کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ چہارم)
ترجمہ، نصیر احمد
ریبیکا: جان، مہر بانی کرو، دھیرج رکھو۔ (وہ اس کے احترام میں چپ ہو جاتا ہے) مسٹر پیرس، جیسے ہی محترم ہیل تشریف لاتے ہیں آپ انھیں واپس بھیج دیں۔ معاشرے میں بے کار کا بحث مباحثہ شروع ہو جائے گا۔ اس سال ہم نے وعدہ بھی تو کیا تھا کہ سکون سے جِئیں گے۔ میرے خیال میں ہمیں ڈاکٹر اور دعاؤں پر بھروسا کرنا چاہیے۔
مسز پٹنم: ریبیکا ڈاکٹر تو بوکھلا گیا ہے۔
ریبیکا: وہ بوکھلا گیا ہے مگر خدا تو ہے، ہمیں دعا کرنی چاہیے۔ بے پٹے کی بد روحیں کھوجنے میں بڑا خطرہ ہے۔ میں ڈر رہی ہوں، ڈر رہی ہوں، دوش ہمارا اپنا ہے… ۔
پٹنم: ہمارا کیا دوش؟ ہم نو بھائی ہیں اور اور پٹنم بیج نے یہ علاقہ آباد کیا ہے۔ پھر بھی میری آٹھ بچیوں میں سے صرف ایک بچی ہے۔ وہ بھی اب موت کی آغوش میں سکڑ رہی ہے۔
ریبیکا: دکھ کی یہ گہرائی میں نہیں ماپ سکتی۔
مسز پٹنم: (اس کے لہجے میں تمسخر فزوں ہوتا ہے) میں ماپ سکتی ہوں کہ مجھ پر بیتی ہے۔ کیا تم سمجھتی ہو کہ یہ خدا کی رضا ہے کہ تمھارا تو نہ کوئی بچہ مرے اور نہ ہی کوئی نواسہ نواسی اور نہ ہی کوئی پوتا پوتی اور میں اپنے سب بچے قبر میں اتاروں سوائے ایک کے؟ گاؤں میں چکروں کے بیچ چکر ہیں اور آتش کے بیچ آتش۔
پٹنم: (پیرس سے) جب محترم ہیل کی آمد ہو تو اچھا یہی ہے کہ آپ جادو ٹونے کے آثار تلاش کریں۔
پراکٹر: (پٹنم سے) تم اپنی مرضی مسٹر پیرس پر مت تھوپو۔ ہم یہاں ووٹ ناموں کے حساب سے دیتے ہیں ایکڑوں کے حساب سے نہیں۔
پٹنم: مسٹر پراکٹر، میں نے تو تمھیں معاشرے کے بارے میں اتنا متفکر نہیں دیکھا؟ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، تم تو برف گرنے کے بعد مجلس سبت میں آئے ہی نہیں۔
پروکٹر: میرے لیے اپنی مصیبتیں ہی کافی ہیں کہ میں پانچ میل طے کر کے یہاں ان کے آتشِ جہنم اور خونی تباہیوں کے بارے میں خطبے سننے کے لیے آؤں۔ برا مت مانیں مسٹر پیرس، علاقے میں اور بھی ہیں جو آپ کے خطبے سننے نہیں آتے کہ اب آپ ان خطبوں میں خدا کا ذکر ہی نہیں کرتے۔
پیرس: (مچلتے ہوئے کہتا ہے) یہ تو بہت سخت الزام ہے؟
ریبیکا: کچھ سچائی اس الزام میں ہے۔ اب تو بہت سارے لوگ بچے چرچ میں لانے سے ڈرنے لگے ہیں۔
پیرس: میں بچوں کی تبلیغ نہیں کرتا۔ بچے تو اپنے پادری کی طرف اپنے واجبات کو نظر انداز نہیں کرتے۔
ریبیکا: کیا واقعی یہ لوگ واجبات نظر انداز کر رہے ہیں؟
پیرس: میرے خیال میں سیلیم گاؤں کے آدھے سے زیادہ لوگ… ۔
پٹنم: بَل کہ اس سے بھی زیادہ۔
پیرس: میرا ایندھن کہاں ہے؟ میرے معاہدے میں لکھا ہے کہ آتش دان کے لیے مجھے لکڑیاں مہیا کی جائیں گی۔ نومبر سے لے کر اب تک ایک ڈالی بھی مجھے نہیں ملی۔ اور نومبر میں بھی لکڑیوں کے لیے مجھے اپنے پالے سے چھلے ہاتھ لندن کے کسی بھکاری کی طرح دکھانے پڑے تھے۔
جائلز: ایندھن خریدنے کے لیے آپ کو سالانہ چھ پاؤنڈز دیے تو جاتے ہیں، مسٹر پیرس۔
