کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ نہم)
ترجمہ، نصیر احمد
چیور: (لعبت سے لمبی سی سوئی نکال لیتا ہے) سوئی ہے۔ ہیرک، ہیرک، ادھر سوئی ہے۔ (ہیرک اس کی طرف آتا ہے)
پراکٹر: (بد حواس ہے اور غصہ بھی کرتا ہے) آخر سوئی کے معنی کیا ہیں؟
چیور: (اس کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں) ایلزبیتھ کے لیے کٹھن ہو گیا ہے، پراکٹر۔ مجھے شک تھا، مجھے واقعی یقین نہیں ہو رہا تھا مگر یہاں تو تباہی مچ گئی ہے۔ (ہیل کو سوئی دکھاتا ہے) جناب یہ سوئی تو دیکھیے۔
ہیل: مگر سوئی سے پتا کیا چلتا ہے؟
چیور: (آنکھیں پھٹ جاتی ہیں اور کانپنے لگتا ہے،) لڑکی، لڑکی، ولیمز کی لڑکی، جناب۔ وہ عزت مآب پیرس کے گھر رات کا کھانا کھا رہی تھی بہ غیر کچھ کہے، کچھ اشارہ کیے، وہ فرش پر گر کر تڑپنے لگی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ چوٹ کھائے جناور کی مانند چیخنے لگی کہ کوئی بیل بھی سن لے تو زار و قطار ہو جائے۔ وہ اسے سنبھالنے گئے تو اس کے پیٹ میں یہ دو انگل سوئی دھنسی ہوئی تھی۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ یہ سوئی اس کے جسم میں گھونپی کس نے (پراکٹر سے) تو اس نے شہادت دی کہ یہ سوئی تمھاری بیوی کی جانی پہچانی بد روح نے اس کے گھونپی تھی۔
پراکٹر: ایبی گیل نے یہ سوئی اپنے آپ کو خود گھونپی تھی (ہیل سے) امید ہے کہ آپ اسے ثبوت نہیں مان رہے۔
ہیل تو ثبوت دیکھ کر مضروب سا دکھائی دینے لگا ہے۔
چیور: یہ بین ثبوت ہے۔ (ہیل سے) آپ گواہ رہنا، میں نے یہاں بیگم پراکٹر کی گڑیا کھوجی ہے۔ اور گڑیا کے شکم میں سوئی بھی دھنسی ہوئی تھی۔ میں سچ کہہ رہا ہوں پراکٹر، میں یہاں جہنم کی نشانیاں دیکھنے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اور میں تمھیں کہے دیتا ہوں کہ میرا راستہ روکنے کی کوشش نہ کرنا …
(ایلزبیتھ میری وارن کے ساتھ اندر آتی ہے۔ میری کو دیکھتے ہی پراکٹر اسے بازو سے پکڑ کر ہیل کے پاس لے جاتا ہے۔)
پراکٹر: میری، اب تمھی بتاؤ کہ یہ گڑیا ہمارے گھر میں کیسے آئی۔
میری وارن: (اپنی جان کے لیے خوف زَدہ ہے اور آہستگی سے کہتی ہے) کون سی گڑیا جناب؟
پراکٹر: (بے صبری سے چیور کے ہاتھوں میں گڑیا کی طرف اشارہ کرتا ہے) وہ گڑیا، وہ گڑیا۔
میری وارن: (گڑیا کی طرف کترا کر دیکھتی ہے) اچھا، یہ تو میری گڑیا ہے۔
پراکٹر: یہ تمھاری ہی گڑیا ہے۔ ہے ناں؟
میری وارن: (معاملہ سمجھ نہیں پا رہی) جی جناب۔
پراکٹر: اور یہ گڑیا اس گھر میں کیسے آئی؟
میری وارن: (مشتاق چہروں پر نگاہیں ڈالتی ہے) یہ میں نے آج دن کو عدالت میں بُنی تھی اور آج رات بیگم پراکٹر کو پیش کر دی تھی۔
پراکٹر: (ہیل سے) کچھ سمجھے جناب۔
ہیل: میری وارن، اس گڑیا کے اندر سے ایک سوئی ملی ہے۔
