کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ دوئم)
ترجمہ، نصیر احمد
ایبی گیل: آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، چاچو؟
پیرس: اگر اس افرا تفری کے عالم میں یہ خبر جاری ہوئی کہ میرا تو اپنا گھر ہی بد کاری کا مرکز ہے، اور بادیے میں بھیانک پاپ کیے جاتے ہیں…
ایبی گیل: ہم لوگ صرف کھیل رہی تھیں ،چاچو۔
پیرس: (بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،) یہ تمھارا کھیل ہے؟ (وہ نظریں نیچی کرلیتی ہے۔ پیرس منت کرتا ہے) ایبی گیل اگر تم کچھ جانتی ہو تو خدا کے لیے مجھے بتا دو، شاید ڈاکٹر کا کام کچھ آسان ہو جائے۔ (ایبی گیل خاموش رہتی ہے) میں جب پہنچا تو تیتیوبا آتش پہ اپنے بازو لہرا رہی تھی۔ وہ ایسا کیوں کیے جا رہی تھی؟ وہ دل دوز کرخت چیخیں بھی چیخے جا رہی تھی اور اس کے مُنھ سے منتر بھی پھوٹ رہے تھے۔ وہ کسی گھامڑ سے درندے کی طرح آتش پہ کود بھی رہی تھی۔
ایبی گیل: وہ بارباڈوس کے گیت گاتی ہے اور ہم ناچتی ہیں۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔
پیرس: ایبی گیل، اپنا دیکھا میں بھلا نہیں سکتا۔ میرے دشمن بھی بات جانے نہیں دیں گے۔ اور پھر گھاس پر وہ لباس کس لیے پڑا تھا؟
ایبی گیل: (معصومیت سے) لباس؟
پیرس: آہ میں کیسے کہوں؟ ایک لباس اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے پیڑوں کی جانب کسی کو ننگا بھاگتے بھی دیکھا تھا۔
ایبی گیل: (دہشت زدہ ہو کر) ننگا تو کوئی نہیں تھا۔ آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے، چاچو۔
پیرس: (غصے سے) میں نے یہ سب دیکھا (ایبی گیل سے ہٹ کر ہمت باندھتے ہوئے) مجھے سچی بات بتاؤ، ایبی گیل۔ کاش تمھیں اپنے آپ پر سچائی کے بوجھ احساس ہو؟ میرا منصب خطرے میں ہے۔ میرا منصب اور تمھاری کزن کی زندگی۔ جو بھی گھناؤنا پاپ تم نے کیا ہے، مجھے سب سچ بتا دو۔ کم از کم مجھے سچ کا علم تو ہو، جب میں ان سب کا سامنا کروں۔
ایبی گیل: میں قسم دیتی ہوں، چاچو، کھیلنے کے سوا ہم نے کچھ نہیں کیا۔
پیرس: (اثبات میں سر ہلاتا ہے جیسےایبی گیل سے آدھا ادھورا متفق بھی ہو گیا ہے) پچھلے تین سال میں ان آکڑ خانوں کی گردنیں میں نے تھوڑی بہت جھکا لیں ہیں، اور یہ میری کچھ عزت بھی کرنے لگے ہیں، تم نے میرے کردار پر سوالیہ نشان بنا دیے ہیں۔ میری بچی، میں نے رہنے کو تمھیں گھر دیا ہے۔ پہننے کو تمھیں کپڑے دیے ہیں۔ تم بس مجھے میری بات کا سچا جواب دے دو۔ تمھارے کردار پر شہر میں حرف تو نہیں اٹھتے؟ مجھے سچ بتاؤ۔
ایبی گیل: (ذرا تندی سے) جناب، میرا کردار شفاف ہے، میں بد نام نہیں ہوں۔ میرے کردار پر کوئی انگلی اٹھائے تو سہی۔