پیرس: وہ تو میری تنخواہ کا حصہ ہیں۔ پہلے ہی تنخواہ اتنی کم ہے اور اوپر سے یہ توقع ہے کہ میں چھ پاونڈز لکڑیاں خریدنے پر صرف کروں۔ کیا کہنے؟
پراکٹر: ساٹھ پاؤنڈز تنخواہ ہے، اور چھ پاؤنڈز لکڑیوں کے لیے ہیں۔
پیرس: تنخواہ چھیاسٹھ پاؤنڈز ہے، مسٹر پراکٹر۔ میں کوئی پینڈو تبلیغی نہیں ہوں جو بغل میں کتاب دابے گاؤں گاؤں مارا پھرتا ہے۔ میں ہاورڈ کالج کا گریجویٹ ہوں۔
جائلز: جسے ریاضی میں بہت مہارت حاصل ہے۔
پیرس: مسٹر کوری میرے جیسے عالم فاضل چھیاسٹھ پاؤنڈز میں نہیں ملتے۔ میں یہاں کی غریبی کا عادی نہیں ہوں۔ میں نے بارباڈوس میں خداوند کے لیے اپنا اچھا خاصا کار و بار ترک کر دیا ہے۔ میں ماپ نہیں پا رہا کہ یہاں میرے ساتھ زیادتی کیوں کی جا رہی ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں بھی شیطان ہی کارِ فرما ہے۔ اور کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ میں تم لوگوں کو سمجھ نہیں پا رہا۔
پراکٹر: مسٹر پیرس، آپ پہلے پادری ہو جس نے اس مکان کا بیع نامہ مانگا ہے۔
پیرس: مسٹر پراکٹر تو کیا پادری مکان میں رہنے کا مستحق نہیں ہے؟
پراکٹر: رہنے کا تو حق ہے مگر ملکیت کا مطالبہ تو ایسے ہے جیسے مجلس خانے کے ملکیتی حقوق بھی کسی فرد کو دے دیے جائیں۔ جب آخری بار میں نے چرچ میں آپ کا خطبہ سنا تو آپ نے بیع ناموں اور قسط وار قرضوں پر اتنی طویل گفتگو کی مجھے تو لگا کہ منڈی میں آ گیا ہوں۔
مسٹر پیرس: تم لوگوں کو مجھ پر اعتماد کرنا چاہیے۔ بس اتنی سی بات ہے۔ پچھلے سات سالوں میں میں تمھارا تیسرا پادری ہوں۔ میں نے چاہتا کہ تم لوگوں کی اکثریت جب چاہے مجھے کسی بلے کی طرح نکال باہر کرے۔ تم لوگوں کو یہ تفہیم نہیں ہو رہی کہ پادری گاؤں میں خداوند کا نائب ہوتا ہے۔ اور خداوند کے نائب کو نالاں کرنا اور اس کی بات کاٹنا، اس سے اختلاف کرنا آسان نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہیے۔
پٹنم: بے شک۔
پیرس: اطاعت نہیں ہو گی تو چرچ ایسے دہکے گا جیسے جہنم دہکتا ہے۔
پراکٹر: کیا آپ جہنم کو بیچ میں لائے بنا کوئی بات کر سکتے ہو۔ جہنم سے تو میں اُکتا گیا ہوں۔
پیرس: تم نے تو یہ طے نہیں کرنا ناں کہ تمھارے سننے کے لیے کیا اچھا ہے؟
پروکٹر: مگر میرے خیال میں میں اپنے دل کی تو کہہ سکتا ہوں۔
پیرس: (غضب ناک ہو جاتا ہے) ہم کوئی تھرتھرانے والے ہیں (عیسائیوں کا ایک فرقہ۔) ہم نے ابھی فرقہ نہیں بدلا۔ تم اپنے ماننے والوں کو بھی بتا دینا۔
پراکٹر: میرے ماننے والے؟
پیرس: (چھپی بات زبان پر لے آتا ہے) یہاں ایک جتھا اور ایک جماعت ہے۔ میں اندھا نہیں ہوں۔ گاؤں میں ایک اور جماعت ہے۔
پراکٹر: آپ کے مخالف؟
پٹنم: نہ صرف ان کے مخالف مگر ہر قسم کے مقتدروں کے مخالف۔
پراکٹر: تو ابھی میں انھیں ڈھونڈ کر ان میں شامل ہو جاتا ہوں۔
(سب کو جیسے کسی نے جھنجھوڑ دیا ہے۔)
ریبیکا: اس کے کہنے کا مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھنا چاہ رہے ہیں۔
پٹنم: اعتراف تو اس نے کر لیا۔
پراکٹر: میں نے جو کہا ہے سنجیدگی سے کہا ہے ریبیکا۔ مجھے تو مقتدروں کی بو ہی نہیں بھاتی۔
