کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ یاز دہم)
ترجمہ، نصیر احمد
جائلز: (بہت خوش ہو کر) بہترین تربیت، جناب۔ زندگی میں تینتیس بار مقدموں کے سلسلے میں عدالت میں آیا ہوں۔ اور ہر دفعہ مدعی بن کر۔
ڈینفورتھ: پھر تو تمھارا بہت استحصال ہوا ہو گا ۔
جائلز: کیسا استحصال جناب؟ میں اپنے حقوق جانتا ہوں اور لے کے ہی دم لوں گا۔ کوئی پینتیس سال پہلے آپ کے والد نے میرا ایک کیس سنا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔
ڈینفورتھ: واقعی؟
جائلز: انھوں نے کیا آپ کو اس بارے میں بتایا نہیں؟
ڈینفورتھ: نہیں، یاد نہیں آ رہا۔
جائلز: عجیب بات ہے۔ انھوں نے مجھے نو پاؤنڈز ہرجانہ دلوایا تھا۔ بہت اچھے جج تھے، آپ کے والد۔ میرے پاس ہلکی سفید رنگت کی ایک گھوڑی تھی اور وہ شخص گھوڑی مستعار لینے (پیرس ٹامس پٹنم کے ساتھ اندر آتا ہے۔ پٹنم کو دیکھ کر جائلز کی کشادگی فرو ہو جاتی ہے۔ اب وہ سخت گیر ہو گیا ہے۔) ہاں، آ گیا ہے، یہاں۔
ڈینفورتھ: مسٹر پٹنم، تم پر مسٹر کوری نے ایک الزام عائد کیا ہے کہ تم نے بڑی سرد مہری سے کام لیتے ہوئے اپنی دختر کو اکسایا ہے کہ وہ جارج جیکبز کی جو اب جیل میں ہے جادو گری فاش کرے ۔
پٹنم: یہ جھوٹ ہے۔
ڈینفورتھ: (کوری کی طرف پلٹتے ہوئے) مسٹر پٹنم کہتا ہے کہ تمھارا الزام جھوٹا ہے۔ اب تم کیا کہتے ہو؟
جائلز: (غصے میں مٹھیاں بھینچتے ہوئے) میں مسٹر پٹنم پر مُوتتا ہوں، میں یہ کہتا ہوں۔
ڈینفورتھ: تم اپنے الزام کے حق میں کیا ثبوت پیش کرتے ہو؟
جائلز: میرا ثبوت وہاں ہے (پرچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اگر جادو گری کے الزام میں جیکبز کو پھانسی ہوتی ہے تو اس کی جائیداد ضبط ہو جائے گی۔ قانون یہی ہے۔ اور اتنی بڑی جائیداد خریدنے کے لیے پیسہ صرف پٹنم کے پاس ہے۔ یہ آدمی زمین کے لیے اپنے پڑوسی ہلاک کر رہا ہے۔
ڈینفورتھ: لیکن ثبوت چاہیے، جناب ، ثبوت۔
جائلز: (بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ثبوت وہاں ہے۔ ایک ایمان دار آدمی نے مجھے بتایا کہ جس دن پٹنم کی بیٹی نے جیکبز کا جادو گری کے الزام میں نام ظاہر کیا اس نے پٹنم کو یہ کہتے سنا کہ اس کی بیٹی نے ایک اچھی خاصی جائیداد اسے تحفے میں دے دی۔
ہیتھورن: اور اس آدمی کا کیا نام ہے؟
جائلز: نام کیا ؟
ہیتھورن: اس آدمی کا نام جس نے تمھیں یہ معلومات دیں۔
جائلز: (ہچکچا کر کہتا ہے) کیوں؟ اس آدمی کا نام میں تم پر ظاہر نہیں کر سکتا۔
ہیتھورن: کیوں نہیں کر سکتے؟