میری: (بد حواس ہو جاتی ہے) میری نیت جناب کسی کو آزار پہنچانے کی تو نہیں تھی۔
پراکٹر: (تیزی سے) تو یہ سوئی گڑیا کے تم نے گھونپی۔
میری وارن: جی جناب میں نے ہی گھونپی تھی۔ میں …
پراکٹر: (ہیل سے) اب آپ کیا کہتے ہو؟
ہیل: (میری وارن کو غور سے دیکھتے ہوئے) بچی، تمھیں کیا یقین ہے کہ یہ تمھاری اپنی یاد داشت ہے؟ ہو سکتا ہے اب بھی کوئی جادو کے ذریعے جو تم کہہ رہی ہو، تم سے کہلوا رہا ہے؟
میری وارن: کہلوا رہا ہے؟ نہیں جناب میں پوری طرح اپنے ہوش میں ہوں۔ آپ سوزانا والکاٹ سے پوچھ لیں، اس نے مجھے عدالت میں یہ گڑیا بُنتے دیکھا ہے۔ (بات اور پکی کرتے ہوئے) ایبی، ایبی سے پوچھ لیں، وہ میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
پراکٹر: (ہیل سے چیور کے بارے میں کہتا ہے) اسے حکم دیں کہ چلا جائے۔ اب تو آپ مطمئن ہو گئے ہیں ناں۔ اسے یہاں سے دفع ہونے کا حکم دیں۔
ایلزبیتھ: سوئی کا کیا مطلب ہے۔
ہیل: میری تم ایبی گیل پر سنگ دلانہ قتل کی کوشش کا الزام عائد کر رہی ہو۔
میری وارن: قتل؟ میں کسی پر قتل کا …
ہیل: آج رات ایبی گیل پر وار ہوا تھا۔ اس کے پیٹ میں سوئی دھنسی ملی تھی۔
ایلزبیتھ: اور وہ مجھ پر الزام عائد کرتی ہے۔
ہیل: ہاں۔
ایلزبیتھ: (اس کی تو جیسے سانسیں تھم گئی ہیں،) یہ لڑکی تو قاتلہ ہے۔ اس دنیا سے کھینچ نکال دینا چاہیے۔
چیور: (ایلزبیتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آپ نے سنا جناب، دنیا سےکھینچ نکال دینا چاہیے۔ ہیرک تم نے سنا۔
پراکٹر: (چیور کے ہاتھوں سے سے وارنٹ چھین لیتا ہے) تم تو یہاں سے دفعان ہو۔
چیور: پراکٹر وارنٹ کو ہاتھ نہ لگانا۔
پراکٹر: (وارنٹ پھاڑ دیتا ہے) تو، یہاں سے نکل جا۔
چیور: آدمی، تو نے ڈپٹی گورنر کا وارنٹ پھاڑ دیا۔
پراکٹر: ڈپٹی گورنر جائے بھاڑ میں۔ نکل جا میرے گھر سے۔
ہیل: پراکٹر، سنبھلو، پراکٹر۔
پراکٹر: تو بھی اس کے ساتھ ہی نکل لے، تو ایک جھوٹا پادری ہے۔
ہیل: اور اگر عدالت میں ایلزبیتھ بے گناہ ثابت ہوتی ہے؟
پراکٹر: اگر وہ بے گناہ ثابت ہوتی ہے؟ تو یہ کیوں نہیں کہتا اگر پیرس بے گناہ ہے یا اگر ایبی گیل بے گناہ ہے۔ الزام دینے والا پَوِتر ہے اب کیا؟ کیا ان لوگوں کا جنم آج سویرے خدا کے ہاتھوں میں ہوا ہے؟ میں تمھیں بتاتا ہوں، سیلیم میں کیا ہو رہا ہے؟ سیلیم میں انتقام لیا جا رہا ہے؟ ہم وہی ہیں جو سیلیم میں ہمیشہ سے تھے، مگر اب چند دیوانی لڑکیاں سلطنت کی کنجیاں جُھنجُھنا رہی ہیں۔ اور گھٹیا سا انتقام قانون بن گیا ہے۔ یہ وارنٹ انتقام ہے اور میں اس انتقام کو اپنی بیوی کی بھینٹ نہیں دوں گا۔
ایلزبیتھ: میں چلی جاؤں گی ،جان۔
پراکٹر: نہیں تم نہیں جاؤ گی۔
ہیرک: میرے ساتھ نو ہرکارے ہیں۔ تم اسے یہاں نہیں رکھ سکتے۔ مجھے حکم ملا ہے، جان۔ میں اب پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