ریبیکا: تم اپنے پادری سے حسنِ سلوک نہیں توڑ سکتے۔ جاؤ، ان کے ہاتھ تھام لو اور صلح کر لو۔
پراکٹر: مگر میں نے فصلیں بونی ہیں اور شہتیر ڈھونے ہیں۔ (غصے میں دروازے کی طرف جاتا ہے، کوری کی طرف پلٹ کر دیکھتا ہے اور مسکراتا ہے) جائلز، آؤ وہ جماعت ڈھونڈیں، جناب کہتے ہیں کہ جماعت تو ہے۔
جائلز: ان کے بارے میں میری رائے بدل گئی ہے، جان۔ مسٹر پیرس، معافی کا خواست گار ہوں، مجھے نہیں علم تھا کہ آپ اصولوں کے اتنے پکے ہیں۔
پیرس: (حیران ہو کر) شکریہ جائلز۔
جائلز: سالوں کی تکلیفیں دھیان میں آ رہی ہیں۔ (سب سے) لوگ ایک دوسرے کے خلاف مقدمے کر رہے تھے۔ سوچو، بڑی گہری بات ہے، کنویں سے بھی زیادہ اندھیری۔ اس سال مجھے چھ دفعہ عدالت میں پیش ہونا پڑا۔
پراکٹر: (شناسا گرم جوشی سے کہتا ہے اگر چِہ وہ جانتا ہے کہ جائلز کوری کا صبر کا پیمانہ چھلکنے کو ہی ہے) تو یہ بھی شیطان کا کیا دھرا ہے کہ تم سے کوئی بہتان سہے بَہ غیر سلام دعا بھی نہیں کر سکتا۔ تم بوڑھے ہو گئے ہو جائلز۔ اور اب تمھیں سنائی بھی کم دیتا ہے۔
جائلز: (جس سے الٹی سیدھی بات نہیں کی جا سکتی) جان پراکٹر، ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا کہ مجھے معاوضے میں عدالت نے چار پاؤنڈز دلوائے کیوں کہ تم جگہ جگہ کہتے پھر رہے تھے کہ میں نے تمھارے مکان کی چھت غائب کر دی تھی۔ اور میں… ۔
پراکٹر: (ہنستے ہوئے) میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا مگر تمھیں معاوضہ مل گیا۔ اب تو میں تمھیں کسی معاوضے کے بنا ہی بہرا کہہ سکتا ہوں۔ اب میرے ساتھ آؤ اور شہتیر کھینچنے میں میری مدد کرو۔
پٹنم: ٹھہرو مسٹر پراکٹر، یہ کون سے شہتیر تم ڈھو رہے ہو۔
پراکٹر: دریا کے کنارے میرے اپنے جنگل کے شہتیر۔
پٹنم: اب کے برس ہم پگلا ہی گئے ہیں۔ یہ کیسا انتشار ہے؟ وہ قطعہ تو میرے نام پر ہے مسٹر پراکٹر۔
پراکٹر: تمھارے نام پر؟ وہ قطعہ تو میں نے پانچ مہینے پہلے بیگم نرس کے شوہر سے خریدا ہے۔
پٹنم: اسے وہ قطعہ بیچنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ میرے دادا کی وصیت میں صاف لکھا ہے کہ دریا اور جنگل کے درمیان تمام زمین… ۔
پراکٹر: تمھارے دادا کو تو وصیتوں میں دوسروں کی زمین تمھارے نام کرنے کی عادت تھی۔
جائلز: خدا کی قسم سچ کہا۔ اس کے دادا نے میری شمالی چرا گاہ وصیت میں تقریباً اس کے نام کر ڈالی تھی۔ لیکن اسے یہ بھی پتا تھا کہ اگر اس نے میری زمین پر پاؤں بھی دھرے تو میں اس کے پاؤں توڑ دیتا۔ چلو، تمھارے شہتیر گھسیٹتے ہیں، جان، میرا من کچھ کام کرنے کا کر رہا ہے۔
پٹنم: تم میرا شاہ بلوط کا ایک درخت اکھاڑ کر تو دیکھو تمھیں لگ پتا جائے گا۔ لڑائی ہو گی لڑائی۔
جائلز: جو میں اور یہ احمق جیت جائیں گے، چلو (وہ پراکٹر کی طرف مڑتا ہے اور جانے لگتا ہے۔)
پٹنم: تو میرے آدمی کس لیے ہیں؟ کوری، میں تمھارے خلاف فرمان بھی جاری کروا دوں گا۔
