رب نیڑے کہ گھسن

ایک روزن لکھاری
نصرت جاوید، صاحب مضمون

رب نیڑے کہ گھسن

نصرت جاوید

نواز شریف اور ان کے چاہنے والے اب جو چاہیں عذر تراشتے رہیں۔ تلخ حقیقت ہے تو صرف اتنی کہ گریڈ 18 سے 20 تک کے افسروں پر مشتمل ایک تفتیشی کمیٹی کے روبرو پانامہ کے حوالے سے اُٹھے سوالوں کا جواب دینے کے لیے تیار ہوکر نواز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کی تحقیر کی ہے۔

اس پیشی کے باوجود اگر وہ سپریم کورٹ کے محفوظ کیے فیصلے کے اعلان کے بعد کسی نہ کسی طرح اپنے منصب پر برقرار بھی رہے تو آئین میں ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کہلاتے شخص کی توقیر کبھی بحال نہیں ہوگی۔ پاکستان نوکر شاہی کی بالادستی کے اس دور میں واپس جا چکا ہے جو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک سازش کے ذریعے راولپنڈی کے جلسہ عام میں قتل کروانے کے بعد 1950 کی دھائی میں متعارف ہوا تھا۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھا دیا گیا تھا۔ نوکرِ شاہی کا ایک نمائندہ ملک غلام محمد گورنر جنرل کے دفتر میں براجمان ہو گیا۔ اس گورنر جنرل نے انگریزوں کی متعارف کردہ political service میں دیسی اشرافیہ کو قابو میں رکھنے کے گر سیکھنے والے سکندر مرزا اور چودھری محمد علی جیسے ریاستی خزانے کے ’’باصفا امین‘‘ مشہور ہوئے سرکاری افسروں کے ساتھ مل کر سیاست دانوں کو ان کی اوقات میں رکھنے کی ترکیبیں سوچی۔ ان پر ’’وطن کی محبت‘‘ اور زُعمِ پارسائی کے خمار میں بھرپور عمل کیا۔

خواجہ ناظم الدین جن کے ڈھاکہ میں موجود آبائی گھر میں مسلم لیگ کا قیام 1906 میں عمل میں لایا گیا تھا، ’’قائدِ قلت‘‘ مشہور ہوئے کیونکہ لوگوں کو روٹی پکانے کے لیے آٹا نہیں مل رہا تھا۔ اسی دوران پنجاب میں ’’تحریکِ ختمِ نبوت‘‘ پر قابو پانے کے لیے جنرل اعظم خان کے ذریعے جزوی مارشل لاء لگا کر اس کی افادیت کا اندازہ بھی لگا لیا۔

اس کے حتمی استعمال سے پہلے مگر عدلیہ نے جسٹس منیر کی ذہانت سے ’’نظریہِ ضرورت‘‘ کے مؤثر اطلاق کے ذرائع بھی دریافت کر لیے تھے۔ وزیراعظم اس دوران آتے جاتے رہے۔ پاکستان کی تاریخ کا ذہین ترین طالب علم بھی آپ کو جھٹ سے صحیح ترتیب کے ساتھ خواجہ ناظم الدین کے بعد مسلسل نمودار ہوکر غروب ہوتے وزیر اعظموں کے نام نہیں بتا پائے گا۔

وہ JIT جس کے رُوبرُو پاکستان کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے نواز شریف بہت چاؤ سے پیش ہوئے، نوکر شاہی کے کنٹرول اور نظریہ ضرورت کے ’’تخلیقی احیائی‘‘ کی ایک ٹھوس علامت تھی۔ خود کو اس ملک کا بہت ہی تجربہ کار سمجھنے والے نواز شریف مگر اس کھیل کو سمجھ ہی نہ پائے۔

سمجھ اگرچہ اس حوالے سے عمران خان کو بھی نہیں آئی ہے۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ کے کٹہرے میں دھکیلنے کے بعد اب وہ خود بھی اپنے لندن میں خریدے فلیٹ اور بنی گالہ میں بنائے محل کی ’’منی ٹریل‘‘ دینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ بدھ کے روز سے کٹہرے میں کھڑے ہو کر حساب جہانگیر ترین کو دینا ہے۔ طاقت کا مرکز اس ملک میں پارلیمان کی عمارت سے واضح طورپر منتقل ہوکر سپریم کورٹ کی بلڈنگ سے متحرک ہوتا نظر آتا ہے۔