جائلز: (ہچکچاتا ہے ،پھر پھٹ پڑتا ہے) تم جانتے ہو کیوں نہیں۔ اگر اس کا نام تمھیں بتاؤں تو وہ آدمی بھی جیل میں بند ہو جائے گا۔
ہیتھورن: یہ عدالت کی توہین ہے، مسٹر ڈینفورتھ۔
ڈینفورتھ: (طرح دیتے ہوئے) تمھیں اس کا نام ظا ہر کرنا ہی ہو گا۔
جائلز: میں تمھیں کوئی نام نہیں بتاؤں گا۔ میں نے اپنی بیوی کا نام ظاہر کیا اور اب اس جرم میں جہنم میں جلوں گا۔ مجھے گونگا ہی سمجھو۔
ڈینفورتھ: پھر مجھے تمھیں توہینِ عدالت کے جرم میں گرفتار کرنا پڑے گا۔
جائلز: یہ نجی سماعت ہے جناب، تم مجھے نجی سماعت کی توہین کے شکنجے میں نہیں جکڑ سکتے۔
ڈینفورتھ: یہ تو پورا قانون دان ہے، تم چاہتے ہو میں ابھی کورٹ کا فُل سیشن جاری کر دوں۔ میری بات کا جواب دو گے؟
جائلز: (ڈگمگاتے ہوئے) میں جناب کو وہ نام نہیں بتا سکتا ۔ نہیں بتا سکتا۔
ڈینفورتھ: تم ایک بے وقُوف بڈھے ہو۔ مسٹر چیور، ریکارڈ کا آغاز کرو۔ کورٹ اب سیشن میں ہے۔ میں تم سے پوچھتا ہوں مسٹر کوری …
پراکٹر: (دخل دیتے ہوئے) جناب عالی، یہ گفتگو راز داری میں ہوئی تھی، اور کوری …
پیرس: انھی راز داریوں کے بیچ تو شیطان پلتا ہے۔ (ڈینفورتھ سے) راز داری نہ ہو تو سازش پنپ ہی نہیں سکتی۔ جناب عالی۔
ہیتھورن: یہ راز عیاں ہونا چاہیے، جناب۔
ڈینفورتھ: (جائلز سے) بوڑھے شخص، اگر تمھارا مخبر سچا ہے تو اسے ایک شریف شخص کی طرح عدالت کے سامنے آنا چاہیے۔ اور اگر وہ گم نامی میں چھپنے کا خواہش مند ہے تو میں اس کی وجہ جاننا چاہوں گا۔ اب جناب، میں تمھیں حکومت اور مرکزی چرچ کے نام پر حکم دیتا ہوں کہ اس آدمی کا نام بتاؤ جس نے تمھیں خبر دی کہ مسٹر پٹنم ایک عام سا قاتل ہے۔
ہیل: عالی مرتبت۔
ڈینفورتھ: مسٹر ہیل۔
ہیل: اب ہم یہ بات پردے میں نہیں رکھ سکتے کہ علاقے کے لوگ معزز عدالت سے خوف زدہ ہیں۔
ڈینفورتھ: یہ بات ہے تو علاقہ گناہِ عظیم میں مبتلا ہے۔ کیا تمھیں یہاں سوالوں کے جواب دینے سے ڈر لگتا ہے؟
ہیل: میں صرف خداوند سے ڈرتا ہوں، جناب، مگر علاقے میں خوف موجود ہے۔
ڈینفورتھ: علاقے میں خوف کی موجودگی پر مجھے سرزنش نہ کرو۔ علاقے میں خوف موجود ہے کیوں کہ علاقے میں جنابِ مسیح کو شکست دینے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔
ہیل: لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر ملزم ان سازشوں میں ملوث ہے۔
ڈینفورتھ: بے داغ آدمی کو عدالت سے خوف نہیں آتا۔ نہیں آتا، مسٹر ہیل (جائلز سے،) تم اس عدالت کی توہین کے جرم میں زیرِ حراست ہو۔ اب چین سے بیٹھو اور اپنے اوسان قابو میں رکھو، ورنہ تم جیل میں ہی رہو گے جب تک پوچھے گئے ہر سوال کا جواب نہیں دیتے۔
