اَن کہی، اَن سنی (افسانہ)
از، آسیہ ججّہ
“اللہ معاف کرے آپا…”
“دیکھ رہی ہو تیور، اس لڑکی کے…”
“سب ماں باپ کی ڈھیل کا نتیجہ ہے…”
اُس سے چند قدم کے فاصلے پر بیٹھی اس کی دور پرے کی رشتے دار خواتین، کانوں کے پیچھے دوپٹے اڑسے، منھ سے منھ جوڑےاُس کی شان میں رطب اللسان تھیں۔ اور وہ یہ سب سن لینے کے باوجود بھی انجان بنی خود میں مگن رہی۔ اپنے حق میں اس قصیدے کی شانِ نزول وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ ہاں، اگر اب سے چند لمحے قبل جب وہ ان سے سلام کرنے گئی تھی تو اسے چاہیے تھا کہ ان ‘باریش’ خواتین کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر خود کی صفائیاں دیتی۔ دو چار طعنے کھاتی۔ ملازمت پر تبصرے سنتی۔ اپنے لباس و انداز پر تنقید سہتی۔ لیکن چوں کہ وہ ازلی بے نیازی کا لبادہ اوڑھے، محض دعا سلام پر اکتفاء کرتے وہاں سے ہٹ گئی تھی اس لیے…
“اللہ معاف کرے…”
———————
عنبرین مصطفیٰ، پندرہ سال بعد اپنے گاؤں، چچا زاد اُسامہ کی شادی کے سلسلے میں آئی تھی۔ اُسامہ ایک اعتبار سے اس کا دیور بھی تھا۔ حیدر، اسامہ کا بڑا بھائی، اس سے دو سال بڑا کزن تھا۔ اور دونوں کا عقد آج سے دو سال قبل، اسلام آباد میں عنبرین کے گھر ایک سادہ سی تقریب میں انجام پایا تھا۔ تب بھی وہ ایک عرصہ زبانِ زدِ عام رہی۔ پہلے اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ کیوں کر ایک پڑھی لکھی لڑکی، جس نے عام زبان میں سولہ (ایم اے) ہوجانے پر بھی بس نہیں کی تھی اور خدا جانے کیا کیا پڑھتی جا رہی تھی، ایک بَہ مشکل مڈل پاس لڑکے کو ہاں کہے گی۔ دوسرا، شہر کے آزاد ماحول (بہ قول رشتے دار خواتین، اللہ معاف کرے ماحول) میں پلی بڑھی، کس خوشی میں گاؤں کو قبول کرے گی۔
“غلطی کی بشیر نے رشتہ پوچھ کر… مانا کے مصطفیٰ بھائی سے اچھے تعلقات ہیں، پر وہ کیوں اپنی بیٹی کو اتنا پڑھا لکھا کر اس گند (گاؤں) میں پھینکنے لگے… چلو حیدر کچھ پڑھا لکھا ہی ہوتا تو بھی تھا کہ کل کلاں کو شہر چلا جائے گا… میں اپنے پڑھے لکھے گھبرُو کا رشتہ لے جانے میں ہچکچاتی رہی اور یہاں دیکھو… بھئی اللہ معاف کرے۔”
“میں تو کہتی ہوں اگر مصطفیٰ بھائی، بھائی کی محبت میں مان بھی گئے نا… تو لڑکی کبھی نہیں مانے گی… گز لمبی تو اُس کی زبان ہے… شروع سے کھلے ڈھلے ماحول میں رہنے کی عادی ہے جی… لڑکوں سے میل جول تو مُنھ میں نوالا ڈالنے جیسا عام ہے… بھئی یہ تو ہم تھے… کہ جہاں ماں باپ نے کہہ دیا… وہیں کے ہو رہے… آج کل کی لڑکیاں تو… اللہ معاف کرے۔”
وزیر آباد کی چُھریوں سے تیز چلتی زبانوں کی دھاریں اس وقت ماند پڑیں، جب پتا چلا کہ آج مصطفیٰ بھائی کے ہاں، سادگی سے حیدر اور عنبرین کا نکاح ہے۔ ہاں وہ مان گئی تھی۔ بس رُخصتی کے لیے دو سال کا وقت مانگا تھا۔ جس کو حیدر اور اُس کے گھر والوں نے بِلا تأمّل مان لیا تھا۔
