کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ اوّل)
ترجمہ، نصیر احمد
تعارفی نوٹ اَز مدیر: امریکی ڈرامہ نویس آرتھر ملر Arthur Miller کا کھیل The Crucible چار ایکٹس پر مشتمل کھیل ہے۔ یہ میکارتھی ازم McCarthyism کا شکار افراد کو بنیاد بنا کر رمزیہ انداز allegory میں لکھا کھیل ہے۔ میکارتھی ازم امریکی حکومتی کی کثیر پیمانے پر کی گئی ان کارروائیوں کا سلسلہ تھا جس کے تحت کئی ہزار امریکی افراد کو اشتراکیت سے تعلق کے شُبے میں سخت سزاؤں کا نشانہ بنایا گیا۔ آرتھر ملر کے اس کھیل کو اردو ترجمہ کی شکل میں ایک روزن پر نصیر احمد قسط وار پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ کسی اور سیاق و سباق میں لکھا گیا کھیل، وطنِ عزیز میں بھی کچھ تاروں کو چھیڑنے میں کام یاب ہو گا۔
پہلا ایکٹ (ایک تمہید)
1692 کے موسم بہار میں، سیلیم، میسا چوسیٹس کے پادری سیموئیل پیرس کے گھر کی بالائی خواب گاہ کا منظر۔ بائیں طرف چھوٹی سی کھڑکی ہے۔ داہنی طرف کے بستر کے پاس شمع جل رہی ہے۔ ایک صندوق، ایک چھوٹا سا میز، ایک کرسی خواب گاہ کی زینت ہیں۔ پچھلی طرف ایک دروازہ ہے جو نچلی منزل کے زینوں کی طرف کھلتا ہے۔ خواب گاہ شفاف کشادگی کی تاثر افزا ہے۔ چھت کے شہتیر دکھائی دے رہے ہیں، مگر لکڑی کے رنگ کچے اور بھدے ہیں۔
پردہ اٹھتا ہے اور پادری پیرس گھٹنوں کے بل جُھکا بستر کے پاس پوجا کر رہا ہے۔ اس کی دس سالہ دُختر پیرس بستر پہ ساکت لیٹی ہے۔
اس داستان کے سمے پادری پیرس کی عمر کوئی پینتالیس چھیالیس سال تھی۔ تاریخ میں وہ مردود ہے، اور اس کے بارے میں کچھ بھلا کہنے کو کم ہی ہے۔ اپنے طور پر وہ یہی سوچتا تھا کہ وہ جہاں جاتا تھا دنیا اس پر ظلم کرتی تھی، اس کی خدا اور خلقِ خدا کا دل جیتنے کی تمام کوششوں کے با وجود۔ وہ اتنا انا پرست تھا کہ مجلس میں جب کوئی اٹھ کر اس سے پوچھے بَہ غیر دروازہ بِھیڑتا، اسے لگتا کہ اس کی بے عزتی کی گئی ہے۔
وہ رنڈوا تھا اور اسے نہ بچوں سے کوئی دل چسپی تھی، اور نہ بچوں کی دلداری کا اسے کچھ سلیقہ تھا۔ بچوں کو وہ کم عمر بالغ ہی گردانتا تھا۔ اور اس عجیب بحران سے پہلے جس کی یہ داستان ہے، سیلیم کے باقی لوگوں کی طرح وہ بھی یہی سمجھتا تھا کہ بچے سیدھا کھڑے ہو کر چلنے کی اجازت کے صلے میں تشکر کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ بس آنکھیں جھکائے، بازو لٹکائے مُنھ بند کیے بیٹھے رہتے ہیں اور بولتے تب ہی ہیں جب کوئی بڑا انھیں بولنے کو کہے۔
کہنے کو تو اس کا گھر شہر میں تھا مگر آج کل کے حساب سے اس شہر کو گاؤں ہی کہہ سکتے ہیں۔ مجلس خانہ اس کے گھر کے پاس ہی تھا اور وہاں سے ساحلی پٹی کا رستہ جاتا تھا اور اس رستے پہ چھوٹی کھڑکیوں والے چند سیاہ گھر اک دُوجے سے جڑے میسا چوسیٹس کے جاڑے سے جھوجھتے تھے۔