(جائلز کوری حملے کے ارادے سے تیزی سے پٹنم کی طرف بڑھتا ہے۔ پراکٹر بڑھ کر اسے تھام لیتا ہے)
پراکٹر: نہیں، جائلز، نہیں۔
جائلز: (پراکٹر کے کندھوں سے اوپر پٹنم کی طرف دیکھتے ہوئے) میں تمھارا گلا کاٹ دوں گا پٹنم۔ میں تمھیں اب جان سے مار سکتا ہوں۔
پراکٹر: (جائلز کو زَبر دستی کرسی پر بٹھاتے ہوئے) شانتی، جائلز، شانتی۔ (جائلز کو چھوڑتے ہوئے۔ ہم ثابت کریں گے، اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔ (وہ ڈینفورتھ کی طرف مڑتا ہے)
جائلز: اب اور اس کچھ مت کہو جان (ڈینفورتھ کی طرف اشارہ کرتے ہو) یہ تم سے کھیل رہا ہے اور یہ ہم سب کو پھانسی دے گا۔
(میری وارن سسکیوں میں ڈوب جاتی ہے)
ڈینفورتھ: یہ قانون کی عدالت ہے، مسٹر۔ یہاں کوئی بد معاشی نہیں چلے گی۔
پراکٹر: اس کے بڑھاپے کو مد نظر رکھتے ہوئے، اسے معاف کر دیجیے جناب۔ شانتی، جائلز، شانتی۔ اب ہم اپنی بے گناہی ثابت کرتے ہیں۔ (میری کی ٹھوڑی اٹھاتا ہے) تم کیوں روتی ہو؟ یاد ہے میری فرشتے نے لڑکے سے کیا کہا تھا۔ یہ بات تھامے رکھو کہ یہی تمھاری چٹان ہے، تمھاری پناہ گاہ۔ (میری چپ ہو جاتی ہے اور پراکٹر ایک پرچہ نکالتا ہے اور ڈینفورتھ کی طرف مڑتا ہے) یہ میری وارن کا بیان ہے۔ میں عرض کرتا ہوں، جناب، پڑھتے ہوئے یاد رکھیں کہ دو ہفتے پہلے میری دوسری بچیوں سے چنداں مختلف نہیں تھی۔ (وہ معاملہ فہمی سے کام لے رہا ہے، اپنا غصہ، اپنا خوف اور اپنی بے قراری تھامے رکھتا ہے) اس وقت آپ نے اس کی چیخیں سنیں تھی، اس کی ہوکیں سنیں تھیں، اور اس نے قسمیں کھائی تھیں کہ جانی پہچانی بد روحیں اس کا گلا دباتی ہیں۔ حتیٰ کہ میری نے یہ شہادت بھی دی تھی کہ شیطان نے ایک خاتون کی شکل میں اس کا دل جیتنے کی کوشش کی تھی اور وہ خاتون، اب جیل میں ہے۔ اور جب اس نے نے منع بول دیا تو …
ڈینفورتھ: یہ سب ہم جانتے ہیں۔
پراکٹر: جی جناب، اب مگر یہ کہتی ہے کہ اس نے کبھی نہ شیطان دیکھا اوردھندلکے میں نہ اجیارے میں کوئی آتما دیکھی جسے شیطان نے اسے ضرر پہنچانے کے لیے روانہ کیا ہو۔ اور یہ اپنی سہیلیوں کو جھوٹا قرار دیتی ہے۔
(پراکٹر میری کا بیان ڈینفورتھ کے حوالے کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے اور ہیل کانپتا ہوا ڈینفورتھ کے پاس آتا ہے)
ہیل: عالی مرتبت، میرے خیال میں یہ بات سارے معاملہ میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔ اس بات میں سارے معاملے کا دل دھڑکتا ہے۔
