کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ دہم)
ترجمہ، نصیر احمد
جائلز: عالی مرتبت، ہم گستاخی نہیں کر رہے۔
ڈینفورتھ: گستاخی؟ یہ تو کھلا ہنگامہ ہے۔ مسٹر یہ اس صوبے کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ عقل ٹھکانے ہے تمھاری؟
جائلز: (رونے پہ آ جاتا ہے) جناب صاحبِ مرتبت، میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ وہ کتابیں پڑھتی تھی۔ جناب وہ میرے گھر آئے اور اسے لے گئے۔
ڈینفورتھ: (بے خبری کے عالم میں) کتابیں، کون سی کتابیں؟
جائلز: (سسکیاں تھام نہیں پاتا) مارتھا میری تیسری بیوی ہے جناب۔ دوسری دونوں نے کتاب کی کبھی شکل بھی نہیں دیکھی تھی، اس لیے میں نے سوچا کہ ذرا جانوں تو سہی یہ کتابیں کیوں پڑھتی ہے۔ آپ سن رہے ہیں ناں۔ میں نے اس پر ڈائن ہونے کا شُبہ تو نہیں کیا تھا۔ (اب وہ کھلم کھلا رو رہا ہے) میں نے اس خاتون سے سخائے دینی کو جدا کر دیا۔ جدا کر دیا۔ (وہ خِفت سے اپنے چہرہ چھپا لیتا ہے اور ڈینفورتھ احتراماً خاموش رہتا ہے۔)
ہیل: عالی مرتبت، یہ مُدعی ہے کہ اس کے پاس اپنی بیوی کے دفاع میں کوئی ثبوت ہے۔ میرا خیال ہے انصاف کے تقاضوں کو ملحُوظِ خاطر رکھتے ہوئے …
ڈینفورتھ: تو اسے کہو، حلفی بیان قلم بند کروائے۔ تمھیں تو قاعدوں کی خبر ہو ہی گی، مسٹر ہیل۔ (ہیرک سے) دفتر خالی کراؤ۔
ہیرک: (شائستگی سے اسے ٹہوکا دیتا ہے،) جائلز، آؤ چلیں۔
فرانسس: جناب ہم بہت بد دل ہو گئے ہیں۔ ہم تین دنوں سے مسلسل یہاں آ رہے ہیں۔ ہماری مگر کوئی نہیں سنتا۔
ڈینفورتھ: اور یہ شخص کون ہے؟
فرانسس: فرانسس نرس، عالی مرتبت۔
ہیل: اس کی بیوی ریبیکا کو صبح سزا سنائی گئی تھی۔
ڈینفورتھ: تمھیں غوغا کرتے دیکھ کر تعجب ہو رہا ہے۔ تمھارے کردار کی تو میں نے بہت تعریفیں سنی ہیں، مسٹر نرس۔
ہیتھورن: ان دونوں کو توہینِ عدالت کی پاداش میں گرفتار کر لیں، جناب۔
ڈینفورتھ: (فرانسس سے) تم اپنی درخواست پیش کرو اور مناسب وقت آنے پر میں …
فرانسس: جناب، ہمارے پاس جناب کی آنکھوں کے لیے ثبوت ہیں۔ خدا نہ کرے، آپ اپنی آنکھیں ہی بند کر لیں۔ لڑکیاں، جناب، لڑکیاں فراڈ ہیں۔
ڈینفورتھ: کیا؟ کیا کہا تم نے؟
فرانسس: ہمارے پاس ثبوت ہے کہ وہ آپ کو دھوکا دے رہی ہیں۔
(ڈینفورتھ دنگ ہو جاتا ہے، مگر فرانسس کا بَہ نظرِ غور جائزہ لیتا رہتا ہے)
ہیتھورن: یہ توہین عدالت ہے جناب، توہینِ عدالت۔
ڈینفورتھ: شانتی، جج ہیتھورن۔ تم جانتے ہو میں کون ہوں، مسٹر نرس؟
فرانسس: جانتا ہوں، جناب۔ اور جناب آپ کا مرتبہ مجھے تسلی دیتا ہے کہ آپ ضرور ایک اچھے جج ہوں گے۔