نکاح کے دو بول، بول چکنے تک کتنے ہی دلوں میں یہ حسرت مچلتی رہی کہ شاید لڑکی عین موقع پر مکر جائے کہ وہ اس گنوار سے بیاہ نہیں کر سکتی؛ اور کچھ نہیں تو مجمع چیرتا کوئی عاشق ہی نمودار ہوجائے کہ جو عنبرین کو اُس کے قول قرار سب کے سامنے یاد دلائے۔ لیکن نصیبِ دشمناں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اور چرب زباں ذہن اب اس غم میں ہلکان ہونے لگے کہ اگر جو انھیں معلوم ہوتا کہ یہ سب اتنا آسان ہے تو وہ اپنے چشم و چراغوں کو بھی اُمیدواروں کی صف میں کھڑا کرتے۔ شاید آج یہ پڑھی لکھی دوشیزہ، اپنے مستقبل کی اچھی خاصی کمائیوں کے ساتھ اُن کے گھر کی لکشمی بنتی۔
“لیکن خیر… ابھی رُخصتی تو نہیں ہوئی نا… کچھ تو گڑ بڑ ہے بھئی جو لڑکی نے رُخصتی سے منع کر دیا… لگتا ہے زور زبردستی کی ہے مصطفیٰ بھائی نے… اے بہن! جو کچھ میں نے سن رکھا ہے نا… اللہ معاف کرے۔”
“یہ بشیر کی غیرت بھی تو گھاس چرنے گئی ہے نا… حیدر کو بھی دیکھو… ایک لفظ تک نہیں بولا… اے لو… وہ کیوں کہنے لگے… بیٹھے بٹھائے لاٹری لگ گئی ان کی… اب اگر دو سال صبر کا پھل اتنا میٹھا اور مہنگا ہو… تو کون کم بخت انکار کرے گا… سنا ہے جو پڑھائی وہ پڑھ رہی ہے نا… بڑی کمائی ہے اس میں… ایسا لالچ… اللہ معاف کرے۔”
آہستہ آہستہ خلقتِ شہر کو کہنے کے لیے اور فسانے مل ہی جاتے۔ لیکن قسمت میں ابھی عنبرین کا اور چرچا ہونا باقی تھا۔ لوگوں کو مصروف رہنے اور اپنی ماہرانہ آراء کا برملا اظہار کرنے کا موقع تب ملا جب بشیر نے اپنے چھوٹے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ سب کو بھیجا۔
“یہ کیا دونوں بھائیوں کی تو اکٹھی شادی ہونا تھی نا… ہا، ہائے… بڑے کو چھوڑ کر چھوٹے کی شادی… دیکھا میں نا کہتی تھی… بڑی منھ زور ہے لڑکی… تب تو جیسے تیسے بات منوا لی مصطفیٰ بھائی نے…اب دیکھ لو… دو سال تو ہوچکے… اے کسی سے کہنا مت… میں نے تو سنا ہے کہ دفتر میں ہی کسی سے چکر چل نکلا ہے… توبہ توبہ… قُربِ قیامت کی نشانیاں ہیں بھئی… منکوحہ کسی کی، یارانے کسی سے… الله معاف کرے…”
———————
“اوئے بات سنو… کوئی اور مہمان تو نہیں آیا…؟”
حیدر نے بائیک کو محض بریک لگاتے مرکزی دروازے کے قریب کھڑے اپنے چھوٹے بھائی اسامہ سے سرسری سا پوچھا… جو کہ دُلھا ہونے کی وجہ سے دوستوں میں کھڑا چہک رہا تھا… صبح سے سہ پہر ہونے کو آئی تھی اور یہ حیدر کا لگ بھگ دسواں چکر تھا۔ وہ آتا، رُکتا، محض یہ ایک سوال کرتا، جواب سنتا اور پھر چل دیتا… الُجھے بال، شکن زدہ کپڑے اور چہرے پر ڈھیروں متانت لیے وہ واقعی گھر کا بڑا اور ذمے دار بیٹا لگ رہا تھا۔
اب کی بار جب اُس نے یہ سوال کیا تو اسامہ نے ایک دم سنجیدہ ہوتے ہوئےفرداً فرداً سب کے نام گِنوانا شروع کیے…”شفیق چاچو، سلمیٰ چاچی، فردوس خالہ، عثمان…” ایک ایک نام لیتا وہ حیدر کا ضبط آزما رہا تھا۔ جس کے منھ پر ہر نیا نام نا امیدی کے کسی نئے تازیانے کی طرح لگتا۔
