اشفاق احمد کا کوانٹم افسانہ
از، رضا علی
ایک ادھار باقی تھا تو سوچا میں اتار دوں۔ کچھ عرصہ پہلے دوستوں سے فیس بک پر کچھ بحث ہو گئی۔ یہ بحث اشفاق احمد کے ایک ڈرامے ‘من چلے کا سودا’ کے ایک کلپ پر تھی۔دوست نے لکھا کے کیا بات ہے، پہلے کے ڈرامے کتنے فلسفیانہ ہوتے تھے! جب میں نے یہ کلپ دیکھا تو سر پکڑ لیا۔ ایک دفعہ پھر سائنس کو مذہبی خیالات کے حق میں ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔اور ان خیالات سے ہمدردی رکھنے والے اسے خوشی خوشی غٹا غٹ حلق سے اتار رہے تھے۔اپنے لائکس سے حمایت کا اظہار کر رہے تھے۔کلپ میں فردوس جمال کا خضر جیسا کردار، خیام سرحدی کے حیرت زدہ، کھوئے ہوے اور راستے کے متلاشی کردار کو کچھ ایسا کہتا ہے:
“او بھائی جان، کوانٹم تھیوری کو جانے بغیر،اور فوٹوں کی کیفیت سمجھے بنا، حضرت غوث اعظم کا یہ اسرار کیسے سمجھ میں آ سکتا ہے کے موحد جب مقام توحید پر پہنچتا ہے تو نہ موحد رہتا ہے نہ توحید، نہ واحد نہ بسیار، نہ عابد نہ معبود، نہ ہستی نہ نیستی، نہ صفت نہ موصوف، نہ ظاہر نہ باتن ، نہ منزل نہ مقام، نہ کفر نہ اسلام، نہ کافر نہ مسلمان۔او بھائی جان،
at sub-atomic level matter does not exist with certainty, but rather shows tendencies to exist, this is why particles can be waves at the same time
… کھل گئی بات؟”
اب اس میں دو باتیں کھل گئی ہوں گی کہ پہلے، وحدت الوجود کا درس دیا جا رہا ہے اور پھر اس کا جواز سائنس میں ڈھونڈا جا رہا ہے بلکہ خاص طور پر کوانٹم میکینکس میں۔ کیوں کہ کوانٹم میکانکس ایٹمی دنیا کا ایک عجیب منظر پیش کرتی ہے۔نہ صرف یہ بلکہ سائنس اور تصوّف کی زبان کو آپس میں خلط ملط کرتے ہوے وہ یہ بھی کہ ڈالتے ہیں کہ صوفی بننے کے لیے تجربے سے گزرنا پڑے گا اور وہ لیبارٹری میں ہوتا ہے۔پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ وحدت الوجود فلسفے کا مسلہ ہے نہ کہ سائنس کا، اور اسے کسی بھی طور سے سائنس سے کشید کرنے کی کوشش بے معنی اور مغالطے پر مبنی ہے۔ہماری عوام پہلے ہی سائنس سے جاہل ہے۔اس پر تصوّف کے نام پر یہ بے بنیاد افسانے سنانا اسے اور جہالت کے کھڈے میں دھکیل دے گا۔
اب ذرا اس انگریزی جملے کی کہانی بھی سن لیں کہ یہ کہاں سے آیا ہے اور یہ کس سوچ کا عکاس ہے۔یہ جملہ لفظ بہ لفظ Fritjof Capra کی کتاب Tao of Physics سے چھاپا ہوا ہے۔یہ کتاب ١٩٧٥ میں پہلی بار چھپی اور اسے چھاپنے والا کوئی آکسفورڈ، ہارورڈ یا ایم آئی ٹی نہیں تھا بلکہ shambhala پریس نے چھاپی تھی جو مشرقی روحانیت سے متعلق کتابیں چھاپتی ہے۔اس کتاب کا نام یہاں ختم نہیں ہوتا، اس کا باقی حصّہ ہے:
An Exploration of the Parallels Between Modern Physics and Eastern Mysticism
ایسی کتاب مشرقی مسٹیسزم سے تعلّق رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے بہت دلچسپی کی حامل ہو گی۔آخر وہ جو کچھ سوچتے تھے، آج کسی سائنس دان نے ثابت کر دیا نہ! جیسا کہ غلط فہمی اشفاق احمد کو بھی ہو گئی۔انہوں نے یہ مذہبی فلسفہ سائنس کے نام پر اپنے ایک کردار کے منہ میں ڈال کے عوام میں پھیلانے کا احسان کر ڈالا۔مشکل یہ ہے کہ ماننے والے مانیں گے چاہے ثبوت ہو یا نہ ہو۔اگر ہو تو بلے بلے، ورنہ بغیر ثبوت کے ماننا تو اور بھی پکے ایمان کی نشانی ہے۔
