ارون دھتی رائے : ایک ناول لکھنے میں 20 سال کیوں لگے؟
(انٹرویو: ڈیکا ایٹی کین ہیڈ ؛ ترجمہ و تلخیص : عامر حسینی)
ڈیکا ایٹی کین ہیڈ برطانوی صحافی ہیں۔ ارون دھتی رائے نے 20 سال بعد دوسرا ناول لکھا ہے جو کہ جون میں چھپ کر آنے والا ہے۔ اس ناول کے ایک باب کی قرآت خود ارون دھتی رائے نے ایک تقریب میں کی ہے۔ جس کا لنک گارڈین کی ویب سائٹ پہ وہیں موجود ہے جہاں سے میں نے اس آرٹیکل کو اردو قالب میں ڈھالنے کی سعی کی ہے۔ ڈیکا نے لندن ہوٹل میں ارون دھتی رائے سے یہ بات چیت کی۔
جب ارون دھتی رائے نے 20 سال میں اپنا نیا ناول مکمل کرلیا تو اس نے اپنے لٹریری ایجنٹ کو کہا کہ” وہ یہ سب ‘نیلامی اور بے ہودگی نہیں چاہتی، تم سمجھ رہے ہو نا”۔اس کی خواہش تھی کہ دلچسپی لینے والے ناشر اسے خط لکھیں اور اسے بتائیں کہ وہ اس کی کتاب کو کیسے دیکھتے ہیں۔ پھر اس نے ان کے ساتھ ایک ملاقات رکھی۔ “اوکے،” اس کے ایجنٹ نے اس کے بعد ہی پیش رفت کی۔”تم جان تو چکی ہی ہو کہ وہ کیا سوچتے ہیں۔ اب فیصلہ کرو۔”
“اوہ نہیں” ، اس نے ایجنٹ کو کہا،ابھی نہیں۔ پہلے مجھے صلاح مشورہ کرنا ہوگا۔ وہ الجھ گیا۔”تم نے مجھ سے مشورہ کیا نا؟”۔” نہیں تو، مجھے تو ان فوک سے مشورہ کرنا ہے، میری کتاب میں پائے جانے والے مقامی کرداروں سے۔” تو ایجنٹ اور مصنفہ دونوں خاموشی سے اکٹھے ایک جگہ بیٹھ گئےجبکہ وہ اپنے ناول کے کرداروں سے پوچھا کئے کہ کون سا ناشر ان کو بہترین لگتا ہے۔ جب رائے نے ان کی پسند کا اعلان کیا، تو ایجنٹ نے بتایا کہ اس ناشر کی دوسرے ناشرین سے بولی آدھی مالیت کی ہے ۔”ہاں۔” اس نے کندھے اچکائے۔” لیکن ول اسے پسند کرتے ہیں۔”
اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: پگڑی سنبھال او جٹا ، اس گیت کے ساتھ جڑی تاریخ کے گمشدہ پنّے
ڈیکا جس نے ارون دھتی رائے سے 20 سال بعد ان کے دوسرے ناول کے آنے پہ انٹرویو کیا لکھتی ہیں کہ جب ارون دھتی رائے نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا تو اس کے چہرے پہ تاثرات دیکھ کر مسکرانے لگیں۔اور کہنے لگیں،”ہر کو ئی یہ سمجھتا ہے کہ میں تنہا رہتی ہوں،لیکن میں نہیں ہوں۔میرے کردار میرے ساتھ رہتے ہیں۔”وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے ہیں؟” اوہ ،ہاں نا ۔جوں ہی میں دروازے بند کرتی ہوں،ایسا ہی ہوتا ہے،’تو تم ایسے شخص بارے کیا سوچوگی ؟ایڈیٹ/گاؤدی نا ، ٹھیک ہے نا؟”جب میں انٹرویو کرکے چلی جاؤں گی تو کیا وہ ان سے (کرداروں) سے کیا کہے گی ؟مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ زرا حیران پریشان سے نظر آتی ہے۔”ہاں، ایسا ہی ہے بہرحال۔”