ڈینفورتھ: اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ماربل ہیڈ سے لے کر لن تک چار سو نفر جیل میں ہیں۔ اور سب کی سزاؤں کے حکم ناموں پر میرے دست خط ہیں۔
فرانسس: میں …
ڈینفورتھ: اور یہ دست خط پھانسی کے بیس حکم ناموں پر بھی درج ہیں؟
فرانسس: میری یہ ہمت نہیں ہو پا رہی کہ اک با رعب منصف سے میں ایسے کہوں مگر جناب آپ واقعی دھوکا کھا رہے ہیں۔
(بائیں طرف سے جائلز کوری اندر آتا ہے۔ سب اس کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ میری وارن اور پراکٹر کو آگے آنے کا اشارہ کرتا ہے۔ میری کی نظریں فرش پر گڑی ہوئی ہیں۔ پراکٹر نے اس کی کُہنی تھامی ہوئی ہے جیسے وہ بے جان ہو کر گر پڑے گی۔)
پیرس: (میری کو دیکھ کر شاک کی کیفیت میں چلا جاتا ہے) میری وارن (وہ میری کے پاس چلا جاتا ہے اور اس کے چہرے پر جھک جاتا ہے) تم یہاں کیوں آئی ہو؟
پراکٹر: (پیرس کو شائستگی سے میری سےپرے دھتکار دیتا ہے مگر ایک سلگتا احساسِ تحفظ لیے ہوئے،) یہ ڈپٹی گورنر صاحب سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔
ڈینفورتھ: (جیسے کسی نے جھنجھوڑ دیا ہو، ہیرک کی جانب دیکھتا ہے) تم نے تو مجھے یہ بتایا تھا کہ میری وارن کی طبیعت نا ساز ہے اور وہ گھر پر آرام کر رہی ہے۔
ہیرک: ایسے ہی تھا، منزلت مآب، جب پچھلے ہفتے میں اسے کورٹ میں لانے کے لیے گیا تھا اس نے مجھ سے یہی کہا تھا کہ یہ بیمار ہے۔
جائلز: یہ اپنی آتما سے ہفتہ بھر جھگڑتی رہی ہے۔ اب یہ آپ کو سچ سے آگاہ کرنے آئی ہے، جناب صاحبِ مرتبت۔
ڈینفورتھ: اور یہ آدمی کون ہے؟
پراکٹر: جان پراکٹر جناب۔ ایلزبیتھ میری بیوی ہے۔
پیرس: اس آدمی سے ہوشیار رہیں، عالی مرتبت، یہ بہت شریر ہے۔
ہیل: (جوش سے) میرا خیال ہے آپ اس لڑکی کی بات سن لیں، جناب۔
ڈینفورتھ: (اسے میری وارن کی بات سننے کی بہت بے تابی ہے مگر وہ ہیل کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے) شانتی، ہیل۔ تم ہمیں کیا بتانا چاہتی ہو، میری وارن۔ (پراکٹر میری وارن کی طرف دیکھتا ہے مگر وہ چپ کھڑی رہتی ہے۔)
پراکٹر: اس نے بد روحیں نہیں دیکھیں، جناب۔
ڈینفورتھ: (خطرہ بھانپتے ہوئے حیرانی سے کہتا ہے۔) بد روحیں نہیں دیکھیں؟
جائلز: (بے قراری سے) کبھی نہیں۔
پراکٹر: (جیکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے) میری نے اس بیان پر دست خط کیے ہیں، جناب۔
ڈینفورتھ: (تیزی سے) میں کوئی بیان قبول نہیں کرتا۔ (وہ ساری صورت حال کا تخمینہ لگاتے ہوئے میری سے پراکٹر کی طرف پلٹتا ہے) مجھے یہ بتاؤ، مسٹر پراکٹر، تم نے کیا گاؤں والوں کو بھی اپنی کتھا سنا دی ہے؟
پراکٹر: ہم نے نہیں سنائی۔