پیرس: (اصل بات پر آ جاتا ہے) یاد ہے تمھیں بیگم پراکٹر نے نوکری سے نکال دیا تھا۔ تم نے ایک سبب مجھے بتایا تھا۔ کیا اس سبب کے علاوہ بھی کوئی سبب تھا جس کی بناء پر بیگم پراکٹر نے تمھیں نوکری سے نکالا؟ جیسے میں نے سنا ایسے ہی میں تمھیں بتا رہا ہوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ چرچ میں اس لیے شاذ و نادر ہی آتی ہے کہ اسےکسی ایسی کے پاس بیٹھنا نہ پڑے جو آلودہ ہے۔ اس بات کے کیا معانی ہیں؟
ایبی گیل: وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے کیوں کہ میں اس کی باندی نہیں بنی۔ وہ ایک جلنے کڑھنے والی، سنگ دل، جھوٹی اور روتی دھوتی خاتون ہے۔ اور میں ایسی کسی ناری کی باندی نہیں بن سکتی۔
پیرس: ہو سکتا ہے وہ ایسی ہی ہو؟ لیکن یہ بات مجھے چبھتی ہے کہ پچھلے سات مہنیوں میں جب سے تم نے وہ نوکری چھوڑی کسی اور کنبے نے بھی تمھیں کام نہیں دیا؟
ایبی گیل: انھیں باندیاں چاہییں، میرے جیسی نہیں۔ جائیں بارباڈوس سے باندیاں خرید لائیں۔ میں ان کے لیے اپنا مُنھ کالا کیوں کروں؟ (پیرس پر اپنی خُفتہ تندی واضح کرتے ہوئے) کیا آپ کو میرے یہاں رہنے سے کچھ تکلیف ہے؟
پیرس: نہیں نہیں۔
ایبی گیل: (غصہ دکھاتے ہوئے) گاؤں میں میرا نام شفاف ہے۔ میرا کردار خراب نہیں ہے۔ بیگم پراکٹر ایک گپ باز جھوٹی ہے۔
(این پٹنم اندر آتی ہے، ایک چالیس سالہ مڑے تڑے ذہن والی، موت اس نے بہت سہی ہے اور برے سپنے اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔)
پیرس: (جیسے ہی دروازہ کھلتا ہے) نہیں نہیں، اس سمے اندر مت آؤ (اسے دیکھ پیرس کے احترام کے جذبات اجاگر ہو جاتے ہیں لیکن پریشانی موجود رہتی ہے) ارے بیگم پٹنم، آؤ، اندر آ جاؤ
بیگم پٹنم: یا حیرت۔ آپ پر تو جہنم سے بھی کڑا وقت آن پڑا ہے۔
پیرس: نہیں بیگم پٹنم۔ بات یوں ہے…
مسز پٹنم: (بیٹی Betty پہ نگاہ ڈالتے ہوئے) کتنا اونچا یہ اڑی؟ کتنا اونچا؟
پیرس: ارے یہ تو اڑی ہی نہیں۔ بالکل نہیں۔
مسز پٹنم: (لطف لیتے ہوئے) ایسا کیا؟ بالکل اُڑی ہے۔ مسٹر کالنز نے اسے انگرسول کے باڑے پر سے اڑتے دیکھا ہے۔ وہ کہتا ہے پنچھی جیسی سبک پرواز کرتے ہوئے نیچے آئی ہے۔
پیرس: بیگم پٹنم، یہ نہیں اڑی۔ (ٹامس پٹنم اندر آتا ہے، ایک پچاس سالہ، خوش حال سخت گیر زمین دار) ارے، صبح بخیر مسٹر پٹنم۔
پٹنم: تقدیر ہے، سب فاش ہو گیا ہے، تقدیر ہے۔ (وہ سیدھا بستر کی طرف چل پڑتا ہے)
پیرس: کیا فاش ہوا ہے؟ کیا؟ …
مسز پٹنم بستر کے پاس جاتی ہے۔
پٹنم: (بَیٹّی پہ نظریں جماتے ہوئے) اس کی تو آنکھییں بند ہیں۔ این، مسز پٹنم، دیکھو، منظرے عجبے۔ ہماری کی تو کھلی ہیں۔
پیرس: (جیسے کسی نے اسے جھنجھوڑ دیا ہو) تمھاری رُوتھ بیمار ہے؟
مسز پٹنم: (برائی بھرے تیقن سے) بیمار تو نہیں کہہ سکتی کہ شیطان کا چھونا بیماری سے بد تر ہے۔ موت ہے، جانتے ہو، شیطان کے کانٹوں اور ٹھوکروں سے بھری موت جو ان لڑکیوں کے اندر گھسے جا رہی ہے۔
پیرس: آہ، خدا نہ کرے، رُوتھ کو کس مرض نے آن گھیرا ہے؟
