باسودے کی مریم ــــــــــ نو تاریخی پڑھت

باسودے کی مریم ، نو تاریخی پڑھت

باسودے کی مریم ــــــــــ نو تاریخی پڑھت

از، یوسف نون

 پی ایچ ڈی سکالر بہاؤالدین ذکریا یونی ورسٹی، ملتان

باسودے کی مریم اسد محمد خاں کا نمائندہ افسانہ ہے، جو سب سے پہلے فنون میں شائع ہوا، ان کا پہلا افسانوی و شعری مجموعہ: کھڑکی بھرا آسمان جب ١٩٨٢ میں منصۂِ شہود پر آیا تو مذکورہ افسانہ اس مجموعہ کی زینت بنتاہےـ باسودےکی مریم ویسے تو ایک کرداری افسانہ ہے جو مریم نامی آیا، جسے انا بوا کہا جاتا ہے، کےگرد گھومتا ہے۔ مریم جو سلیقہ شِعار، ہم درد، با وفا، با حیا، حُبِّ رسول اور حُبِّ اہلِ بیت سے سرشار ہے، اس افسانے کا مرکزی کردار ٹھہرتا ہےـ مصنف نے کسی خاص، مقتدر اور اونچے طبقے کی بَہ جائے نچلے طبقے کا ایک ایسا کردار اس افسانے کے مرکزی کردار کے طور پر چُنا ہے جو ایک خاص طبقے، تہذیب و ثقافت کا نمائندہ ہے۔

متن کو پڑھنے کے ویسے تو کئی طور ہیں، ان میں سے ایک نو تاریخیت بھی ہےـ نو تاریخیت کو ویسے تو متن کی ہیئت اور تکنیک سےکوئی سروکار نہیں، یہ متُون میں تاریخی متنیت کی تلاش کا دوسرا نام ہےـ نو تاریخیت کااہم پہلو تہذیبی مادیت ہے، ایسے ثقافتی مطالعات کو Cultural Studies کانام اہلِ انگلستان نے دیا ہے، جب کہ امریکہ میں اسے نو تاریخیت یا New Historicism سے موسوم کیا جاتا ہے۔

ان دونوں اصطلاحات میں تھوڑا بہت فرق ضرور ہے، مگر طریقِ مطالَعہ ایک ہی ہےـ جس کے تحت ماضی کے مطالَعَہ سے حال کی پڑھت کا کام لیا جاتا ہےـ

تاریخی مادیت کے تحت نمائندہ طبقات کی بَہ جائے حاشیائی طبقات کا مطالَعَہ خاصا اہمیت کا حامل ہےـ یہ ان طبقات کے مطالعہ سے ہی ماضی کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشرتی اقدار کا مطالَعَہ، حال سے موازنہ اور ماضی کی روشنی میں حال کی پڑھت کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہےـ

یہ افسانہ پاکستان بننے سے پہلے کے سماج اور تہذیب کا آئینہ دار ہے، جس میں ریمنڈ ولیمز کی بیان کردہ کلچر کی تینوں حالتیں:

حاوی 

باقیاتی

 اور، نو خیز کلچر

نظر آتا ہےـ اس افسانہ میں جس کلچر اور جس طرح کی تہذیبی اَقدار کی باز یافت کی گئی ہے، وہ تقسیم سے پہلے کا زمانہ ہےـ اسد محمد خاں اس ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ دسمبر ١٩٣٢کو بھوپال کے ایک سردار پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے، اور ١٩٥٠میں کراچی آن آباد ہوتےہیں۔

اٹھارہ، انیس سال تک کی عمر خاصی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اس عمر میں ارد گرد کا سماج، اس کی اَقدار ذہن پر اپنا اثر اور اَن مٹ نقش ثبت کر چکتی ہیں، اسد محمد خاں کا یہ سنہری زمانہ متحدہ برطانوی ہندوستان میں گزراـ

اس طرح ان کے اس افسانے کو ماضی، یعنی بچپنے سے اپنے حال یعنی ادھیڑ عمر کے تہذیبی و ثقافتی دور کو پڑھنے اور اس کے آج سے موازنے کی کاوش قرار دیا جا سکتا ہےـ

