کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ سوئم)
ترجمہ، نصیر احمد
ایبی گیل: سنو، تم سب کان کھول کر سنو۔ ہم ناچی تھیں اور تیتیوبا نے رُوتھ پٹنم کی بہنوں کی روحیں جگائی تھیں۔ اس کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ اور یاد رکھنا، اس کے علاوہ اگر تم نے دیگر چیزوں کے بارے میں ایک لفظ بھی کہا، یا کہنے کی کوشش بھی کی، تو میں کسی خوف ناک رات کی تاریکی میں تمھارے پاس آؤں گی اور اپنے ساتھ ایک نوکیلی مکافات بھی لاؤں گی، جو تمھیں کانپتے ہوئے پتوں کی مانند کر دے گی۔
تمھیں علم ہے کہ میں نے جو کہا، کر بھی دوں گی۔ میں نے ہندیوں کو اپنے ساتھ لیٹے ہوئے اپنے پیارے ماں باپ کے سر کچلتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور میں نے راتوں کو سرخیوں میں رنگے اعمال بھی دیکھے ہیں۔ میں تم سب کے ساتھ کچھ ایسا کروں گی کہ تم دُہائیاں دو گی کہ سورج ڈوبا ہی کیوں؟ رات ہوئی ہی کیوں۔
(لیکن بَیٹی، Betty، اس کے بازوؤں میں ہی بِکھر کر بستر پر ساکت ہو جاتی ہے)
میری وارن: (دہشت زدہ ہو کر) اسے کیا ہو گیا؟ (ایبی گیل ڈر کر بیٹی کی طرف دیکھتی ہے) یہ مر جائے گی، ایبی، روحیں جگانا پاپ ہے اور ہم …
ایبی گیل: (میری کی طرف لپکتے ہوئے،) میں نے کہا مَیرِی وارن، مُنھ بند کرو۔
جان پراکٹر اندر آتا ہے، اور اسے دیکھ میری وارن مارے ڈر کے اچھل پڑتی ہے۔
پراکٹر پینتیس چھتیس سال کا ایک زمین دار تھا۔ وہ گاؤں میں کسی بھی گروہ سے ناتے دار نہیں تھا۔ لیکن کچھ ایسے ثبوت موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ منافقوں سے وہ بڑے تُند اور کٹ کھنے انداز سے پیش آتا تھا۔ وہ ایک تنو مند، متوازن مزاج آدمی تھا، جسے کسی بات کے لیے قائل کرنا سہل نہ تھا۔ اور اگر اس نے کسی جماعت کی حمایت بھی کرنی ہوتی تو اسے حمایت کے لیے آمادہ کرنے کے دوران ہی اس جماعت کو دانتوں تلے پسینہ آ جاتا۔ ان عادات کی وجہ سے اس کے حامی بھی اسے شدت سے نا پسند کرتے تھے۔ بے وقوفوں کی بے وقوفی، پراکٹر کے سامنے فاش ہو جاتی تھی۔ اس کے باعث وہ بد گوئی کا نشانہ بنا رہتا تھا۔
لیکن ہم جان لیں گے کہ جس توازن کا وہ مظاہرہ کرتا تھا، اس کا سبب نفس مطمئِنّہ نہیں تھا۔ وہ پاپی تھا، نہ صرف اپنے دور کے سنسکاروں کا پاپی، بَل کہ، ایک طریقِ احسن کے اپنے معیار کا بھی گَنہ گار۔ ان لوگوں کے ہاں گناہ مٹانے کا کوئی دستور بھی نہیں تھا۔ یہ ایک اور خصوصیت ہے جو ہمیں ان لوگوں سے وَرثے میں ملی ہے جس کی مدد سے ہم اپنی زندگیوں کی تنظیم تو کر لیتے ہیں، مگر یہ خصوصیت ہم لوگوں میں تَزوِیر و رِیا کو بھی فروغ دیتی ہے۔
