اساطیر، کتھا، کہانی اور ما بعد جدید تناظر
از، سھل شعیب ابراھیم
حال ہی میں ڈاکٹر قاضی عابد کی نئی کتاب “اساطیر، کتھا، کہانی اور مابعد جدید تناظر” شائع ہوئی ھے۔ اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں “ماقبل جدیدیت سے مابعد جدیدیت تک” ایک پیش لفظ ھے جسے ڈاکٹر قاضی عابد نے اپنے ذہنی سفر کی روداد کے طور پر رقم کیا ھے۔ اس ابتدائیہ سے نہ صرف ڈاکٹر قاضی عابد کے شخصی رحجانات کی عکاسی ہوتی ھے بلکہ اردو تنقید کے حوالے سے بنیادی نکات مرتب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر قاضی عابد فکری اعتبار سے ترقی پسند نقاد ہیں اور ان کے اپنے الفاظ میں “ترقی پسند ہونے کا مطلب زندگی سے بھرا ہونا ھے کشادہ ذہن اور کشادہ دل ہونا ھے”۔ (مذکورہ کتاب ص 9-10)
مگر ان کی ترقی پسندی کسی خاص نقطہ پر ٹھراؤ کا نام نہیں،وہ زندگی ،سماج،طبقات کی مثلث کے اسیر محض نہیں بلکہ مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیاتی مطالعات کو ترقی پسندی کا اگلا پڑاؤ بتاتے ہیں۔ مابعد جدیدیت اور ترقی پسندی کے اٹوٹ رشتہ کے تناظر میں ڈاکٹر قاضی عابد نے اردو ناقد کے سامنے چار سوالات قائم کیے ہیں۔
(الف) مارکس نے کہا تھا خیال مادے سے جنم لیتا ھے، فوکو نے کہا کہ ہر خیال سماجی تشکیل ہے۔ ان دونوں باتوں کے بیچ کیا رشتہ ہے۔ ہمیں اس تشابہ پر غور کرنے کی ضرورت ھے۔
(ب)دریدا نے متن کے مرکز اور حاشیہ کی بات کی۔ مارکس نے کہا کہ سماج طبقاتی ہوتا ھے۔ کیا ان دو باتوں کے بیچ بھی کوئی رشتہ ممکن ھے۔
(ج)لیوتار نے علم کے حوالہ سے جو گفتگو کی ہے،کیا وہ کسی مارکسی نقطہ نظر سے خالی ھے۔
(د)استعمار کے خلاف اولین آواز لینن کی ھے،کیا موجودہ پس نو آبادیاتی /رد نو آبادیاتی فکر کے درمیان تعلق ہے یا نہیں۔
مابعد جدید تنقید ساختیاتی و لسانی اصطلاحات کے حصار میں اس قدر گھری ہوئی ھے کہ یہ جس نوع کی وسعت کی متقاضی ہے، اسی قدر گھٹن کا سامنا کرنا پڑرہا ھے۔ مابعد جدیدیت تو سارے حصار توڑ کر پوری صورتحال کا احاطہ کرنے کے عمل کی آزادی کا بیانیہ ھے، یہ مطالعاتی تنوع کا اعلانیہ ھے۔ ڈاکٹر قاضی عابد بجا طور پر لکھتے ہیں کہ:
“مابعد جدید یت ایک تکثیری تنقیدی رویہ ھے۔۔۔اصغر علی انجینئر اور ڈاکٹر محمد حسن کے علاوہ اردو کا کوئی بھی مارکسی نقاد مابعد جدید رحجانات کے ان حصوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکا جو التھیو سے اور ٹیری ایگلٹن کے تنقیدی افکار کی صورت میں اس کا جدید ورثہ تھے۔”
(اساطیر، کتھا، کہانی اور مابعد جدید تناظر ص: 160)
اس کتاب کے ابتدائیہ میں ڈاکٹر قاضی عابد نے نوے کی دہائی کے آغاز کی فکری صورتحال پر روشنی ڈالی ھے جب ایک طرف کچھ دانشور اخباری ادبی صفحات پر مارکسزم کے خاتمہ اور ترقی پسندی کی موت کی نوید سنا رہے تھے تو دوسری جانب کشور ناہید تازہ واردان بساط مارکسیت کا حوصلہ بڑھاتی نظر آتی ہیں کہ “اگر ماسکو سے واڈکا کی بوتلیں آنا بند ہو جائیں تو نظریہ کی موت واقع نہیں ہو جاتی۔” یہی وہ زمانہ تھا جب عرش صدیقی، جنہوں نے ملتان کی ادبی سماجیات پر اپنے ترقی پسندانہ مشرب کے ساتھ گہرے اثرات رقم کیے، ہم طالب علموں کو سمجھایا کرتے تھے کہ نظریہ کسی جغرافیہ کا پابند نہیں ہوتا کہ کسی دیوار برلن کے گرنے سے موت واقع ہو جاۓ اور پھر نظریہ حتمی سچائی نہیں ہوتا، اس میں ترمیم کی گنجائش رہتی ھے مگر اصول دائمی ہوتے ہیں۔ اپنے ذہنی سفر کے اس پڑاؤ کے حوالے سے قاضی عابد لکھتے ہیں کہ:
“ممتاز حسین اور اصغر علی انجینئر کی کتابوں نے مجھے ترقی پسندوں کے لئے ممنوعات کا درجہ رکھنے والی تنقیدی تحریروں نے خاص طور پر جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کو مغرب کے ماخذات کے حوالے سے سمجھنی آسان کر دیں۔ اس سارے سفر میں غالب کے لفظوں میں کعبہ اور کلیسا کا مناقشہ جاری رہا۔ لیکن دیر و حرم کی نقش بندی سے آگے بڑھنے کا حوصلہ باقی رہا۔” جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے حوالے سے قاضی عابد کی یہ آرا سامنے آتی ہیں۔
