیتھ: میں تمھاری جج نہیں ہوں جان، ہو بھی نہیں سکتی۔ (جیسے اسی رہا کر رہی ہو) وہی کرو جو تم چاہتے ہو، ایسا ہی کرو جیسا تم چاہتے ہو۔
پراکٹر: تم کیا ان سے ایسا جھوٹ کہو گی؟ کہو نان؟ تم ایسا جھوٹ ان سے بولو گی؟ (وہ جواب نہیں دے پاتی) نہیں تم نہیں کہو گی۔ آگ کے اگر چمٹوں سے وہ تمھارا جسم بھی داغیں، تم ان سے ایسا جھوٹ نہیں بولو گی۔ یہ بدی ہے۔ اچھا۔ یہ بدی ہے اور یہ بدی میں کرتا ہوں۔
(ہیتھورن ڈینفورتھ کے ساتھ اندر آتا ہے اور ان کے ساتھ چیور، پیرس اور ہیل بھی ہیں۔ وہ سرکاری طرز میں تیز تیز اندر آتے ہیں مگر لگتا ہے وہ سمجھ رہے ہیں کہ جیسے برف پگھل گئی ہے اور اس بات پر شادمان بھی ہیں۔)
ڈینفورتھ: (آسودگی اور تشکر کے ساتھ) تعریف خدا کی، آدمی، تعریف خدا کی۔ تم پہ جنت میں رحمتیں برسیں گی۔ (چیور، قلم، کاغذ اور دوات لیے بینچ کی طرف بڑھتا ہے۔ پراکٹر اسے دیکھتا ہے۔) چلو، پھر اپنا کام کرتے ہیں۔ مسٹر چیور، تم تیار ہو؟
پراکٹر: (ان کی مستعدی دیکھ کر اس کے جسم میں سرد ترین وحشت کی لہر دوڑ جاتی ہے) یہ سب لکھنا اتنا ضروری کاہے؟
ڈینفورتھ: گاؤں والوں کی ہدایت کے لیے مسٹر۔ یہ سب ہم چرچ کے دروازے پر چسپاں کریں گے۔ (پیرس سے جلدی میں) یہ مارشل کدھر ہے؟
پیرس: (دروازے کی طرف بھاگتا ہے اور راہ داری میں چلاتا ہے۔) مارشل، جلدی کرو۔
ڈینفورتھ: اب مسٹر تم دھیرے دھیرے صرف مطلب کی بات کرو گے تا کِہ مسٹر چیور کو سہولت ہو۔ (اب وہ سرکاری ریکارڈ قلم بند کر ا رہا ہے اور ریکارڈ کرتے چیور کو ڈکٹیٹ کر رہا ہے) مسٹر پراکٹر،کیا تم اپنی زندگی میں شیطان سے ملے؟ (پراکٹر جبڑے بھینچ لیتا ہے) مسٹر اجالا ہو گیا ہے اور گاؤں پھانسی کے تختے کے ارد گرد منتظر ہے۔ اور میں نے یہ خبر انھیں دینی ہے۔ کیا تم شیطان سے ملے تھے؟
پراکٹر: ملا تھا۔
پیرس: الحمد۔
ڈینفورتھ: جب وہ تم سے ملا تھا تو اس نے تم سے کیا مطالبہ کیا تھا؟ (پراکٹر خاموش رہتا ہے، ڈینفورتھ اس کی مدد کرتا ہے) کیا اس نے تمھیں کہا تھا کہ دھرتی پہ تم اس کا کام کرو؟
پراکٹر: کہا تھا۔
ڈینفورتھ: اور کیا تم نے اس کی خدمت میں رہنے کے پیمان باندھے؟ (ریبیکا نرس اندر آتی ہے۔ ہیرک نے اسے سہارا دیا ہوا ہے کہ اس سے چلا نہیں جا رہا) آؤ، اندر، آو، خاتون، ریبیکا۔ (پراکٹر کو دیکھ کر ریبیکا کا چہرہ دمک اٹھتا ہے) آہ، جان تو تم اچھے ہو؟
(پراکٹر اپنا چہرہ دیوار کی طرف پھیر لیتا ہے)
