قائدین سے کیسے کا سوال کیوں نہیں پوچھا جاتا؟
میں نے مولانا فضل الرحمٰن کی حالیہ احتجاجی تحریک کے حامی متعدد احباب سے ایک بنیادی سوال پوچھا کہ مولانا کی تحریک سے حکومت اگر رخصت ہوگئی تو کیا ضمانت ہے کہ آئندہ حکومت غیر سیاسی مقتدرہ کی مداخلت کے بَہ غیر بن پائے گی؟ اس غیر سیاسی مقتدرہ کو اس کے آئینی دائرے میں محدود کرنے کے لیے مولانا کے پاس کیا منصوبہ ہے؟ اس کا جواب اب تک موصول نہیں ہوا۔
مزید بُرّآں حکومت اگر گرائی نہ جا سکی، بات عمران خان کے استعفیٰ پر منتج ہو گئی تو اس ساری احتجاجی تحریک کا کیا حاصل ہو گا؟ اس کا جواب بھی نہیں مل سکا۔
تبدیلی کی ایسی کوشش جس کے بعد پھر وہی صورت حال در پیش ہو جائے، محض کوتاہ بینی پر مبنی سعیِ لا حاصل ہے۔ ایسے قائد جو ان بنیادی سوالوں کا جواب نہ دے سکیں، ان کے نعرے پر لبیک نہیں کہا جا سکتا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ تبدیلی تو ہم سب چاہتے ہیں لیکن یہ آئی گی کیسے یہ سوال کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ چناں چِہ قائدین کو کبھی اس کا جواب سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرنا پڑتی۔ انھیں عوام کو بس اتنا قائل کرنا ہوتا ہے کہ وہ بھی ان کی طرح تبدیلی کی سچی طلب رکھتے ہیں۔ اس بھروسے پر ہی عوام ان پر مَر مٹتے ہیں۔
عمران خان بھی تبدیلی کی ایک ایسی ہی نا کام تحریک کا نام ہے۔ عوام کی ایک تعداد اب بھی اس پر یقین رکھتی ہے کہ عمران خان تبدیلی لانے کا سچا جذبہ رکھتے ہیں، مگر پی ٹی آئی کے نسبتاً تعلیم یافتہ پیرو کاروں نے بھی کبھی سوال نہیں اٹھایا کہ عمران خان تبدیلی لائیں گے کیسے؟ روڈ میپ نہ ہونے اور حالات کا سنجیدہ مطالَعہ نہ رکھنے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ بار بار کابینہ کے ارکان تبدیل کر کے تبدیلی کے سفر کے آغاز کا سرا تلاشا جا رہا ہے مگرہنوز ہاتھ نہیں آیا۔
یہی سوال مولانا عبد العزیز، خطیب لال مسجد سے بھی پوچھا گیا تھا جب وہ جہادِ کشمیر کے لیے نو جوانوں کا لہو گرمایا کرتے تھے کہ بھارت اگر ان چند ہزار مجاہدوں کے ہاتھوں بالفرض تھک ہار کر کشمیر سے چلا بھی گیا تو حکومت وہاں کون اور کیسے بنائے گا؟ کیا اس کا حال بھی افغانستان کے مختلف گروہوں کی طرح ہو نہ ہو جائے گا جو اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے سے لڑ بھرے تھے۔ اس کیسے کا جواب ان کے پاس بھی نہ تھا۔ چُناں چِہ اللہ پر بھروسے کا مشورہ دیا۔ تاہم، مولانا اور خان صاحب کے پیرو کار اپنے اپنے قائد پر بھروسے کا مشورہ دیتے ہیں۔
عوام اپنے قائدین سے کیسے کا سوال کیوں نہیں پوچھتے؟
میری نظر میں اس کی دو وجوہات ہیں:
ایک یہ کہ نا آسودگی اور عدمِ استحکام کے شکار سماج کے مایوس افراد کو امید کا کوئی نعرہ از خود رفتہ کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ تبدیلی آئے یا نہ آئے، وہ اس نشے میں چند دن گزارنا چاہتے ہیں جہاں ان کی بے مقصد زندگی کو کچھ دیر کے لیے مقصدیت حاصل ہو جاتی ہے۔ وہ سرشاری کی اس کیفیت میں چند روز رہنا چاہتے ہیں۔ سیاسی اور مذھبی قائدین ان کی اس ترسی ہوئی خواہشات کو خوش نما نعروں اور وعدوں سے سیراب کرتا ہے وہ اس کے لیے جان بھی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
کیسے کا سوال نہ پوچھنے کی دوسری وجہ ہمارے ماحول اور نظام تعلیم میں تنقیدی تفکیر کا نا پید ہونا ہے۔ تاہم اگر اس کے لیے کوشش کی بھی جائے تو نو جوان طلبہ کو تنقیدی تفکیر کے لیے راضی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سے وہ جان چھڑاتے ہیں۔
مان لو اور یاد کر لو سے بنا ہوا ماحول اور نظامِ تعلیم کیا سے آگے نہیں بڑھتا، کیا کے بعد کیوں اور کیسے تک پہنچنے کی باری کبھی آتی ہی نہیں۔
یہی طرزِ تعلیم ہے اور یہی طرزِ زندگی بھی ہے۔ ایسے افراد کو کوئی بھی سنہرے خواب دکھا کرایسا لے اڑتا ہے جیسے ہوا ریت کے ذروں کو اڑا لے جاتی ہے۔
ہمیں ضرورت ہے تو اس تنقیدی فکر کو اجاگر کرنے کی جہاں کیوں اور کیسے کے سوالات قائدین کو کسی بے مقصد مہم جوئی سے روک سکیں، اور وہ سمجھ لیں کہ وہ کسی بھیڑوں کے گلّے کے راعی نہیں، جنھیں جس طرف چاہا ہانک کر لے جایا جا سکتا ہے۔
از، ڈاکٹرعرفان شہزاد