ڈینفورتھ: (شکوک و شبہات کی زد میں) یہ تو ہے۔
ہیل: میں اسے اتنا زیادہ نہیں جانتا اور مجھے یہ بھی یقین نہیں ہے کہ یہ سچا ہے۔ مگر انصاف کا تقاضا یہ ہے جناب کہ ایسے بھاری دعوے کی وکالت کوئی کسان نہیں کر سکتا۔ بَہ نامِ خدا، جناب یہیں تھم جائیے۔ اس کو گھر بھیج دیجیے اور اسے کوئی اچھا سا وکیل اپنے ساتھ لانے کا موقع دیجیے۔
ڈینفورتھ: (صبر سے) کیا بات کر رہے ہو، مسٹر ہیل۔
ہیل: عالی مرتبت، میں نے موت کے بہتر وارنٹوں پر دست خط کیے ہیں۔میں خداوند کا پادری ہوں۔ اور میں ایسے شفاف ثبوتوں کے بَہ غیر جن پر میرے ضمیر کو ذرہ برابر شک بھی نہ ہو کسی کی جان لینے کی ہمت نہیں کر سکتا۔
ڈینفورتھ: مسٹر ہیل، یقیناً، تمھیں میرے انصاف پر کوئی شبہ نہیں ہے۔
ہیل: آج صبح ہی میں نے ریبیکا نرس کی موت کے پروانے پر دست خط کیے ہیں۔ ابھی تک میرے ہاتھ کانپتے ہیں جیسے کسی نے چھیل دیے ہوں۔ میں آپ کی بِنتی کرتا ہوں کہ وکیلوں کو یہ دلائل پیش کرنے دیں۔
ڈینفورتھ: مسٹر ہیل، امید ہے تم معاف کر دو گے تم سے زیادہ آشفتہ حال عالم فاضل تو میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا۔ میں نے بتیس سال بار میں گزارے ہیں جناب، اور میں اس وقت بوکھلا جاؤں گا جب مجھے عوام کا دفاع کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے، جناب؟ اس بات پر غور کرو (پراکٹر اور دوسروں سے) تم سب بھی۔ ایک عام کیس میں ملزم کی صفائی کیسے پیش کی جاتی ہے؟ گواہوں کو بلا کر اس کی بے گناہی ثابت کی جاتی ہے۔ لیکن جادو ٹونا اِپسو فَیکٹو ہے، یعنی بہ ظاہر بھی اور بہ نوعیت بھی، نا قابلِ دید جرم ہے۔ ایسا نہیں کیا؟ اس کے ممکنہ گواہ کون ہیں؟ ڈائن اور ڈائن کا ستم زدہ۔ اور کوئی نہیں۔ اب ہم یہ توقع تو نہیں کر سکتے کہ ڈائن خود پر الزام عائد کرے گی۔ ٹھیک؟ اس لیے ہمیں اس کے شکار ہوئے لوگوں پر بھروسا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ بے چارے ستم زدے شہادتیں دیتے ہیں، اور بچیاں شہادتیں دے رہی ہیں۔ اور رہی ڈائنیں، کوئی نہیں انکار کر سکتا کہ ہم ان کے اقرارِ جرم کے لیے بے قرار ہیں۔ اب اس معاملے میں کوئی وکیل کیا کرے گا؟ میرے خیال میں نے اس نُکتے کی وضاحت کر دی ہے۔ نہیں کی؟
ہیل: لیکن یہ بچی مدعی ہے کہ دوسری بچیاں سچ نہیں بول رہیں۔ اور اگر وہ سچ نہیں بول رہیں …
ڈینفورتھ: بالکل اسی بات پر میں غور کرنے لگا ہوں۔ اور کیا کر سکتا ہوں؟ تمھیں کیا میری لیاقت پر شک ہے ؟
ہیل: (ہار گیا ہے) نہیں جناب۔ آپ اس نکتے پر غور فرمائیں۔