ڈینفورتھ: ہمت کر، آدمی، ہمت کر تا کِہ تمھیں دیکھ کر یہ بھی خدا کی طرف لوٹ آئے۔ بیگم نرس، تم یہ سب دھیان سے سنو۔ (پراکٹر سے) تو کیا تم نے شیطان کی خدمت میں رہنے کے پیمان باندھے تھے؟
ریبیکا: (حیرت زدہ ہو کر) کیوں؟ جان کیوں؟
پراکٹر: (دانت بھینچتے ہوئے ریبیکا سے پرے ہٹتے ہوئے) باندھے تھے۔
ڈینفورتھ: تم دیکھ سکتی ہو کہ اب یہ سازش زندہ رکھنے کوئی نفع نہیں ہے۔ کیا تم بھی اس کے ساتھ اعتراف جرم کرو گی؟
ریبیکا: آہ جان، خدا تم پر رحم کرے۔
ڈینفورتھ: میں نے کہا، بیگم نرس کیا تم بھی اعتراف کرو گی؟
ریبیکا: کیوں؟ یہ جھوٹ ہے، یہ جھوٹ ہے۔ میں کیوں اپنا آپ راندوں؟ نہیں راند سکتی۔
ڈینفورتھ: مسٹر پراکٹر، تم جب شیطان سے ملے تھے تو کیا تم نے ریبیکا نرس اس کی صحبت میں دیکھی تھی؟ (پراکٹر چپ رہتا ہے) کیا تم نے اسے شیطان کے سنگ دیکھا؟
پراکٹر: (جیسے کنویں کی تہہ سے) نہیں۔
(ڈینفورتھ بھانپ گیا ہے کہ کام بگڑ گیا ہے۔ جان کی طرف دیکھتا ہے اور میز کی طرف جاتا ہے۔ ایک ورق اٹھاتا ہے۔ مردودوں کی فہرست۔)
ڈینفورتھ: کیا تم نے کبھی اس کی بہن میری ایسٹی شیطان کے سنگ دیکھی؟
پراکٹر: نہیں دیکھی۔
ڈینفورتھ: (اس کی آنکھیں سکڑ گئی ہیں) کیا تم نے کبھی مارتھا کوری شیطان کے سنگ دیکھی؟
پراکٹر: نہیں، میں نے نہیں دیکھی۔
ڈینفورتھ: (معاملہ سمجھتے ہوئے، فہرست میز پر رکھ دیتا ہے) کیا تم نے کسی کو شیطان کے سنگ دیکھا
پراکٹر: نہیں، میں نے نہیں دیکھا۔
ڈینفورتھ: پراکٹر، تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو۔ دروغ کے بدلے جان بخشنے کا مجھے اختیار نہیں ہے۔ تم نے کسی کو تو شیطان کے سنگ دیکھا ہو گا۔ (پراکٹر خاموش رہتا ہے) بیس لوگ شہادت دے چکے ہیں کہ انھوں نے اس خاتون کو شیطان کے سنگ دیکھا۔
پراکٹر: تو پھر ثابت ہو گیا ناں۔ میرے لیے یہ کہنا لازمی کیوں ہے؟
ڈینفورتھ: تمھار ے لیے لازمی کیوں ہے؟ اس لیے کہ ایسا کہنے میں تمھاری شادمانی ہے۔ ایسا کہنے سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ تمھاری روح جہنم کے عشق سے پاک ہو گئی ہے۔
پراکٹر: وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سنتوں کی طرح دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔ میں ان کے نام رسوا نہیں کرنا چاہتا۔
ڈینفورتھ: (بے یقینی سے پوچھتے ہوئے) مسٹر پراکٹر، کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ لوگ سنتوں کی طرح دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں؟