اس داستان کے سمے سے قریب کوئی چالیس سال پہلے سیلیم کا گاؤں بسا تھا۔ یورپی دنیا کے لیے سیلیم کا پورا علاقہ ہی ایک وحشی سرحد تھی، جس میں مذہبی جنونیوں کا ایک فرقہ رہتا تھا جو جنونی ہونے کے با وجود کشتیوں کے ذریعے تہذیب کی جانب کچھ مصنوعات بھیجتے تھے جن کی تعداد اور قیمت دن بَہ دن بڑھ رہی تھی۔
پورے یقین سے تو کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس فرقے کے لوگ کیسی زندگی گزارتے تھے، البتہ ان کے ہاں کوئی ناول نگار نہیں تھا اور اگر کوئی ہاتھ سے کام کر سکتا تھا تو اسے یہ لوگ ناول پڑھنے بھی نہیں دیتے تھے۔ ان کے دین میں تھیٹر اور لطف فضول سے ملتی جلتی ہر چیز کی مناہی تھی۔ وہ کرسمس بھی نہیں مناتے تھے، اور چھٹی کے دن کے معنی ان کے ہاں یہ ہی تھے کہ وہ عبادت پر مزید توجہ دیں۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں اس خشک سی کٹر زندگی کے ضابطے بالکل ہی نہیں ٹوٹتے تھے۔ جب کوئی نیا فارم ہاؤس بنانے کا موقع آتا تو یار لوگ مل کر اس کی چھتیں تیار کرتے تھے، اچھے اچھے کھانے بناتے تھے اور شاید سیبوں سے کشید کی ہوئی شراب بھی پیتے تھے۔ اس گاؤں میں نکموں کی بھی کافی تعداد تھی جو برجٹ بشپ کے مے خانہ میں شاول بورڈ کا کھیل کھیلتے وقت بتاتے تھے۔
شاید دین سے زیادہ یہ محنت کشی تھی جس کی وجہ لوگوں کے سنسکار سلجھے ہوئے تھے کہ مکئی کے دانے دانے کے لیے ان لوگوں کو دھرتی سے سور ویروں کی طرح جھگڑنا پڑتا تھا۔ کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ خر مستیاں کرتا پھرے۔
ان میں کچھ مسخرے بھی تھے جن کا اندازہ ان کی اس رسم سے ہوتا ہے جس کے مطابق دو مردوں کی یہ ڈیوٹی تھی کہ وہ کھوجتے پھریں کہ عبادت کے وقت کون مجلس گاہ میں پڑا رہا اور کون گھر سے ہی نہیں نکلا۔ اور کون وجہ پوچھنے پہ کوئی مناسب جواب نہ دے سکا، یا کون کھیتوں میں کام کرتا رہا نہ کلام سنا نہ احکام ۔ اوران دو جِنّوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ ایسے غفلت شعاروں کی غفلتوں پر سے پردے اٹھائیں۔ انھیں مجسٹریٹوں کے سامنے لائیں تا کِہ ان کے خلاف مناسب کارِ روائی کی جائے۔
دوسروں کے معاملات میں گھسنے کا یہ رجحان سیلیم میں کافی مقبول تھا اور آئندہ جنون بھڑکانے کا ایک اہم سبب بھی بنا۔ میرے خیال میں یہ ایک ایسی چیز تھی جس کے خلاف کوئی جان پراکٹر تو ضرور ہی بغاوت کرتا، کیوں کہ مسلح کیمپ کے دن بیت چکے تھے اور علاقہ مکمل طور پر تو نہیں، مگر محفوظ تھا۔ اور پرانے ضابطے بھی کچھ سڑنے بسنے لگے تھے۔ پھر بھی ہربات کی طرح معاملہ یہاں بھی واضح نہیں تھا کہ خطروں کے ابھی امکانات تھے اور ابھی تک اتحاد میں ہی تحفظ معتبر تھا۔
بادیہ گاؤں کے کنارے سے شروع ہوتا تھا۔ یہاں سے امریکی بر اعظم مغرب کی طرف پھیلا ہوا تھا اور ان لوگوں کے لیے یہ پھیلاؤ اسرار ہی تھا۔ اور یہ اسرار روز و شب اپنے دامن میں تاریکی اور دھمکی لیے ان لوگوں کے سر پر سوار رہتا تھا کہ اس وسعت سے نمو دار ہو کر ہندی قبیلے ان لوگوں پر وقتاً فوقتاً حملہ آور ہوتے تھے، جس کے نتیجے میں پادری پیرس اور اس کے مقتدیوں کے رشتہ دار جانیں گنوا بیٹھے تھے۔