اس افسانے کو مصنف کی زندگی کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو نو تاریخیت کا خاص وصف ہےـ اس طرز سے کئی طرح کے سوانحی ربط ملتے ہیں۔ اسد محمد خاں کا تعلق بھوپال کے سردار پٹھان قبیلے سے ہے، اس افسانے میں واحد متکلم کی ماں پٹھانی اور جاگیر دار کی بیٹی ہے۔

یہ کردار اسد محمد خاں کی والدہ ماجدہ کے قریب تر معلوم پڑتا ہےـ دوسرا یہ کہ واحد متکلم افسانے میں ایک مقام پر جانگیہ پہنے ہم جولیوں کےساتھ ہاکی کھیلنے میں مگن نظر آتا ہےـ اسد محمد خاں اقبال خورشید کو دِیے گئے اپنے ایک مصاحبہ میں بچپن میں ہاکی کھیلنے کے شوق، اور یہ کھیل کافی عرصہ کھیلتے رہنے کے اپنے اس شغف سے متعلق ذکر کر چکےہیں۔

اس افسانے کو نو تاریخیت کے ایک پہلو، تہذیبی مادیت کی کسَوٹی پر بھی پرکھا جا سکتا ہےـ کلچر، یا ثقافت کی تینوں سطحیں: حاوی کلچر، باقیاتی، اور نو خیز کلچر، کسی نہ کسی طور اس افسانے میں نظر آتے ہیں۔

حاوی کلچر سے مراد جاگیر دارانہ، آمرانہ، بعد اَزاں سرمایہ دارانہ، صنعتی اور کارپوریٹ کلچر ہے، جو طاقت، سرمایہ اور جبر و استحصال پر قائم ہے۔ باقیاتی کلچر سے مراد، وہ کلچر جو اخلاص، محبت روا داری انسانی رشتوں ناتوں کی تقدیم و تکریم سے جڑا اور ریا کاری سے کوسوں پرے، خدمتِ خلق کو عظمت جاننے والا ہے۔

یہ طبقہ ایسا طبقہ ہے جو اپنی غلامی، اپنے استحصال اور بد حالی کا خود آلۂِ کار بنا ہوا ہے، صابر و شاکر اور راضی بَہ رضا ہے، اسے باقیاتی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ معدوم ہوتا کلچر ہے، اس کلچر کے نمائندہ کردار قصۂِ پارینہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ اسے تقسیم سے پہلے کا ہند مسلم گنگا جمنی اور بھگتی کلچر بھی کہا جا سکتا ہےـ نو خیز کلچر کے کئی روپ ہیں جو مادی منفَعَت سے جڑے جذباتی لگاؤ سے عاری اور عقلیت پر استوار ہے۔

یہاں عقلیت کی مخالفت ہر گز مقصود نہیں، یہاں مراد ہر رشتے اور تعلق کو عقلی کسَوٹی پر پرکھنا، مالی  منفَعَت اور نقصان سے جوڑنا ہے۔

 اوّلُ الذّکر کلچر کے نمائندہ کرداروں اور رویَّوں کا ذکر کیا جائے تو ان میں واحد متکلم کے ابا اور ماں جی نظر آتے ہیں۔

ابا کو مریم نے دودھ پلایا ہے، اور ان کی دیرینہ خدمت گزار ہیں، اس سبب ابا جی ان کے قدر دان ہیں، اور ان کی جسمانی اور مالی خدمت کرنا چاہتے ہیں مگر زندگی بھر کبھی کچھ کر نہیں پاتے۔ پاؤں دابنے کی خواہش سے لے کر ان کے ساتھ ممدو کی خبر لینے باسودا جانے، حج پر بھیجنے ایسی تمام خدمات سر انجام دینے کی خواہش کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔

اس کا ظاہری سبب تو مریم کی شخصیت ٹھہرتی ہے، جو قناعت پسند بھی ہے خود دار بھی، اور اپنا بوجھ خود آپ اٹھانے کی عادی بھی ہے۔ مگر تھوڑا غور کریں تو ایک اور پہلو سامنے آتا ہے، وہ حاوی کلچر، اس کی ذہنیت، شانِ بے نیازی اور اس کے تعصبات بھی ہیں۔