ڈینفورتھ: اور آپ تسلی رکھیں۔ اس کا حلفیہ بیان مسٹر پراکٹر۔
(پراکٹر پرچہ اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ ہتھورن اٹھتا ہے، ڈینفورتھ کے پاس جاتا ہے، اور حلف نامہ پڑھتا ہے۔ پیرس دوسری طرف سے آ جاتا ہے۔ ڈینفورتھ جان پراکٹر کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتا ہے۔ پھر پڑھنے لگتا ہے۔ ہیل بھی اٹھتا ہے، ڈینفورتھ کے پاس ایک مقام پر کھڑے ہو کر وہ بھی حلف نامہ پڑھتا ہے۔ پراکٹر جائلز سے نگاہیں ملاتا ہے۔ فرانسس ہاتھ باندھے دعائیں پڑھتا رہتا ہے۔ چیور بے تاثر، فرض شناس، سرکاری انداز میں مستعد ہے۔ میری وارن ایک بار سسکتی ہے۔ پراکٹر اس کا سر چھو کر اسے دلاسا دیتا ہے۔ اب ڈینفورتھ اپنی نظریں اٹھاتا ہے۔ رومال نکال کر ناک صاف کرتا ہے۔ جب وہ کھڑکی طرف بڑھتا ہے تو دوسرے کھڑے ہو جاتے ہیں۔)
پیرس: (اپنی خفگی اور خوف نہیں چھپاتا) میں ایک سوال پوچھنے کی اجازت …
ڈینفورتھ: (پہلی دفعہ غصے سےپھٹ پڑتا ہے اور اس غصے میں پیرس کے لیے تحقیر عیاں ہے) مسٹر پیرس میں حکم دیتا ہوں، خاموش رہو۔ (خاموش کھڑا رہتا ہے۔ لیکن ابے اسے یقین ہے کہ مقدمے کی کارِ روائی کی رفتار وہ خود طے کرے گا۔) مسٹر چیور، کورٹ میں جاؤ اور بچیوں کو یہاں لے آؤ۔ (چیور اٹھتا ہے اور باہر جانے لگتا ہے۔ ڈینفورتھ میری کی طرف پلٹتا ہے) میری وارن، تم نے کیسے اپنی بات بدل لی؟ مسٹر پراکٹر نے اس بیان کے لیے تمھیں دھمکایا تو نہیں؟
میری وارن: نہیں جناب۔
ڈینفورتھ: کبھی بھی نہیں دھمکایا؟
میری وارن: (کمزور پڑنے لگتی ہے) نہیں جناب، کبھی بھی نہیں۔
ڈینفورتھ: (کم زوری بوجھ لیتا ہے) کیا اس نے تمھیں دھمکیاں دی ہیں؟
میری وارن: نہیں جناب۔
ڈینفورتھ: پھر مجھے یہ بتاؤ کہ ایسی کیا بات تھی کہ تم میری عدالت میں بیٹھی جھوٹ بَکتی رہیں جب کہ تمھیں پتا تھا تمھاری جُھوٹی شہادتوں کے نتیجے میں لوگوں کو پھانسیاں بھی ہو جائیں گی۔ ایسے کیوں کیا؟ (وہ خاموش رہتی ہے) کیا کہ نہیں؟
میری وارن: کیا، جناب۔
ڈینفورتھ: تمھاری کیسی تربیت ہوئی ہے؟ تمھیں نہیں پتا کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت برستی ہے۔ (وہ بول نہیں پاتی) یا جھوٹ تم اب بول رہی ہو؟
میری وارن: نہیں جناب، اب میں خدا کے ساتھ ہوں۔
ڈینفورتھ: خدا کے ساتھ ہو؟
میری وارن: ہاں، جناب۔
ڈینفورتھ: (خود کو تھامتے ہوئے) میں کہتا ہوں کہ یا تو تم اب جھوٹ بول رہی ہو، یا پھر تم کورٹ میں جھوٹ بول رہی تھیں۔ دونوں صورتوں میں جھوٹی گواہی تو تم نے دی ہے۔ اور تم جیل تو جاؤ گی۔ تم آسانی یہ نہیں کہہ سکتی کہ تم نے جھوٹ کہا تھا۔ تمھیں کچھ اس کی خبر ہے؟