پیرس: یہ لوگ عدالت الٹانے آئے ہیں جناب، یہ شخص تو …
ڈینفورتھ: شانتی مسٹر پیرس۔ مسٹر پراکٹر، کیا تم جانتے ہو کہ ان مقدموں میں ریاست کا بنیادی دعویٰ یہی ہے کہ ان بچیوں کے پردے میں افلاک ہم سے گفتگو کرتے ہیں؟
پراکٹر: جانتا ہوں جناب۔
ڈینفورتھ: (سوچتا ہے، پراکٹر کا جائزہ لیتا ہے، اور پھر میری کی طرف پلٹتا ہے) اور میری، تم تو عدالت میں لوگوں کو تمھاری طرف بد روحیں بھیجنے کے جرم میں فاش کرتی رہی ہو۔
میری وارن: وہ سب بناوٹ تھی، جناب۔
ڈینفورتھ: میں نے سنا نہیں۔
پراکٹر: یہ کہہ رہی ہے وہ سب بناوٹ تھی۔
ڈینفورتھ: اور دوسری لڑکیاں؟ سوزانا والکاٹ اور دیگر؟ وہ بھی بناوٹ کر رہی تھیں؟
میری وارن: ہاں، جناب۔
ڈینفورتھ: (آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہے) واقعی (وہ یہ سن کر بوکھلا گیا ہے مگر پلٹ کر پراکٹر کی طرف غور سے دیکھتا ہے۔)
پیرس: (اس کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں) عالی مرتبت، آپ کو اتنے قبیح جھوٹ کو کھلی عدالت میں پھیلنے نہیں دینا چاہیے۔
ڈینفورتھ: بَہ جا کہا، مگر میں حیران ہوں کہ اسے یہ ہمت کیوں کر ہوئی کہ یہ یہاں اپنی کَتھا کہنے آئی؟ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے، مسٹر پراکٹر کہ میں تمھاری بات سنوں یا نہ سنوں، میں تمھیں آگاہ کرتا ہوں کہ یہاں تند و تیز شعلے تپ رہے ہیں اور یہ شعلے سب خُفتَہ عیاریاں پگھلا دیتے ہیں۔
پراکٹر: جانتا ہوں، جناب۔
ڈینفورتھ: مجھے مزید یہ بھی کہنا ہے کہ میں جانتا ہوں، بیوی کے لیے ایک شوہر کی نرمی اسے بیوی کے دفاع میں زیادتی اور مبالغے کے راہ پر بھی لے جاتی ہے۔ جناب کیا واقعی تمھارا ضمیر گواہ ہے کہ تمھاری شہادت سچی ہے؟
پراکٹر: سچی ہے اور آپ بھی یہ سچ یقیناً جان لیں گے۔
ڈینفورتھ: اور تم یہ انکشاف بھری عدالت میں بر ملا کرنے کا سوچ رہے تھے؟
پراکٹر: جی جناب، مگر آپ کی اجازت سے۔
ڈینفورتھ: (اپنے دِیدے سکیڑ لیتا ہے) تم ایسا کاہے کرنا چاہتے ہو، جناب؟
پراکٹر: کاہے؟ میں اپنی بیوی کی رہائی چاہتا ہوں، جناب۔
ڈینفورتھ: اور تمھارے دل میں اور تمھاری روح میں اس عدالت کو رُسوا کرنے کی کوئی آرزو خفتہ نہیں ہے؟
پراکٹر: (دل میں ہلکا سے ڈگمگا جاتا ہے،) نہیں جناب، بالکل بھی نہیں۔
چیور: (جاگ کر گلا صاف کرتا ہے) صاحب مرتبت، میں …
ڈینفورتھ: مسٹر چیور؟
چیور: میرے خیال میں یہ میرا فرض ہے (نرمی سے پراکٹر سے کہتا ہے) تم انکار تو نہیں کرو گے، جان (ڈینفورتھ سے) جب اس کی بیوی کو حراست میں لینے ہم گئے تھے تو اس نے معزز عدالت پر لعنت برسائی تھی اور آپ کا وارنٹ بھی پھاڑ ڈالا تھا۔