ان لوگوں کی یک طرفہ بناوٹیں بھی جزوی طور پہ ان لوگوں کی ہندیوں کو دینِ مسیحؑ میں لانے میں نا کامیوں کی ذمہ دار تھیں۔ شاید یہ لوگ ہم مذہبوں کی بَہ جائے کافروں سے زمینیں چھیننے کو ترجیح دیتے تھے۔ بَہ ہر حال، صرف چند ہی ہندیوں نے عیسائیت قبول کی تھی اور یہ لوگ مانتے تھے کہ کنوارا بادیہ شیطان کی آخری پناہ گاہ، اس کا ٹھکانہ اور اور اس کی آخری جنگ کا قَلَعہ تھا۔ ان کے خیال میں امریکی جنگل دنیا کا آخری کونہ تھا جس میں خدا کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔
ان اور دیگر وجوہات کی بِناء پر ان لوگوں نے اپنے ارد گرد ایک خلقی مزاحمت، بَل کہ، جارحیت کی فضا بنائی ہوئی تھی۔ پھر انگلستان میں ان کے اجداد کو اپنے دین کی وجہ سے مظالم سہنے پڑے تھے جن کی یادیں ابھی تازہ تھیں اور ان مظالم کے باعث ان کا چرچ کسی دوسرے فرقے کو آزادی دینے کے لیے تیار ہی نہیں تھا کہ کہیں وہ فرقہ ان کے نئے یروشلیم کو نا پاک اور اپنے غلط طریقوں سے آلودہ نہ کر دے۔
ان کا ایمان تھا کہ وہ شمع ان ہی کے ہاتھوں میں ہے جو دنیا کو روشن کرے گی۔ ہمیں ان کا یہ ایمان وَرثے میں ملا ہے اور اس ایمان نے ہماری سہائتا بھی کی ہے اور ہمیں اِیذاء بھی پہنچائی ہے۔ اس ایمان نے انھیں منظم کر دیا تھا۔ وہ زیادہ تر بڑے پکے لوگ تھے۔ اور جو طریقۂِ حیات انھوں نے چنا تھا یا ان پہ انعام ہوا تھا، اسے انھوں نے، بہ ہرحال، اس وطن میں جینا تھا۔
جنوب میں، ورجینیا میں، پہلی بستی جیمز ٹاؤن کا کردار ان لوگوں سے بَر عکس تھا، اور اس کردار میں یہ لوگ اپنے ایمان کا ثبوت دیکھتے تھے۔ وہ بستی انگلستانیوں نے بسائی تھی جنھیں منافع اور شکار کی ترغیبات اتنی دور کھینچ لائی تھیں۔ وہ بس نئی دنیا کی دولت سے مالا مال ہو کر واپس انگلستان جا کر رئیسوں کی طرح جینا چاہتے تھے۔ وہ انفرادیت پسندوں کا ایک جتھا تھا اور میسا چوسیٹس والوں کی نسبت بہت ہی زیادہ بے اخلاص گروہ تھا اور وَرجِینِیا نے انھیں برباد کر ڈالا۔
میساچُوسیٹس نے پاکیزگان کے فرقے کے لوگوں کو ختم کرنا چاہا، مگر یہ متحد ہو گئے۔ انھوں نے ایک اجتماعی معاشرہ قائم کیا جو شروع شروع میں ایک مسلح کیمپ ہی تھا جس کی قیادت وفا شعار آمر کر رہے تھے۔ تاہم یہ آمریت رضا پر مبنی تھی کیوں کہ یہ لوگ اوپر سے نیچے تک ایک نظریے میں پیوست تھے، مگر اس نظریاتی آمریت کا مستقل ہونا ان کی تکلیفوں کا سبب بھی تھا اور جواز بھی۔ تو ان کی نفی ذات، ان کا مقصد سے معمور ہونا، بے کار مشاغل کے بارے میں ان کے شکوک اور ان کا سخت گیر عدل اس انسان دشمن علاقے کےفاتح تھے۔
لیکن 1692 میں سیلیم کے لوگ ان لوگوں کی نسبت اتنے پکّے نہیں رہے تھے جو پہلی بار مے فلاور میں آئے تھے۔ بہت کچھ بدل چکا تھا اور اسی دور میں شاہی حکومت کا ایک انقلاب کے ذریعے تختہ الٹ کر ایک مختصر گروہ اقتدار پر قابض ہو چکا تھا۔ اب اسی مختصر گروہ کی حکومت چل رہی تھی۔ ان کے خیال میں وقت کے بند کھل چکے تھے، اور ہم لوگوں کی طرح انھیں بھی لگتا تھا کہ معاملات پیچیدہ اور نا قابلِ حل ہو چکے ہیں۔ یہ اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ ان میں بہت سارے لوگ سمجھتے تھے کہ ان کی الجھنوں کی ذمہ دار گھنے اندھیرے کی جِنّی قوتیں تھیں۔