“بس یہی…؟ اور کوئی نہیں آیا…؟”
اُس نے آنکھوں میں چُبھتی کرچیوں کی ٹیس چھپاتے پوچھا۔
“نہیں بھائی… جو جو آیا وہ سب بتا تو دیا…”
اسامہ نے قہقہے کے طوفان کو اندر دھکیلتے سنجیدگی سے کہا۔
حیدر نے وہیں سے موڑ کاٹا، ابھی بائیک سٹارٹ کرنے ہی لگا تھا کہ اسد کا دوست اسد سے بولا۔
“یار اسلام آباد سے بھی تو کوئی مہمان آئے ہیں نا… ان کا نہیں بتایا تم نے… ؟”
“اسلام آباد…؟”
بائیک کی کِک پر پاؤں رکھتے حیدر کو لگا شاید اُس نے کچھ غلط سنا ہے۔ بے یقینی سی بے یقینی میں اُس نے مُڑ کر اسد کو دیکھا۔ جس کے منھ پر اب ایک کمینی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ اور وہ حیدر کو یک سَر نظر انداز کیے اپنے دوست کو جواب دے رہا تھا۔
“ارے یار!بھائی تو مہمانوں کا پوچھ رہے ہیں، اسلام آباد والے مہمان تھوڑی ہیں… وہ تو اب اپنے ہی گھر والے ہیں… تمھیں نہیں پتا کیا…؟ وہ عنبرین آپی ہیں نا… وہ…”
اسد مزید پتا نہیں کیا کیا کہتا رہا۔ لیکن حیدر کی سماعتوں میں بس ایک ہی ارتعاش باقی رہی۔
“اسلام آباد…عنبرین…”
وہ وہیں بائیک سے اترا، سٹینڈ پر لگانے کی بجائے بھائی کو ہینڈل تھمایا۔ اسد بھی شاید اس ردِ عمل کے لیے تیار کھڑا تھا فوراً بائیک تھام لی۔ وگرنہ جس طرح حیدر نے بائیک کو چھوڑا تھا تھامنے والا نہ ہوتا تو گر چکی ہوتی، اور اب وہ ایک ہاتھ سینے پر پھیرتا، گویا دھڑکنوں کو معمول پر لاتا مرکزی دروازے سے اندر آ رہا تھا۔
“کیا وہ واقعی آئی ہوں گی…؟ وہ کیوں آنے لگیں…؟ پندرہ سال میں تو کبھی نہیں آئیں…! انھیں آنا بھی نہیں چاہیے…! خوامخواہ انھیں لوگوں کی باتیں سننا پڑیں گی…! لیکن دل کا کیا کروں…؟ جو مچل رہا ہے کہ کاش وہ آئی ہوں۔”
صحن عبور کرتے نا جانے کتنے ہی خیال، ذہن کی وادی سے ہو گزرے۔
———————
آج سے دو سال پہلے وہ گرمیوں کی ایک سخت دوپہر، ہم جولیوں کے ساتھ پَیلی میں لابھ لگا رہا تھا (کھیت میں چاول کی فصل بونا) جب ابا کی آواز پر سیدھا ہوا۔ ابا جامن کے درخت تلے چارپائی پر متفکرانہ انداز میں بیٹھے تھے۔ ابا کے پکارنے پر پَیلی سے باہر نکلا۔ اور بغیر ہاتھ پیر دھوئے سیدھا ہی ابا کے پاس چلا آیا کہ شاید کچھ ضروری بات کہنا ہو۔
“جی ابا…؟”
“بیٹھ جاؤ…!” انھوں نے غیر مرئی نُقطے کو دیکھتے کہا۔
حیدر وہیں گھاس بھری زمین پر بیٹھ گیا۔ (مٹی میں لت پت ایسا تھا کہ چارپائی پر تو بیٹھنے سے رہا) ابا کچھ دیر سوچتے رہے، پھر پگڑی اتار کر ایک طرف رکھی۔ لمبی سانس یوں لی، گویا ارد گرد ماحول کے ہر عُنصر کی خوش بُو اندر اتار لینا چاہتے ہوں۔
“تمھیں عنبرین کیسی لگتی ہے…؟”