میری وارن: اب اور جھوٹ میں نہیں بول سکتی۔ میں خدا کے ساتھ ہوں۔ میں خدا کے ساتھ ہوں۔
(لیکن جیل جانے کے خوف سے ہی وہ سسکنے لگتی ہے۔ دایاں دروازہ کھلتا ہے۔ اور سوزانا والکاٹ، مرسی لیوس، بیٹی پیرس اور آخر میں ایبی گیل اندر آتی ہیں۔ چیور ڈینفورتھ کے پاس آتا ہے)
چیور: روتھ پٹنم عدالت میں موجود نہیں ہے۔ دیگر بچیاں بھی نہیں ہیں۔
ڈینفورتھ: اتنی ہی کافی ہیں۔ بچیو، بیٹھ جاؤ۔ (خاموشی سے وہ بیٹھ جاتی ہیں) تمھاری سہیلی میری وارن نے ہمیں ایک بیان دیا ہے۔ اس بیان میں وہ قسم اٹھا کر کہتی ہے کہ اس نے جانی پہچان آتمائیں، بھوت اور شیطان کا کوئی روپ کبھی بھی نہیں دیکھا۔ اور وہ دعوے سے کہتی ہے کہ تم لوگوں نے بھی ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ (تھوڑا تھم جاتا ہے۔) بچیو، یہ قانون کی کچہری ہے۔ اور اس قانون کی بنیاد انجیل ہے اور انجیل خدائے مقتدر نے خود لکھی ہے، اور جادو ٹونے پر پا بندی عائد کر تی ہے اور اس پا بندی کی سزا موت مقرر کرتی ہے۔ اسی طرح، بچیو، جھوٹے گواہ انجیل اور قانون کے مردود و ملعون ہیں۔ (پھر تھم جاتا ہے) اب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ بیان ہماری بصیرت اور بینائی برباد کرنے کے لیے مرتب ہوا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری وارن شیطان کی مفتوحہ ہو جس نے اسے ہمیں ہمارے مقدس مقاصد سے ہٹانے کے لیے بھیجا ہو۔ اگر ایسا ہے تو اس کی گردن ٹوٹے گی۔ اگر وہ سچی ہے تو میں تمھیں حکم دیتا ہوں اپنا یہ مکر ترک کردو اور اپنی بناوٹوں کا اقرار کر لو کہ سرعت سے کیا گیا اقرار تم پر سہل ہو گا۔ (رکتا ہے) ایبی گیل ولیمز، کھڑی ہو جاؤ، (ایبی گیل کھڑی جاتی ہے) اس بیان میں کچھ سچائی ہے کی؟اَ
ایبی گیل: نہیں جناب۔
ڈینفورتھ: (سوچتا ہے، میری پر نگاہ ڈالتا ہے اور پھر ایبی گیل پر) بچیو، جب تک تم اپنی معصومیت ثابت نہیں کرتیں، تمھاری روحوں میں کچھ خاص لوٹ پلٹ جائے گا۔ تم لوگ اپنی بات بدلتی ہو یا میں تم سے سخت سوالات پوچھوں؟
ایبی گیل: میرے پاس بدلنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ جھوٹی ہے۔
ڈینفورتھ: (میری سے) تم اپنی بات پر قائم ہو۔
میری: ہلکی سی آواز میں) جی جناب۔
ڈینفورتھ: (ایبی گیل کی طرف پلٹتے ہوئے) مسٹر پراکٹر کے گھر میں ایک گڑیا پائی گئی تھی جس میں ایک سوئی دھنسی ہوئی تھی۔ میری وارن مدعی ہے کہ جب اس نے یہ گڑیا بنی تھی، تم نے اسے یہ گڑیا بناتے ہوئے بھی دیکھا تھا اور تم اس بات کی بھی شاہد ہو کہ میری نے گڑیا کے تحفظ کی خاطر سوئی بھی گڑیا میں دھنسائی تھی کیوں کہ اس وقت عدالت میں تم میری کے پاس بیٹھی تھیں۔ تمھارا کیا مؤقف ہے؟
