ناول بھید کا ایک ادبی تأثّر 

Asim Butt Urdu Novel Bhed
Asim Butt Urdu Novel Bhed

ناول بھید کا ایک ادبی تأثّر 

تبصرۂِ کتاب از، نعیم بیگ 

گیبرئیل گارشیا مارکیز نے اپنے ایک انٹرویو شائع ۱۸۹۱ء میں پیٹر ایچ سٹون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا:

”بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ میں تصوراتی ادب تخلیق کرتا ہوں۔ جب کہ اصل میں مَیں بہت حقیقت پسند آدمی ہوں اور صرف وہی لکھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے یقین ہو کہ یہ صحیح سوشلسٹ حقیقت نگاری ہے۔“

عاصم بٹ کا پہلا ناول جو میرے ہاتھوں میں آیا تھا وہ نا تمام تھا۔ نا تمام کی کہانی در اصل لاہور ہی کے ایک محلے کی کہانی تھی۔ وہاں بہت کچھ تھا۔ دورانِ پرواز بادلوں سے ڈھکا کچھ آسمان کَجلا بھی نظر آیا۔ تاہم کہانی کے اندر پنہاں درد نے میرے اندر بہت سے زخموں کا منھ کھول دیا۔ میں دم گھٹ کر رہ گیا۔

ہر قاری کی طرح مجھے لگا کہ عاصم نے میری کہانی کو ناول کر دیا۔ سو قلم چلا ہی نہیں اور میری بات محلے والوں تک پہنچی نہ محلے میں دلوں کے بھید جاننے والی باجی تک پہنچی۔ باجی کا یہی رنگ ڈھنگ تو نرالا تھا کہ اسے یہ بات گوارا نہ تھی کوئی اسے رحم اور ہم دردی کی نگاہ سے دیکھے۔

بات تھمی تو ذہن سے محو ہو گئی اور یوں لاہور کے محلوں میں برسوں کا گھومتا پہیہ پچھلی کئی کہانیوں کو روندتا ہوا کئی ایک نئی کہانیاں جنم دے گیا۔ اب کے بار عاصم بٹ کا ناول بھید ہتھے لگا تو یوں محسوس ہوا اس بار پھر کہانی کار نے گلی کوچوں کی نئی کہانی چرا لی ہے جس کے گلیوں میں بسنے والے کردار برسوں سے عینی شاہد تھے۔ صرف اس بار راوی کا ڈھنگ نرالا تھا۔

تاہم وہی لاہور، وہی کہانیاں، اس بار نئے رنگ و روپ  کے ساتھ سامنے آئیں۔ یہ بھی ہوا کہ راوی بہ راہ راست گفتگو سے نکل گیا اور کہانی کار کے کردار سے نکل کرایک اکاؤنٹنٹ کے روپ میں سامنے آیا، لیکن راوی بننے کی بری عادت نہ گئی اور اکاؤنٹنٹ سے پہلے صحافی بنا رہا۔

وہ لا شعوری طور پر کہانی سے جڑے رہنے کی تہذیب اور فہم و ادراک سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا۔ انسان اپنی سرِشت کو بھلا کیوں کر دغا دے سکتا ہے۔

بھید میں پر لطف موڑ یہ آیا کہ جو مُسوّدہ اکاؤنٹنٹ کو بس کی سیٹ کے نیچے پڑا ہوا بس کنڈیکٹر نے تھمایا تھا، وہ اس کے خالق کی تلاش میں کہانیوں کے اندر اترتا رہا۔ اِس بار اس کے اپنے کردار بھی ہم راہ تھے۔

جب وہ اپنے کرداروں کو لیے مسوَّدے کے مالک کی تلاش میں نکلا تو کئی ایک نئے کردار ہم راہ ہو لیے۔ نرگسی آنکھوں والی ڈیٹرجنٹ والی لڑکی سے خمار آلود آنکھوں والی لڑکی، مادام بواری کا ریپلِیکا اور رافعہ تک۔

لیکن وہ پیر بھولے شاہ کے مزار کے سامنے محراب والی گلیوں میں بھٹکتا رہا لیکن کہانی کار سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اسے نوید مل تو گیا، جو ملنگوں کی ٹولی کے ساتھ ایسے انجان سفر پر روانہ ہو گیا جہاں سے واپسی دشوار گزار رستوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور کردار لوٹ کر بھی نہیں لوٹتے۔