ابا جی کے دل میں مریم کی قدر بھی ہے اور دل ہی دل میں مریم کی خدمت کرنے کی خواہش انگڑائی بھی ضرور لیتی ہے، مگر ہاتھ عملی طور پر آگے بڑھتے نظر نہیں آتے۔ ابا جی مریم کے ساتھ باسودے جانے کا سرسری کہتے تو ہیں مگر اصرار نہیں کرتے اور نہ ہی بعد میں مریم اور ممدو سے اظہارِ ہم دردی نظر آتا ہے اور نہ ابا جی کا کوئی ایسا قدم اٹھتا ہے جو ممدو اور مریم کی خیر خواہی میں ہو۔ با لآخر ایک دن مریم خود ہی لٹی پٹی آن کھڑی ہوتی ہیں۔

اماں جی بھی اسی حاوی جاگیر دارانہ کلچر کا پَروَردہ کردار ہے، جو خاندانی تفاخر کا شکار بھی ہے، پٹھانی ہے اور جاگیر دار کی بیٹی بھی، اپنے بیٹے پر لگے چوری کے الزام کو کسی طور قبول کرنے کو تیار نہیں، مریم کی شکایت پر اپنے بیٹے کی اصلاح کی بَہ جائے عفیفہ الٹا مریم سے بگڑ بیٹھتی ہیں۔

مریم بَہ غیر تنخواہ کے ملازمہ، بَل کہ، مالکن ہے۔ جو پہلے مفت خدمات انجام دیتی ہیں، بعد اَزاں ابا جی کی ملازمت پر ایک یا دو روپے ماہانہ پر اکتفا کرتی نظر آتی ہیں۔

افسانہ نگار نے ایک ملازمہ کو مالکن کا رتبہ یا خطاب دیا ہے، کیسی مالکن؟ کہاں کی مالکن؟ یا صرف مالکن کے ٹائیٹل کی آڑ میں استحصال کی ایک نئی راہ نکالی گئی ہے۔ مریم کو مالکن کے کتنے حقُوق میسر تھے؟ ماضی میں گھرکی آیا، یا نوکر کو مالک قرار دینے کے بیانیے کی موجودہ دور میں ردِّ تشکیل کی سخت ضرورت ہے۔

میرے ذاتی مشاہدہ میں ہے کہ آج بھی میرے گاؤں میں دو چار کھاتے پیتے گھرانے ایسے ہیں، جو اس بیانے کو ہتھیار کے طور پر برتتے ہوئے پرولتاریہ مزدور طبقے کا خون نچوڑ رہے ہیں۔

نو خیز کلچر جو مادیت سے جڑا ہے، اپنے تمام تر رشتوں ناتوں میں بھی مادی وُجُود سےتو بھر پُور لگاؤ رکھتا ہے، مگر روحانیت اور جذباتی لگاؤ سے عاری ہے۔

واحد متکلم نو خیز کلچر کی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے، اماں جی اور مریم دونوں ان کی جنتیں ہیں، وہ دونوں کے گوشۂِ عافیت میں پناہ ڈھونڈھتا ہے، مریم سے عید پر عیدی لینا، محرم پر ان کے بنے پاپڑ، پکوڑے اور جلیبوں پر ہاتھ صاف کرنا اس کا خاص مشغلہ ہے۔

جب تک مریم کا وُجُود ہے، اس سے کہیں مادی مفاد جڑا ہے تو احساسِ قربت اور انس بھی ہے۔ جب مریم ممدو کی خبر لینے باسودے چلی جاتی ہیں اور عرصۂِ دراز تک خیر خبر نہیں ملتی، اس سب کے با وُجُود واحد متکلم کے دل و دماغ میں کہیں بھی مریم کے لیے کوئی تڑپ نہیں ملتی۔

جب مریم فوت ہوتی ہیں تو واحد متکلم گھر موجود نہ تھے، جب گھر لوٹے تو ماں کی آنکھیں دیرینہ خدمت گزار کی جدائی کے غم میں پھوٹ بہیں اور انا بوا کی موت کی خبر سنائی۔ اس پر واحد متکلم کا کوئی ردِّ عمل دکھائی نہیں دیتا، باپ کے بار بار اصرار کے با وُجُود وہ مریم کی قبر پر نہیں جاتا۔