مسز پٹنم: بیمار نہ ہو تو کیا کرے؟ وہ سویرے سے جاگی نہیں مگر اس کی آنکھیں کھلی ہیں۔ وہ اٹھ کر چلتی تو ہے مگر دیکھتی نہیں، سنتی نہیں، اور کھاتی کچھ نہیں۔ اس کی آتما پکڑی گئی ہے۔
پیرس: (مضروب سا ہو گیا ہے)
پٹنم: (تفصیلات کی تلاش میں) سنا ہے آپ نے عزت مآب ہیل کو بیورلی سے بلوایا ہے۔
پیرس: (ٹوٹتے ہوئے تیقن سے) :محض حفاظتی تدبیر۔ عِفریِتی فنون میں وہ مجھ سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں اور میں …
مسز پٹنم: واقعی وہ تجربہ رکھتے ہیں اور یاد رہے انھوں نے بیورلی میں پچھلے سال ایک ڈائن بُوجھ بھی لی تھی۔
پیرس: بیگم پٹنم، انھیں محض شُبہ ہوا تھا کہ وہ ڈائن ہے۔ مجھے یقین ہے یہاں جادو ٹونا نہیں ہو رہا۔
پٹنم: کوئی جادو ٹونا نہیں ہو رہا؟ مسٹر پیرس دیکھیے جناب …
پیرس: ٹامس، ٹامس، جادو ٹونے پر نہ جھپٹو۔ میں جانتا ہوں کم از کم، ٹامس، تم تو مجھ پر ایسا تباہ کن الزام عائد کرنا نہیں چاہو گے۔ ہم جادو جنتر کی سمت نہیں بڑھ سکتے۔ میرے گھر میں ایسی آلودگی کی موجودگی میں لوگ تو آسمان سر پر اٹھا کر مجھے سیلیم سے نکال باہر کریں گے۔
یہاں پٹنم کے بارے میں کچھ بتاتا چلوں۔ پٹنم کو زمانے سے بہت شکایتیں تھیں جن میں سے ایک کچھ روا لگتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس کی بیوی کے رشتہ دار جیمز بیلی کو پادری بنانے سے لوگوں نے انکار کر دیا تھا۔ بیلی چرچ کی امامت کے لیے ایک مناسب امید وار تھا اور اس کے پاس دو تہائی اکثریت کے ووٹ بھی تھے، لیکن ایک گروہ نے اس کی شدید مخالفت کی تھی جس کے اسباب واضح نہیں ہیں۔
پٹنم گاؤں کے امیر ترین شخص کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ وہ ہندیوں کے خلاف نیرا گینسیٹ کی جنگ میں بھی لڑا تھا، اور وہ چرچ کے معاملات میں بھی بہت دل چسپی رکھتا تھا۔ بِلا شُبہ اسے شکایت تھی کہ گاؤں کے لیے اس کی خدمات کا ٹھیک طرح سے احترام نہیں کیا گیا۔ گاؤں والوں نے اس کے چرچ کی امامت کے امید وار کو بے دردی سے مسترد کر دیا تھا۔ اس کا یہ دکھ اور بھی بڑھ جاتا جب وہ یہ سوچتا کہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے وہ کہیں زیادہ دانا بھی تو ہے۔
اس کی انتقامی ذہنیت تو ڈائنوں کے شکار کے قضیے سے پہلے ہی آشکار ہو گئی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ ایک سابق پادری جارج بروز کو اپنی بیوی کی تدفین کے لیے قرض لینا پڑا تھا۔ چُوں کہ گاؤں والے جارج بروز کو تنخواہ دینے میں غفلت کر دیتے تھے۔ اتنی غفلت کہ جارج بروز کا اس قرض کے بوجھ تلے دیوالیہ نکل گیا۔ ٹامس پٹنم اور اس کے بھائی جان نے اس بات کو لے کر جارج بروز کو جیل میں ڈلوا دیا، ان قرضوں کی عدم ادائیگی کی پاداش میں جو بنیادی طور پر جارج بروز نے لیے ہی نہیں تھے۔ اور یہ نا انصافی اس لیے پٹنم نے کی کہ اسے بیلی کے پادری نہ بننے پر اور جارج بروز کے پادری بننے پر تکلیف تھی۔