اور حیدر کو یوں لگا کہ جیسے اُس کے من کی اوٹ میں چھپے چور کو کسی نے دن دیہاڑے ڈھونڈ نکالا ہو اور اب اُسے سرِ بازار سنگ سار کرنے کی تیاریاں عُروج پر ہیں۔ اورہر شے دم سادھے اس تماشے کی منتظر ہے۔ خواہ وہ درختوں پہ پُھدکتے ننھے پرندے ہوں یا گھاس کی جڑوں میں زمین کھودتے حشرات۔ ہوا کی لہریں ہوں یا لہروں کا پانی۔ سب ابا سمیت اُس کا منھ تاک رہے تھے۔ اُسے خاموش پا کر ابا نے بات جاری رکھی۔
“میں سوچ رہا تھا کہ مصطفیٰ بھائی سے تمھارے لیے عنبرین کو مانگ لوں… تم کیا کہتے ہو…؟”
بھلا چکور سے بھی کوئی پوچھتا ہے کہ اُسے کیا چاہیے…؟ دل دیوانہ وار پسلیوں سے سر پٹکتے چلایا، “قبول ہے، قبول ہے”۔ لیکن دِماغ نے فوراً دل کی زباں بندی کی۔ خود کمان سنبھالی، تو سطحِ ذہن پر حیدر کا اپنا عکس جلی حروف میں واضِح ہوا۔
پرانی پینٹ شرٹ، جس پر مسلسل پانی میں رہ رہ کر پانی کے زرد داغ پڑ چکے تھے۔ کہنیوں اور گھٹنوں تک جمی تازہ مٹی اور پسینے میں نچڑا سانولا بدن، اور پھر ذہن کے کینوَس پہ ایک اور منظر ابھرا۔ تیرہ سال پہلے کا، اسی جگہ کا، جب تایا لوگ جانے سے پہلے آخری بار کھیت دیکھنے آئے تھے۔ سُرخ شلوار قمیص پہنے، سنہری دوپٹے کے ہالے میں وہ لڑکی سردیوں کی دھوپ میں چمکتی سنہری گندم سے بھی زیادہ حسین معلوم ہو رہی تھی۔ کھالوں میں بہتا شفاف پانی دَم سادھے اُس کی معصومیت میں محو تھا۔ راستوں نےشبنمی قطروں سے غسل کیا تا کہ دھول اُس کے قدموں کو میلا نہ کر دے۔ اُس دن نپے تلے قدموں سے کچے رستے پہ باپ کا ہاتھ تھامے چلتی اُس دس سالہ معصوم لڑکی کو دیکھ کرخدا جانے کہاں سے حیدرکے من میں یہ خواہش جاگی تھی کہ “اے کاش تایا کی جگہ میں ہوتا۔” لیکن پھر وہ یک دم اپنے سانولے میلے ہاتھ دیکھ کر چپ سا ہو گیا تھا۔ اور وہ چپ ہی تو رہا تھا۔ ہمیشہ چپ رہا۔ اُس دن وہ گاؤں کی ڈھلتی شام کا فسوں، دھندلے پردوں سے نکلتے سورج کا حسن، جان وروں کی ملی جلی بولیوں کے ساز، بچوں کے چہچہانے اور بزرگوں کے ڈپٹنے کا امتزاج، سب کچھ ہی توسمیٹ کر اپنے ساتھ لے گئی تھی، مگر وہ چپ رہا۔ گھر میں جب بھی اسلام آباد تایا سے ملنے جانے کی بات ہوئی وہ چپ رہا۔ بات بہ بات عنبرین کا، اُس کی کام یابیوں کا ذکر ہوا وہ چپ رہا۔ صرف ایک وقت تھا کہ جب وہ چپ نہیں رہتا تھا۔ رات کا تیسرا پہر۔ ہاں…! تایا لوگوں کو رخصت کرنے کے بعد اُس روز وہ رات کے تیسرے پہر تک جاگتا رہا تھا۔ اور پھر اُس بارہ سالہ لڑکے کے لیے تہجد ایک معمول بن گیا۔ وہ تہجد کے بعد اپنے لیے کچھ نہ مانگتا۔ صرف اُس بے نیاز لڑکی کے لیے خیر مانگتا، اور پھر چپ ہو جاتا۔
“تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں حیدر…؟”
ابا نے اُسے ہوَنّق بنے دیکھ کر زور سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