ابا نے مجھے حکم دیا کہ میں مریم کی قبر پر ہو آؤں، میں نہیں گیا، کیوں جاتا، ٹھنڈی مٹی کے ڈھیر کا نام تو مریم نہیں تھا۔ میں نہیں گیا ابا نا راض بھی ہوئے میں نہیں گیا۔

باسودے کی مریم

نو تاریخیت سے جڑے نقاد کا منصب متن کے توسط سے اس کی تاریخی متنیت سے سروکار ہے۔ متن کے ذریعے ہی ماضی کی تہذیب کا آج کے دور میں مطالَعَہ ممکن ہے۔ متن کے توسط سے ہی مصنف کے ذہنی مَیلانات و تعصبات، شبہات، عقائد، نظریات و افکار، خوف اور بے چینیوں تک رسائی ممکن ہے۔

تاریخ کے سروکار نمائندہ طبقات جب کہ نو تاریخیت کےسروکار حاشیائی طبقات ہیں، جن کو تاریخ نے اپنا موضوع بنانے کے قابل نہیں سمجھایا نظر انداز کر دیا ہے۔ نو تاریخیت ایسے مُتُون کو اہمیت دیتی ہے جن میں حاشیائی طبقات کو زیرِ موضوع لایا گیا ہو۔

نو تاریخیت میں تاریخی، غیر تاریخی ادبی و غیر ادبی متون برابر اہمیت کے حامل ہوتےہیں، ان متُون میں سب کچھ بیان نہیں ہوتا، جو بیان ہوا، اس کے درمیان بھی گیپس یا وقفے موجود ہیں، یا اس حقیقت کو الٹنے پر ایک اور حقیقت واگزار اور عیاں ہوتی ہے۔

نو تاریخیت کا منصب ان گیپس کو ملانا، اور سامنے کی موجودہ حقیقت کو پلٹ کے نئی حقیقت کو پانا ہے۔

 باسودے کی مریم میں مرکزی اور اہم کردار مریم ہی کا ہے، جو وفا دار بھی ہے سلیقہ شعار بھی اور خدمت گزار بھی، جس کا مسلک انسانیت، خلوص و محبت ہے۔ مذہب سے اتنا لگاؤ ہےکہ مسلمان کی بٹیا اور جورو ہے۔ مذہب کے معاملے میں خاص سادگی، نفاست اور خلوص جو اسے گنوار پن یا ignorance کی حدتک لے جاتا ہے۔ اس کا خاص وصف اور حسن ہے۔ ایسا حسن ہمیں ماضی کے دیہاتی سماج میں، ایسےکئی کرداروں کی صورت نظر آتاہےـ مریم کی سادگی اور اخلاص و اعتقاد ملاحظہ ہو:

مریم سیدھی سادھی میواتن تھیں۔ میری خالہ سے مرتے دم تک صرف اس لیے خفا رہیں کہ عقیقے پر ان کا نام فاطمہ رکھ دیا گیا تھاـ

ری دلھن! بی بی پھاطمہ تو ایکئی تھئیں۔ نبی کی سہجادی تھیں، دنیا و آخرت کی باچھا تھیں۔ ہم دوجخ کے کندے بھلا ان کی بروبری کریں گے۔ توبہ توبہ استگپھار

باسودےکی مریم

ان کے ہاں مذہب ایک رسمی چیز نظر آتی ہے، علم و عمل کی کمی ہے مگر جتنا بھی عمل ہے پُر خلوص ہے، آج کے عہد کی مانند متشدد ہر گز نہیں ہے۔ مریم بچوں اور انسانیت سے اس لیے محبت کرتی ہیں کہ وہ اس کے حجور کے امتی اور مخلوقِ خدا ہیں۔ اس کے دل میں اپنے حجور کا مکہ مدینہ، یا پھر اس کے امتیوں کی محبت ہے۔ اس کی آنکھوں میں ہر سچے مسلمان کی طرح حجور کا مکہ مدینہ دیکھنے کا خواب ہے۔

در اصل یہ خواب ہی اس کی زندگی کا محرَّک اور مَطمَح نظر ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی اس خواب کی تعبیر اور تکمیل کے لیے تَج دیتی ہیں، جب کسی نے چھیڑا اماں تجھے نہ نماز آتی ہے اور نہ قرآن تو حج پر کس لیے جائے گی، تو وہ بگڑ کر کہتی ہے:

رے مسلمان کی بٹیا، مسلمان کی جورو ہوں۔ نماج پڑھنا کا ہے، نئیں آتی۔ رے کلمہ سریپ سن لے، چاروں کُل سن لے اور کیا چیے۔ تیرےکو؟ اور کیا چیے؟”

باسودے کی مریم

کلمہ بھی ملاحظہ ہوں، موجودہ عہد کے متشدد اور پر گھٹن سماج میں اس طرح کوئی بھی اپنی سادگی، یا نا خواندگی کے سبب مقدس متون کی قرات کا بھولے سے بھی ارتکاب کر بیٹھے تو اس پر توہینِ مذہب کافتویٰ جَڑ دیا جائے۔

کلمہ طیبہ کاورد کرتیں، خدا مغفرت کرے کلمہ سریپ بھی جس طرح چاہتیں پڑھتیں: لاالاہاال للانبی جی رسول الاحجورجی رسوالا

باسودے کی مریم

مذہب کو رسمی سا لینا، خدا کی عبادت کی بَہ جائے خدا کے بندوں سے محبت پر زور اور ان کی خدمت، ایسے خدا کے بندوں کا شیوہ رہا ہےـ سرائیکی کی ایک لوک حکایت ہے کہ ایک عالم غرور سے سرشار کریم، کریم (خدا کاصفاتی نام )گردانتا رہا، دوسری طرف کسی جھاڑی میں بیٹھا ایک گنوار شخص جو اپنی کم علمی اور کم مائیگی کے سبب اس کی زبان کریم کی دُرُست ادائی سے قاصر تھی، مگر خلوص و محبت سے سرشار کریم کی بَہ جائے کرینہہ، کرینہہ (جو خود رو صحرائی جھاڑی ہے جس پر چیری کی مانند پھل لگتے ہیں، جنہیں ڈیلھے کہتے ہیں،) پکارتا رہا، خدا نے اس پُر غرور عالم کو جو کریم، کریم کی گردان کر رہا تھا، اس کے غرور کے سبب جہنم واصل کیا، اور غلط نام پکارنے والے کی بخشش اس کے خلوص، سچائی، محبت اور سادگی کے سبب کر دی۔

مریم پورے خلوص اور خشوع و خضوع کے ساتھ مذہبی تہوار و رسوم بجا لاتیں، عید ہو یا محرم، وہ اپنے کَسَب میں پوری تھیں۔ محرم کی نویں دسویں کے درمیان نہایت خشوع و خضوع سے تعزیے، سواریاں اور اکھاڑے دیکھتیں، اور نہایت عقیدت سےحاضری دیتیں۔ پکوان پکاتیں، بچوں میں بانٹتیں، خود کھاتیں، لڑکوں کو اکٹھا کر کے شہادت نامہ سنتیں اور کلمہ کا ورد کرتیں، لڑکوں کو حسین کا فقیر بناتیں، انہیں خاصے اہتمام کے ساتھ سبز چوغے سِی کے پہناتیں، مزید:

امام حسین کا نام لے لےکر بین کرتیں، رو رو کر آنکھ سُجا لیتیں اور بین کرتے کرتےگالیوں پر اترآتیں، “رے حرامیوں نے میرے سہجادے کو مار دیا۔ رے ناس متوں نے میرے باچھا کو مار دیا۔

باسودے کی مریم

ان کے مَن میں تو حجور کا مکہ مدینہ بسا تھا، وہ جو قلیل تنخواہ لیتی رہیں، اسے بھی حج فنڈ کے طور پر جمع کیا، جب زادِ راہ جمع ہو گیا تو زبان پرتھا، خواجہ پیا جرا کھولا کوڑیاں۔

جب حج فنڈ جمع ہو چکا تو ممدو کی بیماری کا خط پا کر، مذہبی فریضے کی بَہ جائے انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی، اس وقت ان میں ایک ممتا جاگی نظر آتی ہے۔ ویسے تو یہ ممتا ہی اس کی شخصیت پر غالب تھی۔ حجور کے سہر مکہ مدینہ کو بھی ایک ممتا کی مانند دل میں بسائے ہوئی تھیں، امام حسینؑ کا ذکر بھی ممتا کی طرح کرتیں، کلمۂِ طیّبہ کا ورد بھی ممتا کی لوری کی طرح، پیار بھرے انداز میں طرح طرح کے انداز سے مصرعے بدل کے بیان کیے جاتیں، لاالاہاال للانبی جی رسول الاحجورجی رسول الا۔