رائے کے ادبی کام کے بہت سے مداحوں کے لئے گزشتہ 20 سالوں میں اس کا کام ایک پہیلی کی طرح رہا ہے۔کیا وہ واقعی ایک ادبی شخصیت ہے،یا اس کا پہلا ناول حادثاتی جنم تھا۔رائے 35 سال کی تھی جب اس نے اپنا پہلا ناول شایع کیا۔گاڈ آف سمال تھنگز وجد انگیز اور اپنے آپ کو منوالینے والا۔
ایک ہندوستانی خاندان جو زوال کے اندھیروں میں گم ہوتا جاتا ہے،اور ٹریجڈی و اسکینڈل سے لخت لخت ہےکی نیم سوانح عمری پہ مبنی کہانی۔اس نے بوکر پرائز جیت لیا۔42 زبانوں میں اس کی 80 لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔اس ناول نے اسے ایک غیرمعروف سکرین رائٹر سے عالمی شہرت یافتہ ادیبہ بنادیا۔اور وہ ایک نسل کی نئی ادبی آواز بنکر سامنے آئی۔تب سے لیکر ابتک 20 سالون میں اس کے درجنوں مضامین شایع ہوئے۔
نان فکشن کتابیں سامنے آئیں، اس نے دستاویزی فلم بنائیں، حکومتی بدعنوانی، ہندؤ نیشنل ازم، ماحولیاتی تباہی اور ناانصافی پہ کے خلاف اس نے احتجاج کیا۔ کشمیریوں کی آزادی،ماؤ نواز باغیوں اور آدی واسی قبائلیوں کے حقوق کے لئے مہم چلائی۔ٹائم میگزین نے اسے دنیا کی سو انتہائی بااثر شخصیات میں شمار کیا۔ اپنے سیاسی مداحوں کے نزدیک وہ انقلابی بائیں بازو کی اصولی مزاحمت کی آواز ہے۔ اپنے ناقدین کے نزدیک وہ بلوغت میں بدترین مثالیت پسندی، غیر حقیقت پسندی، نرگسیت کی بدترین مثال ہے۔ اس نے توہین عدالت و بغاوت تک کے الزامات کا سامنا کیا۔قید کاٹی اور پچھلے سال اپنی جان کے خطرے میں ہونے کے سبب کچھ دنوں کے لئے جلاوطنی بھی برداشت کی۔لیکن اس دوران اس نے ایک لفظ بھی فکشن کا نہیں شایع کیا۔
لیکن 2011ء میں انہوں نے اپنے دوسرے ناول کے زیر طبع ہونے بارے اشارہ دیا۔لیکن جوں جوں سال گزرتے چلے گئے اور کچھ بھی فکشن سامنے نہ آیا تو کچھ لوگوں کے لئے رائے کو ادبی لکھت کار ماننا مشکل ہوگیا،گاڈ آف سمال تھنگز میں آواز جہاں بہت نفیس و لطیف و پرکار اور کنایہ سے بھری ہوئی تھی ، وہیں ان کے نان فکشن کام اور سیاسی ایکٹوازم پہ یہ تنقید ہوئی کہ اس کی ٹون بہت کرخت اور بہت ہی سادہ پن لئے ہوئے ہے۔ڈیکا کا کہنا ہے کہ” جب میں لندن ہوٹل میں اس کے نئے ناول “دی منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپی نیس ” بارے بات کرنے گئی تو مجھے نہیں پتا تھا کہ کس “آواز” سے میرا سامنا ہونے والا ہے؟