بیورلی کےعزت مآب جان ہیل اندر آتے ہیں۔ وہ ایک کسے ہوئے بدن اور مشتاق نگاہوں والے عالم ہیں۔ یہ تو ان کا پسندیدہ دورہ ہے کہ وہ جادو ٹُونا بوجھنے یہاں آئے ہیں۔ وہ کسی بھی ماہر کے مسرت و تفاخر سے بھر پُور ہیں جس کے بے نظیر علم و فضل کی عوام کو شدید ضرورت آن پڑی ہو۔ زیادہ تر پڑھے لکھے لوگوں کی طرح عالمِ غیب کے بارے میں انھوں نے بڑی غور و فکر کی ہے۔ خصوصی طور پر جب سے اپنے علاقے میں وہ ایک ڈائن سے ٹَکرے ہیں، اس موضوع پہ انھوں کچھ زیادہ ہی سوچا ہے۔ وہ خاتون تو ان کی تفتیش و تحقیق کے سامنے چوہیا ہی نکلی۔
اور جس بچی کو اِیذا دینے کا اس خاتون پر الزام تھا اس بچی کو عزت مآب بَہ صد مہر بانی اپنے گھر لے گئے تھے، اور وہ بچی چند ہی دنوں میں شفا یاب بھی ہو گئی تھی۔ لیکن اس تجربے کے با وُجود انھیں زیرِ زمین دنیا اور شیطان کے بہت سے چہروں والے چیلے کے وجود پر کبھی شُبہ نہیں ہوا۔ مگر ان کا یقین ان کی مرتبت نہیں بڑھاتا۔ ہیل سےبھی بڑے دماغ یقین رکھتے تھے اب بھی رکھتے ہیں کہ ہماری ادراک کے سرحدوں سے پرے روحوں کی ایک دنیا وُجود رکھتی ہے۔
آپ یہ نوٹ کیے بہ غیر نہیں رہ سکتے کہ اس تمثیل میں ان کی ایک لائن تو ابھی تک کسی کو ہنسا نہیں سکی۔ وہ لائن ان کی تسلی کے بارے میں ہے جو کچھ یوں ہے۔ اس معاملے میں واہموں کا کچھ عمل دخل نہیں کہ شیطان مفصل اور جامع ہے۔ ظاہر ہے اسی وجہ سے ابھی تک ہمیں شک ہےکہ شیطانیت مقدس ہے اور اس پر اتنا نا راض نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ شیطان مفصل اور جامع ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ ہم اس بات سے محظوظ ہوتے ہیں۔
محترم ہیل اور یہاں موجود دیگر لوگوں کی مانند ہم بھی سوچتے ہیں کہ شیطان کا وجود ایک معتبر کائناتی نظریے کا ایک ضروری حصہ ہے۔ ہماری اس منقسم سلطنت میں کچھ اعمال، خیالات اور جذبات خدا کے ہیں اور جو ان سے الٹ ہیں وہ شیطان کے ہیں۔ زیادہ تر لوگ گناہ کے بَہ غیر اخلاقیات کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے اور نہ ہی آسمان کے بَہ غیر زمین کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
1692 کے بعد تو ایک بڑی لیکن مصنوعی تبدیلی نے خدا کی ریش اور شیطان کی سینگ مٹا دیے ہیں، مگر دنیا اب بھی دو متضاد مگر مطلق نظریوں کی گرفت میں ہے۔ ایک وحدانی تصور جس میں منفی اور مثبت ایک ہی قوت کی صفات ہیں، جس میں نیکی اور بدی سلسلوں میں مربوط ہیں اور ہَمہ وقت بدلتے رہتے ہیں، ابھی تک ان چند لوگوں کے زیرِ غور ہیں جو طبیعاتی سائنسوں پر توجہ دیتے ہیں یا پھر ان چند لوگوں کی فکر میں فاش ہوتے ہیں جو خیالات کی تاریخ سے آگاہ ہیں۔
جب ہم عہدِ مسیح سے پہلے کے دور کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں خبر ہو جاتی ہے کہ زیرِ زمین دنیا کے لوگ اتنے انسان مخالف نہیں تھے، بَل کہ، تمام دیوتا مفید اور انسان دوست تھے۔ ہاں کبھی کبھار وہ یہ دوستی بھول جایا کرتے تھے۔