اب اس کتاب اور اس کے مصنف کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔ کیوں کہ میں نے یہ کتاب پڑھی ہی ہے تو مجھے اس بات کا احساس ہے کہ یہ سائنس کی کتاب نہیں ہے۔Fritjof Capra کسی زمانے میں طبیعات دان یا physicist تھے۔ لیکن اپنی پوری سائنسی زندگی میں ایک سائنس سے متعلق پیپر لکھا اور باقی سب فلسفے، ماحولیات یا مسٹسزم پر۔کوانٹم میکینکس، جس کی بنیاد پر انہوں نے یہ کتاب لکھ ماری، اس فیلڈ میں انہوں نے کوئی اضافہ نہیں کیا۔اس کتاب کے شروع میں وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک دن سمندر کے کنارے آتی جاتی موجوں کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان پر یہ نازل ہوا یہ ساری کائنات ہندو خدا شیوا نٹراج کی طرح ناچ رہی ہے۔ہر چیز بن رہی ہے اور ختم ہو رہی ہے، اور ہر چیز گھوم رہی ہے۔اب میں بھی سمندر کے کنارے بیٹھا ہوں لیکن مجھے کبھی ایسا خیال نہیں آیا؟
اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ان کے والد ایک شوقین فلسفی تھے اور ہندو اور بدھ مذہب کے بارے میں انھیں سکھاتے تھے۔ پھر ساٹھ کی دھائی میں وہ خود بھی انڈین فلسفے میں دلچسپی لینے لگے۔یہ دور beat generation کا تھا جس میں مشرقی فلسفے میں مغرب میں بہت شوق بڑھا، جو آگے چل کے ستر کی دھائی میں hippie اور new age کے نام سے بھی جانے گئے۔اسے counterculture کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔پھر بات کچھ سمجھ میں آتی ہے کہ یہ خیال کیونکر آیا۔
یورپ کی Enlightenment نے وہاں مذہب اور خدا دونوں کو قتل کر دیا۔عیسایت جو یورپ کا مذہب تھا اس نے اپنی وقعت کھو دی اور آپ اب مشکل سے کوئی سائنس دان ملے گا جو اپنے آپ کو مذہبی لکھتا ہو یا خدا کے وجود کو قبول کرتا ہو۔ لیکن انسان کی خواہش زندگی کا مطلب جاننے کی ختم نہیں ہوئی۔مذہب کی جگہ روحانیت یا Spiritualism نے لے لی اور یہ کامیابی سے ایک سیکولر انداز میں پریکٹس کی جا سکتی ہے۔بدھ مذہب، مراقبے یا meditation میں مغرب میں بہت دلچسپی ہے۔یہ مشرق کے فلسفے یورپ سفر کر کہ پہنچے اور پھر وہاں اپنائے گئے۔پھر وہی فلسفے سفر کر کا مغرب کا سٹیمپ لگوا کے مشرق واپس آ گئے اور پھر اشفاق احمد اور دوسرا روحانی بابوں کے ذریعے پھیلائے جا رہے ہیں۔
ڈیوڈ کایزر نے اپنی کتاب How the hippies saved physics میں اس دور اور Capra کی کہانی لکھی ہے۔جنگ عظیم کے دور میں سائنس کا بہت استعمال عسکری مقاصد کے لیے ہوا اور دنیا نے ایٹم بم دیکھا۔بعد میں امریکا اور روس کے بیچ میں سرد جنگ شروع ہو گئی جو اسی کی دھائی تک جاری رہی۔اسی دور میں کوریا میں جنگ ہوئی اور پھر ویتنام میں۔ویتنام کی جنگ امریکی سوسائٹی کے لیے ایک بڑا موڑ ثابت ہی۔اسی دور میں ویتنام کی جنگ کے خلاف بڑے سخت احتجاج ہوے اور برکلے جیسی یونیورسٹی اس کے لیے بہت مشہور ہے۔ اسی برکلے میں ایک نوجوان سائنس دانوں کا گروپ Fundamental Physics Group جمع ہوا۔ان میں دو چیزیں مشترق تھیں، ایک کوانٹم میکینکس سے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش اور دوسری پیرا سائیکالوجی para-psychology۔
انہیں یقین تھا کہ کوانٹم میکینکس سے پرسرار(occult) اور غیر معمولی(paranormal) چیزوں کو سمجھا جا سکتا ہے، جیسے کہ ٹیلی پتھی، مستقبل جان لینا، دماغ سے چیزوں کو ہلانہ وغیرہ۔Uri Geller نامی ایک شعبدے باز پر ایسی سوچ رکھنے والے سائنس دانوں کو یقین ہو گیا تھا کہ اس کا جادو اصل ہے۔اسی دور میں Capra بھی سامنے آیا اور اس گروپ سے متعلق رہا۔اپنے مالی حالت بہتر کرنے کے لیے اس نے پہلے کوانٹم میکینکس پر ٹیکسٹ بک لکھنے کی کوشش کی۔اسے بتایا گیا کہ اس سے زیادہ مالی امید نہ رکھے۔اس کے آس پاس اسے روحانی انکشاف ہوا اور پھر اس نے اپنی ٹیکسٹ بک کو مشرقی مسٹسزم سے ملا کر Tao of physics لکھ دی۔حالت سازگار تھے اور چاروں طرف ہپی تھے۔یہ کتاب بے انتہائی کامیاب ہوئی اور دنیا کی بہت زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔ہو سکتا ہے ایسے ہی یہ کتاب اشفاق احمد تک بھی پہنچی ہو۔