چلتے چلتے مولوی صاحب ملے۔ مجید للاری ملا۔ مشتاق چھرا جیسا کرائم رپورٹر، سبھی تھے لیکن وہ اپنی کہانی کی تلاش میں شہر کے اندر سرسراتی ہوا کی مانند تنگ گلیوں میں موجود رہا اور چائے کی پیالی اور سموسوں کی مہک اور مودے سے پہلی ملاقات تک مصحف کی بیٹھک میں بیٹھا کہانی بنتا رہا۔

”اوہ، میرے خدایا! اے زمین سکڑ جا مجھے راستہ دے میری منزل بہت دور نہیں۔“

یوں کہانی کار اپنی تلاش جاری رکھتا ہے۔ کہانی کار اپنے چشمِ تصوَّر میں جنم لینے والے درجنوں کرداروں میں سے لا شعوری طور ان کرداروں کی تلاش میں رہا جو اس کے سامنے بنتے بگڑتے لاہور شہر کے حقیقی کرداروں کے عکس تھے۔ وہ اسی رو میں اس آئینے کی تلاش میں بھی رہا، جسے وہ ایک بارگی شکستگی سے بچاتے بچاتے خود زخمی ہو گیا تھا۔

ناول کا پیش لفظ لکھتے ہوئے مستنصر حسین تاڑر نے بھید کو اردو ادب کی بھول بھلیاں کہا ہے، جو لاہور شہر کی گلیوں میں اپنی پوری حیات و ممات  کے ساتھ موجود ہے اور داخل ہونے والوں کو ہمیشہ کے لیے اس labyrinth میں قابو کر لیتا ہے۔ یوں اپنی تلاش کو جاری رکھتے ہوئے انسان بالآخر فنا کی بھول بھلیوں میں کھو جاتا ہے۔

کہانی کار بھی اس شہر کی ویران اور پشیمان، مکروہ اجارہ دار کی بھینٹ چڑھتا ہے اور نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ تاریکی کا پُر آشوب دور اس شہر میں اترتا ہے جہاں پر ہر خواب، ہر کہانی پچھلی کہانی سے زیادہ اندوہ ناک اور درد ناک لمحے سمیٹتے ہوئے پیش آتی ہے۔ دلوں میں مچلتی ہوئی زندگی اور فکر کی جولانی محمد عاصم بٹ کے قلم کا ایک ایسا درد ہے جو مقید ہو کر دکھ کا نغمہ بنتی ہے۔ یہی المیہ بھید کی صورت عاصم بٹ کا موضوعِ گفتگو ہے۔

یہ امر طے شدہ ہے کہ حقیقت کے پسِ پردہ سچائی کی تلاش ہی فن کار کا مقصد و منشا ہوتی ہے اور یہ کام محمد عاصم بٹ بہت عمدگی سے بھید میں سر انجام دیتے ہیں۔

مجھے معلوم نہیں کہ یوٹوپیئن کا مطلب آئیڈیل ہے یا تصوراتی حقیقت، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اردو ادب کے معابِد ابھی روایتی حصار سے ما وراء نہیں۔ ایسے میں محمد عاصم بٹ کا ناول بھید حقیقت نگاری کے اس پار شہر پُر آشوب کا نقشہ پیش کرتا ہے جہاں خارجی اور باطنی تنہائی کو برتنا ایک کاردارد ہے اور عاصم یہی کام بَہ خیر و خوبی سر انجام دیتے ہیں۔

یہ مختصر اظہاریہ محمد عاصم بٹ کے ناول بارے کوئی تبصرہ ہے نہ ہی کوئی تنقیدی مضمون۔ یہ ایک تأثّر ہے جو بھید پڑھنے کے بعد ابھرتا ہے۔

ناول کو اسلوبیاتی سطح پر جدت اور ندرت کے ساتھ برتا گیا ہے اور موضوع خود عاصم بٹ کے آس پاس بکھری ہوئی ہوئی وہی زندگی ہے جو لاہور کی گلی اور محلوں میں نظر آتی ہے۔ عاصم خوش رہو، آپ نے لاہور کو ایک بار پھر نئی نگاہ سے دیکھا ہے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