ارونیتا کانجی لال عظیم بنگالی روایت کا تسلسل
از، خضر حیات
بنگال کی سر زمین میں قدرت نے بے پناہ زرخیزی رکھی ہے۔ یہاں کی مٹی نے شروع دن سے ایسے ایسے پھولوں کی آبیاری کی ہے کہ بنگال کی پہچان ہی خوش بو دار ہو گئی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بنگال کا نام لیں اور آپ کو یہ خوش بُو معطر نہ کرے۔
سماج کی روایات پر سوال اٹھانے والے ہوں یا قبضہ گروہوں کے وجود کو چیلنج کرنے والے، اعلیٰ ادب تخلیق کرنے والے ہوں، یا شان دار موسیقی بنانے والے، اپنی مدُھر آوازوں میں گیت گانے والے ہوں یا بے مثال اداکاری کرنے اور رقص کرنے والے ہوں، اس دھرتی نے ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ پیدا کیا ہے۔
یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے اور ہر نیا زمانہ تازہ غُنچے پروان چڑھا کے اس روایت کو با کمال انداز میں آگے بڑھاتا رہتا ہے۔
میرے ذہن میں بنگال کا چہرہ اور نین نقشہ جن خد و خال سے عبارت ہے، ان میں سے چند ایک کے نام یہاں شامل کر رہا ہوں۔ میں بنگال کو ان چہروں سے پہچانتا ہوں۔
سیاسی و سماجی شخصیات میں راجہ رام موہن رائے، ایشور چندر ودیاساگر، سوامی وویکانت، نیتاجی سبھاش چندر بوس، ابو القاسم فضل الحق (اے کے فضل الحق)، حسین شہید سُہروردی، شیخ مجیب الرحمان، امرتیا سین، ممتا بینرجی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
اسی طرح وبھوتی بھوشن چیٹرجی، بُنکم چندر چیٹرجی، رابندر ناتھ ٹیگور، شرت چندر چیٹرجی، قاضی نذرُ الاسلام، ستیہ جیت رے، جھمپا لہری، امیتابھ گھوش وغیرہ جیسی نام ور ادبی شخصیات ہیں۔ فنون (فلم، ادا کاری، موسیقی، گلو کاری) سے وابستہ شخصیات میں فلم ڈائریکٹرز ستیہ جیت رے، بمل رائے، ہری شکیش مکھرجی، مرینل سین، اپرنا سین، انوراگ باسو، شوجت سرکار وغیرہ جیسے لوگوں کا کام لائقِ تحسین ہے۔
ایس ڈی برمن، ہیمنت کمار، انیل بسواس، سیسل چودھری، آر ڈی برمن، بپی لہری، روبن گھوش، استاد روی شنکر ستار والے، استاد علی اکبر خان سرود نواز وغیرہ جیسے موسیقاروں اور کلا کاروں کی دھنیں اور تانیں بھی یہیں سے اٹھ کر کانوں میں رس گھولتی ہیں۔
منّا ڈے، کشور کمار، محمد عزیز، امیت کمار، کمار سانو، ابھیجیت بھٹاچاریہ، بابل سپریو، شریا گھوشال، مدھوشری، شان، مونالی ٹھاکر، رونا لیلیٰ وغیرہ جیسے گلو کاروں کی بھومی بھی بنگال ہی ہے۔ دیویکا رانی، اشوک کمار، کشور کمار، اتم کمار، شرمیلا ٹیگور، وکٹر بینرجی، سُپریا دیوی، مادھبی مکھرجی، جیا پرادھا، مالا سنہا، سچترا سین، سومترا چیٹرجی، سشمیتا سین، کونکنا سین شرما وغیرہ جیسے اداکار بھی اسی مٹی سے ابھرے ہیں۔ اب ان ناموں میں ایک نئے نام کا اضافہ ہو گیا ہے: ارونیتا کانجی لال
اروینتا کانجی لال محض اٹھارہ سال کی لڑکی ہیں جو مغربی بنگال میں پیدا ہوئیں اور جنھیں بچپن ہی سے گیت گانے کا شوق ہے۔ یہ نو جوان لڑکی اسی عظیمُ الشّان روایت کی امین ہے جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔
چار سال کی عمر سے گانا سیکھ رہی ہیں اور گا رہی ہیں۔ بھارت میں گانے بجانے والوں کو چُوں کہ کم تر سمجھ کر ان کے حوصلے نہیں توڑے جاتے اس لیے موسیقی کو پنپنے کے لیے یہاں نہایت سازگار ماحول میسر آتا ہے۔
اسی سلسلے میں وہاں موسیقی کے مقابلے منعقد ہوتے رہتے ہیں اور ان مقابلوں میں بھارت کے تمام علاقوں سے بچوں اور بڑوں کو سامنے آنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ ارونیتا بھی موسیقی کے ایک مقابلے ‘انڈین آئیڈل’ کے بارھویں سیزن میں شامل ہوئی اور اپنی آواز کا جادو جگا کر مجھ جیسے کروڑوں کو اپنا گرویدہ بنا چکی ہیں۔
اس لڑکی کی آواز بڑی غضب ناک ہے۔ نیم کلاسیکل بھی گاتی ہیں اور نغمے بھی۔ جو بھی گاتی ہیں سماں باندھ دیتی ہیں۔ سٹیج پر گاتے ہوئے ان کا اعتماد دیکھنے لائق ہوتا ہے۔ ادت نارائن، کمار سانو، شریا گھوشال اور ابھیجیت بھٹاچاریہ جیسے بڑے گائیکوں کے ساتھ گاتی ہے اور مجال ہے جو کہیں ان کے رعب میں آ کے آنچ ہلکی پڑتی ہو۔
شوخ گانے گاتی ہیں۔ دھیمے گاتی ہیں۔ ہر پرفارمنس لاجواب ہوتی ہے۔ لکشمی کانت اور پیارے لال جوڑی کے بنائے ہوئے گانے پیارے لال جی کے سامنے گاتی ہیں تو سن کر پیارے لال جی نہال ہو جاتے ہیں۔ آشا بھوسلے کا گانا ان کی موجودگی میں گاتی ہے تو آشا جی کو حیران کر دیتی ہیں۔ اے آر رحمان جیسے سنجیدہ مزاج موسیقار کے سامنے ان کا گیت گانا بڑا دل گردے کا کام ہے، کیوں کہ رحمان سنجیدہ بیٹھے مسلسل یہی حساب لگا رہے ہوتے ہیں کہ کہیں میرا گانا نہ خراب ہو جائے۔
دیپا مہتا کی فلم 1947 ارتھ میں اے آر رحمان کی ایک کمپوزیشن ہے جس کے لیے بول جاوید اختر نے لکھے ہیں:
ایشور اللہ تیرے جہاں میں نفرت کیوں ہے جنگ ہے کیوں؟
اس گیت کو بعد میں کسی فلم کے لیے ری میک کیا گیا تو اس پہ رحمان نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ایک انٹرویو میں رحمان کہتے ہیں کہ انھوں نے میرے گیت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔
رحمان جیسے بندے کے سامنے ارونیتا بمبے فلم کا گیت:
‘کہنا ہی کیا’
گاتی ہیں تو رحمان یہاں بھی اپنے اسی خدشے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے یہی ڈر لگ رہا تھا کہ سُر خراب نہ لگ جائے یا کوئی اور گڑ بڑ نہ ہو جائے مگر ارونیتا نے نہایت اچھا گایا ہے اور سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ رحمان جیسے میوزک ڈائریکٹر بھی داد دیے بنا نہ رہ پایا۔
اگر چِہ اس مقابلے میں پہلی پوزیشن اتراکھنڈ ریاست کے پوّن دیپ راجن نے حاصل کی ہے جو گانے کے ساتھ ساتھ پیانو، طبلہ، ڈھولک، ہارمونیکا اور گٹار بھی بجا لیتے ہیں جب کہ ارونیتا دوسرے نمبر پہ آئی ہیں مگر مجھے پوّن دیپ سے زیادہ میٹھی آواز ارونیتا کی لگی ہے۔
ارونیتا مغربی بنگال سے ہیں اور ان کی آواز میں بنگال کی اسی مٹی کی خوش بو سنائی دیتی ہے جو بنگال کی پہچان ہے۔ ارونیتا ایک شان دار وراثت کی امین ہیں جو دیر تک ہماری سماعتوں اور یاد داشتوں کو معطر کرتی رہے گی۔
چوری کہیں کُھلے نہ نسیمِ بہار کی
خوش بُو چُرا کے لائی ہے ‘گلوئے’ یار کی