اظہار کا ملنگانہ وجد
از، وارث رضا
ہمیں سرِ دار ہی چھوڑ دو کہ ہم
اذنِ صبح واسطے لٹکائے گئے ہیں
مذکورہ خیال آرائی ہم نے بندوق کے سایے میں اس مذہبی منافقت کے آمرانہ دور میں کی تھی جب ریاست کے عوام کو انتہا پسندی کی صر صر میں صبا اور اندھیرے میں ضیاء دکھائی جا رہی تھی۔ گمان تھا کہ زمانے کے شکست خوردہ لمحات حاکموں کی درستی کر دیں گے۔ مگر ہنُوز ڈھاک کے تین پات مانند جبر کے خفیہ طریقوں سے ریاست چلائی جا رہی ہے اور اس پر سونے پر سہاگا مانند جمہوریت کی قَلَعی چڑھا کر عام فرد کو اس کے اظہار کی آزادی سے روکا جا رہا ہے۔
کہتے ہیں جہاں قانون نہیں ہوتا وہاں جو دکھایا جا رہا ہوتا ہے وہ کبھی کے گمان کو بھی حیران کر دیتا ہے۔ اپنی شرائط منوانے کا مقتدرہ کا نیا کھیل شروع ہو کر کہاں ختم ہوتا ہے، شاید کہ عام فرد کے گمان میں بھی نہ ہو ان ریاستی طاقت وروں نے میرے دیس کے واسی کو روزی روٹی کی فکر اور اپنی معاشی مشکلات کے گورکھ دَھندوں میں اس قدر الجھا دیا ہے کہ وہ حالاتِ زمانہ اور سیاست کے داؤ پیچ سمجھنے ہی سے محروم کر دیے گئے ہیں۔
ہم سب اب ایسے بے گانے نگر کے دُلھا بنا دیے گئے ہیں جسے اپنی شادی سے زیادہ پڑوس کے گھر میں گھسنے اور ان کے مسائل جاننے میں دل چسپی ہو چکی ہے۔
اہلِ قریش دنیا میں ذہن کی بے داری کی علامت کے طور پر متعارف کروائے گئے تھے۔مگر ہمارے ہاں کے قریش کا رنگ ہی نرالا بنا دیا گیا ہے۔ جو شعور دینے کی علامت تھے ان کے بڑوں نے برطانوی راج کی کاسہ لیسی میں اپنے گھروں سے سماجی اور سیاسی شعور کو ایسا دیس نکالا دیا ہے کہ مجال ہے کہ وطن کے ان ملتانی مٹی کے قریش کے ارد گرد سیاسی اور سماجی شعور پھٹکے۔ بل کہ مسلسل آمرانہ اقتدار کی روٹی کھاتے کھاتے اب یہ خود عبد اللہ کی مانند دیوانے کے کردار بننے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔
شعور کی آگہی کی جنگ ستر دھائیوں سے دھاڑ دھاڑ کر بلند آواز کی ہچکیوں سمیت صرف رونے گانے پر لگادی گئی ہے۔ جب کہ عام خواندہ اور نا خواندہ کو “سب اچھا ہے” کی کونین کی گولی کا عادی بنا کر اہلِ صفا خوب خوب مزے اڑا رہے ہیں۔
آج کل اظہار کے ضمن میں ہمارے دیس میں شیرازی مطعُون کیے جا رہے ہیں۔
اس لمحے مجھے اپنے ایک دوست ذکی شیرازی کی یاد بہت آ رہی ہے۔ ان کی براق اچکن، چوڑی دار پاجامہ، ڈوری ڈلا کرتا اور نوابین کے طِلے والے جوتے، جن کی چَپَت وہ اکثر اپنے جملوں سے لگانے کے ماہر تھے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے ذکی شیرازی کی چپت کا ہنر لیے آج بھی اظہار رائے کی بندش کی سیاہ تاریخ پر عاصمہ شیرازی کی چپت بھی اہلِ صفا کی نیندیں اڑائے اور انھیں بوکھلاہٹ پر مجبور کیے ہوئے ہیں۔
ذکی شیرازی کے ریڈیو پاکستان کا یہ وہ زمانہ تھا کہ جہاں زیڈ اے بخاری کے عطا کردہ ماہرانہ صوتی اثرات کے ساتھ تہذیب و شائستگی جناح روڈ پہ واقع ریڈیو پاکستان کے برآمدوں چوکھٹوں اور ایستاده و بلند ستونوں میں سر دُھنتی رہتی تھی اور ریڈیو میں کام کرنے والا ہر فرد ایک جنون سے اپنے اپنے فرائض میں مگن رہتا تھا، قطعِ نظر اس کے کہ قائد اعظم کی پہلی نشری تقریر کی یہ عمارت اب ریڈیو سے زیادہ حفاظت کے نام پر طاقت کے بَل پر تمانچے والوں کا مسکن بنادی گئی ہے۔