حیدر نے ارد گرد دیکھا۔ دور، اندرکہیں دل میں اِس کچے رستے پر اُس لڑکی کا ہاتھ تھامے چلنے کی خواہش بہ دستور موجود تھی لیکن لا شعوری طور پر آج بھی وہ اپنے سانولے میلے ہاتھ دیکھ کر چپ ہو گیا۔ لیکن نہیں، آج تو اُس کا خاموش رہنا نہیں بنتا پچھلے تیرہ سالوں سے بلا ناغہ جس کے لیے وہ تہجد میں خیر مانگتا رہا تھا، اب کس طرح کسی ایسی بات پر اثبات میں سر ہلاتا کہ جو اُس بے مثال لڑکی کے شایان نہیں۔ اُس نے جی بھر کر احتجاج کیا کہ وہ عنبرین کے قابل نہیں ہے۔ لیکن کسی نے اُس کی ایک نہ سنی۔ ابا اسلام آباد گئے، بھائی اور بھاوج کے سامنے عرضی اور فیصلے کا مکمل اختیار رکھتے ہوئے لوٹ آئے۔ حیدر کو اس بات کا اپنے نام سے بھی زیادہ یقین تھا کہ وہاں سے انکار ہو گا۔ سو صدمہ اس بات کا نہیں بل کہ اس بات کا تھا، وہ پری وَش، جس کا گاؤں سے چلے جانے کے بعد سے آج تک کبھی سامنا نہ کیا کہ کہیں وہ میرا بھید نہ پا لے۔ اب وہ اس پیام کے بعد میرے بارے میں کیا سوچے گی؟
اُس ماہ رُخ کا تو پتا نہیں، لیکن سوچنے کے لیے حیدر کو لا متناہی باتیں مل گئیں جب اُسے پتا چلا کہ وہ لوگ اگلی اتوار کو اسلام آباد جا رہے ہیں۔ اُس کا اور عنبرین کا نکاح ہے۔ کیا…؟ کیسے…؟ کیوں…؟ وہ نہیں جانتا تھا۔ اس لیے پھر چپ رہنے میں عافیت سمجھی۔ سارا ہفتہ وہ چپ رہا۔ تمام رستہ وہ چپ رہا۔ اور ساری تقریب میں بھی ایجاب و قبول کے سوا چپ ہی رہا۔ اور پھر سرخ لباس پہنے، سنہری دوپٹے کے ہالے میں، باپ کا ہاتھ تھامے، نپے تلے قدموں سے چلتی عنبرین کو لا کر اُس کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔ اُس وقت وہ ہر چپ توڑ دینا چاہتا تھا۔ کتنے ہی سوال جو زبان پہ آنے کو مچل رہے تھے، صفائیاں تھیں، وضاحتیں تھیں جو دینا تھیں۔ لیکن وہ چپ رہا۔
———————
“جی جی مس سمیرا… آپ درست کہہ رہی ہیں لیکن ذرا میری بات بھی تو سمجھنے کی کوشش کریں نا۔ میں ایک ہفتے کی چھٹی پر ہوں۔ جیسے ہی اسلام آباد پہنچوں گی سب سے پہلا کام آپ ہی کا ہو گا۔ بے فکر رہیں۔”
“سن رہی ہو بہن… ہاں نا… ہم نے تو یہ بال دھوپ میں سفید کر رکھے ہیں نا… جو یہ سمجھ نہیں پائیں گے فون کی دوسری طرف مس سمیرا ہے یا مسٹر سمیر… کھی کھی کھی…اللہ معاف کرے…”
“یہاں ناں سگنلز کا بہت مسئلہ ہے۔ آپ کی آواز کٹ رہی ہے۔ میں ذرا باہر جاتی ہوں۔ آپ ہولڈ کریں۔”
“دیکھا… میں نا کہتی تھی… دال میں کچھ تو کالا ضرور ہے… اب راز و نیاز کی باتیں ہمارے سامنے تو نہیں ہوں گی ناں… ورنہ ہمیں بھی پتا ہے کون سے سگنلز نہیں آ رہے… بس بہن… اللہ معاف کرے…”
———————
حیدر اُس وقت لمبے لمبے ڈَگ بھرتا، بھاگتے دوڑتے بچوں میں راستہ بناتا، برآمدے سے گھر کے اندرونی حصے کی طرف جا رہا تھا۔ اور پھر یک لخت، اُس کے اٹھتے قدم، مچلتا دل، رواں سانسیں، سب رُک گیا۔ وہ دُرِ ثمِیں نپے تلے قدم اٹھاتی، اپنی بے نیازی میں فون کان سے لگائے اسی طرف کو چلی آ رہی تھی۔
“کیا ابھی کے ابھی خاک ہو جانا ممکن ہے…؟ کہ ان نپے تلے قدموں میں بچھ جایا جائے…!”