پراکٹر: (ہیل سے اور اسے پیٹنے کے لیے تیار ہے) پونٹئیس پائلیٹ (یروشلیم کا رومی حاکم جس نے ایک لٹیرے باراباس کی جان بخش دی تھی مگر جنابِ مسیحؑ کو سولی چڑھا دیا تھا۔)
ایلیزبیتھ: جان، میرے خیال میں مجھے ان کے ساتھ جانا چاہیے (وہ اس کی طرف اب دیکھنے کا بھی حوصلہ نہیں رکھتا،) میری صبح کے لیے آٹا کافی ہے۔ دن کو مگر اور گوندھ لینا۔ مسٹر پراکٹر کی ایک دختر کی طرح سہائتا کرنا۔ یہ میرا تم پر قرض ہے، یہ بھی اور بہت کچھ بھی۔ (وہ آنسو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ پراکٹر سے کہتی ہے) بچے جب جاگیں تو جادو ٹُونے کا ذکر نہ کرنا، وہ ڈر جائیں گے۔ بچے ہی تو ہیں۔ (اب اور کہنے کی اس میں سَکت نہیں ہے۔)
پراکٹر: میں تمھیں گھر واپس لاؤں گا، ایلزبیتھ، بہت جلد لاؤں گا۔
ایلزبیتھ: ہاں جان، مجھے واپس گھر لاؤ اور جلد لاؤ۔
پراکٹر: ڈرو نہیں ایلزبیتھ، میں اس عدالت پر بحرِ پُر شور کی طرح اتروں گا۔
ایلزبیتھ: (بہت ڈر جاتی ہے) میں نہیں ڈروں گی۔ (وہ گھر میں ہر سَمت دیکھتی ہے جیسے گھر کو دماغ میں بسانے کی کوشش کر رہی ہو۔) لڑکوں کو بتانا کہ میں کسی بیمار کی تیمار داری کے لیے گئی ہوں۔
(وہ دروازے سے نکل جاتی ہے۔ ہیرک اور چیور اس کے پیچھے جاتے ہیں۔ پراکٹر دروازے پر کھڑا اسے جاتا دیکھتا ہے۔ بیڑیوں کا شور سنائی دیتا ہے۔)
پراکٹر: ہیرک، ہیرک، اسے بیڑیاں مت پہناؤ۔ (دروازے سے باہر نکل آتا ہے) لعنت ہو تجھ پر، اسے بیڑیاں مت پہنا۔ مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا، اسے بیڑیاں مت پہنانا۔
اور لوگوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ ہیل بے یقینی اور ندامت کی تپش میں اس منظر سے کترانے کی سعی کرتا ہے۔ میری وارن آنسوؤں میں ڈوب جاتی ہے اور بیٹھی روتی رہتی ہے۔ جائلز کوری ہیل کو پکارتا ہے۔
جائلز: اب بھی خاموش ہو، پادری۔ یہ فراڈ ہے، تم جانتے ہو یہ سب فراڈ ہے۔ سچ کیوں نہیں کہتے، خدا کے بندے؟
پراکٹر کو شکنجے میں لیے ہیرک اور دو اور ہرکارے کمرے میں دھکیل دیتے ہیں۔
پراکٹر: تجھ سے نپٹ لوں گا، ہیرک، نپٹ لوں گا۔
ہیرک: (ہانپتے ہوئے) خدا کے لیے پراکٹر، مجھے حکم ہی یہی دیا گیا ہے کہ میں ان کو بیڑیاں ڈال کر لے آؤں۔ جب تک میں چلا نہیں جاتا، اسے اندر ہی پکڑے رکھو۔ (وہ ہرکاروں کے ساتھ چلا جاتا ہے۔)
پراکٹر کھڑا ہو جاتا ہے۔ سانسیں بَہ حال کرنے کی تگ و دو کرتا ہوا۔ گھوڑوں اور چھکڑے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
ہیل: (بے یقینی سے) مسٹر پراکٹر، مسٹر پراکٹر۔
پراکٹر: میری نظروں سے دور ہو جا۔
ہیل: کرم، پراکٹر، کرم۔ میں نے اس کے حق میں جو بھی سنا عدالت میں بے خوف کہہ دوں گا۔ خدا مجھ پر رحم کرے کہ یہ فیصلہ میں نہیں کر سکتا کہ وہ بے گناہ ہے کہ مجرم۔ میں نہیں جانتا مگر یہ تو سوچو کہ دنیا پاگل ہو گئی ہے۔ اور اس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا اگر تم لڑکی سے انتقام لیتے ہو۔