پراکٹر: (کتراتے ہوئے) اس خاتون نے کبھی بھی یہ نہیں سمجھا کہ یہ شیطان کا کام کرہی تھی۔
ڈینفورتھ: دیکھو، جناب، تم یہاں اپنے فرض کے بارے میں غلطی کر رہے ہو۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ یہ کیا سمجھتی تھی۔ اسے بچیوں کے غیر فطری کے قتل میں الزام میں سزا ہوئی ہے۔ اور تمھیں میری وارن پر اپنی آتما وارد کرنے کے جرم میں۔ یہاں صرف، تمھاری آتما کی بات چل رہی ہے۔ مسٹر، تمھیں اپنے روح کی بے داغ سفیدی ثابت کرنی ہو گی ورنہ تم ایک مسیحی ملک میں نہیں رہ سکتے۔ اب کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ وہ کون افراد تھے جن کے سنگ شیطان کی منڈلی میں تم نے سازشیں بنیں؟ (پراکٹر چپ رہتا ہے) کیا تمھارے علم کے مطابق کیا کبھی ریبیکا نرس؟
پراکٹر: میں اپنے ہی گناہ مان سکتا ہوں۔ دوسروں کو نہیں پرکھ سکتا۔ (نفرت سے چلاتے ہوئے) میرے مُنھ میں ایسی جِیبھ ہی نہیں ہے۔
ہیل: (جلدی سے ڈینفورتھ سے کہتا ہے) عالی مرتبت، اتنا ہی کافی ہے کہ یہ اپنے جرم کا اعتراف کر رہا ہے۔ دست خط لے لیں، دست خط کر دیں۔
پیرس: (سلگتے ہوئے) یہ بڑی خدمت ہے جناب، اس کا نام اونچا ہے۔ اسے دست خط کرنے دیں۔ اسے دست خط کرنے دیں۔
ڈینفورتھ: (غور کرتا ہے اور پھر بے اطمینانی سے) چلو پھر اپنے حلف نامے پر دست خط کر دو۔ (چیور سے) اسے حلف نامہ دے دو۔ (چیور پراکٹر کی طرف جاتا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں حلف نامہ اور قلم ہیں۔ پراکٹر ان کی طرف دیکھتا ہی نہیں) چلو دست خط کرو۔
پراکٹر: (حلف نامے پر سرسری نظر ڈالتے ہوئے) تم سب اس کے گواہ ہو، اتنا ہی کافی ہے۔
ڈینفورتھ: تو تم دست خط نہیں کرو گے؟
پراکٹر: تم سب اس کے شہادتی ہو۔ اور کیا چاہیے؟
ڈینفورتھ: میرے ساتھ کھیل کرتے ہو؟ تم اس پر دست خط کرو گے، ورنہ یہ اعتراف نہیں ہے، مسٹر۔ (تکلیف بھری سانسوں سے اس کا سینہ پھول پچک رہا ہے۔ پراکٹر، کاغذ نیچے رکھتا ہے اور دست خط کر دیتا ہے)۔
پیرس: تعریف خداوند خدا کی۔ پراکٹر نے ابھی دست خط کیے ہی ہیں کہ ڈینفورتھ کاغذ کی طرف بڑھتا ہے۔ لیکن پراکٹر کاغذ اس سے چھین لیتا ہے۔ اس کے جسم و جان میں ایک وحشیانہ دہشت اور بے پناہ غضب جاگ رہے ہیں۔)
ڈینفورتھ: (منتشر ہو گیا ہے لیکن شائستگی سے پراکٹر کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے) دے دو۔ مہربانی ہو گی۔
پراکٹر: نہیں۔
ڈینفورتھ: (جیسے اس کے خیال میں پراکٹر بات سمجھا ہی نہیں) مسٹر پراکٹر، مجھے یہ کاغذ ہر صورت میں…