مزید و متعلقہ: اردو میں نئے افکار کی آمد اور اقبال آفاقی کی کتاب از، صفدر رشید
آل پاکستان ادبی کانفرنس (انجمن ترقی پسند مصنفین) لاہور از، نعیم بیگ
شمس الرحمان فاروقی اور ڈاکٹر وزیر آغا نے جدیدیت کی من مانی تعبیر کی اور اسے مغربی جدیدیت سے ہم رشتہ نہیں ہونے دیا۔
مابعد جدیدیت اور ترقی پسند فکر کے درمیان جو ایک اٹوٹ رشتہ ھے، اسے بھی اردو کے مابعد جدید ناقدین نے اپنی من گھڑت تعبیر سے پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ہمارے ہاں کئی ناقدین نے وجودیت سے متعلقہ مباحث کو جدیدیت اور جدید ادب کے نام پر خوب استعمال کیا بلکہ ٹریڈ مارک بنا دیا فرد، آزادی، بے زاری، ذات ،ابہام، تنہائی کو جدیدیت کا جزو اعظم قرار دیتے ہوئے اسے ترقی پسند تحریک کے مد مقابل کھڑا کرنے کی سعی کی گئی۔ اس طرح جدید فرد کا بنیادی مسئلہ شناخت، خود مختاری اور آزادی کی مسرت سے جوڑا گیا مگر اس بات کو نظر انداز کیا گیا کہ داخل میں تو فرد کو کسی اثبات کی ضرورت نہیں، شناخت کا مسئلہ تو سراسر خارجی ھے۔ یوں سماج سے تو کٹ کر فرد کی شناخت کا تعین نہیں ہو سکتا اور لامحالہ طبقات اور زندگی کے پلیٹ فارم پر آکر ہی اس بنیادی سوال اور کشمکش سے نبٹا جا سکتا ھے۔ اسی کتاب میں شامل ایک مضمون “جدید اردو تنقید اور جدید مغربی تنقید:چند معروضات” میں ڈاکٹر قاضی عابد لکھتے ہیں کہ
“مغرب سے آنے والے جدید تنقیدی نظریات ایک دوسرے سے اس حد تک مختلف ہیں کہ بعض اوقات ان میں تضاد اور تخالف کا رشتہ پیدا ہوتا دکھائی دیتا ھے۔۔۔۔۔اردو کا جدید نقاد ایک ہی سانس میں ان رحجانات کا نام اس طرح لیتا ھے جیسے وہ ایک ہی لفظ کے مترادفات بیان کر رہا ہو۔ ایک ہی ناقد کے متفرق مضامین تو کیا، ایک ہی مضمون پڑھیں تو لگتا ھے وہ بیک وقت ساختیاتی نقاد بھی ہے اور رد تشکیل فکر کا حامل بھی۔ اس صورت جال نے جدید اردو تنقید میں بے حد اشکال پیدا کی ہیں۔”(کتاب مذکورہ ص:160)
اساطیر، کتھا ،کہانی اور مابعد جدید تناظر کے ابتدائیہ میں ڈاکٹر قاضی عابد نظریہ کو کشادہ نظری سے منسلک کرنے کی بات کرتے ہیں جو کمٹمنٹ کو سوچ کی غلامی بنانے کی روش سے آزاد کرنے کا رویہ ھے۔ اسی طرح وہ ادب کو سیاست اور تاریخی عمل سے الگ نہیں دیکھتے۔ ادب خلا میں نہیں، زمانی تسلسل میں تاریخ کے ایک خاص پڑاؤ پر وجود میں آتا ھے تو اس کی معنویت تاریخیت سے چشم پوشی کی صورت معلق ہو جائے گی۔ جب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ڈاکٹر شافع قدوائی نے کہا کہ “آپ لوگ اپنی ادبی تاریخ کو سیاسی تاریخ سے جوڑ کر کیوں دیکھتے ہیں؟” تو ڈاکٹر قاضی عابد نے خوب صورت جواب دیا:
“امام زین العابدین ہر وقت گریہ میں مصروف رہتے تھے، کسی نے پوچھا کہ آپ ہر وقت روتے کیوں رہتے ہیں؟ امام نے فرمایا اگر آپ کربلا میں ساتھ ہوتے تو یہ سوال نہ کرتے۔” اس حکایت کے تناظر میں اس کتاب کا ابتدائیہ میرے لئے یوں بھی زیادہ دل چسپی کا حامل بنا کہ نوے کی دہائی میں ڈاکٹر قاضی عابد جن سوالات اور جس فکری کشمکش سے گذرے، وہ میری نسل کی روحانی یاداشت و بازیافت کا حصہ ہیں جو کبھی اپنے خوابوں کی شکستگی کو نظریہ کی ہار نہیں مان سکتے۔
ڈاکٹر عابد قاضی صاحب السلام و علیکم
مجھے ۤاپ کی کتاب اساطیر،کتھا،کہانی اور ما بعد جدید تناظر در کار ہے۔دستیابی کی کوئی سبیل بتایں۔
والسلام
خان اصف
ڈاکٹر عابد قاضی صاحب السلام و علیکم
مجھے ۤاپ کی کتاب اساطیر،کتھا،کہانی اور ما بعد جدید تناظر در کار ہے۔دستیابی کی کوئی سبیل بتائیں۔
والسلام
خان اصف
اپنا پتہ ارسال کر دیں