اسرار و رموز : ایک کہانی
(نصیر احمد)
بصد تعظیم گزارش کی۔ اے شہر کی زینت، اے بزرگ، اے شیخ کل شب ہمیں اپنی زیارت سے کیوں محروم رکھا؟
شیخ نے پر سکون لہجے میں جواب دیا۔ اے فرزند کل شب میں عالم طیر میں ابدالوں کے ساتھ محو پرواز تھا کہ ناگہاہ نیچے جو نگاہ پڑی تو دو خوفناک اژدہے ملک توران کے باشندوں کو ڈراتے تھے، میں نے ابدالوں سے رخصت چاہی اور وہیں سے جست کی اور دو چار طمانچوں میں ان مفسدوں کا کام تمام کر دیا لیکن ملک توران کے لوگوں نے اظہار تشکر کے اظہار کے لیے مجھے ٹھہرا لیا۔ وہ تو اب بھی نہیں آنے دیتے تھے لیکن مجھے تمھاری یاد ستاتی تھی، تو میں نے سرعت سے کھڑا وئیں پہنیں اور تمھارے پاس آگیا۔
عرض کیا۔ یا شیخ، اے اعجاز و عجائب کی وسعتوں کے مشاق ترین ڈارو، تیری برق رفتاری ، تیری دلاوری اور تیری دلداری کا کوئی ثانی نہیں۔
شیخ نے توقف فرما یا اور اس خوشامد کے جام سے جرعہ بہ جرعہ لطف اندوز ہوتے رہے اور فرمایا۔ سن اے عزیز، تیری گفتگو کی صداقت عالم لاہوت کے لیے باعث صد افتخار ہے اور عالم طاغوت کے لیے ایک کڑی تلوار ہے۔ پس اے عزیز، کبھی جھوٹ نہ بولنا کیونکہ جھوٹ ایمان کو سخت کمزور کر دیتا ہے۔ ہمیشہ اس طرح جیسے تو نے کچھ لمحے پہلے سچ بولا ہے، سچ بولتے رہنا، جلد ہی ابدال تجھے اپنی رفاقت کا اعزاز بخشیں گے اور اقطاب تجھ پر نظر کریں گے۔ اس کے بعد شیخ نے شیخ طارق زر فروش کی حکایت یوں بیان کی۔
شیخ طارق زر فروش فرماتے ہیں۔
ایک دن میں میلے کچیلے کپڑے پہنے کاغذ چنتے چنتے شہر کی شاہراہ میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بیس تیس لوگوں کے ہجوم میں بڑی شان و شوکت سے اپنی سواری پر چلا جا رہا ہے۔ امراء کا یہ قافلہ میرے پاس سے گزرا تو شخص مذ کور کچھ جانا پہچانا معلوم ہوا۔ اس کے دمکتے چمکتے چہرے کو غور سے دیکھا تو آنکھ کے نیچے زخم کے نشان سے اسے میں پہچان گیا کہ ہم دونوں بچپن کے دوست تھے۔ میں نے چلا کر کہا۔ اے بشیر حجام ، میں نے تجھے پہچانا۔ تو تو بہت بڑا آدمی بن گیا ۔ بشیر حجام نے بڑی غضب ناک نگاہوں سے میری طرف دیکھا، ابھی میں اس کی نگاہوں کی حدت سے بر سر پیکار تھا کہ برق حقیقت کا ایک جھٹکا میرے سر پر لگا اور میں زمین پر دراز ہو گیا اور میری ٹانگیں چرخ کج رفتار اور فلک حجام پرور سے شکوہ کرنے کے لیے بلند ہو گئیں اور ایک کرخت صدا بلند ہوئی۔ او مردود گنوار، تجھے محترم اور مقرب لوگوں سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں۔ جنھیں تو اپنی بھدی اور بھونڈی آواز میں بشیر حجام کہہ رہا ہے، یہ تو شہر کے مشہور ولی ہیں، اور ان کا نام شیخ بشیر القطعی و البریدی ہے، ان کے درجات بلند اور مقامات اعلی ہیں۔تب شیخ بریدی نے بڑی نرمی سے کہا کہ اسرار و رموز کا حسن ماضی کو فراموش کر کے حال سے مطابقت سے نکھر کے سامنے آتا ہے اور میلے کچیلے خرقوں سے وابستگی کا نتیجہ نا شائستگی اور بد تمیزی ہے، جس کی سزا توہین و تذلیل ہے۔ دنیا ایک مقام عبرت ہے اور تن تنہا قافلے لوٹنے کی کوشش دل کو آزردہ اور جائے تشریف کو مئے شیراز کی طرح ارغواں کر دیتی ہے۔ مجمع میں سے شیخ کی مدح میں کئی صدائیں بلند ہوئیں اور مجھے بھی کچھ ہوش آیا۔
میں شیخ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور ملتجی ہوا۔ یا شیخ، گستاخی کی معافی مانگتا ہوں، بس بھوک پیاس نے عقل گم کردی اور شرفاء کے چہروں پر رذیلوں کے نقوش دیکھنے لگا، معرفت کی اونچائیوں کی تکریم نہ کرسکا اور اپنی ذلت تسلیم نہ کر سکا اور پھر یہ سایوں کی دنیا ہے، مایا جال ہے، فریب نگاہ ہے اور اگر اتنا ہی جوہر شناس ہوتا تو اس تپتی گرمی میں کاغذ چننے کی مشقت کیوں کرتا۔ ورنہ فرق تو صاف ہے کہاں شیخ کا مبارک چہرہ اور کہاں حجام کی نحوستیں۔ یہ سن کر شیخ نے فرمایا ۔ بے شک پستی کے اعتراف میں بلندی کا سفر پنہاں ہے مگر پستی کے اظہا ر میں ایک خاص سلیقے کی ضرورت ہے، انسان سے تو کتے بہتر ہوتے ہیں کہ کتوں کے کے لوٹنے پوٹنے میں وہ دلبری، وہ نازو انداز ہوتےہیں کہ مالک نفی کرتے کرتے اثبات کر جاتا ہے۔ لیکن کیا کریں انسان کا کہ ہمیشہ گمراہ رہتاہے اور گم شدہ کتابوں کے حوالے دیتا رہتا ہے لیکن سامنے کا سچ دیکھ نہیں پاتا۔
شیخ بریدی کا بیان چراغ معرفت کی مانند تھا اور میرے دل کے سیاہ غار میں روشنی کا ایک در کھلا ۔ میں اظہار عجز و پستی کے لیے شیخ بریدی کے نعلین پر گر پڑا اوران کے ٹخنہ مبارک پر تھوتھنی رگڑنے لگا اور زار قطار رونے لگا۔ یا شیخ رحم کریں، یا شیخ نظر کریں۔ جس طرح آپ نے میری عزت نفس کی قطع و برید کی ہے ، اسی طرح میری خستہ حالی کی بھی کانٹ چھانٹ کر دیں۔ شیخ بریدی متبسم ہوئے اور فرمایا. قسم ہے دانائے راز کی اس شخص کی انا سر کش اونٹ ہے جس کو قابو کرنے کے لیے ہمیں بہت چلے اور وظیفے کر نے پڑیں گے۔ اس پر شیخ کے ایک مرید نے کہا۔ اے شیخ، یہ شخص تو آپ کا نعلین نشین ہے ، نظر کرم کا ملتجی ہے، معافی کا خواستگار ہے اور آپ اس کو مغرور فرما رہے ہیں۔ اس میں کیا رمز ہے۔