پراکٹر: میں نے دست خط کر دیے۔ تم نے مجھ دست خط کرتے دیکھ لیا۔ اس کی اب تمھیں ضرورت نہیں…
پیرس: پراکٹر گاؤں والوں کو ثبوت دکھانا پڑے گا کہ…
پراکٹر: گاؤں والوں پر لعنت ہو۔ میں نے خدا کے سامنے اعتراف کیا۔ اور خدا نے اس حلف نامے پر میرا نام دیکھ لیا۔ اتنا کافی ہے۔
ڈینفورتھ: نہیں جناب، اتنا …
پراکٹر: تم میری روح کی نجات کے لیے آئے ہو ناں؟ میں نے اعتراف کر لیا۔ اتنا کافی ہے۔ کافی ہے۔
ڈینفورتھ: تم نے اعتراف نہیں…
پراکٹر: میں نے اعتراف کیا۔ کفارہ کیا سب کو دکھلانا لازمی ہے؟ خدا کو میرے نام چرچ میں گڑا نہیں چاہیے۔ خدا میرا نام دیکھتا ہے۔ وہ میری سب کالی کرتوتوں سے واقف ہے۔ اتنا کافی ہے۔
ڈینفورتھ: مسٹر پراکٹر۔
پراکٹر: تم مجھے ایسے استعمال نہیں کرو گے۔ میں سارا گڈ اور تیتیوبا نہیں ہوں۔ میں جان پراکٹر ہوں۔ تم میرا ایسے استعمال نہیں کرو گے۔ اور نجات کے ایسے کوئی معنی نہیں ہیں کہ تم مجھے ایسے استعمال کرو۔
ڈینفورتھ: میں یہ نہیں چاہتا۔
پراکٹر: میرے تین لڑکے ہیں۔ میں انھیں کیسے سکھلا پاؤں گا کہ وہ دھرتی پر مردوں کی طرح چلیں، اپنے دوست بیچنے کے بعد۔
ڈینفورتھ: تم نے اپنے دوست نہیں بیچے۔
پراکٹر: مجھے فریب مت دو۔ اگر میں ان کے نام تیرہ کرتا ہوں تو جب یہ کاغذ چرچ میں گڑے گا، ان سب کو خاموش رہنے کے جرم میں پھانسی ہو جائے گی۔
ڈینفورتھ: مسٹر پراکٹر، مجھے ایک بین قانونی ثبوت درکار ہے کہ تم نے…
پراکٹر: تم اعلیٰ عدالت ہو۔ تمھاری بات ہی کافی ہے۔ انھیں کہہ دو کہ میں جرم کا اعتراف کر لیا۔ کہو کہ پراکٹر گھٹنوں کے بَل بیٹھ کر اپنی جان بچانے کے لیے زنانیوں کی طرح روتا رہا۔ جو دل چاہے کہو مگر میرا نام…
ڈینفورتھ: (مشکوک ہوتے ہوئے) ایک ہی تو بات ہے۔ میں خبر دیتا ہوں کہ دست خط کرتے ہو۔ ایسا نہیں کیا؟
پراکٹر: (جانتا ہے کہ یہ پاگل پنا کر رہا ہے) نہیں ایک بات نہیں ہے۔ جو دوسرے کہتے ہیں اور جس پر میں دست خط کرتا ہوں، ایک بات نہیں ہے۔
ڈینفورتھ: کیوں؟ تو کیا تم رہا ہونے کے بعد اس حلف نامے سے مُکر جاؤ گے؟
پراکٹر: میں کسی بات سے نہیں مُکروں گا۔
ڈینفورتھ: تو پھر وضاحت کرو مسٹر پراکٹر۔ تم کیوں یہ کرنے نہیں…
پراکٹر: (جیسے اس کا پورا وجود چلا اٹھا ہو) کیوں کہ یہ میرا نام ہے۔ اور زندگی بھر مجھے کوئی دوسرا نام نہیں ملے گا۔ کیوں کہ میں نے جھوٹ بولے ہیں اور دروغ ناموں پر دست خط کیے ہیں۔ کیوں کہ جن کو پھانسی ہو گئی ہے میں ان کے پیروں کی دھول بھی نہیں ہوں۔ اپنے نام کے بنا میں کیسے جی پاؤں گا؟ میری روح تو تم نے لے لی، میرا نام رہنے دو۔