سیلیم میں لوگ پراکٹر کی عزت بھی کرتے تھے، اور اس سے کچھ ڈرتے بھی تھے۔ لیکن اپنے آپ کو وہ فریبی ہی گردانتا تھا۔ داستان کچھ بڑھے گی تو ہمیں پراکٹر کی اس سوچ کے اسباب معلوم ہو جائیں گے۔ لیکن ابھی اس فریب کے آثار سامنے نہیں آئے تھے، اور ہمارے سامنے اس کھچا کھچ بھری خواب گاہ میں ایک ایسا آدمی ہے جس کا جوبن عروج پر ہے، اور وہ خاموش اعتماد اور ایک خُفْتَہ شہامت سے با وصف ہے۔
میری وارن اس کی ملازمہ سے تو خوف اور شرم کے مارے بات نہیں ہو رہی۔
میری وارن: مسٹر پراکٹر، میں ابھی گھر جا ہی رہی تھی۔
پراکٹر: کیا تم بے وقوف ہو؟ کیا تم بہری ہو؟ کتنی بار تم سے کہا ہے گھر سے نہ نکلا کرو؟ کہا ہے کہ نہیں؟ کس بات کے تمھیں پیسے دے رہے ہیں؟ اپنی گائیوں کو کم، اور تمھیں ڈھونڈنے میں زیادہ وقت صرف ہو جاتا ہے۔
میری وارن: میں تو دنیا کے بڑے بڑے واقعات دیکھنے آئی تھی۔
پراکٹر: کسی دن میں تمھارے چوتڑوں پر دنیا کے بڑے بڑے واقعات اپنے چابک سے بنا دوں گا۔ دیکھ لینا اگر دیکھ پاؤ۔ ابھی گھر دفع ہو جاؤ کہ میری بیوی کام کے لیے تمھاری منتظر ہے۔
(میری وارن کچھ عزت سنبھالنے کی سعی کرتے ہوئے آہستگی سے باہر چلی جاتی ہے۔)
مرسی لیوس: (تھوڑی خوف زدہ بھی ہے، مگر ساتھ ہی پراکٹر میں کچھ دل چسپی لیتے ہوئے بھی) میں بھی جاتی ہوں مسٹر پراکٹر۔ اپنی رُوتھ کی دیکھ بھال کرنی ہے۔ صبح بخیر مسٹر پراکٹر۔
(مرسی دھیرے دھیرے چلی جاتی ہے، پراکٹر کی آمد کے سمے سے ہی ایبی گیل پنجوں پر کھڑی دِیدے پھیلائے اس کی موجودگی جذب کر رہی ہے۔ وہ اس پر سرسری سی نگاہ ڈالتا ہے، اور بَیٹی، Betty، کی طرف بڑھتا ہے۔)
ایبی گیل: ہائے میں تو بھول ہی گئی تھی کہ تم کتنے زبر دست ہو جان پراکٹر۔
پراکٹر: (ایبی گیل کی طرف دیکھتے ہوئے، اور اس کے چہرے پر مدھم سی اک شناسا مسکان کے آثار بھی ہیں،) کیا شرارتیں چل رہی ہیں یہاں؟
ایبی گیل: (تھوڑی مضطرب سی ہنسی ہنستے ہوئے) جانے کیسے مگر اسے کچھ خر مستی سی ہو گئی ہے۔
پراکٹر: میرے گھر کی رہ گزر سیلیم کے زائرین کی گزر گاہ بن گئی ہے۔ سب جادو ٹونا بدبدا رہے ہیں۔
ایبی گیل: ارے واہ (من موہتی اس کے نزدیک آتی ہے، اپنے ارد گرد کچھ راز داری اور کچھ شیطانی کی فضا بنائے) ہم پیڑوں کے پاس ناچ رہی تھیں کہ میرا چاچو آن دھمکا۔ یہ ڈر گئی۔ بس یہی کچھ۔