ٹامس پٹنم کے خیال میں گاؤں والوں نے بیلی کو مسترد کر کے اس کے گھرانے کےنام پر دھبہ لگانے کی کوشش کی تھی اور ٹامس پٹنم جب بھی ممکن ہوتا یہ داغ مٹانے کی کوشش کرتا۔
ٹامس پٹنم کو تلخیوں سے بھرا سمجھنے کی ایک اور وجہ بھی تھی کہ اس نے اپنے والد کی وصیت بھی مٹانے کی کوشش تھی جس میں اس کے خیال میں اس کے والد نے پٹنم کے ایک سوتیلے بھائی کو نا مناسب حصہ دے دیا تھا۔
اس لیے یہ اتنی حیران کن بات نہیں ہے کہ لوگوں کے خلاف بہت سارے الزامات ہمیں پٹنم کی ہینڈ رائٹنگ میں ہی ملتے ہیں اور اس کا نام بہت ساری شہادتوں میں ما ورائے فطرت واقعات کی تصدیق کرنے والوں میں شامل ہے۔ یہ بھی اتنی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ اس کی دُختر ڈائنوں کے خلاف مقدموں کے فیصلہ کن مرحلوں پر زار و قطار گِریہ کرتی تھی۔ وقت آنے پر وہ احوال بھی میں آپ کو بتاؤں گا۔
پٹنم: (اس لمحے تو پیرس کے پیچھے پڑا ہے۔ پیرس کو وہ حقیر جانتا ہے اور اسے پاتال میں دھکیلنے کا آرزو مند ہے) مسٹر پیرس، آپ کے نقطۂِ نظر کا مجھے بہت خیال ہے، لیکن اگر آپ کچھ چھپائیں گے تو میں بات کی تہہ تک پہنچ کر رہوں گا کیوں کہ درد پہنچانے والی انتقامی بد رُوحیں ان بچوں پر حملہ آور ہوئی ہیں۔
پیرس: لیکن جناب، یہ آپ نہیں کر سکتے…
پٹنم: این، مسٹر پیرس کو اپنا حال تو بتاؤ۔
مسز پٹنم: جناب پیرس، میں اپنے سات بچے بپتسمے بنا دھرتی میں دفنا چکی ہوں۔ یقین کیجیے، اتنے صحت مند بچے تو کسی نے دیکھے بھی نہ ہوں گے۔ لیکن ہر ایک بچہ اپنی پیدائش کی شب ہی میری بانہوں میں بکھر گیا۔ میں نے کچھ کہا تو نہیں مگر میرا دل اشارے پا کر چلاتا رہا ہے۔ اور اب، اس برس، میری رُوتھ، میری اکلوتی… کچھ عجیب سی ہو گئی ہے۔ باتیں چھپانے لگی ہے اور چوستے مُنھ کی طرح سکڑ گئی ہے۔ جان ہارنے لگی ہے۔ میں اسے آپ کی تیتیوبا کی طرف بھیجنے لگی …
پیرس: تیتیوبا کی طرف؟ تیتیوبا کیا کرتی …
مسز پٹنم: تیتیوبا مردوں سے کلام کرنا جانتی ہے۔
پیرس: بیگم این، مردے جگانا تو گناہِ کبیر ہے۔
مسز پٹنم: یہ گناہ میں اپنے سر لیتی ہوں، مگر مجھے کیسے پتا چلتا کہ میرے بچے کس نے مارے؟
پیرس: (دہشت زدہ ہو کر) خاتون۔
مسز پٹنم: وہ قتل ہوئے تھے۔ مسٹر پیرس، میرے پاس ثبوت ہے، ہاں ثبوت۔ پچھلی رات میری رُوتھ ان کی چھوٹی چھوٹی روحوں کے قریب تھی۔ مجھے پتا ہے، جناب مجھے بتائیں تو سہی کہ اس نے کیوں چپ سادھ لی اگر تِیرگی کی طاقتوں نے اس کا مُنھ بند نہیں کیا مسٹر پیرس؟
پٹنم: جناب کیا اب بھی آپ کے پَلّے نہیں پڑ رہی؟ ہمارے درمیان ایک قاتل ڈائن موجود ہے جو خود کو اندھیرے میں چھپائے رکھتی ہے (پیرس بیٹی کی طرف دیکھتا ہے اور جنونی خوف اسے آ لیتا ہے) آپ کے دشمن جو چاہیں سوچیں، آپ اب بات چھپا نہیں سکتے۔