رائے نے زرد پنک لینن کو اپنے جسم کے گرد لپیٹا ہوا تھا۔یہ لینن اس کے اوپر کے جسم پہ ساری کی طرح لپٹی ہوئی تھی جبکہ نیچے جینز تھی۔اور اس نے کھلے ٹخنوں کے ساتھ سینڈل ڈلے ہوئے تھے اور بہت تیز سرخ نیل پالش لگائی ہوئی تھی۔وہ جکڑ لینے والی گریس کے ساتھ حرکت میں آتی ہے اور نرمی کے ساتھ بولتی ہے۔55 سال کی ہوچکی ہے لیکن اب بھی اپنے آپ کو بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہےاور جب وہ مسکراتی ہیں شرارت کے ساتھ یک سوئی کے ساتھ اس کے اپنے اندر موجود ایک مشکل میں ڈال دینے والی خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔وہ تہہ دار جملوں میں بات کرنا پسند کرتی ہیں۔اپنے ادبی لکھیک ہونے یا نہ ہونے بارے سوال پہ اس نے کہا،”میرے لئے فکشن سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔کچھ بھی نہیں۔بنیادی طور پہ یہ وہ ہے جو میں ہوں۔میں داستان گو ہوں۔میرے لئے یہ واحد راستہ ہے جس پہ چل کر مجھے دنیا بامعنی لگنے لگتی ہےاس سارے رقص کے ساتھ جس میں یہ ملوث ہے۔
رائے کا کہنا ہے کہ” انہوں نے شاید دس سال پہلے دوسرا ناول شروع کیا،لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتی۔مجھے واقعی یاد نہیں ہے۔میرا مطلب ہے کہ یہ بہت ہی پراسرار سا معاملہ ہے۔اور جب میں نے اسے شروع کیا تو ایسا خیال کبھی قریب پھٹکنے نہیں دیا کہ کتنی مدت میں یہ مکمل ہوگا۔یہ بات میرا لٹریری ایجنٹ بھی جانتا تھا”۔وہ ہنستی ہوئی بتاتی ہے کہ کیسے جلدی کرنے کے چکر میں وہ اپنا وقت ضایع کر بیٹھتی ہے۔اس کے مضامین جو خاص واقعات کے رونما ہونے پہ لکھے گئے ڈیڈ لائن سے کبھی آگے نہیں گئے۔لیکن رائے کہتی ہے ” فکشن اپنا پورا وقت لیتا ہے۔اسے کوئی جلدی نہیں ہوتی۔تو میں جس رفتار سے لکھتی ہوں اس سے تیز یا آہستہ نہیں لکھ سکتی۔یہ رسوبی چٹان کی طرح ہے جو تمام تہوں کو اکٹھا کرلیتی ہےاور یہ تہیں اس کے گرد تیرتی رہتی ہیں۔فکشن اور نان فکشن کے درمیان فرق وہی ہے جو عارضی اور ابدی میں ہوتا ہے”۔
اس کا خیال ہے کہ وہ “گاڈ آف سمال تھنگز” لکھنا نہیں چاہتی تھی۔لیکن یہ اس کے خاندان اور اس خاندان میں گزرے بچپن کو بیان کرنے کی خواہش تھی جس نے گاڈ آف سمال تھنگز لکھوادیا۔جبکہ اس کا دوسرا ناول ایک اور معنی میں سوانح عمری طرز کا ناول ہے، اس مرتبہ یہ اس کی بالغ زندگی کے احساسات اور عادات کو احاطہ کرتا ہے۔ارون کہتی ہے،”میں جہاں دھکیلی جارہی ہوں میں اس بارے ہی لکھنا چاہتی تھی، جس طرح سے میں دہلی میں، مساجد اور اجنبی جگہوں پہ کرتی ہوں اور جیسے میں اداس ترین مقامات سے لطف اٹھاتی ہوں اور وہ سب جو میری زندگی سے جڑا ہے۔ایسے ہی چیزوں غیر متوقع پن کا جو مجھے سامنا ہوتا ہے”۔کوئی شخص اس قدر پست نہیں ہوسکتا کہ وہ رائے کے شوق یا کمپنی سے فرار چاہنے لگے۔وہ کہتی ہے کہ ،”میں کسی کے بھی پاس سے یونہی گزرنا نہیں چاہتی،میں تو اس کے ساتھ بیٹھ جانا چاہتی ہوں ،اس سے سگریٹ مانگنا چاہتی ہوں اور اس سے کہنا چاہتی ہوں ، سنو،کیا چل رہا ہے؟ زندگی کیسی ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ ہے وہ کتاب”۔