پراکٹر: (ہنسی پھیلتی ہوئی) مکار تو تم ہو۔ نہیں ہو کیا؟ (ایبی گیل کی ہنسی بس ذرا سی گونجتی ہے، وہ اس کے اور قریب ہو جاتی ہے اور دیوانی سی ہو کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی ہے،) بیس کی ہونے سے پہلے ہی ڈھیکنی پر بندھی پٹو گی۔
(وہ اپنی راہ لیتا ہے مگر ایبی گیل اسے روک لیتی ہے۔)
ایبی گیل: ایسا نہ کہو جان۔ کوئی خوش بُو جیسی بات کرو۔
(ایبی گیل کی مجتمع آرزو اس کی مسکان برباد کر دیتی ہے)
پراکٹر: نہیں، ایبی، نہیں۔ سب ختم ہو گیا ہے۔
ایبی گیل: (چھیڑتے ہوئے) تو کیا تم پانچ میل اس احمق کی اڑان دیکھنے کے لیے چل کے آئے ہو۔ مجھے نہ بناؤ۔ جیسے میں تمھیں جانتی ہی نہیں۔
پراکٹر: (فیصلہ کُن انداز میں اسے رستے سے ہٹا دیتا ہے،) میں تو یہ دیکھنے آیا تھا کہ اس دفعہ تمھارا چاچو کون سی شرارت پکا رہا ہے؟ (اصرار سے) یہ بھوت تم سر سے جھاڑ دو، ایبی۔
ایبی گیل: (پراکٹر کا ہاتھ تھامتے ہوئے ایسے کہ وہ چھڑا نہ پائے) میں اب بھی راتوں کو تمھاری منتظر رہتی ہوں۔
پراکٹر: ایبی، میں نے تمھیں کبھی یہ امید نہیں دلائی کہ تم راتوں کو میری منتظر رہو۔
ایبی گیل: (غصے میں آتے ہوئے، اسے یقین نہیں ہو رہا) میرے خیال میں میرے پاس امید سے بھی بڑھ کر کچھ ہے۔
پراکٹر: ایبی، سر سے اسے جھاڑ دو، میں اب تمھارے پاس نہیں آؤں گا۔
ایبی گیل: مجھے یقین ہے تم مسخری کر رہے ہو۔
پراکٹر: تم جانتی ہو میں سچ کہہ رہا ہوں۔
ایبی گیل: میں اتنا جانتی ہوں کہ کیسے اپنے گھر میں تم نےمجھے کمر سے پکڑ لیا تھا اور جب بھی تمھارے قریب آتی تم مُنھ زور گھوڑے کی طرح ہانپنے لگتے تھے۔ میں سپنا تو نہیں دیکھ رہی تھی؟ تمھاری بیوی نے مجھے نکال دیا۔ اب تم یہ بناوٹ نہ کرو کہ تم نے مجھے نکال باہر کیا۔ جب اس نے مجھے نکالا تو میں نے تمھاری طرف دیکھا تھا۔ تم مجھ سے تب بھی اتنی ہی محبت کرتے تھے جتنی آج کرتے ہو۔
پراکٹر: واہیات نہ بکو ایبی۔ دیوانی ہو کیا؟
ایبی گیل: دیوانوں کی سی بات نہ کرے تو کرے دیوانہ کیا۔ اتنی دیوانی بھی نہیں ہوں۔ جب سے اس نے مجھے نکالا میں نے تمھیں کئی بار دیکھا، راتوں کو بھی۔
پراکٹر: مگر پچھلے سات مہینوں میں تو اپنے فارم سے میں نے قدم بھی باہر نہیں رکھا۔
ایبی گیل: حدت کی ایک حس ہے مجھ میں جان اور تمھاری حدت مجھے کھلی کھڑکی طرف دھکیل لاتی ہے، اور میں نے کھڑکی سے کئی بار تمھیں آکاش کی اور چہرہ اٹھائے، تنہائی میں جلتے دیکھا ہے۔ بتاؤ تو سہی کیا تم نے میری کھڑکی کی طرف کبھی نظریں نہیں اٹھائیں؟