ڈینفورتھ: (پراکٹر کے ہاتھ میں حلف نامے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کیا یہ دستاویز جھوٹی ہے؟ اگر جھوٹی ہے تو میں اسے قبول نہیں کرتا؟ اب کیا کہتے ہو؟ میں جھوٹے سودے نہیں کرتا مسٹر پراکٹر۔ (پراکٹر بے حس و حرکت ہے) تم میرے ہاتھ میں اپنا سچا حلف نامہ دو گے یا پھر پھانسی چڑھو گے۔
(ڈینفورتھ کی سانسیں متلاطم ہیں۔ پراکٹر حلف نامہ پھاڑ کر اسے ہاتھوں میں مروڑ لیتا ہے ۔پراکٹر غصے میں رو تو رہا مگر تن کر کھڑا ہے)۔
ڈینفورتھ: مارشل۔
پیرس: (جنونی اندازی میں جیسے پھٹا پیپر اس کی زندگی تھی) پراکٹر، پراکٹر۔
ہیل: آدمی، تجھے پھانسی ہو جائے گی۔ تم ایسا نہیں کر سکتے۔
پراکٹر: (اس کی آنکھیں اشکوں سے بھری ہیں) کر سکتا ہوں۔ اور اپنی اوّلین کرامت تماشا تو کر لو کہ میں ایسا کر سکتا ہوں۔ اپنا چمتکار تو دیکھ لو کہ اب میں دیکھ سکتا ہوں کہ ٹوٹی پھوٹی ہی سہی مگر جان پراکٹر میں اچھائی ہے۔ اتنی بے داغ نہیں کہ اس کا علم بنا سکوں مگر اتنی زیادہ آلودہ بھی نہیں کہ ایسے کتوں کے سامنے اسے میں رسوا کروں۔ (ایلزبیتھ کو دہشت کا ایک دورہ پڑتا ہے۔ وہ پراکٹر کی طرف بڑھ کر اس کے ہاتھوں پر سر رکھ کر زار زار ہو جاتی ہے۔) ان کے سامنے گریہ نہ کرو۔ گریے پر یہ ہنستے ہیں۔ انھیں سر کشی دکھاؤ اور اپنا دل پتھر کر لو کہ یہ اس پتھر سے بندھے غرق ہو جائیں۔ (وہ اسے کھڑا کر دیتا ہے اور اسے دیوانہ وار چومنے لگتا ہے)
ریبیکا: تم کسی بات کا خوف نہ کرنا۔ ابھی ایک آخری فیصلہ باقی ہے۔
ڈینفورتھ: انھیں گاؤں کے سب سے اونچے استھان پر لٹکا دو۔ جو ان کے لیے گریہ کرتا ہے، وہ پراگندگی اور آلودگی کے لیے گریہ کرتا ہے۔ (وہ تیزی سے ان کے پاس سے گزر جاتا ہے۔ ہیرک ریبیکا کی رہنمائی میں انھیں لے کر چلنے لگتا ہے۔ وہ بے جان ہو کر گرنے لگتی ہے کہ پراکٹر اسے تھام لیتا ہے۔ وہ اس کی طرف عذر خواہی سے دیکھنے لگتی ہے۔
ریبیکا: میں نے ناشتہ نہیں کیا تھا۔
ہیرک: آدمی چل۔
(ہیرک انھیں باہر لے جاتا ہے۔ ہیتھورن اور چیور اس کے پیچھے ہیں۔ اور ایلزبیتھ خالی راہ گزر کی جانب دیدے پھیلائے دیکھتی رہتی ہے۔
پیرس: (موت کے خوف میں لرزتی آواز میں الیزبیتھ سے) اسے سمجھاؤ، بیگم پراکٹر۔ اب بھی وقت ہے۔