اس بات کا کورٹ کے ریکارڈ میں تو کوئی ذکر نہیں ہے، مگر ہر زمانے میں معاشرتی ابتری اس طرح کے پُر اسرار شبہات کو فروغ دیتی ہے۔ جیسے سیلیم میں ہوا جب معاشرتی سطح کے نیچے سے حیرتیں نمُو دار ہوتی ہیں تو لوگ اپنے انتشار کی قوتیں ستم زدوں پر ڈھا دیتے ہیں اور انھیں ایسا کرنے سے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
سیلیم کے المیے کو فروغ ایک مَخمصے نے دیا۔ ایک مَخمصہ جس کی گرفت میں آج تک گرفتار ہیں، اور جس سے رہائی کی کوئی صورت بنتی نظر نہیں آتی۔ سادہ سے لفظوں میں بات یوں ہے کہ سیلیم کے لوگوں نے اچھے مقاصد کے لیے، بَل کہ، اعلیٰ مقاصد کے لیے ایک مذہبی حکومت قائم کی تھی۔ مذہب اور ریاستی طاقت کا ایک آمیزہ جس کا مقصد اجتماع کا اتحاد تھا۔ اس کے علاوہ اس حکومت کا مقصد اجتماعی اتحاد کو ٹوٹنے سے بچانا بھی تھا، تا کِہ اس کے مادی اور نظریاتی دشمن اس ریاست کو تباہ نہ کر پائیں۔ ان خاص مقاصد کے لیے یہ مذہبی حکومت قائم کی گئی تھی اور یہ مقاصد حاصل بھی ہو گئے تھے۔ مگر ایسی تنظیم امتیاز اور پابندی سے گریز نہیں کر سکتی، کیوں کہ ایسی تنظیم کے تحت دو جَنے ایک جگہ اکٹھے رہ نہیں سکتے۔
نئے انگلستان میں بھی وہ وقت آ گیا جب لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ تنظیم کا جبر ان خطروں سے کہیں بڑھ گیا ہے جن سے نمٹنے کے لیے تنظیم (مذہبی ریاست) قائم کی گئی تھی۔ ڈائنوں کا شکار اسی گھبراہٹ کے ایک بگڑا ہوا اظہار تھا۔ جب معاشرتی توازن کا جھکاؤ انفرادی آزادیوں کی طرف ہونے لگا تو یہ گھبراہٹ پیدا ہوئی تھی۔ جب کوئی انفرادی کمینگی کے اظہار کی سطح سے اوپر اٹھ جاتا ہے تو وہ سب لوگوں پر ترس کھانے لگتا ہے۔ کسی دن ہم لوگوں پر بھی آنے والے ترس کھائیں گے۔ جبر کے بَہ غیر سماجی زندگی کی تنظیم نہیں ہو سکتی، مگر جبر اور آزادی کے درمیان ایک توازن کا قیام بھی بہت ضروری ہے۔
ڈائنوں کا شکار صرف جبر نہیں تھا، بَل کہ، اس کے ذریعے جبر کے شیدائیوں کو تاخیر سے ہی سہی مگر یہ موقع مل رہا تھا کہ وہ اپنے شکاروں پر الزامات کی آڑ میں اپنے احساسِ گناہ و ندامت کا عوامی اظہار کر سکیں۔ اچانک ہی ایک مرد کے لیے یہ ممکن، دیش پریم اور پوتر ہو گیا تھا کہ وہ کہہ دے کہ رات مارتھا کوری اس کی خواب گاہ میں اس وقت داخل ہوئی تھی جب وہ اپنی بیگم کے پہلو میں لیٹا تھا اور مارتھا اس کے سینے پر جھپٹ پڑی تھی اور اس مرد کی سانسیں گھٹنے لگی تھیں۔
بِلا شُبہ وہ مارتھا نہیں، بَل کہ، اس کی روح تھی مگر اعترافِ گناہ کے بعد اس مرد پر ایسی سُبک کیفیات اتری تھیں کہ جیسے وہ مارتھا کی روح نہیں، بَل کہ، واقعی مارتھا تھی۔ اب روز مرہ کے سے انداز میں ایسی الٹی سیدھی باتیں کہنا ممکن نہیں رہا تھا۔
