عاصمہ ، تمہارا سفر جاری رہے گا
از، زاہدہ حنا
ممتاز شاعرہ ثروت زہرہ کا فون آیا ہے، ان سے باتیں کی ہیں ،گرم کافی کا آخری گھونٹ لے کر ایک بار پھرمیں پریوں،جانوروں اور جنوں کی ان کہانیوں میں ڈوب گئی ہوں جنھیں ایک ڈیڑھ سو برس پہلے دو جرمن بھائیوں نے مرتب کیا اور جو کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کہانیوں میں جانور ہمیں دانائی سکھاتے ہیں اور انسان لالچ ، کینے اور کمین پن کے ساتھ عریاں نظر آتے ہیں۔ میں اپنی بڑی بیٹی فینانہ، داماد کامران عباس ان کے بچوں پر ما اور فرجاد اور چھوٹی بیٹی سحینا کے ساتھ دبئی میں چھٹیاں گزار رہی ہوں۔
اچانک دروازہ کھلتا ہے اور کامران کمر ے میں داخل ہوتے ہیں’’تم دفتر سے ابھی کیسے آگئے؟‘‘میں پوچھنا چاہتی ہوں لیکن میرے سوال سے پہلے ہی وہ کہتے ہیں ’’عاصمہ جہانگیر نہیں رہیں‘‘۔ ان کا جملہ سینے میں بھالے کی طرح لگتا ہے۔ میں تڑپ کر اٹھ بیٹھتی ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ لیکن دنیا ناممکنات کے کھیل کا نام ہے۔ عاصمہ جہانگیر اسی طرح گئیں جیسے رضیہ بھٹی گئی تھیں۔ ہائی بلڈ پریشر، دل کا دورہ، برین ہیمرج، زندگی کے سفر کا انت۔ ہمارا سماج اپنے ذہین لوگوں کے سوالوں کے جواب دینے سے قاصر رہتا ہے۔
ان سے نمٹنے کا آسان نسخہ۔ گولی ماردو، پھانسی پر لٹکا دو، لاٹھیاں مار کر بدن ٹکڑے کر دو، لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹو اور جوان سزاؤں سے بچ جائیں انھیں دشنام اور اتہام کے خنجروں سے اُدھیڑ دو۔ قتل کی دھمکیاں، رسوائیوں کے منظر نامے۔ غائب کیے جانے والوں کا مقدمہ لڑنے والوں کو معلوم ہوکہ ہمارے سامنے جمشید جادو اور عمر عیار کی طلسم ہوشربا ہمارے سامنے پانی بھرتی ہے۔ ہم جنھیں غائب کرتے ہیں، وہ صفحۂِ ہستی سے غائب ہو جاتے ہیں۔ ذہن کب تک یہ دباؤ برداشت کرے، دل کہاں تک ساتھ دے۔ پھر وہی ہوتا ہے جو رضیہ کے ساتھ ہوا تھا، عاصمہ کے ساتھ بھی وہی ہوا۔ فون پر بات کرتے کرتے ریسیور ہاتھ سے چھوٹا اور اس کے ساتھ ہی زندگی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے لگا۔ رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا۔
عاصہ جہانگیر ہمارا ایک ایسا نام جس کی دھوم مشرق، مغرب میں تھی۔ گھنٹے بھر میں سوشل میڈیا ان کے سوگواروں کے غم واندوہ سے بھر گیا۔ اقوام متحدہ سے عاصمہ کا گہرا تعلق تھا۔ وہ حقوق انسانی اور مذہبی رواداری کے لیے ان کی خصوصی مندوب تھی۔ تمام دنیا سے اس کا پُرسہ کیا جاتا ہے۔ بی بی سی، الجزیرہ، رائیٹر، ہندوستان ٹائمزاور پاکستان کے ٹیلی وژن عاصمہ پر لوگوں کے تاثرات نشر کر رہے ہیں۔ جاوید اختر کہتے ہیں بلا شبہ بہادر ترین اور انسانی حقوق کے لیے جی جان سے لڑنے والی، آمروں کے غیظ و غضب کا اور اتنہا پسندوں کے طیش کا نشانہ بننے والی عاصمہ اب ہم میں موجود نہیں۔ ان کی رخصت پورے برصغیر کا نقصان ہے۔