(باہر ڈھول پر ڈنڈی پڑنے کی آواز فضا میں گونجتی ہے۔ ایلزبیتھ ایک جھٹکے میں کھڑکی پر پہنچ جاتی ہے۔)
پیرس: جاؤ اسے سمجھاؤ (دروازے کی جانب ایسے بھاگتا ہے جیسے اپنی تقدیر سے بھاگ رہا ہو) پراکٹر، پراکٹر۔
(ڈھول دو بارہ بج اٹھتے ہیں۔)
ہیل: خاتون، اسے سمجھاؤ۔ (وہ دروزے کی طرف لپکتا ہے لیکن پھر ایلزبیتھ کی طرف لوٹتا ہے) خاتون، یہ تکبر ہے، یہ نخوت ہے (وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے کتراتی ہے۔ اور کھڑکی کی طرف بڑھتی رہتی ہے۔ ہیل گھٹنوں کے بل ہو جاتا ہے) اس کی امداد کرو۔ مرنے میں کیا منفعت ہے؟ کیا خاک اس کے گن گائے گی؟ کیا سانپ اور بچھو اس کے سچ کی تصدیق کریں گے؟ اس کے پس جاؤ اور اس کی ندامت اس سے چھین لو۔
ایلزبیتھ: (غشی سے گریزاں کھڑکی سلاخیں جکڑ لیتی ہے اور جیسے بین کرتے ہوئے کہتی ہے) ابھی تو اسے اپنی اچھائی ملی ہے۔ خدا نہ کرے میں اس سے اس کی اچھائی چھین لوں۔
(ڈھول کی دھن اپنے آخری حصے میں دھیمی پڑتی ہوئی اترانگ پر جاتی ہے اور پھر پوروانگ پر پورے زور سے بجنے لگتی ہے۔ بے کَل ہو کر ہیل دعائیں پڑھتے زار زار روتا ہے۔ اور ایلزبیتھ کے چہرے پر خورشید برستا ہے۔ اور ڈھول ایسے بجتے ہیں جیسے باد سحر میں ہڈیاں کڑکتی ہیں)
پردہ گرتا ہے
اس آشفتہ سری کے ماند پڑنے کے بعد جلد ہی پیرس ووٹ ہار کر اپنا عہدہ کھو بیٹھتا ہے اور اپنی راہ لیتا ہے۔ اس کے بات اس کے بارے میں بات ہی نہیں ہوتی۔
ایبی گیل کے بارے میں مشہور ہے کہ بعد میں وہ بوسٹن میں چکلہ چلاتی تھی۔
آخری پھانسی کے بارہ سال بعد حکومت نے تمام زندہ ستم زدوں کو اور مردوں کے خاندان والوں کو ہرجانہ دیا تھا۔ تاہم چند لوگ پھر بھی ستم زدوں کے خلاف اپنے جرائم کا مکمل اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور جتھہ بندی جاری رہی کیوں کہ ہرجانہ وصولنے والے سبھی لوگ ستم زدے نہیں تھے بَل کہ ان میں کچھ مخبر بھی شامل تھے۔
ایلزبیتھ: پراکٹر نے پیرس کی موت کے چار سال بعد دو بارہ شادی کر لی تھی۔
مارچ 1712 ایک اجتماع میں چرچ نے سارے معاشرتی مقاطعے مسترد کر دیے تھے۔ لیکن یہ سب حکومتی احکامات کے نتیجے میں ہوا تھا۔ جیوری نے بھی ایک دستاویز قلم بند کروائی تھی جس میں ان سب کی بخشش کی دعا کی گئی تھی جنھوں نے تکلیف اٹھائی تھی۔
ستم زدوں کے چند کھیت برباد ہو گئے تھے اور قریب ایک صدی تک بسنے کے لیے انھیں کسی نہیں خریدا۔ بَہ ہر حال، میساچوسیٹس میں اس کے بعد مذہبی حکومت کی طاقت پوری طرح ٹوٹ گئی تھی۔