ایبی گیل: (تھوڑی سی تحقیر کا مظاہرہ کرتے ہوئے) یہ جھوٹ ہے جناب۔
ڈینفورتھ: (مختصر سے وقفے کے بعد) جب تم مسٹر پراکٹر کے گھر کام کرتی تھیں۔ کیا تم نے وہاں ایسی لعبتیں دیکھیں؟
ایبی گیل: بیگم پراکٹر کے پاس ایسی بہت سی گُڑیائیں ہیں۔
پراکٹر: میری بیوی کے پاس ایسی کوئی گڑیا کبھی نہیں تھی۔ میری نے اعتراف کیا ہے کہ یہ گڑیا اس کی ہے۔
چیور: عالی مرتبت، جناب۔
ڈینفورتھ: مسٹر … چیور۔
چیور: جب میری بیگم پراکٹر سے ان کے گھر میں بات ہوئی تھی تو اس نے کہا تھا کہ وہ اپنے پاس کسی قسم کی لعبتیں نہیں رکھتی۔ لیکن اس نے اعتراف کیا تھا کہ لڑکپن میں اس کے پاس ایسی گُڑیائیں ہوتی تھیں۔
پراکٹر: لڑکی وہ پندرہ سال پہلے تھی، جنابِ عالی۔
ہیتھورن: مگر ایک ایسی گڑیا پندرہ سال تک محفوظ رکھی تو جا سکتی ہے۔
پراکٹر: رکھی جا سکتی ہے، رکھی گئی بھی ہے مگر میری حلف دیتی ہے کہ اس نے میرے گھر میں ایسی کوئی گڑیا کبھی نہیں دیکھی نہ کسی اور کے گھر میں۔
پیرس: ایسی گڑیائیں کسی محفوظ مقام پر چھپائی بھی تو جا سکتی تھیں جہاں کوئی انھیں دیکھ نہ پاتا۔
پراکٹر: (طیش میں) میرے گھر میں شاید ایک پانچ ٹانگوں والا اَژدہا بھی ہو لیکن یہ اژدہا کسی نے نہیں دیکھا۔
پیرس: جنابِ عالی، ہم یہاں موجود ہی اسی غرض سے تو ہیں کہ وہ دیکھیں جو پہلے کسی نے نہیں دیکھا۔
پراکٹر: مسٹر ڈینفورتھ، اس لڑکی کو سچ بولنے کا کیا فائدہ ہے؟ میری وارن کو سخت سوالوں اور شاید اس سے بھی کچھ شدید کے علاوہ سچ بولنے سے کیا ملے گا؟
ڈینفورتھ: مسٹر پراکٹر، تم ایبی گیل ولیمز پر قتل کی ایک ماہرانہ اور مستعد سازش کا الزام عائد کر رہے ہو؟ کیا تمھیں اس بات کا اندازہ ہے؟
پراکٹر: ہے جناب اور یہ قتل کرنا چاہتی ہے۔
ڈینفورتھ: (بے یقینی سے ایبی گیل کی طرف دیکھتے ہوئے) یہ بچی تمھاری بیوی کی جان لینا چاہتی ہے؟
پراکٹر: یہ بچی نہیں ہے۔ میری بات سنیں۔ مَجمَع کے سامنے اس سال اسے دو دفعہ مناجات کے دوران ہنسنے کے جرم میں مجلس خانے سے نکال دیا گیا تھا۔
ڈینفورتھ: (دَنگ ہو کر ایبی گیل کی طرف پلٹتے ہوئے) کیا؟ کیا؟ ہنسی، مناجات کے دوران۔
پیرس: عالی مرتبت، اس وقت ایبی گیل تیتیوبا کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔ مگر اب یہ ٹھیک ہے۔
جائلز: اور ٹھیک ہوکر لوگوں کو پھانسیاں دلوا رہی ہے۔