مگر پھر بھی اس تاریخی عمارت کی سلیقے اور تہذیب کی داستانیں ابھی تک ذہنوں سے محو ہونے کو تیار نہیں۔
ذکی شیرازی خود لکھنوی تہذیب سے رچے بسے تھے جب کہ یاور مہدی کی زندہ دلی اور محبت اہل لکھنؤ کے لیے ہمیشہ فرشِ راہ ہوا کرتی تھی۔ ابھی پچھلے دنوں ہی جب ہم اسلام آباد میں محبی بھائی افتخار عارف کی مزاج پرسی کے لیے ان سے محوِ گفتگو تھے تو انھوں نے عجیب پیار بھرے انداز سے یاور مہدی کی محبت و قدر کا نا صرف ذکر کیا بل کہ انھیں اپنا “محسن” اور نابغۂِ روزگار کا محافظ جانا۔
اسی دران ریڈیو پاکستان میں فارسی سروس کی فاطمہ شیرازی کا ذکر بھی چھڑا کہ کس طرح مشکل حالات میں فاطمہ شیرازی نے فارسی کے اظہاریے پر سامعین کو ریڈیو کے پروگرام ذریعے اپنی سروس کی جانب مائل کیا۔
فاطمہ اور ذکی شیرازی کی جوڑی ایک ہم سفر کے ساتھ علم شائستگی اور تہذیب و ادب کا ایسا مرقَّع تھی جس میں صرف حسن ہی جھلکتا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ آج کی عاصمہ شیرازی کی مانند فاطمہ شیرازی کو اظہار عام کرنے کا مشکل کام دیا گیا اور انھوں نے پوری طرح اردو سے نا واقف سامعین کو املاء اور تلفُّظ درست کرنے کا سلیقہ فارسی سروس اور پروگراموں سے کروایا۔
سوچتا ہوں کہ جو کڑا وقت فاطمہ شیرازی نے گزارا وہ اب تک صحافت کے دریچوں میں مشکلات لیے عاصمہ شیرازی کے ارد گرد منڈلا رہا ہے۔ مگر ایک یقین بھی ہے کہ جس طرح فاطمہ شیرازی نے خود کو منجدھار سے نکالا تھا اسی پایۂِ استقامت سے عاصمہ شیرازی بھی تبدیلی کے اہلِ صفا کے مقابل مشکلات سے سرخ رُو ہو کر نکلے گیں اور نہ صرف اہلِ حق بل کہ صحافتی آزادی کے مان کا نشانہ بنے گی۔
بس یہ یاد رکھا جائے کہ صحافتی اظہار کی آزادی واسطے کوڑے کھانے والے، خاور ھاشمی، ناصر زیدی، اقبال جعفری اور مسعود صاحب ایسوں کے پرتَو صحافی قیدِ تنہائی، اغواء اور تشدد کے سامنے ہنوز سینہ سَپر ہیں اور رہیں گے۔
ذکی شیرازی کے ذکر میں سفر کی مشکلات اور ذکی کی بَذلہ سَنجی شامل نہ ہو یہ ممکن نہیں۔
یہ سنہ 85 کا وہ دور تھا جب وطن میں قہر منڈلا رہا تھا اور اس قہر سے چھٹکارے کی خاطر احمد فراز فرنگیوں کے دیس میں جائے پناہ کے رہواسی بنا دیے گئے تھے۔
انھی دنوں ہمارے ایک دوست ضمیر اختر (جنھوں نے بعد میں مکمل مذھب کی چادر اوڑھ لی) پوسٹل لائف میں ملازم تھے مگر ذہنی طور سے علم اور غور و فکر کے دَھنی ہوا کرتے تھے اور میر انیس کے عشق میں لکھنؤ ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، گو وہ خود مصطفیٰ آباد کے تھے، مگر لکھنؤ کے طور طریقے ان میں مکمل موج زن تھے، لکھنؤ یاترا میں وہ بھی ہمارے شریکِ سفر تھے، ان دنوں لکھنؤ میں اودھ فیسٹیول میں شرکت کی غرض سے احمد فراز اور افتخار عارف لندن سے آئے تھے جب کہ ذکی شیرازی ہم سمیت پاکستان سے پہنچے تھے۔