واحد متکلم، ان کے ابا جی اور سارے گھر والوں کے لیے بھی مریم کے ممتا ایسے جذبات تھے، انہی جذبات سے مغلوب اپنا استحصال برداشت کیے ہوئی تھیں، بَل کہ، اس استحصال پر خود سے آمادہ اور خوش نظر آتیں۔ ان کی ممتا اپنے بطن جنوں، شتاب خاں اور ممدو کےلیے بھی اتنی ہی پُر خلوص تھیں۔

ممدو کی بیماری کا سن کر حج کے منصوبے کو پسِ پشت ڈال کر ممدو کی خبر گیری کو سَر پٹ دوڑیں۔ ممدو جاں بَر نہ ہو سکا اور جب حجور کے سہر جانے کی امید کےتار ٹوٹتے نظر آئے تو مریم کےکوسنے سنیں:

 راے حرامی تیرا ستیا ناس جائے، اے ممدو! تیری ٹھٹھڑی نکلے۔ اورے بد جناور تیری کبر میں کیڑے پڑیں۔ میرے سب رے پیسے خرچ کر دیے، اے ری دلہن! میں مکے مدینے کیسے جاؤں گی

باسودے کی مریم

در اصل یہ کوسنے اپنی قسمت کو کوسنے ہیں، مریم کی زندگی تین ستونوں پر قائم تھی، شتاب خاں، ممدو اور اپنے حجور کا سہر مکہ مدینہ، ممدو جس کو نا سور تھا اور ڈاکٹروں نے جراحت کے دوران اس کی گال میں ایک کھڑکی سی بنا دی تھی، اور اس کی زبان باہر سے مُنھ کے اندر ماہیِ بے آب کی مانند تڑپتی نظر آتی تھی۔ اس سے کریہہ اور بد صورتی کی بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔
مگر ممتا تو ممتا ہی ہے، ماں کے لیے ایسی اولاد محبت خلوص کی زیادہ اور پہلی حق دار ٹھہرتی ہیں۔ حجور کے سہر مکہ مدینہ سے بھی پہلے، جب ممدو جو اس کی پہلی زندگی کی کرن ہے، وہ اس دنیا میں نہیں رہتا تو پھر اپنی دوسری ترجیح، مکہ مدینہ، کی جہت دو بارہ جگاتی ہیں۔

پیسہ تو سارا ممدو نے خرچ کرا دیا، اب دو بارہ حج فنڈ جمع ہونے لگتا ہے۔ جب یہ آرزُو پوری ہوتی نہیں پاتیں اور زندگی کا چراغ گُل ہوتا نظر آتا ہے، تو اپنی جمع پونجی سے کفن دفن اور باقی ماندہ رقم آج کی ترجیحات کے مطابق مسجد و مندر کو پیش کرنے کی بَہ جائے ان انسانیت کو وقف کر دیتی ہیں، وہ باقی ماندہ جمع پونجی اپنی تیسری ترجیح شتاب خاں کو دان کیے جانے کی وصیت کر جاتی ہیں۔

شتاب خاں بھی تو بیٹا ہے، اس کے با وُجُود آخری ترجیح کیوں ٹھہرتا ہے؟ وہ ریل وے میں چوکی دار ہے، اور مزے سے زندگی گزار رہا ہے۔ مریم اس کے گزر بسر سے مطمئن ہیں، ورنہ ممتا کی محبت ترجیحات کی محتاج کہاں؟

ان کی محبت حجور کے سہر مکہ مدینہ اور ممدو، شتاب خاں اور مالکوں کے لیے یَک سَاں تھی۔ اگر ترجیحات تھیں بھی تو اس کی بھی ایک اپنی خاص منطق تھی، جس کا اوپر ذکر آ چکا ہے۔