اس پر شیخ بریدی نے فرمایا۔ دنیا، اے دنیا( صداقت ، اے ، صداقت) ہم تجھ سے توجہ ہٹاتے ہیں، تو وہ زن فاحشہ ہے کہ ہمارے پیچھے بھاگتی ہی رہتی ہے اور نت نئے بہروپ بھر کے سامنے آ جاتی ہے۔ نادان اپنا فائدہ پہچانتا ہے مگر جس نے فائدہ دینا ہو تا ہے، اس کے سامنے دوزانو ہو کر بھی اسے تکلیف دینے سے باز نہیں آتا۔ قطع و برید تو اقطاب نے ہمارے ذمہ لگا دی ہے لیکن یہ شخص بار بار کسی نہ کسی طرح سے اس کاذکر کیے جاتا ہے، ہمیں اپنا نفس مو ٹا ہو نے ( پول کھل جانے ) کا بہت خوف ہے۔ یہ کہہ کر شیخ کے منہ سے حق ، حق ،حق کے نغمے بلند ہوئے جو پوری کائنات میں پھیل گئے۔ شیخ کے کچھ شر پسند دشمن کہتے ہیں کہ انھوں نے حق کی بجائے کٹ کٹ کٹ سنا۔ لیکن وہ بادشاہ کے محل کے سامنے سلسلبیلوں سے پانی پی کر غارت ہوئے اور شیخ بریدی کی عمر دراز ہو۔ اس کے بعد شیخ کے مریدوں نے شیخ کی توصیف میں کلمات کہے اور ہر ایک نے دو دو پاپوش مجھے رسید کیے۔
شیخ بریدی نے یہ ماجرا دیکھا تو کہا۔ چھوڑ دو اس نادان کو۔ اس میں مجھے ایک مرے ہوئے عزیز کی تصویر نظر آتی ہے جو غافلوں کے ایک گروہ کے ساتھ باڑ پھلانگ کر غرق دریا ہو گیا تھا، معرفت سے اس کی محرومی کا دکھ ہماری جان کو بہت پریشان کرتا ہے۔ اس نادان کو خانقاہ میں لے چلو، ہم خلوت میں اس کی تربیت نفس کریں گے۔ شیخ کا یہ کہنا تھا کہ لوگوں نے اس دفعہ پہلے کی نسبت سے زیادہ شدت سے شیخ کی توصیف کی اور ایک نے کہا۔ بد بخت شیخ تجھے خلوت کا شرف بخش رہے ہیں، تیرا نصیبہ جاگا، تیری قسمت بدل گئی۔ یہ کہہ کر وہ شخص دھاڑیں مار مار کر گریہ کرنے لگا جیسے اس سے کوئی بہت ہی قیمتی چھن گئی ہو۔ ایسی دھاڑیں میں نے ایک بہت ہی حاتم صفت آدمی کے حجرے کے باہر سنیں تھی جسے ایک بہت ہی کمینے آدمی کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑ گیا تھا اور وہ کمینہ اسے اس کی فیاضی پر ملامت کے سوا کچھ نہ دے سکا تھا۔مجھے اس آدمی کے گریے پر بہت تعجب ہوا لیکن خدا شیخ بریدی کی عمر دراز کرے ان کی صحبت نے معرفت کے وہ در کھولے اور حیرت کے وہ عالم آسان کیے کہ اب اپنی ماضی کی نادانیوں پر ہی حیرت ہوتی ہے کہ کیسے مجھ جیسا حقیر فقیر مشیت میں مداخلت کا مجرم بنتا رہا تھا اور مسافروں کی خدمت، معذوروں کی اعانت، بچوں سے شفقت اور انسانیت کی عزت جیسے گھناونے جرائم کرتا رہا تھا۔
یہ کہہ کر شیخ طارق زرگر نے توقف کیا۔ ان کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے تھے۔ اس پر ہمارے شیخ محترم نے فرما یا، اے عزیز سالک کی معرفت پر شرمندگی معرفت کو تباہ کر دے گی۔ شیخ زرگر کے مقامات بلند ہوں مگر وہ اپنے رذیل ماضی کی وجہ سے صداقت کے درست استعمال کے نسخے میں کوتا ہیاں کرتا رہا اور مشیت میں مداخلت نہ کرنے پر کبھی کبھی بہت آزردہ ہو جاتا تھا۔ لیکن حکایت اس کی دلچسپ ہے اور اسرار و رموز کے مشکل عقدے کو آسان کرنے کے لیے بہت موافق ہے۔ شیخ نے کچھ دیر وقفہ کیا اور پھر فرمایا۔