حیدر نے بے اختیار سوچا، پر چپ رہا۔
اب وہ قریب آ چکی تھی۔ جب اچانک اس کی نظر حیدر پر پڑی اس سے پہلے کہ حیدر اُن آنکھوں میں ابھرنے والے کسی جذبے کو پہچان پاتا۔ وہ ایک ہاتھ سے دوپٹہ دُرُست کرتی، اُس کو سلام کر رہی تھی، اور پھر آن کی آن میں ہی معذرت کرتی آگے نکل گئی۔ لیکن یہ کیا…؟ حیدر پھر چپ رہا…؟ کیا مصیبت ہے یار…؟ وہ پندرہ سال پہلے بھی چپ رہا تھا، جب اُس کو اپنی دانِست میں آخری بار دیکھ رہا تھا۔ دو سال پہلے بھی، جب وہ چاہ کر بھی اُس کی طرف دیکھ نہ پایا تھا، اور آج بھی، جب پندرہ سال بعد اُسے دیکھ رہا تھا۔ آج اس کو اپنے چپ رہنے پر پہلی بار کوفت ہوئی۔
———————
“اور سناؤ حیدر کیسے ہو…؟” یہ کوئی دور نزدیک کا ہم عمر کزن تھا جو اب گلے مل رہا تھا۔
“دیکھ رہے ہو نخرہ اس لڑکی کا… ؟ ہمیں تو چھوڑو… تمھیں بھی ڈھنگ سے سلام کرنا گوارا نہیں کیا… معاف کرنا یار… پر تم نا برا پھنس گئے ہو… پتا ہے کیا… ایسی آزاد، تیز طرار لڑکیاں چاہتی ہی یہ ہیں کہ ان کو نا کوئی تم جیسا شریف انسان مل جائے جو زیادہ جانچ پڑتال نہ کرے… دَب کے رہے ان سے… ان کے حسن سے… ان کی ذہانت سے… میں زیادہ قریب سے جانتا ہوں انھیں… بس اللہ معاف کرے…”
ہاں یہ وہی کزن تھا جو کچھ عرصہ عنبرین کے ساتھ پڑھتا رہا اور اس سے دوستی کا شدید خواہاں تھا۔ آج بھی عنبرین کی بس ایک نظرِ التفات اِس کی رائے بدلنے کو کافی تھی۔
———————
“ارے عنبرین…! یہ تم ہو… ؟” یہ بھی کوئی دور نزدیک کی ہم عمر کزن تھی جو صدقے واری جا رہی تھی۔
“برا نہ مانو تو ایک بات کہوں…؟ کسی ناکردہ گناہ کا بدلہ لیا ہے تم سے تمھارے گھر والوں نے… آخر کیا نظر آیا ان کو اس گَنوار میں… جسے یہ تک تمیز نہیں کہ سلام کا جواب کس طرح دیا جاتا ہے… اسے تو تہجد میں اٹھ کر شکرانے کے نفل پڑھنا چاہییں کہ تم مل گئی… ورنہ بیاہے جانے کے لیے ہے ہی کیا اس کے پاس… نہ عقل… نہ شکل… اللہ معاف کرے…”
ہاں یاد آیا یہ وہی کزن تھی، جس نے اپنے گھر میں صاف کہہ رکھا تھا کہ بیاہ رچائے گی تو صرف حیدر سے ورنہ نہیں۔ اور یہ ماں، بیٹی آج بھی اس تاک میں تھیں کہ کسی طرح حیدر سے اس کی بات بن جائے۔
———————
نیچے مہندی کا فنکشن شروع ہونے والا تھا۔ حیدر کو سو کام تھے۔ لیکن وہ پچھلے اڑھائی منٹ سے چھت پر ٹہل رہا تھا، کیوں کہ اسد کو اُس سے کچھ بات کرنا تھی۔ لیکن چھت پر اسد کا دور دورتک نام و نشان نہیں تھا۔ حیدر کچھ دیر انتظار کے بعد جَھنجلا کر، اسد کو صلواتیں سناتا سیڑھیوں کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ تارے ایک دوسرے کو دیکھ دھیمی ہنسی ہنسنے لگے۔ چاند نے آنکھ ماری اور رات لہک اُٹھی۔ کائنات اپنی سازش میں کام یاب ہوئی، کیوں کہ دوسری طرف سے وہ اپسرا نپے تلے قدموں سے سیڑھیاں چڑھتی آ رہی تھی۔
