وبا کا روزنامچہ لکھتےخود داستان ہو جانے والے میرے محسن آصف فرخی
بَہ غیر توقف کے بولے، میں نے کوشش کی تھی مگر ناول بن نہیں سکا۔ یہ اپنے وقت کے ایک اہم ادیب، کثیرُ المُطالَعہ قاری اور ادب کی ترویج میں ہَمہ دَم مصروف و مُنہمک شخص کا کیسا سادہ جواب یا اعتراف تھا۔ میں نہیں جانتا اس میں کتنی حقیقت ہے کہ وہ جو نہ صرف عالمی ادب پر عالمانہ نظر رکھتے تھے بَل کہ خود کئی ناولوں کے تراجم بھی کر چکے تھے۔
از، فیصل ریحان
یہ محض اتفاق ہے کہ دس گیارہ برس قبل جب واردِ اسلام آباد ہوا تھا تو پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز اسلام آباد کی بک شاپ سے جو پہلی کتاب خریدی وہ عالمِ ایجاد تھی۔ تنقید کی اس کتاب کے دو مضامین نصوح کا ہیضہ اور بندر کی تقریر کا سواد آج بھی یاد ہے۔ ان کے افسانے بعد میں پڑھنے کا ماوقع ملا۔
اسلام آباد میں آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس کے تحت سالانہ ادبی فیسٹیول کا آغاز ہوا تو راقم ان میں بہ طور سامع و ناظر با قاعدگی سے شریک ہوتا رہا، مگر آصف فرخی کو دور سے ہی دیکھتا رہا کبھی سلام دعا کی نوبت نہ آئی۔
یہ 2017ء کی بات ہے جب شعبۂِ اردو، جامعۂِ کراچی کی سر سید احمد خاں عالمی کانفرنس کے جس سیشن میں، میں نے اپنا مقالہ پیش کیا اس کے صدارتی پینل میں آصف فرخی بھی شامل تھے۔
انھوں نے مقالے کی تحسین یوں کی کہ نہ صرف اختتامی تقریب میں اس کا ذکر ہوا بَل کہ محترمہ زاہدہ حنا نے اپنے کالم میں جن دو مقالات کو سراہا ان میں سے ایک حالیہ چیئرمین پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز، ڈاکٹر یوسف خشک صاحب کا تھا اور دوسرا راقم کا۔
ظاہر ہے ایسا آصف صاحب کی قدر افزائی کی بَہ دولت ہوا تھا۔ اس کانفرنس کے بعد ان سے گاہے گاہے رابطہ رہا اور انھوں نے دنیا زاد میں راقم کی نظمیں اور افسانہ بھی یکے بعد دیگرے شائع کیے۔
ان سُطُور سے ان کی بڑائی اور حوصلہ افزائی کا بتانا تو مقصود ہے ہی مگر سچ یہ ہے کہ یہ راقم کے لیے فخر کی بات بھی ہے کہ آصف فرخی نے ایک کند و نا تراشیدہ کی تحریریں دنیا زاد میں چھاپ کر اسے شاعر اور افسانہ نگار بنا دیا؛ اس طرح وہ میرے محسن ہیں۔
گذشتہ برس اپریل میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کی کانفرنس کے موقع پر ان سے پہلی بار تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی اس نشست میں ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
ایک موقع پر میں نے عرض کیا، آپ نے ناول کیوں نہیں لکھا؟
توقف کیے بَہ غیر بولے، میں نے کوشش کی تھی مگر ناول بن نہیں سکا۔
یہ اپنے وقت کے ایک اہم ادیب، کثیرُ المُطالَعہ قاری اور ادب کی ترویج میں ہَمہ دَم مصروف و منہمک شخص کا کیسا سادہ جواب یا اعتراف تھا۔
میں نہیں جانتا اس میں کتنی حقیقت ہے کہ وہ جو نہ صرف عالمی ادب پر عالمانہ نظر رکھتے تھے بَل کہ خود کئی ناولوں کے تراجم بھی کر چکے تھے۔
ان سے واقعی ناول لکھا نہ گیا، یا وہ اس کے لیے سنجیدگی سے وقت نکالنے سے قاصر رہے۔ یہ میرے لیے سوال ہی رہے گا۔ اب سنا ہے وہ کچھ عرصے سے افسانے بھی نہیں لکھ رہے تھے۔
اسی محفل میں شریکِ گفتگو ڈاکٹر واحد بلوچ صدرِ شعبۂِ بلوچی، جامعۂِ بلوچستان کوئٹہ کی زبانی گوادر اور تربت کے موجودہ حالات کے بارے جان کے آصف فرخی بہت افسردہ ہوتے رہے کہ یہ تو بنگلہ دیش والے حالات ہیں اور ہم ان سے کس قدر لا علم ہیں۔ میڈیا ایک بار پھر صحیح صورتِ حال نہیں بتا رہا۔
یہ میری ان سے آخری ملاقات ثابت ہوئی البتہ فون پر یا مسینجر میں کبھی کبھار مختصر رابطہ رہتا تھا۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جن سے مختصر تعلق بھی یادگار رہتا ہے اور ان سے مختصر رفاقت میں بھی اپنائیت کی خوش بُو آتی ہے۔ میرے لیے آصف فرخی کی شخصیت ایسی ہی تھی۔
کسے خبر تھی کہ وبا کا روزنامچہ لکھتے لکھتے آصف فرخی آپ داستان ہو جائیں گے۔ ان کے اس طرح اچانک چلے جانے سے یوں لگا جیسے کوئی بہت اپنا بچھڑ گیا ہو، دل دکھ سے بھر گیا اور زندگی کی نا پائیداری کا احساس دو چند ہو گیا۔