پراکٹر: شاید اٹھائی ہوں۔
ایبی گیل: (کچھ نرم پڑتے ہوئے) اٹھائی تھیں، تم جاڑے بھرے مرد نہیں ہو۔ میں جانتی ہوں تمھیں جان، میں جانتی ہوں۔ (رونے لگتی ہے) سپنے مجھے سونے نہیں دیتے۔ سپنے میں نہیں دیکھ پاتی، تو میں جاگتی ہوں۔ جاگتے ہوئے میں اپنے گھر کے آس پاس ماری ماری پھرتی ہوں کہ شاید کسی دَر سے تم رُو نُما ہو ہی جاؤ۔
پراکٹر: (ہم دردی سے آہستگی سے اس سے دور ہوتے ہوئے) بچی …
ایبی گیل: (غصیلی ہو کر) تم تو مجھے بچی نہ کہو۔
پراکٹر: ایبی، تمھارے بارے میں میں کبھی کبھار سوچتا ہوں۔ لیکن اب میرے ہاتھ اگر تمھاری طرف بڑھے تو انھیں کاٹ دوں گا۔ وہ قصہ دماغ سے دھو ڈالو۔ ہم کبھی نہیں ملے۔
ایبی گیل: مگر ہم ملے تو ہیں۔
پراکٹر: ہاں، مگر نہیں ملے۔
ایبی گیل: (کڑواہٹ سے) میں حیران ہوں کہ اتنا گبھرُو جوان ایک موئی مری بیوی کے لیے …
پراکٹر: (غصے سے، اسے خود پر بھی غصہ ہے) الزبتھ کو کچھ نہ کہو۔
ایبی گیل: کیسے نہ کہوں۔ وہ گاؤں میں میرا نام تیرہ کرتی ہے۔ میرے بارے میں جھوٹ بَکتی ہے۔ وہ ایک سرد مہر، روتی دھوتی خاتون ہے، اور تم اس کے سامنے جھکے ہو۔ اس نے تمھیں کیا سے کیا بنا …
پروکٹر: (ایبی گیل کو جھٹکاتے ہوئے) تم نے کوڑے تو نہیں کھانے؟
نیچے سے مناجات کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔
ایبی گیل: (آنکھوں میں آنسو) میں اس جان پراکٹر کو ڈھونڈتی ہوں جس نے سپنے سے مجھے جگا کر میرے دل کو حقائق سے رُو شناس کرایا۔ سیلیم کی بناوٹیں مجھے کبھی نہیں بھائیں۔ اور مسیحی خواتین اور مقدس عہد میں بندھے مردوں کے درس میں نے سنے ہی نہیں۔ اور اب تم مجھے کہتے ہو میں اپنے نینوں سے نور چھین لوں۔ تمھیں نہ دیکھوں تو بینائی کا فائدہ ہی کیا ہے؟ میں اپنی آنکھوں سے نُور نہیں چھینوں گی، نہیں چھین سکتی۔ تم مجھ سے محبت کرتے تھے جان پراکٹر، گناہ ہے تو گناہ ہی سہی، مگر تم اب بھی مجھ سے محبت کرتے ہو۔ (پراکٹر باہر جانے کے لیے اچانک پلٹتا ہے، وہ اس کی طرف لپکتی ہے) رحم کرو، رحم کرو۔
بالا شدم سوئے سلطان قلبم اے عیسٰی مناجات کے یہ الفاظ سنائی دیتے ہیں۔ اور بیٹی کانوں پر ہاتھ رکھ کر بین سے کرنے لگتی ہے۔
ایبی گیل: (بھاگ کر بَیٹی کی طرف جاتی ہے جو اب بستر پر بیٹھی چیخ رہی ہے۔ پراکٹر بھی بَیٹی کا نام پکارتا بیٹی کی سمت جاتا ہے جس کے ہاتھ ایبی گیل نے پکڑ لیے ہیں۔)
پراکٹر: (پریشان ہوئے بَہ غیر ہنکارا بھرتا ہے) یہ کیا تماشا ہے؟ لڑکی تمھیں کیا ہو گیا ہے۔ یہ بَین بند کرو۔
