آصف فرخی احساسِ زیاں کو سَوا کرتے چلے
از، یاسر چٹھہ
آصف فرخی صاحب کا دنیا سے جانا بہت بھاری ہے۔
اللہ پاک سے کیا کہیں، کیسا گِلہ کریں کہ ہم تو پہلے ہی بہت مسکین ہیں، تنگ دست ہیں … بَہ ہر کیف، زور والے کے سامنے کیا زور چلتا ہے۔ اُسی سے مغفرت بھی مانگتے ہیں۔ اللہ پاک مغفرت فرمائے۔ آمین
آج جُوں ہی گھر لاؤنج میں بیٹھے بیٹھے ٹی وی پر نظر پڑتی ہے۔ اوّل اوّل دو تین سیکنڈز کا رحلت کا ٹِیکر چلتا ہے___ کوئی دوسری خبر بھی ساتھ ہی تھی۔ یاد نہیں رہی۔
اُسی دوسری خبر کا ٹِیکر دو بارہ چلنا شروع ہو گیا؛ جانا کہ غلطی سے چل گیا ہو گا۔ جانا کیا ہو گا، بَل کہ خود کو یقین دلانا چاہ رہا تھا کہ اے خدا یہ غلطی ہی ہو۔
بے چینی اور احساسِ زیاں البتہ سَوا ہوتا جاتا تھا۔ make belief کی کارروائی ہم ایسوں کے لیے کہاں آسان ہوتی ہے۔ سوچ پہلے ہی ہمہ دم جھولنے ہی تو لیتی رہتی ہے؛ ڈراؤنے امکانات کے، سب کچھ چِھن جانے کے منظر نامے تخیل میں چلتے ہیں۔ جھٹکتے ہیں کہ جینا با معنی لگتا رہے۔
لا ریب کہ ہم میں سے ہر ذی نفس و ذی روح اپنے طور بہت قیمتی ہے۔ پر ہم جیسے معاشروں میں جہاں عامیانہ پن بہتات میں دندناتہ پھرتا ہو، وہاں فی حقیقت و احساس قیمتی لوگوں کا بہت کال ہوتا ہے۔
خود کو انکاری نفسیات میں دھکیل کر حقیقت کی دنیا کے کھلتے بند ہوتے دروازے سے آنے والی تیز دھار روشنی کی لہر میں حساب کتاب بھی کرتا جاتا تھا کہ وطنِ عزیز میں ایسے لوگ آخر ہیں ہی کتنے جو آصف فرخی صاحب کے بَہ غیر دستک دیے کسی اور دروازے سے پار چلے جانے کا خلا بھر سکتے ہوں۔
سوچیے ذرا، انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں… ہیں ناں؟
اب ہم اپنے پَر کَٹے احساس اور بہت شکستگی کے ساتھ ایک اور غم سہنے کو آمادہ کریں کیا؟
ہم کیا کریں؟
احساسِ زیاں سَوا سے سَوا تر ہوتا جاتا ہے۔
موت العالِم، موت العالَم