ان وقتوں کا مطالَعہ کرتے وقت ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کیسے بَہ تدریج تزویر و ترتیب سے انسان کی بے وقعتی کے خیالات انسانی فکر میں شامل کیے گئے۔ اور ان خیالات کے مطابق اس بے وقعتی کا خاتمہ نجات ہی کر سکتی ہے۔ پھر ہمیں تفہیم ہو جاتی ہے کہ شیطان بہ طور ایک ہتھیار کے کیوں ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک ہتھیار جسے ہر زمانے میں لوگوں کو کسی چرچ یا مذہبی ریاست کی تسلیم و تعمیل کے لیے مجبور کرنے کے لیے کوڑے کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
کیسے بتاؤں؟ شیطان کی سیاسی ضرورت کی تفہیم میں ہمیں دشواری اس لیے بھی پیش آتی ہے کیوں کہ شیطان پر نہ صرف ہمارے سماجی مخالفین لعن طعن کرتے ہیں، بَل کہ، ہمارے حامی بھی شیطان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ کیتھولک چرچ نے اپنی تفتیش کے ذریعے شیطان کو اپنا پکا دشمن قرار دیا تھا۔ لیکن کیتھولک چرچ کے دشمنوں نے بھی انسانی ذہن پر چھائے رہنے کے لیے بوڑھے لڑکے (شیطان) کو نہایت ضروری سمجھا تھا۔ لُوتھر پر بھی دوزخ سے اتحاد کے الزامات تھے جن کا جواب وہ بھی ایسے ہی الزامات کی صورت میں دیتا تھا۔
معاملات اور پیچیدہ ہو جاتے ہیں کہ لوتھر پورے یقین سے یہ بھی کہتا تھا کہ اس نے الٰہیات کے موضوعات پر شیطان سے بحثیں بھی کی ہیں۔ بر سبیلِ تذکرہ کہتا چلوں کہ اس بات پر مجھے اتنی حیرانی نہیں ہے ہمارے لُوتھر کے ماننے والے ایک پروفیسر اپنے شاگردوں کو کلاس میں اکٹھا کر کے پردے کھینچ دیتے تھے اور کلاس روم میں ایراسمس سے گفتگو کرنے لگتے تھے۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی نے انھیں سرزنش کی ہو کیوں کہ ہماری یونی ورسٹی کے حکام بھی ہماری طرح اسی تاریخ کے بچے ہیں اور ابھی تک شیطان کی چوسنی چوستے ہیں۔ ابھی تک صرف انگلستان ہی ہے جس نے معاصرانہ شیطانیت کی کچھ روک تھام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اشتراکی نظریاتی ممالک میں ہر قسم کی اہم مزاحمت کی سرمایہ دار بلاؤں کے نام پر مکمل برائی کی جاتی ہے۔ اور امریکہ میں اگر کوئی فرد پوری طرح رجعت پسند نہیں ہے تو اس پر سرخ جہنم کے گماشتہ ہونے کے الزامات لگنے میں دیر نہیں لگتی۔
سیاسی اختلاف کو غیر انسانی ملبوس پہنا کر روز مرہ کے رواجوں پر مبنی ایک تہذہب یافتہ مباحثے کی معطلی کے جواز تراشے جاتے ہیں۔ اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹی کو اخلاقی سچائی کے برابر سمجھا جاتا ہے جس کی مخالفت شیطانی بد خواہی قرار دی جاتی ہے۔ جب سیاسی پارٹی کی اخلاقی سچائی سے مؤثر مساوات تسلیم کروا لی جاتی ہے، تب معاشرہ سازشوں اور جوابی سازشوں کی انتشار گاہ بن جاتا ہے۔ اور حکومت جھگڑے سلجھانے کی بَہ جائے قہرِ خداوندی کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس عمل کے نتائج ہر زمانے میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔
