عاصمہ جہانگیر، خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
از، ملک تنویر احمد
محترمہ عاصمہ جہانگیر دنیا سے کیا رخصت ہوئیں کہ الزامات کا ایک پنڈورا باکس کھل گیا۔ اسلام دشمنی سے لے کر پاکستان دشمنی کا کونسا الزام ہے جس سے عاصمہ جہانگیر کے دامن کو آلودہ کرنے کی کوشش نہ کی جا رہی ہو۔ عاصمہ جہانگیر کی زندگی میں تو ایسے الزامات لگتے ہی رہے لیکن بعد از مرگ تو گویا الزامات کی توپوں کے دھانوں پر عاصمہ جہانگیر کو لے لیا گیا ہو۔عاصمہ جہانگیر ایک پیکر خاکی تھی جن کے نظریات اور خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ سماج میں میں یہی تنوع اس کا حسن ہوتا ہے۔
یہ اختلاف شائستگی، تہذیب اور اخلاقیات کے دائروں کے اندر موجود ہوتا تو کچھ تعجب نہ ہوتا لیکن یہاں تو اختلاف تعصب، نفرت اور فتوؤں کے دھانے پر عاصمہ جہانگیر کی شخصیت کو ہی مسخ کرنے پر تلا ہوا ہے۔اسلام دشمنی کا گھناؤنا الزام ہو کہ پاکستان دشمنی کا داغ اس اجلی شخصیت پر ثبت کیا جا رہے جو پاکستان میں انسانی آزادیوں، حقوقِ، قانون کی سر بلندی اور جمہوریت کی بالادستی ، غاصب فوجی آمروں اور مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف اس پامردی اور جرات سے لڑی کہ مخالف قوتوں کو تو دانتوں پسینہ آگیا لیکن اس کے پایہ استقامت میں ذرا سی لغزش نہ آئی۔عاصمہ جہانگیر پر اسلام اور پاکستان دشمنی کا الزام بھی شاید موجودہ تاریخ کا سب سے بڑا بھونڈا مذاق ٹھہرے گا۔ عاصمہ جہانگیر کی روداد زندگی ملاحظہ کریں کہ اس نے ساری عمر کس کاز کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کیں۔ اب ذرا ان کاموں پر نگاہ دوڑا لیں۔
عاصمہ جہانگیر نے ملک میں جمہوریت کی بالادستی کے لیے جدو جہد کی اور فوجی آمروں سے بر سرپیکار رہیں۔یہ جدو جہد از روئے شریعت کس طرح خلاف اسلام ٹھہری اور پاکستان کے آئین کی رو سے کس طرح اسے ملک دشمنی سے تعںبیر کیا جا سکتا ہے؟ “عقلائے دہر” اس بابت کیا توجیہہ پیش کریں گے؟
ملک میں قانون کی سربلندی عاصمہ جہانگیر کا ساری زندگی کا مشن رہا اور عدل و انصاف کے سر چشموں سے عام آدمی کی فیض یابی کے لیے کاوشوں سے ان کی ساری زندگی عبارت ہے۔اب یہ کاز کو طرح اس مذہب کی تعلیمات سے متصادم ہو سکتا ہے جس کی ایک ایک آیت اور حدیث معاشرے میں عدل و انصاف کی فراہمی پر زور دیتی ہے کہ جس نے کفر کی حکومت کے باقی رہنے کو تو قابل فہم قرار دیا لیکن نا انصافی پر مبنی معاشرے کے تباہ ہونے کو عین منشائے قدرت قرار دیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر کا یہ مشن آئین پاکستان کی کس شق سے متصادم ٹھہرا کہ ان پر ملک دشمنی کا الزام دھر دیا جائے؟ “صاحبان فہم و ذکاء” اس بابت قوم کی کس طرح خرد افروزی فرمائیں گے؟
عاصمہ جہانگیر نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جان جوکھوں میں ڈالی اور ہر اس ادارے اور شخص کے خلاف مزاحم ہوئیں جو انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے پر کمر بستہ ہوا۔قومی سلامتی کے نام نہاد نظریے کی بناء پر جب لوگوں کو غائب کیا جاتا تو عاصمہ جہانگیر کا مدعا فقط یہ ہوتا کہ اسے کورٹ آف لاء میں پیش کر کے اس کے مبینہ جرم پر ٹرائل کیا جائے۔ فیئر ٹرائل کا حق ہر ملزم کو آئین پاکستان فراہم کرتا ہے۔ ” جذبہ حب الوطنی سے سرشار جانثاران وطن” اس سلسلے میں کیا تفہیم کریں گے؟
عورتوں کو ان کے انسانی حقوق دینے کے لیے عاصمہ جہانگیر ساری عمر عورت مخالف طبقات سے لڑتی رہیں۔انہیں برابری کے حقوق اور سماج میں انہیں غیر انسانی سلوک سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ تنگ نظر مذہبی طبقے، زور آور جاگیر دارانہ ذہنیت اور مردانہ شاونزم سے بر سر پیکار رہیں۔اسلام اور آئین پاکستان عورت سے مساوی سلوک اور حقوق کے پاسدارار ہیں۔ ” صاحبان جبہ و دستار اور علم و دانش کے مینار” اس سلسلے میں قوم کی آگاہی کے لیے لب کشائی کریں گے عورت کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا دین و آئین کی کس شق کے ذریعے لائق تعزیر ٹھہرتا ہے؟
اقلیتوں کے حقوق کے لیے سر گرم رہنا ان کی زندگی کا مشن رہا۔ غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں دین اسلام کی واضح تعلیمات ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان بھی اس پر صراحت سے بیان کرتا ہے۔
“محبان وطن” اس سلسلے میں کیا کوئی لائیں گے عاصمہ جہانگیر کو کس طرح معتوب قرار دیا جائے؟ عاصمہ جہانگیر کا فقط ایک قصور تھا کہ وہ فرسودہ روایات اور تنگ نظر مذہبی جنونیت کی مخا لف تھیں۔ ان کا یہی گناہ تھا کہ وہ برائی کے سامنے مزاحم ہوئیں اور اس سے سمجھوتہ نہ کیا۔ جب “اخلاق و تمدن” کے پتلوں کو کچھ نہیں سجھائی دیتا تو ان کی سگریٹ کے کش لیتی تصویروں سے ان کی اخلاق باختگی کے چرچے عام کرنے لگتے ہیں۔اب عورت کے لیے سگریٹ پینا اتنا ہی اخلاق سوز عمل بنتا ہے تو گاؤں میں بسنے والی ان سب عورتوں کو اخلاق باختہ قرار دے دو کہ جو حقے کے کش کے کش لے کر اپنی کٹھن زندگی سے راحت اور عیاشی کے چند لمحے کشید کرتی تھیں۔