پیرس: (ایبی گیل سے) تو تم پچھلی رات روحیں جگا رہی تھیں۔
ایبی گیل: میں نہیں جناب، تیتیوبا اور رُوتھ۔۔۔۔۔
پیرس: (نئے خوف کے سنگ، مڑتا ہے، بیٹی کی طرف جاتا ہے، اس پہ نگاہیں ڈالتا ہے اور پرے دیکھنے لگتا ہے) آہ ایبی گیل، میری سخاوت کا صیحیح صلہ؟ میں تو اجڑ گیا۔
پٹنم: تم ابھی اجڑے نہیں، ابھی سنبھل جاؤ۔ اس سے پہلے تم پر کوئی الزام دھرے، تم سب کو بتا دو کہ تم نے گاؤں میں جادو ٹونا دریافت کر لیا ہے۔
پیرس: میرے گھر میں ٹامس، میرے گھر میں؟ وہ تو مجھے الٹا دیں گے۔ کیا کیا کچھ کہیں …
مرسی لیوس اندر آتی ہے۔ پٹنم کی ملازمہ، اٹھارہ سال کی موٹی، مکار اور بے رحم لڑکی۔
مرسی: معافی چاہتی ہوں۔ میں نے سوچا بیٹی کو دیکھ آؤں …
پٹنم: گھر پر کون ہے؟ رُوتھ کے ساتھ؟
مرسی: اس کی دادی ہیں۔ رُوتھ کچھ بہتر ہو گئی ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے پوری قوت سے چھینکی بھی تھی۔
مسز پٹنم: شکر ہے، کچھ زندگی کے آثار تو ہیں۔
مرسی: بیگم پٹنم، اب ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ وہ ایک بھر پُور چھینک تھی۔ ایک اور بار ایسا چھینکی تو اس کے جوڑ ہل جائیں گے، سچی۔ (وہ بستر کی طرف جاتی ہے۔)
پیرس: ٹامس، تھوڑی دیر کے لیے مجھے تنہا چھوڑ دو، میں نے عبادت کرنی ہے۔
ایبی گیل: چاچو، آپ رات بھر عبادت کرتے رہے ہیں۔ ایسا کریں تھوڑی دیر کے لیے نیچے چلے جائیں۔
پیرس: نہیں نہیں (پٹنم سے) ابھی بھیڑ کے لیے میرے پاس کوئی اتر نہیں ہے۔ میں مسٹر ہیل کا انتظار کرتا ہوں (مسز پٹنم سے رخصت لینے کی سعی کرتا ہے) اگر آپ کی اجازت ہو بیگم پٹنم۔
پٹنم: جناب، شیطان پر دھاوا بولو گے تو گاؤں تمھیں سر آنکھوں پر بٹھائے گا۔ نیچے چلو، ان سے بات کرو، ان کے سنگ دعائیں کرو، وہ تو آپ کے چند لفظوں کے پیاسے ہیں۔
پیرس: (متاثر ہو کر) میں مناجات میں ان کی امامت کروں گا لیکن ابھی ان سے جادو ٹونے کی کوئی بات نہ کرنا۔ میں اس موضوع پر ابھی کچھ نہیں کہوں گا کہ ابھی اسباب معلوم نہیں۔ جب سے یہاں آیا ہوں، جھگڑ ہی تو رہا ہوں۔ اب اور نہیں۔
مسز پٹنم۔ مرسی، تم گھر روتھ کے پاس جاؤ۔ سن رہی ہو۔
مرسی: ہاں اماں۔
(مسز پٹنم چلی جاتی ہے)
پیرس: (ایبی گیل سے) اگر یہ کھڑکی کی طرف بھاگے تو مجھے پکار لینا۔
ایبی گیل: جی چاچو، میں ضرور پکاروں گی۔
پیرس: (پٹنم سے) اس کے بازوؤں میں آج بہت دم ہے (اور پٹنم کے ساتھ باہر چلا جاتا ہے)۔
ایبی گیل: (خوف بھری جھجک اس کے لہجے میں شامل ہے) روتھ کیسے بیمار ہو گئی۔
مرسی: حیرت ہی ہے، رات بھر مردوں کی طرح چلتی رہتی ہے۔
ایبی گیل: (مڑتی ہے، بیٹی کی اور جاتی ہے، اس کی آواز سے ڈر جھلک رہا ہے) بند کرو یہ سب، اٹھو بیٹی اٹھو۔
(بیٹی ہلتی ہی نہیں۔ مرسی بھی پاس آ جاتی ہے)
مرسی: ذرا اسے پیٹو تو سہی۔ میں نے تو رُوتھ کو خوب جھانپڑ مارے۔ پل بھر کے لیے وہ جاگ بھی گئی تھی۔