(مناجاتی گیت تھم گیا ہے، اور پیرس تیزی سے اندر آتا ہے۔)
پیرس: کیا ہوا؟ تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ بیٹی (بیٹی کا نام بار بار پکارتے ہوئے وہ عجلت سے بستر کی سَمت جاتا ہے۔ بات جاننے کی جستجو میں تپتی ہوئی مسز پٹنم اندر آتی ہے، اور اس کے ساتھ ٹامس پٹنم اور میری لیوس بھی اندر آ جاتے ہیں۔ پیرس، بستر کے قریب کھڑا دھیرے دھیرے بیٹی کے گال تھپکاتا ہے۔ اور بیٹی آہیں بھرتی اٹھ بیٹھنے کی کوشش کرتی ہے۔)
ایبی گیل: آپ لوگوں کا گیت اس نے سنا، اور اچانک اٹھ کر چیخنے لگی۔
مسز پٹنم: مناجات، مناجات، اس کے کانوں کو ثنائے خداوند کا یارا ہی نہیں رہا۔
پیرس: خدا نہ کرے، مرسی بھاگ کر جاؤ اور ڈاکٹر کو بلا لاؤ۔ اسے بتا بھی دینا یہاں کیا ہوا ہے۔ (مرسی دوڑ جاتی ہے۔)
مسز پٹنم: دیکھ لو، نشانیاں ہیں نشانیاں، دیکھ لو۔
بہتر سالہ ریبیکا نرس اندر آتی ہے۔ اس کے بال سفید ہو چکے ہیں، اور وہ اپنی لاٹھی کا سہارا لیے ہے۔
پٹنم: (سر گوشیاں کرتی بیٹی کی اشارہ کرتا ہے،) بیگم نرس، جادو ٹونے کی بد نامِ زمانہ نشانیاں نمُو دار ہو رہی ہیں۔ بڑی بڑی نشانیاں۔
مسز پٹنم: میری ماں نے مجھے بتایا تھا کہ جب وہ نامِ خدا سن نہیں سکتے …
پیرس: ریبیکا، ریبیکا، اس کے پاس جاؤ۔ اب تو اس سے خداوند کا نام بھی برداشت نہیں ہوتا۔
تراسی سالہ جائلز کوری اندر آتا ہے۔ اس کے تن پر گومڑے ابھرے ہیں، لیکن ابھی تک وہ ہوشیار متجسس اور توانا ہے۔
ریبیکا: یہاں تو گھنی بیماریاں آن دھمکی ہیں۔ تم خدا کے لیے اپنی چونچ بند ہی رکھنا، جائلز کوری۔
جائلز کوری: میں نے کچھ کہا؟ کسی نے کچھ سنا؟ کیا یہ پھر سے اڑے گی؟ سنتا ہوں کہ اڑتی ہے۔
پٹنم: خدا کے بندے خاموش ہو جاؤ۔
خاموشی چھا گئی ہے۔ ریبیکا بستر کی طرف جاتی ہے۔ اس کی شخصیت میں بسی نرماہٹ خواب گاہ میں پھیل سی گئی ہے۔ آنکھیں بند کیے بیٹی سسک رہی ہے۔ ریبیکا بس لڑکی کے سرہانے خاموش کھڑی ہے، مگر لڑکی پُر سکون ہونے لگتی ہے۔
جب تک یہ لوگ اپنے معاملات میں گم ہیں، ہم ریبیکا نرس کے بارے میں کچھ بات کر لیں۔ ریبیکا فرانسس نرس کی بیوی تھی، اور فرانسس نرس اس قسم کا آدمی تھا کہ اگر وہ کسی جھگڑے میں ثالثی پر مامور ہوتا تو اس کی غیر جانب داری اس قدر مُسلّم تھی کہ فریقین اس کی بَہ ہر حال، عزت کرتے تھے۔ وہ مقدموں کے فیصلے کرتا ایک طرح سے گاؤں کا غیر سرکاری جج تھا۔ اور گاؤں میں فرانسس کی تکریم ریبیکا کی سرخوشی کا سبب تھی۔ یہ آفت آنے سے پہلے ان کے پاس تین سو ایکڑ زمین تھی، اور ان کے بچے اسی جاگیر میں اپنے اپنے گھروں میں رہتے تھے۔ تاہم شروع شروع میں فرانسس نرس اپنی زمین ٹھیکے پر دیا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے، ان ٹھیکوں سے ملنے والے پیسے اس کا سماجی رتبہ بڑھانے میں کافی مدد گار ثابت ہوئے تھے۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کے رتبے کی وجہ سے اس سے جلتے بھی تھے۔
بَہ ہر حال، ریبیکا اور فرانسس کے خلاف گاؤں میں ایک منظم سی مہم ہر وقت چلتی رہتی تھی جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس کے زمین جائیداد کے حوالے سے اپنے پڑوسیوں سے جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ اور ان پڑوسیوں میں ایک پڑوسی ٹامس پٹنم بھی تھا۔ اور پٹنم سے اس کا جھگڑا اس قدر بڑھا تھا کہ کہتے ہیں کہ دونوں فریقوں اور ان کے حامیوں کے درمیان جنگل میں دو دنوں تک جنگ ہوتی رہی تھی۔ اور ریبیکا کی ملاحت آمیز شرافت تو گاؤں میں اتنی مقبول تھی کہ اس بات کا یقین کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ ریبیکا بھی ڈائن قرار دی گئی تھی۔ اور یہ وجہ جاننے کے لیے ہمیں اس سمے کی سیماؤں اور میدانوں میں گھسنا پڑے گا۔
ٹامس پٹنم کے آدمی بیلی کے بارے میں تو ہم جان ہی چکے ہیں۔ نرس خاندان اس جماعت میں شامل تھا جس نے بیلی کو چرچ کی امامت سے محروم کر دیا تھا۔ نرس خاندان کے حامی کنبے بھی تھے جو رشتہ داری، دوستی اور جائیداد کی قربت کی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے تھے۔ ان لوگوں نے مل کر سیلیم سے علیحدہ ہو تے ہوئے۔ ٹاپ فیلڈ کے نام سے اپنی ایک نئی اور خود مختار اتھارٹی قائم کر لی تھی جس سے قدیم سیلیمی عداوت رکھتے تھے۔
ڈائنوں کے اس ہنگامے کے پیچھے پٹنم اور اس کے حامیوں کا ہاتھ تھا۔ یہ بات اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ جُوں ہی اس ہنگامے کا آغاز ہوا ٹاپ فیلڈ والی نرس کی جماعت بے یقینی اور احتجاج کے اظہار کے طور پر چرچ میں آئی ہی نہیں۔ یہ ایڈورڈ اور جوناتھن پٹنم تھے جنھوں نے ریبیکا کے خلاف پہلی درخواست پر دست خط کیے تھے۔ اور عدالت میں سماعت کے دوران ٹامس پٹنم کی کم سن دختر کو ہی دورہ پڑا تھا اور اسی نے ریبیکا کو اپنے پر حملہ آور مجرم قرار دیا تھا۔ اور انتقام کو مزید گہرا کرنے کے لیے مسز پٹنم (جو اب بستر پر پڑی لڑکی کو گُھور رہی ہے) نے ہی یہ الزام لگایا تھا کہ ریبیکا کی بد رُوح نے اسے گمراہی کی ترغیب دلائی تھی۔ ایک الزام جس میں مسز پٹنم کی سمجھنے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ حقیقت تھی۔