پڑوسیوں سے سالوں کی خفیہ نفرتیں اب کھلم کھلا کہی جا سکتی تھیں اور انجیلِ مقدس کے مہربان احکامات کے با وجود انتقام لیا جا سکتا تھا۔ اور زمین کی ہَوَس جس کا اظہار سرحدوں اور لٹھوں پر تُو تُکار کے ذریعے کیا جا تا تھا، اب اخلاق کی بلندیوں کو چھونے لگی تھی۔ اپنے پڑوسی پر تہمت باندھ کر اس ہَوَس سے روحانی طمانیت بھی کشید کی جا سکتی تھی۔
پرانے جھگڑوں کو عزازیل اور خداوندِ خدا کے درمیان اَزلی جنگ کے نام پر نمٹایا جا سکتا تھا۔ خوش دلوں کے خلاف خستگان کے رشک و شکوک گھناؤنے انتقام کی شکل میں پھٹ سکتے تھے اور پھٹے بھی۔
پادری پیرس عبادت میں مصروف ہے، اگر چِہ اس کی باتیں ہم سن نہیں سکتے مگر اس کی الجھن اس پر چھائی محسوس ہو رہی ہے۔ وہ ایسے منمناتا ہے کہ جیسے ابھی رو پڑے گا۔ پھر رو بھی پڑتا ہے۔ رو کر پھر پوجا کرنے لگتا ہے۔ مگر اس کی دختر بَیٹی،Betty، بستر سے ہلتی ہی نہیں۔ دروازہ کھلتا ہے اور پادری پیرس کی حبشی کنیز تتیوبا خواب گاہ میں داخل ہوتی ہے۔ تتیوبا تقریباً چالیس سال کی ہو گی، پادری پیرس اسے بارباڈوس سے خرید لایا تھا جب پادری بننے سے پہلے کچھ عرصے کے لیے اس نے تجارت کی تھی۔
وہ ایسے اندر آئی جیسے وہ کوئی عاشق ہو جسے اس کی معشوقہ کے دیدار سے دور کرنا ممکن نہ رہا ہو، مگر وہ کچھ ڈری ہوئی بھی ہے کہ اس کی کنیزانہ ہوشیاری اسے سرزنش بھی کر رہی ہے، کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ اس گھر کی ہر مصیبت کی طرح یہ مصیبت اسی کے پلے پڑے گی۔
تتیوبا: (ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے) میری بَیٹی (دختر نہیں، Betty نام ہے) چنگی ہو جائے گی ناں؟
پیرس: دفع دور
تتیوبا: (دروازے کی جانب ہٹتے ہوئے) میری بَیٹی (Betty) مرے گی تو نہیں؟
پیرس: (پیر پٹخنے کی کوشش کرتے ہوئے) میری نظروں سے دور ہو جاؤ (تتیوبا چلی گئی) میری نظروں سے (وہ سسکنے لگتا ہے، دانت بھینچ لیتا ہے، دروازہ ڈھو دیتا ہے، اور دروازے سے لگ کر جھک جاتا ہے، تھکا ہوا) خدایا، خدایا، میری مدد کر (خوف سے کانپتے ہوئے، منمناتے ہوئے، سسکتے ہوئے، وہ بستر کی اور جاتا ہے اور بیٹی کا دھیرے سے ہاتھ تھام لیتا ہے) بیٹی، بچی، پیاری بچی، تم کب جاگو گی؟ کب آنکھیں کھولو گی؟ ننھی بیٹی…
(گھٹنوں کے بَل وہ جھکنے ہی لگتا ہے کہ پھر سے پوجا کرے کہ اس کی سترہ سالہ بھتیجی ایبی گیل ولیمز اندر آتی ہے۔ ایبی گیل اناتھ ہے، اس کا حسن عیاں ہے، اور فریب کی بے انتہاء صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ لیکن اس وقت تو وہ پریشانی، فکر مندی اور شائستگی بنی ہوئی ہے۔)
ایبی گیل: چاچو (وہ اس کی جانب دیکھتا ہے) سوزانا والکاٹ آئی ہے ڈاکٹر گرگز کی طرف سے۔
پیرس: ہاں ہاں، بلاؤ، اسے بلاؤ
ایبی گیل: (دروازے سے نیچے ہال کی طرف جھکتی ہے کہ سوزانا کو پکارے) سوزانا، آ جاؤ۔
سوزانا اندر آتی ہے، ایبی گیل سے تھوڑی کم عمر، مضطرب اور عجلت پسند لڑکی ہے۔
پیرس: (جلدی سے) ڈاکٹر نے کیا کہا، بچی