پراکٹر: تم کائر ہو۔ اگر دودھ میں بھی دُھلے ہو، تب بھی کائر ہو۔
ہیل: پراکٹر میرے خیال میں خدا کا قہر بے وقعت باتوں کی وجہ سے تو نہیں نازل ہوتا۔ جیلیں بھری پڑی ہیں۔ ہمارے عظیم المرتبت منصف سیلیم میں تشریف لائے ہیں اور پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں ہیں۔ آدمی، ہمیں توازن نہیں کھونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے قتل ہوئے ہوں مگر کوئی جان نہ پایا ہو۔ پراگندگی ہوئی ہو؟ کوئی ایسی توہین ہوئی ہو جس کی بَد بُو فلک تک پہنچ گئی ہو؟ آدمی، سبب جاننے کی کوشش کرو اور میری بھی اس سبب کی دریافت کی کوششوں میں مدد کرو۔ یہی راستہ ہے، اب تمھارے پاس یہی راستہ ہے کہ دنیا تو منتشر سی ہو گئی ہے۔ (وہ جائلز اور فرانس کے پاس بھی جاتا ہے) تم سب آپس میں مشورہ کرو کہ ایسی کیا بات ہوئی کہ آسمان سے یہ گرجتا ہوا قہر تم لوگوں پر ٹوٹ پڑا۔ میں خدا سے دعا کروں گا کہ تمھیں ہدایت عطا ہو۔
ہیل باہر چلا جاتا ہے۔
فرانسس: (ہیل کی باتیں اسے خَستہ کر دیتی ہیں) میں نے کبھی نہیں سنا کہ سیلیم میں کبھی کوئی قتل ہوا ہو۔
پراکٹر: (اس پر ہیل کی باتوں کا خاصا اثر ہو گیا ہے) فرانسس، مجھے تنہا چھوڑ دو، تنہا چھوڑ دو۔
جائلز: (ٹوٹ سا گیا ہے) جان کیا ہم کھو گئے، ہار گئے، بے راہ ہو گئے؟
پراکٹر: ابھی گھر جاؤ، جائلز، کل بات کریں گے۔
جائلز: جان، اس معاملے پر سوچو کل ہم سویرے ہی آ جائیں گے۔
پراکٹر: جاؤ، جائلز، جاؤ
جائلز: شب بَہ خیر جان۔
جائلز کچھ دیر بعد چلا جاتا ہے
میری وارن: (اس کی آواز لرز رہی ہے) مسٹر پراکٹر، وہ انھیں چھوڑ دیں گے، جب انھیں مناسب ثبوت مل جائیں گے۔
پراکٹر: میری تم میرے ساتھ عدالت میں جاؤ گی اور عدالت کو بتاؤ گی۔
میری وارن: میں ایبی گیل پر قتل کا الزام نہیں عائد کرنا چاہتی۔
پراکٹر: (خطر ناک ارادوں سے اس کی طرف بڑھتا ہے) تم عدالت کو بتاؤ گی گڑیا اس گھر میں کیسے آئی اور اس میں سوئی کس نے دھنسائی تھی۔
میری وارن: اگر میں نے یہ کہا تو وہ مجھے مارڈالے گی۔ (پراکٹر اس کی طرف بڑھتا رہتا ہے) وہ آپ پر بد کاری کا الزام عائد کر دے گی۔
پراکٹر: (رک کر کہتا ہے) تو تمھیں بھی اس نے بتا دیا۔
میری وارن: مجھے خبر ہے جناب۔ وہ آپ کو برباد کر دے گی۔ مجھے پتا ہے وہ ایسے ہی کرے گی۔
پراکٹر: (ہچکچاتے ہوئے اور اپنے آپ سے شدید نفرت کرتے کہتا ہے) اس کی پاکیزگی تو اتر جائے گی، ناں۔ (میری پیچھے ہٹتی ہے،) ہم اپنے کھودے ہی گڑھے میں ہی تو گریں گے، مگر تم عدالت کو وہی بتاؤ گی جو تم جانتی ہو۔
میری وارن: (دہشت زدہ ہو جاتی ہے) نہیں بتا سکتی، وہ سب میرے خلاف …