شبانہ اعظمیٰ نے ان کی رخصت کا سو گ مناتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حقوق انسانی کی تحریک کی سب سے بے خوف سورما اور سب سے بالا قامت رہنما گزر گئیں۔ ننددیتا داس نے لکھا کہ عاصمہ کی موت ہمارے پڑوسیوں کا بہت بھاری نقصان ہے۔ وہ حقوق انسانی اور جمہوریت کی ایک سچی کھری حمایتی اور پاس دار تھیں۔ انتہا پسند قبیلے اور امتیازی سلوک کے خلاف ان کی آواز سب سے بلند تھی۔ مہیش بھٹ کا پیغام آیا کہ وہ ایک غیر معمولی عورت تھیں جو عام انسانوں کے حق کے لیے لڑتی رہیں۔ عاصمہ میں وہ ہمت تھی جس سے انھوں نے ایک منصفانہ دنیا کے لیے لڑائی لڑی۔ بلاول بھٹو انھیں اپنا گرو کہہ رہے ہیں اور کہتے ہیں مجھے تو ابھی ان سے بہت سیکھنا تھا۔ آصفہ بھٹو بھی انھیں ہدیہ عقیدت پیش کر رہی ہیں۔ آصف زرداری دکھی ہیں، نواز شریف اور مریم نواز پرسہ دینے ان کے گھر پہنچے، کچھ بے حسوں کو چھوڑ کر سب سوگوار ہیں۔
ٹیلی وژن پر کراچی لیٹریچر فیسٹیول کا آخری دن دکھایا جا رہا ہے، اس کے اور حنا جیلانی کے گرو اور ہمارے ایک بڑے دانش ور آئی اے رحمان اسے درد مندی اور دل سوزی سے یاد کر رہے ہیں۔ کراچی اسے رخصتی سلام کر رہا ہے۔ دکھ اور درد کا رشتہ تمام شہروں اور قصبوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ عاصمہ ستم سہنے والوں سے کسی تفریق اور امتیاز کے بغیر، کسی خوف کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شہروں اور دورافتادہ علاقوں کے لوگوں کا دکھ سنتے اور اس کی دوا کی کوشش کرتی ہوئی گزریں۔ وہ ڈیرہ بگٹی جارہی تھیں۔ انھیں سردار اکبر بگٹی سے ملنا تھا۔ اس ملاقات سے روکنے کے لیے ان کی گاڑی پر حملہ ہوا۔ حملہ آورجب ناکام رہے تو انھوں نے حملہ آوروں کو پکارکر کہا، ’’آپ کی گولیاں ختم ہو جائیں گی، میرا سفر ختم نہیں ہوگا‘‘۔
عاصمہ ایک خوش حال گھرانے کی بیٹی تھیں۔ مزاج میں کھلنڈری اور حاضر جواب۔ ان کے والد ملک غلام جیلانی پاکستان سول سروس سے وابستہ تھے لیکن ان کا دل عوام کے لیے دھڑکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ریٹائر ہوتے ہی انھوں نے سیاست اختیار کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سابق مشرقی پاکستان میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ انھوں نے حکمرانو ں کی مخالفت کی لیکن کوئی ان کے ساتھ نہ تھا۔ وہ حکمرانوں کے خلاف پلے کارڈ اٹھا کر لاہور کی ایک مصروف شاہراہ پر تن تنہا کھڑے ہوگئے۔
سابق مشرقی پاکستان میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے خلاف حکمران ملک غلام جیلانی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ غدار کہے گئے اور جیل بھیج دیے گئے جہاں انھوں نے کئی برس جیل میں گزارے۔ 1967 میں سزا کے طور پر ان کی زمینیں بہ حق سرکاری ضبط کر لی گئیں۔ ان کی بیوی صبیحہ غلام جیلانی ان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے اس دور میں جدید تعلیم حاصل کی جب لڑکوں کے لیے بھی اسے کچھ زیادہ ضروری نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ وہ اردو کے ممتاز ادیب اور ادیب گر مولانا صلا ح الدین احمد کی بیٹی تھیں۔ یہ وہی صلاح الدین احمد ہیں جن کا ادبی مجلہ ’’اردو دنیا‘‘ لاہور سے نکلتا تھا۔ ڈھائی تین سو صفحو ں کا اعلیٰ ادبی پرچہ جس کی قیمت صرف ایک روپیہ ہوتی تھی۔