شیخ طارق زرگر کا کہنا تھا کہ پھر وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ خانقاہ لے گئے۔خانقاہ کیا تھی روشنی ہی روشنی اور کیف ہی کیف۔ اتنی گرمی میں اتنی پر سکون روشنی اور اتنی پر کیف ٹھنڈک تو میرے لیے اس دوزخی کی طرح تھی جسے کسی دیوانی غفلت کی وجہ سے فردوس میں جانے کی مہلت مل گئی ہو۔ درجات بلند ہوں شیخ بریدی کے جنھوں نے قطع و برید کے کار خیر میں کبھی بھی لالچ سے تجاوز کے مرتکب نہیں ہوئے اور صبر کے کھردرے تکیے کے گداز سے کبھی جدائی گوارا نہیں کی۔
طعام کے بعد شیخ نے مجھے اپنی خلوت میں طلب فرمایا۔وہ اپنے معمولی سے حجرے میں ایک پلنگ پر دراز تھے جو معرفت اور سنگ مرمر، حقیقت اور سونے، سادگی اور ریشم،صبر اور کیمخواب، استغنا اور زربفت کے حسین و متضاد امتزاج کی ایک وسیع کائنات تھی۔ میری حالت تو اس شتر کی ہو گئی جو چھت پر آ دھمکا تھا اور بادشاہیوں کی بے ثباتیوں کا مدرس ہو گیا تھا۔ شیخ بریدی نے جو یوں حیران اور ہوس میں مبتلا پایا تو فرمایا کہ معرفت تضادات کی دوئی بھی نہیں مٹاتی اور غربت کو امارت کی وحدت کے رستے میں گامزن کر دیتی ہے۔ یہ کلام نرم و نازک سن کر میں نے شیخ کے نعلین پر ایک دفعہ پھر گرنے کا قصد کیا کہ یکا یک کہیں سے دو عصا بردار حبشی کہیں سے نمودار ہوئے۔ اس کے بعد مجھ پر گریہ کرنے والے کے تعجب کے راز ایسے منکشف ہوئے کہ کچھ نہ پوچھیں۔ضرب حیرت سے بوکھلاتا تو حیرت ضرب آ دھمکتی۔سر سنبھالتا تو کندھے گلہ کرنے لگتے کہ ہمارا بھی تم سے ناتا ہے۔ ناک توجہ کی طالب ہوتی، تو پیٹھ دامن کھینچنے لگتی کہ خدا را مجھے یوں تنہا چھوڑ کے نہ جاؤ۔ پھر یکا یک یہ سلسلہ تھم گیا اور حبشی ایسے غائب ہوئے کہ پھر نہ نظر آئے۔ شیخ کی مرہم آ میز آواز بلند ہوئی۔معرفت کی یہ ازلی و ابدی مصلحت ہے کہ سا لک کا درد کو منفعت کے لیے استعمال کرنے کے لیے درد سے واقف ہونا اشد ضروری ہے۔توہین و درد رشتے کو گہرا کرتے ہیں اور توہین اور درد سے آشنا سالک معرفت سے رشتہ نہیں توڑتا۔ اور کبھی غفلت میں مبتلا ہو بھی جائے درد و توہین کی کرامت انھیں معرفت کے دروازے پر واپس لے آتی ہے۔