پراکٹر ڈگ بھرتے ہوئے اسے پکڑ لیتا ہے اور وہ نہیں بتا سکتی، نہیں بتا سکتی دُہراتی رہتی ہے۔
پراکٹر: میری بیوی میری وجہ سے نہیں مرے گی۔ تمھارا پچھواڑا میں تمھارے مُنھ میں دے دوں گا لیکن میری وجہ سے وہ پاکباز نہیں مرے گی۔
میری وارن: (مزاحمت کرتی ہے) نہیں بتا سکتی، نہیں بتا سکتی۔
پراکٹر: (اس کا گلا گرفت میں لے لیتا جیسے گھونٹ ہی ڈالے گا) پر سکون ہو جاؤ، تمھیں یہ کرنا ہی ہو گا۔ اب جنت اور جہنم ہمارے کاندھوں پر جنگ آزما ہیں۔ اور ہماری سب بناوٹیں بکھر چکی ہیں۔ پر سکون ہو جاؤ، تمھیں یہ کرنا ہو گا۔ (وہ اسے فرش پر پھینک دیتا ہے، جہاں وہ سسکیاں بھرتی رہتی ہے۔ میں نہیں بتا سکتی، میں نہیں بتا سکتی دُہراتی رہتی ہے۔ اب خلا میں خود کلامی کرتے ہوئے کھلے دروازے کی طرف مڑ جاتی ہے) سکون؟ مشِیّت ہے بڑی تبدیلی نہیں۔ ہم تو وہی ہیں جو ہمیشہ سے تھے، مگر اب عُریاں ہیں۔ (وہ دروازے کی طرف بڑھتا ہے، جیسے کسی بہت ہولناک مصیبت کی جانب بڑھ رہا ہو، آسمان کا سامنا کرتے ہوئے) عریاں، اور باد چلےگی، خدا کی برفیلی باد۔
اور وہ سسکتے ہوئی کہتی رہتی ہے، میں نہیں بتا سکتی، میں نہیں بتا سکتی۔
پردہ گر جاتا ہے
تیسرا ایکٹ
سیلیم کے مجلس خانے کےدفتر کا منظر۔ اب عوامی عدالت کی راحت گاہ کام دے رہا ہے۔ پردہ اٹھتے سَمے یہ کمرہ خالی ہے۔ اور دھوپ دو اونچی کھڑکیوں سے چھنتی ہوئی پچھلی دیوار پر پڑ رہی ہے۔ تحکم اور سنجیدگی کا ماحول کمرے میں چھایا ہے۔ شہتیر تھوڑے باہر نکلے ہیں اور مختلف چوڑائیوں کے تختوں سے دیواریں بنی ہیں۔ دائیں طرف کے دروازے مجلس خانے کی طرف کھلتے ہیں جہاں عدالت جمتی ہے۔ بائیں طرف کا دروازہ باہر کھلتا ہے۔
دائیں اور بائیں طرف دو سادہ سے بینچ پڑے ہیں۔ وسط میں ایک لمبا سا میز پڑا ہے جس کے ارد گرد کچھ مُوڑھے اور ایک بڑی اور تھوڑی نفیس کرسی پڑی ہوئی ہے۔ کمرۂِ عدالت سے جڑی ہوئی دیوار سے استغاثے کے وکیل کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ جج ہیتھورن ایک سوال پوچھتا ہے، پھر ایک عورت کی آواز سنائی دیتی ہے، مارتھا کوری جواب دے رہی ہے۔
ہیتھورن کی آواز: مارتھا، ہمارے پاس کافی ثبوت ہیں کہ تم زائچے پڑھتی رہتی ہو کہ قسمت کا حال جان لو۔ تم اس الزام سے انکار کرتی ہو؟
مارتھا کی آواز: میں ڈائن نہیں ہوں، اور جانتی بھی نہیں کہ ڈائن ہوتی کیا ہے۔
جج ہیتھورن کی آواز: جب تم جانتی ہی نہیں کہ ڈائن ہوتی کیا ہے، پھر تمھیں اتنا یقین کیوں ہے کہ تم ڈائن نہیں ہو۔
مارتھا کی آواز: اگر میں ڈائن ہوتی تو مجھے خبر ہو جاتی۔
ہیتھورن کی آواز: پھر تم کاہے ان بچیوں کو ستاتی ہو؟
مارتھا کی آواز: نہیں ستاتی۔ ستانا مجھے نہیں بھاتا۔
جائلز کوری کی گرجتی آواز: عدالت کے لیے میں ثبوت لایا ہوں۔
گاؤں والوں کی بے تاب آوازیں گونجتی ہیں۔
جج ڈینفورتھ کی آواز: تم اپنی نشست پر بیٹھو۔