پیرس: دیکھا جناب، میں کہتا نہ تھا۔
ڈینفورتھ: اس نے ایسے کیا تھا، ہیل؟
ہیل: (ایک گہری سانس لیتا ہے)، ہاں، ایسے ہی کیا تھا۔
پراکٹر: میں شدید غصے میں تھا ،جناب۔ مجھے نہیں سمجھ آ رہی تھی کہ میں کر کیا رہا ہوں۔
ڈینفورتھ: (اس کا بَہ غور جائزہ لیتے ہوئے) مسٹر پراکٹر۔
پراکٹر: جی جناب۔
ڈینفورتھ: (پراکٹرکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے) تم کبھی شیطان سے رُو بَہ رُو ہوئے؟
پراکٹر: نہیں جناب۔
ڈینفورتھ: اور تم انجیلِ مقدس کے ماننے والے عیسائی ہو؟
پراکٹر: جناب، میں ہوں۔
پیرس: ایسا عیسائی جو چرچ میں مہینے میں ایک ہی بار آتا ہے۔
ڈینفورتھ: (ٹھہر جاتا ہے، متجسس ہے)۔ چرچ نہیں آتا؟
پراکٹر: پیرس سے مجھے الفت نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں۔ خدا سے مجھے محبت مگر ہے۔
چیور: اور یہ اَیتوار کو کھیتی باڑی کرتا ہے، جناب۔
ڈینفورتھ: اِتوار کو کھیتی باڑی۔
چیور: (معذرت خواہانہ انداز سے) میرے خیال میں یہ شہادت ہے، جان، اور میں بَہ حیثیت عدالتی افسر، شہادت چھپا نہیں سکتا۔
پراکٹر: میں نے صرف ایک یا دو دفعہ اَیتوار کو کھیتی باڑی کی ہے، جناب۔ میرے تین بچے ہیں، جناب اور پچھلے سال سے پہلے فصل کم ہی ہوتی تھی۔
جائلز: اگر آپ سچ جاننا چاہتے ہو تو اور بھی عیسائی ہیں جو اَیتوار کو کھیتی باڑی کرتے ہیں۔
ہیل: جناب عالی، میرے خیال میں ایسی شہادتوں پر آپ اس شخص کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں قائم کر سکتے۔
ڈینفورتھ: میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ (تؤقف کرتا ہے۔ وہ پراکٹر کو دیکھتا رہتا ہے جو اس سے نین ملائے رکھنے کی ہمت باندھے رکھنے کی کوشش کر رہا ہے) میں تمھیں صاف بتائے دیتا ہوں، مسٹر۔ اس عدالت میں میں نے معجزے دیکھے ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے بد روحیں لوگوں کے گلے گھونٹنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ میں نے لوگوں کے جسموں میں سوئیاں دھنسی دیکھی ہیں اور خنجروں سے ان کے جسم کٹتے دیکھے ہیں۔ ان لمحوں سے پہلے ذرہ برابر بھی شک نہیں تھا کہ لڑکیاں ہمیں دھوکا دے رہی ہیں۔ میری بات کا مطلب سمجھ رہے ہو ناں، جناب۔
پراکٹر: صاحبِ مرتبت۔ کیا آپ نے اس بارے میں نہیں غور کیا کہ ان میں بہت سی خواتین زندگی بھر اچھی شہرت کی حامل رہی ہیں؟ اور …
پیرس: تم نے کیا کبھی انجیل کی تلاوت بھی کی ہے، مسٹر پراکٹر؟
پراکٹر: میں انجیل کی تلاوت کرتا ہوں۔
پیرس: کہاں کرتے ہو؟ انجیل میں تو صاف لکھا ہے کہ قابیل ایک نیکو کار بندہ تھا مگر اس نے ہابیل کو جان سے مار دیا۔