پھر شیخ نے بکمال شفقت مجھے فرش سے اٹھایا اور اپنی توجہ کے عرش پر بٹھا لیا۔ مجھے تسلی دی، میری ڈھارس بندھائی، میری امید بڑھائی۔ مجھے کچھ حوصلہ تو ہوا مگر شیخ بریدی کی معرفت کے اسرار میرے فہم میں نہ آتے تھے۔ شیخ جب بھی متبسم ہوتے مجھے خوفناک حبشیوں کی آمد کا خوف رہتا۔ شیخ متفکر ہوتے تو شیخ کے مریدوں کے پاپوش مجھے یاد آ جاتے اور شیخ مراقبے میں جاتے تو مجھے جھانپڑوں کا ڈر ستاتا۔شیخ بریدی میری یہ کیفیت دیکھ کر گویا ہوئے۔دیکھ اے طارق، معرفت لگن ، توجہ اور یکسوئی کی مسلسل ریاضت ہے۔
وحدت اور کثرت دونوں کو فراموش کر کے نفی کے ابدی دائرے میں مسلسل گھومنے کا نام ہے۔ذات کی نفی، عزت نفس کی نفی، دوسروں کی صفات کی نفی، صداقت کی نفی، اما نت کی نفی، دیانت کی نفی، شرافت کی نفی اور سب سے بڑھ کر دنیاوی محبت کی نفی۔ شیخ کا یہ فرما نا تھا اور میں نے بصد عجز و نیاز کہا۔ شیخ کے اعجاز کو سلام کہ شیخ پر میرے دل پر جو بیتتا ہے وہ بھی واضح ہے اور شیخ نے قطعی طور پرکبھی بھی مجھے نہیں دیکھا مگر شیخ کو میرا نام بھی معلوم ہے۔ اس پر شیخ بریدی جھنجھلا اٹھے اور میری اس دفعہ لاتوں اور گھونسوں کے سا تھ تواضع کی اور فرمایا۔ او ملعون طارق ، ٹھیک رستے پر چلتے چلتے کیوں بدک جاتا ہے، پھر وہی قطع و برید، اس ہوا و ہوس کو دل سے نکال دے، میں نے تیرے لیے قیمتی دھاتوں کی تراش خراش سوچ رکھی ہے اور تو وہی گیسو درازی و گیسو تراشی کی باطل الجھنوں میں مبتلا ہے۔ برباد ہو گئے وہ لوگ جو تکلیف سہہ کر بھی اپنے معرفت کے امکانات کی تردید کر دیتے ہیں ۔میں نے تکلیف کی شدت سے کراہتے ہوئے کہا۔
یا شیخ آپ کے دست و پاپوش کی مہربان حرارت کی قسم، آپ سونا ہیں ، میں سہاگہ، آپ مالک ہیں میں نوکر، آپ آکاش ہیں تو میں پاتال، آپ میری رہنمائی فرمائیں، میری نادانیوں سے درگزر فرمائیں، میرے سینے کو نور معرفت سے روشن کر دیں، میرے ٹکڑے ٹکڑے کردیں، لیکن مجھے بات کرنے کا سلیقہ سکھائیں۔ میں آپکی متابعت کروں گا۔ راہ سلوک میں آپ میرے خلیفہ ہیں۔ جیسے ہی میں نے لفظ خلیفہ کہا اور شیخ بریدی کی چہرے پر وحشت چھا گئی۔ تب مجھے اپنی غلطی کا بھرپور احساس ہوا۔ میں شیخ بریدی کو بتانا چاہتا تھا کہ میرا مفہوم وہ نہیں تھا مگر معرفت کے زیر اثر زبان پھسل گئی۔ الفاظ میں معانی کا ایک جہان آباد تھا جس کی وجہ سے الفاظ کا معانی سے ایک طرح سے ناتا ہی ٹوٹ گیا تھا۔لیکن میں نے خاموشی میں ہی مصلحت جانی۔ شیخ بریدی تا دیر میری طرف دیکھتے رہے۔ شاید انھوں نے میرے چہرے پر پھیلی ندامت کے آثار دیکھ لیے۔میرے لیے ان کا سکوت جان لیوا تھا لیکن شکست سکوت کا خوف بھی کچھ کم نہ تھا۔شیخ بریدی چپ چاپ میری طرف دیکھتے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے لب کشائی کی۔