مسز پٹنم: (دنگ ہو کر) ابھی یہ تم نے کیا کیا؟
(ریبیکا سوچتے ہوئے بستر کے پاس سے ہٹ کر بیٹھ جاتی ہے۔)
پیرس: (حیران ہے مگر کچھ پر سکون ہو گیا ہے ) ریبیکا اس سب کے بارے میں تم کیا سوچتی ہو۔
پٹنم: بیگم نرس، میری رُوتھ کو بھی اچھا کر دو ناں۔
ریبیکا: (وہیں سے بیٹھے بیٹھے) وہ بھی وقت پر اچھی ہو جائے گی۔ تم لوگ بھی چین کی سانس لو۔ میرے اپنے گیارہ بچے ہیں اور چھبیس بچوں کی میں نانی دادی ہوں۔ اور میں نے سب کی بے ڈھنگی کیفیات دیکھی ہیں۔ اور ان بے ڈھنگی کیفیات میں ان کی شرارتیں اتنے عروج پر ہوتی ہیں کہ شیطان بھی ٹانگیں ٹیڑھی کر بھاگ نکلتا ہے۔ جب وہ اس کھیل سے تھکے گی تو جاگ جائے گی۔ بچے کی آتما بچےجیسی ہی ہوتی ہے۔ پیچھے بھاگنے سے تو پکڑ میں نہیں آتی۔ بس چپ چاپ دیکھتے رہو، بہ نامِ محبت، خود ہی لوٹ آئے گی۔
پراکٹر: سچ کہا، بالکل سچ، ریبیکا۔
مسز پٹنم: یہ کوئی بے ڈھنگی کیفیت نہیں ہے ریبیکا۔ میری رُوتھ تو جنونی ہو گئی ہے۔ کچھ کھاتی پیتی ہی نہیں۔
ریبیکا: شاید اسے ابھی بھوک ہی نہیں ہے۔ (پیرس سے) امید ہے جناب نے بے پٹے کی بد رُوحوں کے پیچھے پڑنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ مسٹر پیرس میں نے باہر کچھ گفت و شنید سنی تھی۔
پیرس: میرے پیرو کاروں میں کافی ساروں کی رائے یہی ہے کہ شاید شیطان ہمارے درمیان موجود ہے۔ میں انھیں یقین دلانے کی کوشش کروں گا کہ ان کی یہ رائے درست نہیں ہے۔
پراکٹر: پھر آپ باہر جاؤ اور انھیں بتاؤ کہ وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ کیا آپ نے پہرے والوں سے بھی کچھ مشورہ کیا تھا، شطونگڑوں کے کھوجی اس پادری کو بلانے سے پہلے؟
پیرس: وہ شطونگڑے کھوجنے تو نہیں آ رہے؟
پروکٹر: پھر کس لیے آ رہا ہے؟
پٹنم: مسٹر، گاؤں میں بچے ہلاک ہو رہے ہیں۔
پروکٹر: میں نے تو مرتے ہوئے بچے ابھی تک نہیں دیکھے۔ معاشرہ تمھارے سر پر دھری پوٹلی تو نہیں کہ جدھر گھماؤ، گھوم جائے، مسٹر پٹنم۔ (پیرس سے) تم نے یہ سب کرنے سے پہلے میٹنگ بلوائی تھی؟
پٹنم: میٹنگ کے تو نام سے ہی مجھے مَتلی ہونے لگتی ہے۔ آج کل تو میٹنگ کے بغیر سر بھی نہیں کھجا سکتے۔
پراکٹر: سر شاید نہ کھجا پائیں مگر میٹنگ ہو گی تو جہنم سے بچ جائیں گے۔
(جاری ہے … )