سوزانا: (پیرس کے پاس سے اچک اچک کر بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے) انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں جناب عزت مآب کو خبر کروں، وہ اپنی کتابوں میں سے کوئی مناسب علاج نہیں ڈھونڈ سکے۔
پیرس: انھیں تلاش جاری رکھنی چاہیے۔
سوزانا: جی جناب، جب سے وہ یہاں سے گئے ہیں، کتابیں چھان رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے مجھے کہا ہے کہ آپ کو بتاؤں کہ آپ اس مرض کا سبب غیر فطری عوامل میں بھی تلاش کریں۔
پیرس: (دِیدے پھاڑ کر دیکھتے ہوئے) نہیں نہیں، یہاں ایسا کچھ غیر فطری نہیں ہے۔ انھیں بتانا کہ میں نے بیورلی سے عزت مآب ہیل کو بلا بھیجا ہے۔ وہ بھی تصدیق کر لیں گے۔ ڈاکٹر صاحب سے کہو درماں تلاش کریں اور غیر فطری عوامل کے بارے میں سوچنا ترک کریں۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔
سوزانا: جی جناب، مگر ایسے انھوں نے مجھ سے کہا تھا۔ (وہ جانے لگتی ہے)
ایبی گیل: سوزانا، گاؤں میں کسی کو نہ بتانا۔
پیرس: یہاں سے سیدھی گھر جاؤ اور غیر فطری عوامل کے بارے میں کچھ نہ کہنا۔
سوزانا: جی جناب، میں مگر دعا گو ہوں (وہ چلی جاتی ہے)
ایبی گیل: چاچو، ڈائنوں کے جادو کی افواہ ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ نیچے گاؤں میں جائیں اور ان افواہوں کی تردید کر آئیں۔
پیرس: (گھبرا کراس کی جانب مڑتا ہے) کیا بتاؤں گاؤں والوں کو؟ کہ میری بیٹی اور بھتیجیبادیے میں کافروں کی مانند ناچ رہی تھیں؟
ایبی گیل: ہم ناچی تو تھیں۔ انھیں بتا دیں کہ میں قبولتی ہوں۔ ضروری ہے تو مجھے چابک بھی رسید کریں۔ وہ جادو ٹونے کی بات کر رہے ہیں لیکن بَیٹی پہ کوئی جادو نہیں ہوا۔
پیرس: ایبی گیل، اب میں عبادتی اجتماع میں کیسے جاؤں، جب کہ میں جانتا ہوں، تم مجھے پوری بات نہیں بتا رہیں۔ اس کے ساتھ تم نے بادیے میں کیا کیا؟
ایبی گیل: چاچو ہم ناچ رہی تھیں کہ آپ اچانک جھاڑیوں سے اچھل کر ہماری طرف لپکے تھے۔ آپ کو دیکھ کر بَیٹی ڈر کے مارے بے ہوش ہو گئی تھی۔ بس یہی کچھ ہوا تھا۔
پیرس: لڑکی بیٹھ جاؤ۔
ایبی گیل: (کانپتے ہوئے بیٹھ جاتی ہے) میں نے بَیٹی کو کچھ نہیں کہا۔ میں تو بَیٹی سے بہت پیار کرتی ہوں۔
پیرس: دیکھو لڑکی، سزا تو تمھیں وقت پر ملے گی۔ لیکن اگر تم نے بادیے کی بد رُوحوں کے سنگ کچھ آمد و رفت کی ہے تو مجھے ابھی بتا دو، ورنہ میرے دشمن تو جان ہی لیں گے اور مجھے برباد کر دیں گے۔
ایبی گیل: ہم نے لیکن بد روحیں تو نہیں بلائی تھیں۔
پیرس: تو پھر یہ پچھلی رات سے کیوں نہیں ہل رہی؟ یہ بچی تو بہت خستہ ہے۔ (ایبی گیل نظریں جھکا لیتی ہے) بھیتر کی تم باہر نہ لائیں تو میرے دشمن لے آئیں گے۔ بتاؤ، آخر تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟ ایبی گیل، تمھیں کچھ خبر ہے کہ یہاں میرے کتنے دشمن ہیں؟
ایبی گیل: میں جانتی ہوں، چاچو
پیرس: جانتی ہو ؟ ایک جتھا مجھے مَنبر سے اتارنا چاہتا ہے؟ کچھ سمجھ آئی؟
(جاری ہے)