ایبی گیل: (مرسی کو روکتے ہوئے) نہیں، وہ اوپر آ جائے گا۔ سنو اگر کوئی پوچھے تو یہی بتانا کہ ہم صرف ناچی تھیں۔ میں نے یہی بتایا ہے۔
مرسی: ٹھیک ہے، کوئی اور بات؟
ایبی گیل: وہ جان گیا ہے کہ تیتیوبا نے رُوتھ کی بہنوں کو قبر سے جگانے کی کوشش کی تھی۔
مرسی: وہ اور کیا جانتا ہے؟
ایبی گیل: تمھیں اس نے ننگا بھی دیکھا تھا۔
مرسی: (ہاتھ بھینچ کر ڈری ہوئی ہنسی ہنستی ہے) خدایا
(میری وارن اندر آتی ہے، ایک سترہ سالہ، دبی ہوئی، بے وقوف، تنہا لڑکی)
میری وارن: اب ہم کیا کریں؟ گاؤں تو امڈ آیا ہے۔ میں فارم سے آ رہی ہوں۔ پورا علاقہ جادو ٹونے کی بات کر رہا ہے۔ ہمیں تو وہ ڈائنیں بنا دیں گے، ایبی۔
مرسی: (میری وارن کی طرف دیکھتے ہوئے اور اشارہ کرتے ہوئے) یہ تو سب بتا دے گی، میں جانتی ہوں۔
میری وارن: ہمیں بتا دینا چاہیے۔ ایبی، جھاڑ پھونک کی سزا پھانسی ہے جیسے دو سال پہلے انھوں نے بوسٹن میں پھانسی دی تھی۔ ہمیں سچ ضرور بتا دینا چاہیے۔ ہم ناچنے اور دیگر چیزوں کے جرم میں چند کوڑے ہی تو پڑیں گے۔
ایبی گیل: صرف مجھے نہیں ہمیں کوڑے پڑیں گے۔
میری وارن: دیکھنے کے سوا میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا ایبی۔
مرسی: (بد طینتی سے میری کی طرف بڑھتے ہوئے) تمھارے دیکھنے میں کتنی بڑائی ہے؟ ہے کہ نہیں میری وارن؟ تمھارا تاڑنا جھانکنا تو عظیم ہے؟ میں ابھی اس کی داد دیتی ہوں۔
(اسی دوران بستر پر پڑی بیٹی آہ بھرتی ہے اور ایبی گیل فوراً اس کی طرف پلٹتی ہے)
ایبی گیل: بیٹی (وہ بیٹی کی طرف جاتی ہے) میں ایبی گیل ہوں، پیاری بیٹی، اب جاگ بھی جاؤ۔ (وہ بیٹی کو بستر پہ بٹھا لیتی ہے اور اسے خوب جھنجھوڑتی ہے) بیٹی بیٹی، میں تمھیں پیٹوں گی (بیٹی آہ بھرتی ہے) ارے، تم کچھ اچھی ہو رہی ہو۔ میں نے تمھارے بابا کو سب بتا دیا ہے۔ کچھ ہے بھی نہیں …
(بیٹی اچھل کر ایبی گیل کے ڈر سے دیوار سے جا چمٹتی ہے) میری امی کو بلاؤ۔
ایبی گیل: (چو کنی سی ہو کر احتیاط سے بیٹی کی طرف بڑھتی ہے) تمھاری امی تو مر کر دفن بھی ہو چکی۔ تمھیں ہوا کیا ہے؟
بیٹی: میں اڑ کر امی کے پاس جاؤں گی (بانہیں پھیلا لیتی ہے جیسے اڑنے لگی ہو اور کھڑکی کی طرف بھاگتی ہے اور ایک ٹانگ کھڑکی سے باہر لٹکا لیتی ہے۔)
ایبی گیل: (بیٹی کو کھڑکی سے کھینچ لیتی ہے) میں نے اسے بتا دیا ہے، وہ جانتا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔
بیٹی: تم نے خون پیا تھا، ایبی۔ تم نے انھیں یہ تو نہیں بتایا۔
ایبی گیل: تم یہ کسی کو نہیں بتاؤ گی، کبھی بھی نہیں۔
بیٹی: تم نے پیا تھا، تم نے پیا تھا، دم ہوا خون، پراکٹر کی بیوی کو جان سے مارنے کے لیے۔
ایبی گیل: (بیٹی کے مُنھ پر تھپڑ کھینچ مارتی ہے) چپ، چپ
بیٹی: (بستر پر گر جاتی ہے) امی امی (اور سسکیاں بھرنے لگتی ہے۔)
(جاری ہے … )