“اسد نے نہیں، آپ کو میں نے بلایا تھا۔ مجھے کچھ بات کرنا تھی،” عنبرین نے حیدر کو ساتھ چلنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا۔
“میں نے جھرنے میں بہتے پانی کو سن کر آپ کی آواز کا تصور باندھا تھا۔ لیکن آج اُس ساز سے یہ اعزاز واپس لیتا ہوں کہ آپ کی آواز تو اُس سے کہیں حسین ہے۔” حیدر نے بے اختیار کہنا چاہا۔ لیکن چپ رہا۔
“مجھے اصل میں آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا۔ پہلے میں نے دو سال انتظار کا کہا آپ لوگوں نے اعتراض نہیں کیا، اور اب پھر جب میں نے اپنے کَرِئیر کے لیے مزید کچھ وقت مانگا تو مجھے بہت شرمندگی بھی ہوئی۔ مگر آپ لوگوں نے پھر مجھے سمجھا۔ مجھے واقعی اندازہ نہیں تھا کہ اسد کے سسرال والوں کو اتنی جلدی ہو گی۔”
“دوپٹے کے حِصار کو توڑ کر جو چند بال آپ کے چہرے پر پڑ رہے ہیں۔ میں نے جاڑے کی طویل راتیں، جو مجھے کھلیانوں میں فصل کی رکھوالی میں کاٹنی پڑتی تھیں، اِنھی زلفوں کی سیاہی کو تاروں بھرے آسمان میں ٹٹولتے گزاریں ہیں۔” دل نے اظہار کرنا چاہا۔ لیکن حیدر چپ رہا۔
“اب یہاں آ کر احساس ہو رہا ہے کہ آپ کو کیسے امتحان سے گزارا ہے۔ بڑے بھائی کو چھوڑ کر چھوٹے کی شادی۔ لوگوں کی باتیں۔ میں واقعی اس کے لیے جتنی معذرت کروں، وہ کم ہے۔”
“یہ جو آپ کےمخملِیں ہاتھ آپ کی باتوں کے ہم آہنگ مسلسل حرکت کر رہے ہیں نا، ان کو دیکھ کر آج بھی لا شعوری طور پر میں نے اپنے ہاتھ پیچھے باندھ لیے ہیں۔ گو آج میلے نہیں، لیکن سانولے تو بہ دستور ہیں نا۔”ا حساسِ کم تَری اُمڈ آیا، لیکن حیدر چپ رہا۔
“شاید کچھ باتوں کی بھی وضاحت کرنا چاہتی ہوں۔ آج تک صرف اپنے گھر والوں کو مطمئن رکھا ہے باقی مجھے کسی کی پروا نہیں۔ لیکن اب میں چاہتی ہوں کہ کچھ باتیں آپ پر بھی واضِح کروں۔ جیسے کہ میرے لیے شہری، دیہاتی…عالم، جاہل…یا آزاد خیال، قدامت پسند ہونا اہم نہیں۔ مشرقی، مغربی ہونے سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ بل کہ اسلام کے احکام کا تابِع رہنا زیادہ ضروری سمجھتی ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ آپ مجھے کبھی ایمان کی حدود سے تجاوز کرتا نہیں پائیں گے۔”
“حیا، یہ جوآپ کی آنکھوں سے مسلسل چھلک رہی ہے، میرے لیے انجان نہیں۔ میں نے پندرہ سال پہلے بھی اِسے آپ کی آنکھوں کا مکیں پایا تھا۔” حیدر کی آنکھوں نے اعتراف کیا۔ لیکن حیدر چپ رہا۔