صبح ہوتے ہی ہمارے سیاستدان گند کی بالٹیاں اٹھائے سپریم کورٹ چلے جاتے ہیں۔ 24/7 کی DSNGs بھی وہیں موجود ہوتی ہیں۔ عدالتی کمرے میں دِیے دلائل اور عزت مآب ججوں کے ریمارکس ٹِکروں کی بارش کی صورت ٹی وی سکرینوں پر برس رہے ہوتے ہیں۔ عدالتی کارروائی کے وقفے کے دوران اور اس کے اختتام پر ہماری سیاست کے نمائندے Live کیمروں کے سامنے آتے ہیں اور ایک دوسرے پر گند کی بالٹیاں اچھالنا شروع ہوجاتے ہیں۔

میرے لاہور کے ایک خاص محلے کی ان عورتوں کی طرح جو دن چڑھتے ہی جھروکوں میں کھڑی ہوکر اپنے ہمسایوں کو مغلظات سے نوازتی ہوئی للکارنا شروع ہوجاتی تھیں۔ اس محلے سے یاد آیا کہ ہمارے سیاست دانوں کو ’’چوری اور ہیرا پھیری‘‘ کی حتمی مثال ثابت کرنے والے ملک غلام محمد کا تعلق بھی لاہور کے اسی محلے سے تھا۔

اپنے گریبان میں جھانکے بغیر دوسروں میں عیب ڈھونڈ کر یا انہیں گھڑ کر شدتِ جذبات سے نڈھال ہوئے شام سات سے رات 12 بجے تک ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہونے والے مجھ ایسے اینکر بھی لاہور کے اسی محلے کی خواتین کی طرح ہیں۔ فروغِ پارسائی کے جنون میں عزت اب کسی کی بھی محفوظ نہیں رہی ہے۔ ہر طرف دکھائے اور پھیلائے گند میں عزت اگر کسی کی محفوظ ہے تو صرف ’’ان‘‘ کی جنہیں ہرگز پنجابی کا وہ محاورہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ رب نیڑے کہ گھسن ؟

پانامہ پر محفوظ ہوا فیصلہ جو بھی آئے، سیاست دان ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’سیسیلین مافیا‘‘ ٹھہرائے جا چکے ہیں۔ خلقِ خدا نے یہ بات بھی تسلی کرلی ہے کہ سزا اور جزا کے روایتی نظام کو، جو ’’مجموعہ تعزیراتِ پاکستان‘‘ یا ’’ضابطہ فوجداری‘‘ وغیرہ میں طے ہو چکا ہے، بالائے طاق رکھتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے ذریعے سپریم کورٹ کوملے از خود اختیارات سے رجوع کیا جائے۔

آئین ہی میں 62 اور 63 بھی ہیں۔ جمہوریت کے غم میں ازلی طورپر مبتلا رضا ربانی اور سیکولرازم کی علامت بنے افراسیاب خٹک اور حاصل بزنجو وغیرہ کو آئین کی 18 ویں ترمیم تیار کرتے ہوئے جنرل ضیاء کے دور میں ان آرٹیکلز میں متعارف کروائے ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ کو چھیڑنے کی جرأت ہی نصیب نہ ہوئی۔

جنرل ضیاء الحق کے ہوتے ہوئے اگرچہ ان کا مؤثر اطلاق بالکل نہ ہو سکا۔ وہ اگست 1988 میں ایک فضائی حادثے کی نظر ہوگئے۔ ان کی نیک روح مگر اب بھی پوری توانائی کے ساتھ ہمارے نظام پر حاوی ہے۔ 62 اور 63 کا 2017 میں ’’بلااستثنائی‘‘ اطلاق ہورہا ہے۔ اس سعد کام کو سرانجام دینے کے لیے چھلنی سپریم کورٹ میں لگ چکی ہے۔ جس کی معاونت کے لیے JIT ہے۔

’’احتساب‘‘ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ مجھ ایسے ’’ذِلتوں کے مارے‘‘ بے وسیلہ لوگ اس عمل سے انتہائی خوش ہیں کیونکہ ہماری قسمتوں کے مالک بنے افراد اب ’’کڑِکی‘‘ میں پھنسے نظر آرہے ہیں۔ صفائی ستھرائی کے اس گرجتے برستے موسم میں کسی کے پاس وقت ہی نہیں کہ ذرا سوچے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ یہ سب عمل کس طرف جارہا ہے۔ سیلاب بلا تو نازل ہو چکا ہے۔ اس کی منزل کا مگر کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے۔