پراکٹر: جی جناب، انجیل میں یہ واقعہ لکھا ہے۔ (ڈینفورتھ سے) مگر یہ کہاں لکھا ہے کہ اپنی بد روح بھیج کر ریبیکا نرس نے سات بچیوں کی جان لے لی؟ یہ سب بچیوں کی شرارت ہے اور یہ بچی میری یہاں حلفیہ بیان دے گی کہ اس نے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔
(ڈینفورتھ بات پر توجہ دیتا ہے، ہیتھورن کو اپنے پاس بلاتا ہے، اس کے کانوں میں کچھ کہتا ہے،ہیتھورن سر ہلاتا ہے۔)
ہیتھورن: جی ہاں، وہی خاتون ہے۔
ڈینفورتھ: مسٹر پراکٹر، تمھاری بیوی نے صبح مجھے ایک درخواست بھیجی تھی کہ وہ حاملہ ہے۔
پراکٹر: میری بیوی حاملہ ہے؟
ڈینفورتھ: لیکن ایسی کوئی علامات نہیں پائی گئیں۔ ہم نے معائنہ کروایا تھا۔
پراکٹر: لیکن اگر وہ کہتی ہے تو پھر وہ ہو گی۔ وہ خاتون جھوٹ بولتی ہی نہیں، مسٹر ڈینفورتھ۔
ڈینفورتھ: جھوٹ نہیں بولتی؟
پراکرٹی: بالکل نہیں بولتی جناب، بالکل نہیں۔
ڈینفورتھ: ابھی ہمارے لیے اس بات کی تصدیق کرنا سہل نہیں ہے۔ لیکن تمھیں میں بتا دیتا ہوں کہ ہم ایک اور مہینے تک اسے پھانسی نہیں دیں گے۔ اور اگر علامات ظاہر ہو جاتی ہیں تو بچے کی پیدائش تک وہ زندہ رہے گی۔ اب تمھارا کیا مؤقف ہے، مسٹر پراکٹر (پراکٹر کو چپ لگ جاتی ہے،) تمھارا یہ کہنا ہے کہ تم اپنی بیوی کو بچانا چاہتے ہو۔ پھر کم اَز کم ایک برس تو وہ زندہ رہے گی اور ایک برس لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ کیا کہتے ہو تم؟ یہ معاملہ تو سدھر گیا۔ (پراکٹر متفق نہیں لگ رہا، وہ فرانسس اور جائلز کی سمت دیکھتا ہے،) کیا تم اس الزام سے دست بردار ہوتے ہو؟
پراکٹر: جی نہیں، میں اس الزام سے دست بردار نہیں ہوتا۔
ڈینفورتھ: (اب ایک تقریباً نا قابلِ فہم سختی اس کی آواز میں دَر آتی ہے) تو تمھارا مقصد اس بات سے کہیں بڑا ہے؟
پیرس: جنابِ عالی، یہ آیا ہی عدالت الٹانے کے لیے ہے؟
پراکٹر: یہ لوگ میرے دوست ہیں اور ان کی بیویوں پر بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ڈینفورتھ: (اچانک تُندی دکھاتے ہوئے) میں تمھیں جانچ نہیں رہا، جناب۔ میں تمھاری شہادت سننے کے لیے تیار ہوں۔
پراکٹر: میں عدالت خراب کرنے نہیں آیا۔ میں تو …
ڈینفورتھ: مارشل، عدالت میں جاؤ اور جج سٹوٹن اور جج سیول کو کہو کہ ایک گھنٹے کے لیے عدالت کی کارِ روائی ملتوی کر دیں۔ اگر وہ مے خانے جانا چاہتے ہیں، تو انھیں جانے دو۔ گواہ اور قیدی مگر عدالت میں ہی رہیں گے۔
ہیرک: (بہت زیادہ مؤدّب ہو کر) اگر مجھے کہنے کی اجازت ہو تو میں کہوں گا کہ میں اس شخص کو عمر بھر سے جانتا ہوں۔ یہ بہت بھلا آدمی ہے، جناب۔ میں …