جائلز کی آواز: ٹامس پٹنم جائیداد کے چکر میں ہے۔
ڈینفورتھ کی آواز: مارشل، تم اس آدمی کو نکال باہر کرو۔
جائلز: آپ دروغ سماعت کر رہے ہیں۔
لوگوں میں شور مچ جاتا ہے۔
ہیتھورن کی آواز: عالی مرتبت، اسے حراست میں لے لیں۔
جائلز: میرے پاس ثبوت ہے۔ کیا آپ مجھے یہ ثبوت پیش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے؟
(دروازہ کھلتا ہے اور ہیرک جائلز کو تقریبا گھسیٹتے ہوئے دفتر میں لے آتا ہے۔)
جائلز: چھوڑو مجھے، لعنت ہو تم پر، مجھے جانے دو۔
ہیرک: جائلز، جائلز۔
جائلز: میرے راستے ہٹ جاؤ ہیرک، میرے پاس ثبوت ہے۔
ہیرک: تم وہاں نہیں جا سکتے جائلز، کوئی مخول نہیں، عدالت بیٹھی ہے۔
(ہیل عدالت سے اندر آتا ہے)
ہیل: مہر بانی کرو، کچھ ہوش کرو۔
جائلز: مسٹر ہیل، تم اندر جاؤ اور مجھے بات کرنے کی اجازت دلواؤ۔
ہیل: ٹھہرو، اک لمحہ تو ٹھہرو۔
جائلز: ٹھہروں؟ میری بیوی کو وہ پھانسی دے دیں گے۔
جج ہیتھورن اندر آتا ہے، ساٹھ کے پیٹے میں ہے، سیلم کا ایک بے حس،کڑوا کسیلا جج۔
جج ہیتھورن: تمھیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ عدالت میں یوں گرجتے برستے داخل ہوئے۔ کوری، تم چریا تو نہیں گئے؟
جائلز: تم ابھی بوسٹن کے بڑے جج نہیں بنے۔ تم کون ہوتے ہو مجھے چَریا کہنے والے۔
ڈپٹی گورنر ڈینفورتھ اندر آتا ہے۔ اس کے پیچھے ایزکائیل چیور اور پیرس بھی ہیں۔ اس کے نمُو دار ہوتے ہی خاموشی چھا جاتی ہے۔ ڈینفورتھ بھی ساٹھ کے پیٹے کا ایک سنجیدہ آدمی ہے۔ وہ تھوڑا زندہ دل اور شائستہ بھی ہے، مگر وہ اس شائستگی اور زندہ دلی کو اپنے عہدے اور مقصد سے پوری وفا داری کے آڑے نہیں آنے دیتا۔ وہ جائلز کوری کی طرف بڑھتا ہے جو اس کے طیش کا منتظر ہے۔
ڈینفورتھ: (سیدھا جائلز پر نظریں گاڑ دیتا ہے) کون ہے یہ؟
پیرس: جائلز کوری، جناب، بہت جھگڑا لو …
جائلز: (پیرس سے) سوال مجھ سے پوچھا گیا ہے اور میں دودھ پیتا بچہ نہیں کہ سوال کا جواب نہ دے پاؤں۔ (ڈینفورتھ سے، جس سے وہ متاثر بھی ہے، اور اپنے کھچاؤ کے با وُجُود اس کی سَمت دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کرتا ہے،) جناب میرا نام کوری ہے، جائلز کوری۔ میری چھ سو ایکڑ کی جائیداد ہے اور پیڑوں کا ایک جھنڈ بھی ہے۔ ابھی آپ میری بیوی کو سزا سنانے جا رہے تھے۔ (وہ کمرۂِ عدالت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔)
ڈینفورتھ: مگر یہ باغیانہ بُلوہ تمھاری بیوی کے کاہے کام آئے گا؟ ایسا کیوں سوچا؟ اب چلتے بنو۔ مجھے تمھاری عمر کا خیال ہے کہ میں نے تمھیں جیل نہیں بھیج رہا۔
جائلز: (عرض کا آغاز کرتے ہوئے) وہ میری بیوی کے بارے میں جھوٹ بَک رہے ہیں اور میں …
ڈینفورتھ: تو تم نے اس بات کا تعین کرنا ہے کہ عدالت کس بات کا یقین کرے اور کس بات کو پَرے پھینک دے؟