دی منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپی نیس وسیع و عریض اور بہت ہی خوشنما گنجان کہانی ہے ایک ٹرانس جینڈر عورت کی جسے ہندوستان میں ہیجڑا کہا جاتا ہے،جو کہ دلّی کی ایک خستہ حال بستی میں جہاں ہیجڑا کمیونٹی رہتی ہے اپنے بچپن میں ہی گھر چھوڑ کر وہاں چلی آتی ہے۔یہ کمیونٹی ایک دوسرے کے ساتھ سلوک سے رہنے والی تو ہے مگر ساتھ ساتھ سرکش ،بہت غیر محفوظ بھی ہے جسے معاشرے سے خارج کردیا گیا ہے اور یہ صرف دل بہلانے اور تجسس کو بھڑکانے والی مخلوق خیال کی جاتی ہے۔46 سال کی انجم گجرات کے قتل عمل میں پھنس جاتی ہے ،اس کے بعد جب وہ اس سب سے نکلتی ہے تو وہ ہیجرا برادری کو چھوڑ دیتی ہے اور دنیا میں ایک نئے طور سے داخل ہوتی ہے۔ٹراما کا شکار مگر یک سو ،وہ اپنا گھر ایک قبرستان میں بناتی ہے اور وقفے وقفے سے قبروں پہ مہمان کمرے بناتی ہے، یہاں تک کہ جنت گیسٹ ہاؤس دھتکارے گئے،خارج کرڈالے گئے، اچھوت ، مسلمان ہوجانے والوں ، ہیجڑا اور یہاں تک کہ ایک لاوارث بچی زینب کا گھر بن جاتا ہے جسے انجم گود لے لیتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جڑا ایک اور بہت واضح بیانیہ بھی چلتا ہے جو کہ کشمیر کی فضا میں ہے۔ ڈیکا کہتی ہے کہ میری ترجیح ہوتی کہ میں کشمیر کی کہانی کو الگ سے ناول کی شکل دیتی مگر رائے کے لئے مختلف بہاؤ ایک ساتھ اکٹھے ہوجاتے ہیں،کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ یہ کتاب ہی ‘سرحدوں/باڈرز کے بارے میں ہے۔جغرافیائی اعتبار سے کشمیر سرحدوں کے ساتھ چلتا ہے اور ہرکوئی کتاب میں ایک باڈر رکھتا ہے ، ایسی سرحد جو ان کے ساتھ چلتی ہے۔تو یہ کتاب ان سرحدوں کو آپ کیسے دیکھتے سمجھتے ہو کے ہی بارے میں ہے۔اور پھر کیسے آپ دور تک جاتے ہو اور ہر ایک سے کہتے ہو’جنت گیسٹ ہاؤس آؤ’،تم جانتے ہو؟ ہر شحض کو خوش آمدید
دی منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپی نیس ایک فسادی کارنیوال ہے جو بہت پیچیدہ اور گستاخانہ ہے بالکل اپنے مصنف کی طرح۔طرح طرح کے اور سنکی نرالے پن کی نہ ختم ہونے والی پریڈ کسی حد تک تھکا دینے والی لگتی ہے تو یہاں ایک ایسی پارٹی کا سمان ہے جس میں نئے مہمان مسلسل آتے رہتے ہیں۔ بلکہ رائے کی جو غیر امتیازی شمولیت کی پالیسی ہے یہ کوئی ادارتی چوائس نہیں ہے۔ بلکہ یہ سالیڈیرٹی اور رائے کی سیاست اور کتاب دونوں کے بنیادی تھیم کا ادبی اظہار ہے۔
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.