ڈینفورتھ: (ہیرک کی یہ بات اسے خود پر نکتہ چینی لگتی ہے اور اسے نا گوار محسوس ہوتی ہے۔) یقیناً، مارشل (ہیرک اثبات میں سر کو جُنبش دیتا باہر چلا جاتا ہے،) تو تمھارے پاس ہمارے لیے کیا بیان ہے، مسٹر پراکٹر؟ اور تمھاری بِنتی کرتا ہوں کہ آسمان کی طرح وسیع و شفاف ہو جاو۔ اور دیانت داری سے …
پراکٹر: (کافی سارے کاغذ نکالتے ہوئے،) میں وکیل تو نہیں ہوں جناب، مگر میں …
ڈینفورتھ: پاکیزہ دلوں کو وکالت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بیان کرو جیسے بن پڑتا ہے …
پراکٹر: (ایک پرچہ ڈینفورتھ کے حوالے کرتا ہے،) یہ آپ پہلے ملاحظہ فرمائیں، جناب؟ یہ ایک حلف نامہ ہے۔ اس پر دست خط کنندگان، ریبیکا نرس، مارتھا کوری اور میری بیوی کے بارے میں اپنے اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ (ڈینفورتھ پرچے کا مطالعہ کرتا ہے۔)
پیرس: (ڈینفورتھ کی حقارت آمیز جذبات کی طرف توجہ دلاتا ہے) ان کے اچھے خیالات (مگر ڈینفورتھ پڑھتا رہتا ہے اور پراکٹر کا دل بڑھ جاتا ہے۔)
پراکٹر: یہ سب ملکیتی حقوق رکھنے والے کسان اور چرچ کے ارکان ہیں۔ (شائستگی سے ایک پیرا گراف کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے) اگر آپ نوٹس کریں تو ان سب نے یہی کہا ہے کہ وہ ان خواتین کو سالوں سے جانتے ہیں اور انھوں نے ان خواتین میں ایسی کوئی نشانی نہیں دیکھی جس سے ظاہر ہو کہ یہ خواتین شیطان سے معاملہ کرتی رہی ہیں۔ (پیرس گھبرا کر آگے بڑھتا ہے اور ڈینفورتھ کے کندھوں پر جھک کر پرچہ پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔)
ڈینفورتھ: (پرچے میں درج ایک لمبی فہرست پر سرسری نگاہ ڈالتا ہے) کتنے نام ہیں؟
فرانسس: اکیانوے، عالی مرتبت
پیرس: (پیرس پسینے میں نہا گیا ہے) ان لوگوں کو بلوایا جائے (ڈینفورتھ اس کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھتا ہے۔)
فرانسس: (غصے سے لرزتے ہوئے) مسٹر ڈینفورتھ، ان لوگوں کو میں نے یقین دلایا تھا کہ دست خط کرنے نتیجے میں انھیں کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔
پیرس: یہ سرا سَر عدالت پر حملہ ہے۔
ہیل: (پیرس سے، خود کو تھامتے ہوئے) کیا صفائی کی ہر کوشش عدالت پر حملہ ہوتی ہے؟ کیا کوئی…
پیرس: سب معصوم اور مسیحی سیلیم کی عدالتوں سے مطمئن ہیں مگر یہ لوگ عدالتوں کے بارے میں تاریکی کی زَد میں آ گئے ہیں۔ (ڈینفورتھ سے صاف صاف کہتا ہے) میرے خیال میں آپ ان میں سے ہر ایک سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ یہ آپ کی عدالت سے بے اطمینان کیوں ہیں؟