وہ شام ذہن کے دریچوں میں اب تک محفوظ ہے جو بھائی افضال کے آغا میر کی ڈیوڑھی کے گھر میں ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ذکی شیرازی نے براق لکھنوی انداز اپنایا ہوا تھا اور وہ مجھے حسین آباد سے تانگہ گاڑی میں لیتے ہوئے آغا میر کی ڈیوڑھی پہنچے تھے، جہاں بھائی افتخار عارف اور احمد فراز پہلے سے موجود تھے۔
بس یہی وہ لمحہ تھا جب ذکی شیرازی کی لکھنوی حس ظرافت جاگی اور انھوں نے میرا کیمرہ لے کر محفل کے تمام عکس محفوظ کیے، اور جستہ جستہ ہر کلک پر جملہ کَسنے سے باز نہ آئے اور محفل کو زعفران کرتے رہے جب کہ ریڈیو کے صوتی اثرات کی بَہ دولت اپنی آواز کے جوہر دکھانے میں بھی تردُّد نہ برتا۔
اسی دوران جملوں کے تبادلے میں جب ذکی شیرازی نے احمد فراز سے خود ساختہ جلا وطنی کا سبب جاننا چاہا تو احمد فراز نے انھیں وطن میں قہر و جبر کے سایوں کے مابین زندگی کی حفاظت کو یقینی بنانے کی وجہ کو اپنی جلا وطنی کا سبب جانا، جس سے ذکی شیرازی مطمئن نہ ہوئے اور بر جستہ احمد فراز سے کہا کہ گویا جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے”اب تلوں میں تیل نہیں رہا”۔
اس بے ساختہ چپت پر احمد فراز بھونچکا ضرور ہوئے مگر دوسرے لمحے خود کو سنبھال لیا۔
یہ ریڈیو پاکستان کی صوتی آواز کے ذریعے عوامی رائے کی آزادی کا وہ دور تھا جب کراچی کے قہوہ خانے، بازار، چوبارے انسانی آزادی کے جمہوری حق کے گیت گایا کرتے تھے، ہر بشر کو اظہارِ رائے کی آزادی تھی؛ نہ چوری کا کھٹکا نہ اغواء کا ڈر تھا؛ نہ قتل و غارت کا اندیشہ اور نہ ہی کسی لوٹ مار کا خوف۔
کراچی میں کے ایم سی کی لائٹوں کے بلب روشن رہتے تھے جن سے لائٹ سے محروم طُلباء میونسپلٹی کی روشنی میں پڑھتے لکھتے تھے۔، جب کہ ہر سُو چہل پہل اور کم آمدنی میں بھی شاداب چہرے ایک دوجے کے دکھ درد میں شریک تھے۔
بس سب انسان سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ اس میل جول اور محبت میں کسی بھی چیز کو درمیان میں حائل نہ ہونے دیتے تھے۔ قدر کا پیمانہ علم اور غور فکر پر متعین کیا جاتا تھا۔ تنگ دستی میں بھی آسودگی کا زُعم لیے ہر فرد شہر کو اپنا سمجھا کرتا تھا۔ نہ دہلیز بڑھانے کا گمان تھا اور نہ ہی اپنے گھر کی باؤنڈری سے تجاوز کرنے کی سوچ تھی۔ شہر کی صفائی مشترکہ ذمے داری اور دکھ سانجھے ہوا کرتے تھے۔
مگر بھلا ہو جدید سرمایہ دارانہ قدروں کا کہ رشتے سکڑ کر چھ انچ کے موبائل میں آ چکے ہیں۔ شادی کے ناتے وَٹس ایپ کے محتاج کر دیے گئے ہیں اور اظہارِ رائے کو جدید دور میں بھی قرُونِ وسطیٰ کی پابندیوں کا نشان بنا دیا گیا ہے۔
اب تو فیس بک بھی آپ کے اظہار پر پابندی کا ہتھوڑا برسانے سے گریز پا نہیں۔ فیس بک پر آئے دن احباب کی پوسٹس پابندیوں کا نشانہ بنتی رہتی ہیں گو جدید دور میں اظہار کی آزاد حیثیت کی ترقی ہونی چاہیے مگر ہم ہیں کہ کبھی شیرازی تو کبھی میر تو کبھی مطیع کی آواز پر قدغن لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ حالاں کہ ساز و آواز کے آہنگ، عشق اور مُشک چھپائے نہیں چھپتے۔
دیکھتے ہیں کہ کب تک مقتدرہ کی یہ خَر مستیاں نڈھال ہو کر گرتی ہیں؟