“ویسے کتنی عجیب بات ہے نا۔ جو آوازیں ہم سننا نہیں چاہتے وہ چار سُو گونجتی ہیں، اور سماعتیں جن سُروں کو کھوجتی ہیں اُن کا کیسا فقدان ہے۔ جن فقروں سے ہم دامن بچاتے ہیں وہ آوارہ کُتے کی طرح پیچھا کرتے ہیں؛ اور جن تبصروں کا خود کو مِحوَر پانا چاہتے ہیں وہ لکھاری کے قلم سے قرطاس کی زینت ہی نہیں بن پاتے۔ لیکن یہ بھی اچھا ہے۔ شک تو مجھے پہلے ہی تھا آج یقین ہو گیا ہے کہ مجھ میں یہ ہنر بھی ہے۔ اَن چاہی باتوں کو سن کر اَن سنا کر دینا۔ اور مَن چاہی باتوں کو سنے بغیر بھی سمجھ لینا۔” چلتے چلتے چھت کے عین وسط میں عنبرین نے حیدر کے رُوبَہ رُو رُکتے، آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہنا چاہا۔ شاید آنکھوں نے نامہ بری کر بھی دی ہو، لیکن کہہ نہ پائی۔ اب کی بار چپ رہی۔ حیدر کی طرح۔
یوں ہی آسمان تلے ایک دوسرے کے مقابل خاموش کھڑے کچھ پل سرک گئے۔ مجبوراً ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کومیدان میں آنا پڑا۔ ایک دو اوباش تھپیڑے ہی اپنا کام دکھا گئے۔ اور عنبرین نظروں کا ارتکاز توڑتے نیچے جانے کے لیے مُڑ گئی۔ دور کہیں سے ایک ڈار سے بچھڑی کُونج کی صدا سنائی دی۔ جس نے شاید اپنی بھاشا میں عنبرین سے کچھ کہا اور اُس نے ایک دم پلٹ کر دیکھا۔ پلٹ کر عنبرین نے دیکھا، لیکن پتھر حیدر ہو گیا۔
“صبح مجھے بھی تہجد کے لیے جگا دیجیے گا۔ کسی کے لیے خیر مانگنی ہے، اور پھر دن چڑھے مجھے کھیتوں میں جانا ہے۔ ابا کے نہیں، آپ کے ساتھ۔”
شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہتی وہ اک ادائے بے نیازی سے پلٹ کر نیچے چلی گئی۔ یہی مسکراہٹ اس وقت کائنات کے ہر اُس ذرے کا خاصا تھی جو پچھلے پندرہ سال سے حیدر کی ‘چُپ’ کے گواہ تھے۔
اور حیدر ہکا بکا، آج واقعی چپ تھا۔ جس کی ترجمان قدرت بن جائے وہ بولے تو کیا بولے۔
———————
“لیکن میں بول رہی ہوں بہن… یہ شُرَفاء کا دستور نہیں… زلزلے یوں ہی نہیں آتے… جب بے حیائی یوں عام ہوجائے نا… غضب خدا کا… مانا کہ نکاح ہوا ہے… پر رُخصتی تو نہیں ہوئی نا… آخر رکھ رکھاؤ بھی تو کسی چڑیا کا نام ہے… مردوں کو رجھانے کے حیلے ہیں سب… دیکھنا ساری زمین، جائیداد بِِکوا دے گی اور رُخصت ہو کر بھی نہیں آئے گی… یہ گھر بسانے والی لڑکیوں کے اطوار ہی نہیں… قیامت اب کچھ دور نہیں آپا… اللہ معاف کرے…”
خواتین رات گئے تک اس کے گناہ بخشواتی رہیں۔
———————
رات کے تیسرے پہر، دو ہالے قبلہ رُو، دنیا و ما فیھا سے بے خبر قیام میں تلاوت کر رہے تھے۔
“فَلَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ (36:76)
“پس اُن کی باتیں آپ کو رنجیدہ خاطر نہ کریں۔”
———————