22 دسمبر 1971 کو یحییٰ حکومت نے عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی کو مارشل لا کے قانون کے تحت گرفتار کرکے ملتان بھیج دیا۔ ان کا مقدمہ بیرسٹر منظور قادر نے لڑا جس کے دوران عاصمہ ہر قدم پر کمرہ عدالت میں ان کے ساتھ رہیں۔ یہ وہ دن تھے جب عاصمہ نے حقوق انسانی کی جدو جہد کا اولین سبق لیا۔ عاصمہ نے ان دنوں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہا تھا ہمارے گھر میں ہر وقت بنیادی حقوق اور بالغِ حقِ رائے دہی کے بارے میں باتیں ہوتی تھیں۔
اس وقت ہم بچے تھے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ بالغ حق رائے دہی کس چڑیا کا نام ہے۔ میں تو صرف یہ جانتی تھی کہ میرے والد اس کے لیے لڑ رہے ہیں۔ امی کو سیاست سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ ابا جب گرفتار ہوتے اور جیل جاتے تو وہ کار بیچ دیتیں اور ہم لوگ تانگے میں سفر شرو ع کر دیتے۔ ہمارا گھر کرائے پر چڑھا دیا جاتا اور ہم نانا (مولانا صلاح الدین) کے گھر چلے جاتے جہاں ہم ڈریسنگ روم میں رہتے۔ انھوں نے اس نوجوان سے دھواں دھار عشق کیا جس کے گھر کی دیوار ان کے گھر سے ملی ہوئی تھی۔ عشق کامیاب ہوا۔ اور وہ سسرال اور میکے کا لطف اکھٹے اٹھاتی رہیں۔ تین بچوں کی ماں بنیں لیکن عوام سے اور غریب طبقات سے ان کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹا۔ 1983میں ضیاء الحق کے دور میں انھیں جیل ہوئی۔ 2007 میں وہ گھر میں نظر بند بھی کی گئیں۔
پاکستانی اقلیتوں، غریب اور بے آسرا عورتوں، بھٹہ مزدوروں اور غلام کسانوں کے حقوق کا مقدمہ انھوں نے ہمہ وقت لڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف ہمارے یہاں ایک نادر و نایاب شے ہے۔ انھوں نے ججوں کی بحالی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ موت سے چند دن پہلے سپریم کورٹ میں ان کے دلائل کی گونج ہر طرف سنائی دی۔ 1983میں ویمن ایکشن فورم کی تشکیل میں ان کا بنیادی کردار تھا۔ شہلا ضیاء ، نگار احمد، روبینہ سہگل، نیلم حسین، فریدہ شہید، لالہ رخ، نگہت خان اور دوسری خواتین کے ساتھ مل کر انھوں نے جنرل ضیاء کے بنائے ہوئے سیاہ قوانین کے خلاف جم تم لڑائی لڑی۔
عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی سے میرا گہرا تعلق تھا۔ عاصمہ اور حنا کے ساتھ ہندوستان میں ہم نے 15دن ساتھ گزارے۔ اس وقت مجھے وہ لمحے یاد آرہے ہیں جب ہم فتح پور سیکری میں حضرت سلیم چشتی کی درگاہ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ عاصمہ کے سر پر تنکوں کی ایک بڑی ٹوکری میں پھولوں کی ایک بڑی چادر تھی جوہم سب نے ملکر مزار پر چڑھائی تھی، میں نے دونوں ملکوں کے بیچ امن قائم ہونے کی دعا کرائی تھی۔ عاصمہ چلی گئیں، ان کے اور ہم سب کے بہت سے خواب ابھی تک ادھورے ہیں، ایک دن یہ خواب ضرور پورے ہوں گے۔ اس کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں۔ ’آپ کی گولیاں ختم ہوجائیں گی، میرا سفر ختم نہیں ہوگا‘۔ عاصمہ سے متعلق کتنی ہی باتیں ہیں جومیں دوچار ہفتوں میں لکھوں گی ۔ اس وقت ہمت کہاں ہے سب کچھ لکھنے کی۔