کبھی کبھار ستم کی شدت میں فرق آ جاتا ہے، لیکن اکثر یہ فرق بھی نہیں ہوتا۔ عام حالات میں لوگ اپنے جیسوں کے اعمال کی بِناء پر ہی حکم لگاتے ہیں اور نیتوں کو پادریوں، راہبوں اور ربائیوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ ان سے معاملہ کرتے رہیں۔ لیکن شیطانیت کے طلوع کے سمے اعمال تو اصلی انسانی فطرت کا آخریں اظہار ہوتے ہیں۔ جیسے محترم ہیل نے کہا تھا کہ شیطان تو مکار ہے اور خدا بھی شیطان کے زوال سے کچھ لمحے پہلے تک فردوس میں اسے حسین ہی سمجھتا تھا۔
لیکن یہ مثال کچھ خام سی لگنے لگتی ہے جب اس بات کو مد نظر رکھیں کہ اس وقت ڈائنیں حقیقت میں نہیں تھیں جب کہ آج کل اشتراکی اور سرمایہ دار حقیقت میں موجود ہیں اور اس بات کے ثبوت بھی موجود ہیں کہ دونوں اطراف کے جاسوس ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک مصنوعی سا اعتراض ہے جس کی حقائق حمایت نہیں کرتے۔ مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ لوگ اس وقت بھی بَہ زعمِ خُود نہ صرف سیلیم میں شیطان سے میل جول رکھتے تھے، بَل کہ اسے پوجتے بھی تھے اور اس کیس میں اگر پورا سچ سامنے آ جائے تو ہم جان لیں گے کہ روح تیرہ کی خوش نُودی کے لیے ایک با قاعدہ اور با رسم پوجا کی جاتی تھی۔ محترم پیرس کی کنیز تیتیوبا کا اعتراف بطور ثبوت موجود ہے۔ ان لڑکیوں کا رویہ بھی ایک ثبوت ہے جو تیتیوبا کی جادو گریوں میں دھنسی ہوئی تھیں۔
یورپ میں بھی ایسی سر گرمیوں کے تذکرے موجود ہیں جن کے مطابق شہر کی لڑکیاں کبھی کبھار شہوت کی علامتیں ساتھ لیے رات کو ایک جگہ جمع ہوتیں۔ کبھی ان کے سنگ ایک منتخب نو جوان ہوتا، وہ خود کو اس نو جوان کے عشق سے مرصع کرتیں جس کے کبھی کبھار نا جائز نتائج بھی نکل آتے۔ چرچ کی تیز نگاہوں نے، مرے ہوئے دیوتاؤں کو زندگی بخشتی ان پر عشرت سر گرمیوں کو جادو گری کہہ کر مضموم قرار دیا اور انھیں جائز طور پر دیونیسیسی احیاء کہا جسے چرچ کچل چکا تھا۔ سیکس، گناہ اور شیطان آغاز سے ہی منسلک کر دیے گئے تھے، اور اس وقت کے سیلیم میں بھی منسلک رہے، آج بھی منسلک ہی ہیں۔
خبروں کے مطابق جیسے کٹر اخلاقی معیار اشتراکیوں نے روس میں نافذ کیے ہیں وہ دنیا میں کسی جگہ نافذ نہیں ہیں۔ وہاں خواتین اتنی ہی مستور ہیں جتنے ستر کا خواتین کے لیے ایک امریکی بیپٹسٹ خواہاں ہے۔ اور طلاق کے قوانین باپ پر بچوں کی دیکھ بھال کی بھاری ذمہ داری ڈالتے ہیں۔ انقلاب کے آغاز میں طلاق کے قواعد میں آسانی بھی انیسویں صدی کی شادی کے انحطاط سے نفرت کا نتیجہ تھی کہ وہ انحطاط منافقت ہی جنتا رہتا تھا۔
مگر شہریوں کی یکتائی پر مصر ایک طاقت ور ریاست زیادہ دیر تک خاندانی آزادیاں نہیں برداشت کر پاتی۔ پھر بھی امریکیوں کی نظر میں روسیوں کا خواتین کے بارے میں نکتۂِ نظر فُحش ہی ہے۔ شیطان یہاں بھی مصروفِ کار ہے اور ایک سلاؤ کے اندر گھسا ہے جسے سوانگ میں کپڑے اتارتی خاتون جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
ہمارے مخالفین ہمیشہ جنسی گناہوں میں لپٹے ہوتے ہیں۔ اس لا شعوری عقیدے سے ہماری عِفریت سازی کو ایک حسیاتی دل فریبی عطا ہوتی ہے اور اسی کے نتیجے میں ہمارا غصہ بھی فزوں ہوتا ہے اور ہمیں ڈر بھی لگتا ہے۔