ایسی بوڑھیوں کی ایک خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے گور گڑھے کا ٹھکانہ خود کریں۔ اس اَمر کو اعزاز جانا جاتا ہے کہ مرنے والے کا اپنا دَھن اس کے اپنے کفن دفن کے کام لگا۔ مریم زندگی بھر جو کسی کی محتاج نہ ہوئیں، مر کے ایسا کیسے کر سکتی تھیں۔ اپنے خرچ سے ہی کفن دفن کی وصیت کر گئیں۔

گھر میں ایک بڑے میاں جی، جو ہیں تو حاوی کلچر سے مگر اس حاوی میں بھی باقیاتی کلچر کا ایک کردار ہیں، ان میں حوصلہ، بُرد باری مذہبی روا داری اور رکھ رکھاؤ سب کچھ موجود ہے۔ دیوبندی ہونے کے با وُجُود گھر میں اثنائے عشری سے متعلق رسومات سے نہیں روکتے۔ گھر میں جب یہ سب رسومات ادا ہوتی ہیں تو ان دیکھا اور ان سنا کر کے اپنے معمولات میں مگن رہتے ہیں۔ ایک سال جب عاشورہ پر تقریب نہیں ہوتی تو ان کا رد عمل ملاحظہ ہو:

بڑے میاں جی بھی، خدا ان پر اپنی رحمتوں کا سایہ رکھے، کمال بزرگ تھے۔ ظاہر تو یہ کرتے تھے کہ جیسے مریم کی ان باتوں سے خوش نہیں ہیں۔ پر ایک سال مریم باسودے چلی گئیں، ہمارے گھر میں نہ شہادت نامہ پڑھا گیا، نہ ہائے حسین ہوئی نہ ہم فقیر بنے۔ عاشورے پر ہم لڑکے ہاکی کھیلتے رہے۔ عصر کی نماز پڑھ کر دادا میاں گھر لوٹ رہے تھے، ہمیں باڑے میں اودھم مچاتے دیکھا تو لاٹھی ٹیک کر کھڑے ہو گئے، “اے کرشناٹو! تم حسن حسین کے فقیر ہو؟ بڑھیا نہیں ہے تو جانگیے پہن کر اودھم مچانے لگے۔ یہ نہیں ہوتا کہ آدمیوں کی طرح بیٹھ کر یٰسین شریف پڑھو۔”

باسودے کی مریم

ممدو کے گال پر نا سُور کی جراحت کرتے ڈاکٹروں نے کھڑکی بنا دی اور ممدو کافی علاج معالجہ کے با وُجُود جاں بَر نہ ہو سکا، یہ دونوں واقعات ماضی کی نا کافی، اور کم تر درجے کی طبی سہولیات پر دال ہیں، آج جو معمولی امراض نظر آتے ہیں، انہیں تاریخ میں موذی، جان لیوا اور وبائی امراض کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ملیریا، ہیضہ ایسی ماضی کی موذی امراض آج معمولی امراض ہیں۔

ماضی میں ان امراض نے قوموں کی قومیں صفحۂِ ہستی سے مٹا دیں، آج کی جدید طبی ریسرچ ماضی سے کہیں آگے ہے۔ آج کی جدید طب اور سائنس نے ماضی کے ان موت کے پیامبروں کو شکست سےدو چار کر دیا ہے۔

نو تاریخیت کا مسئلہ متون کی قِرات ہے، اس کا فَنّی عَمَل نہیں، باسودے کی مریم کا فنی ہیئتی اور زبان و محاورے کی رُو سے جائزہ ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے۔ باسودے کی مریم کا متن ہمیں بَہ جا طور پر ماضی سے رُو شناس کراتا اور ہمارا ماضی سے رشتہ جوڑتا ہے۔

گرین بلاسـٹ (جو نو تاریخیت کی اصطلاح کے بانی ہیں) کے مطابق نو تاریخیت ادبی تنقید کی تھیوری، یا ادبی تنقید کا کوئی اصول، یا نظریہ نہیں، بَل کہ، ایک متنی عمل، متنی سر گرمی یا متن کو دیکھنے اور پرکھنے کے طریقوں میں سے ایک طور ہے، جس پر ہم نے چل کر اس متن کے ماضی کو حال کی روشنی میں باز یافت کرنے اور پرکھنے کی اپنی سی ایک سعی کی ہے۔