ہیتھورن: ان سب سے تفتیش کرنی چاہیے، جناب۔
ڈینفورتھ: ضروری نہیں، یہ کوئی حملہ ہو، پھر بھی …
فرانسس: یہ سب مقدس عہد میں بندھے مسیحی ہیں، جناب۔
ڈینفورتھ: پھر تو انھیں کسی بات کا ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ (چیور کو پرچہ تھما دیتا ہے) مسٹر چیور، ان سب کے وارنٹ نکالو اور سب کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لو۔ (پراکٹر سے) مسٹر، اس کے علاوہ تمھارے پاس ہمارے لیے کون سی معلومات ہیں۔ (پاس کھڑے ہوئے فرانسس کو ہول آنے لگے ہیں) تم چاہو تو بیٹھ جاؤ، مسٹر نرس۔
فرانسس: ان لوگوں کو میں نے مشکل میں مبتلا کر دیا۔ میں نے…
ڈینفورتھ: بزرگ، تم نے ان لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی اگر ان کے ضمیر صاف ہیں۔ لیکن تم یہ بات ضرور سمجھ لو کہ کوئی بھی شخص یا تو اس عدالت کے ساتھ ہے یا اس کے خلاف۔ درمیانی رستہ کوئی نہیں ہے۔ بڑا ہی یہ تیز دھار سَمے ہے اور جامِع بھی۔ اب ہم اندھیری دو پہروں میں نہیں جی رہے جب بدی نیکی میں مدغم ہو کر دنیا کے ہوش چھین لیتی تھی۔ اب خدا کی رحمت کی وجہ سے چمکتا خورشید بادلوں سے نکل آیا ہے۔ اور جو روشنی سے نہیں ڈرتے، وہ روشنی کی ثنا کریں گے۔ مجھے امید ہے تم روشنی کے ثنا خوانوں میں سے ہو۔ (میری وارن اچانک سسکیاں بھرنے لگتی ہے۔) میں دیکھتا ہوں کہ یہ کچھ پریشان لگتی ہے۔
پراکٹر: نہیں جناب، پریشان نہیں ہے۔ (میری کی طرف جھک کر خاموشی سے اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے) یاد ہے، فرشتے رافیل نے لڑکے تو بایا سے کیا کہا تھا۔ یا د ہے ناں؟
میری وارن: (بَہ مشکل اس کی بات سنائی دیتی ہے) جی۔
پراکٹر: بھلا کرو گے تو تمھارے ساتھ برا نہیں ہو گا۔
میری وارن: جی۔
ڈینفورتھ: آدمی، ہم منتظر ہیں۔
(مارشل ہیرک لوٹتا ہے اور دروازے کے پاس اپنے لیے مخصوص جگہ پر کھڑا ہو جاتا ہے۔)
جائلز: جان، میرا بیان بھی تو انھیں دکھاؤ۔
پراکٹر: (وہ ایک اور پرچہ ڈینفورتھ کے حوالے کرتا ہے۔) ہاں، یہ مسٹر کوری کا بیان ہے۔
ڈینفورتھ: اوہ (اس دفعہ ہیتھورن اس کے عقب میں کھڑا ہو کر اس کے ساتھ پرچہ پڑھتا ہے۔)
ہیتھورن: (شک کا اظہار کرتے ہوئے) کس وکیل نے اس تحریر کیا ہے؟
جائلز: تمھیں پتا ہے ہیتھورن میں نے زندگی بھر کوئی وکیل نہیں کیا۔
ڈینفورتھ: (مطالَعَہ ختم کرتے ہوئے) بڑی مناسب تحریر ہے، میں اسے سراہتا ہوں۔ مسٹر پیرس، اگر مسٹر پٹنم عدالت میں موجود ہے، تو اسے بلا لاؤ۔ (ہیتھورن بیان ہاتھ میں لے کر کھڑکی کے پاس کھڑا ہو جاتا ہے۔ پیرس عدالت میں چلا جاتا ہے،) مسٹر کوری، تم نے کیا قانون کی تربیت لی ہوئی ہے؟
(جاری ہے)