لیکن اس کتاب کے دعوے کچھ بھی ہوں، سائنس میں وہی چیز کامیاب ہوتی ہے جو حقیقت سے مطابقت رکھے۔اس گروپ کے پیرا سائیکالوجی کے تجربے ناکام رہے اور Uri Geller بھی شعبدے باز نکلا۔ لیکن جیسا کہ ڈیوڈ کایزر اپنی کتاب میں لکھتا ہے، ان کی نیّت جو بھی تھی، ان کی اس خواہش نے انہیں کوانٹم میکینکس پر اتنی توجہ دینے پر مجبور کیا کے انہوں نے سائنس کی کچھ خدمت بھی کر ڈالی۔اور entanglement کو اپنے تجربوں سے ثابت کیا۔سائنس دانوں اور عام لوگوں، دونوں میں کوانٹم میکینکس کی شہرت کر دی۔یہ اپنی اس کوشش میں واحد نہیں تھے۔ ان سے پہلے کوانٹم میکینکس کے اصل موجد Pauli، Bohr، Heisenberg اور Schrodinger بھی کم اور زیادہ مسٹسزم میں دلچسپی رکھتے تھے۔ لیکن آج سائنس کی دنیا کو ان کی سائنس یاد ہے اور ذاتی فلسفے اور مذہبی خیالات بھول گئے۔
ایک دیسی صوفی کی ایک کتاب بھی میری نظر سے گزری۔ یہ کتاب ان کے لیکچرز کو جمع کر کے مرتب کی گی تھی۔ اس کے سوال و جواب میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ الله کے تین ناموں کے ذکر ایک مزار پر کیا کرتے تھے۔ پھر ایک دن ان کو ایک روحانی تجربہ ہوا اور صاحب مزار نے انھیں دستار دی اور قادری سلسلے میں شامل کر لیا۔ پھر ان سے ان کا کوئی مرید پوچھتا ہے کہ کیا سائنس نے بھی اس روحانیت کو ثابت کیا ہے؟ اب انھیں بھی یہاں سائنس کو گھسیٹنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ حالانکہ وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ سائنس کا مسئلہ نہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ سائنس دانوں نے تجربوں سے ٹیلی پتھی ثابت کر دی ہے اور چیونٹی کو ایک جگا سے دوسری جگا منتقل کر دیا ہے۔ یہ اس لیے ضروری تھا کیونکہ صوفی بزرگ ایسے کرشموں کے لیے مشہور ہیں۔
انڈین حکومت نے شیوا نٹراج کا ایک مجسّمہ CERN کے نام سے سوٹزرلینڈ کی ایک مشہور لیبارٹری کو تحفے میں دیا، جس پر Capra کی کتاب سے لیا گیا ایک اقتباس درج ہے۔ آخر وہ ایسا کیوں نہ کریں؟ اپنی اس کتاب میں وہ bootstrap theory کے نام سے ایک تھیوری پر پورا زور ڈال کہ کہتے ہیں کہ اس نے ثابت کر دیا کہ اصل میں کوئی بنیادی پارٹیکل نہیں ہے اور سب مایا ہے۔جیسے کہ انڈین فلسفہ کہتا ہے اور جیسا جتنے زور شور سے یہ اٹھی، اور کاپرا نے اپنی کتاب میں جتنا اس پر انحصار کیا ہے، یہ اتنی تیزی سے کہیں گم ہو گئی۔
اسی دور میں standard model کو زیادہ تقویت ملی اور اس نے یہی ثابت کیا کہ پارٹیکل ہیں اور آج تک اسی پر کام ہو رہا ہے۔ اسی لیے یہ ایک انتہائی خطرناک رویہ ہے کہ مذہبی خیالات کو سائنس سے باندھنے کی کوشش کی جائے۔ آپ جیسے ہی یہ کریں گے سائنس میں کوئی نیا کام ہو جائے گا اور آپ پھنس جائیں گے کہہ کر۔ اور کہہ کر واپس لینا عام طور پر مذہبی لوگوں کی عادت نہیں ہے۔ پھر وہ اکثر باقی زندگی انہیں غلطیوں کو ثابت کرنے کی کوشش میں برباد کرتے ہیں ۔ اور یہی کام کاپرا آج بھی کر رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب انحصار کوانٹم پر کم اور فطرت اور ماحول پر زیادہ ہے۔