اے طارق، تو واقعی بہت نادان ہے۔لیکن تیری تگ و تاز، تیری رفعت پرواز کا راز تیری بیوقوفی میں پنہاں ہے۔ تیرا بے وقوفی پر اصرار ہم پر عیاں کر رہا ہے کہ تو ہر سفر، ہر جادے، ہر منزل میں کامیاب و کامراں لوٹے گا کہ معرفت وہ بے نیاز سنگ دل ہے ،وہ عریاں ہی نادان کے سامنے ہوتی ہے کہ نادانوں میں ایک صفت خاص ہوتی ہے، وہ رازوں کے پاسبان ہوتے ہیں اور اگر وہ اس صفت کے خلاف بھی جائیں، تو ان پر کوئی یقین نہیں کرتا اور اگر یقین کر بھی لے تو ان کو جھٹلانا آسان ہوتا ہے۔ تو مجھے قسم دے کہ آج سے نہ کوئی اپنی بات سوچے گا اور نہ اپنی بات کہے گا تو تیرے سامنے میں مخفی کو جلی کردوں گا۔میں نے اس دفعہ اثبات میں سر ہلا دیا۔ شیخ نے کہا، ہمیں تیری یہ بات پسند آئی لیکن دستار کے لیے سر کی خفیف جنبش نہیں بلکہ بلند آواز درکار ہے، لیکن تیری نادانیوں نے ہمارا دل موہ لیا ہے۔پھر شیخ بریدی کچھ مشکل الفاظ پڑھتے جاتے اور میں ان کے کہنے پر ان الفاظ کو دہراتا جاتا۔انھوں نے کچھ مٹھائی مجھے کھانے کو دی، جو میں نے کھا لی اور اس کے بعد میرے سرپر دستار باندھی اور میری جائے تشریف پر اپنے نعلین مبارک رسید فرمائے اور میں درد سے چلا اٹھا کہ شیخ آج تو آپ نے میری حجامت خوب بنائی۔ اس بات پر شیخ نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا اور فرمایا پاپوش کا سلسلہ
آج سے ہم نے منقطع فرمایا لیکن تیری ریاضت کا آغاز ہو گیا۔ آج کے بعدکبھی کاٹ دار اشیا کا ذکر کرنا ہو تو ذکر خفیہ اور خلوت میں
کرنا ورنہ ہم تیری دستار نوچ لیں گے اور اپنی تجلی تجھ پر اس طرح گرائیں گے تیرا تن فگار ہو جائے گا۔ یہ تیری خوش قسمتی ہے کہ تو کاغذ چنتا رہا لیکن کبھی کوئی نامہ ، کوئی نوشتہ نہ تحریر کر سکا، نہ تقریر کر سکا، نہ تفہیم کر سکا اور نہ تعلیم کر سکا۔ معرفت کو سب سے زیادہ نقصان ہی کاغذوں سے آگاہی سے پہنچتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی خناس، کوئی آسیب، کوئی دیو نسخے تعلیم کر لیتا ہے اور عاشقین و عارفین کو عقل و خرد کی باتیں سمجھانے لگتا ہے، جس کو سن کر تیرے جیسوں کی معرفت سے دوری کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔زیادہ تر خناس تو خود ہی معرفت کی بلندیوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور دم کیے ہوئے تعویذوں سے ہی قابو میں آ جاتے ہیں لیکن بعض دفعہ چند دیوانوں کو پا بہ زنجیر اور معرفت کا اسیر کرنے کے لیے جھاڑ پھونک کرنی پڑتی ہے، چالیس روزہ چلوں کا کشٹ اٹھانا پڑتا ہے، ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر فلک کی طرف دیکھ کر متواتر مسلسل منتر پڑھنے پڑتے ہیں۔ لیکن صد شکر کہ تو ان گمراہوں کی صف میں شامل نہیں ہے۔ میں خاموشی سے شیخ بریدی کے ارشادات کی سماعت کرتا رہا۔ سر کو مصروف سماعت رکھا اور جب بھی موقع ملا تو شیخ کے قدموں میں لوٹیں لگائیں۔ شیخ کو بہت مسرت و راحت ملی۔ انھوں نے میرا خفی اسم سگ پاپوش پرست تجویز فرمایا جو میں نے بصد تشکر و فخر قبول کیا۔
کچھ دیر کے توقف کے بعد شیخ نے ارشاد کیا۔
اے طارق میں القطعی و بریدی بھی ہو ں لیکن میرا اصل نام بشیر حجام ہی ہے۔ تیرے چہرے پر پھیلتی ہوئی حیرتوں کی دنیا مجھے بہت ہی شاد کام کر رہا ہے کہ دانا کی خوشی احمق کے بے تغیر تحیر میں ہے۔ یہ دوئی کی دنیا کا سلسلہ ہے، یہ نفی اثبات کا قصہ ہے، جس کو احمق صدیوں سے سمجھ نہ پائے اور نہ آنے والی صدیوں تک سمجھ پائیں گے۔انکار کا تسلسل ہی اصرار ہی متزلزل نہیں ہونے دیتا اور دونوں کو معتبر بناتا ہے۔ خود ہی دیکھ لے میری نفی نے تیرا اثبات پختہ کر دیا۔
تو اے سگ پاپوش پرست تیری حیرانی اس سگ کی حیرانی ہے جسے کسی نے بے وجہ ہی لاتیں رسید کر دی ہوں۔یہ تیرا حیران الم تیرے چہرے پرواضح ہے مگر معرفت اہلیت کی بنیاد پر انتخاب کرتی ہے۔اور اسی بنیاد پر عارفین کے مدارج اور مراتب ہیں۔اور مدارج اور مراتب کا مطلب ہے کہ معرفت سعادت کو حیرت پر ترجیح دیتی ہے۔اب تو عارفوں کا ہم مسلک ہو گیا ہے، اس لیے اہل ہوس کی طرح بات بے حیران ہونا ترک کر دے۔حیرت کا مراتب اور مدارج کے حساب سے اظہار کرنا سیکھ۔ یہ کہہ کر شیخ بریدی خاموش ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد فرمایا۔ اب تجھ پر وہ راز منکشف کرنے کا وقت آگیا ہے، جس نے تجھے بے چین اور بے کل کیا ہوا ہے۔ تیری رگ رگ سے تو ہم بچپن کے واقف ہیں کہ رازوں کے انکشاف سے تجھے اس وقت سے ہی بہت دلچسپی ہے۔ قسائی کی وہ زوجہ تو تو نے ابھی تک فراموش نہیں کی ہو گی جو اپنے خلوت خانے کے پردے ٹھیک طرح سے بند نہیں کرتی تھی۔ اس کی یہ غفلت تیرے لیے مستقل اشرفیوں کی رسد کا سبب بن گئی تھی اور تو نے اشرفیوں کے باوجود بھی راز فاش کر دیا تھا۔ لیکن تو ہمارا راز کبھی بھی افشاء نہیں کرے گا کہ تیری رازوں کی حفاظت کی تربیت ہم نے کر دی ہے اور جو سالک رستہ بھولتا ہے، اس کے لیے بڑی ہی کڑی سزائیں ہیں۔تو نے بھی شاید ہمیں اور کمینے لوگوں کی طرح ایک عام سا حجام سمجھا ہو گا،لیکن وہ تڑپ وہ طلب، وہ تمنا ، وہ آرزو تو نے نہیں دیکھی ہو گی، جو پھولوں کو روندتی سواری دیکھ کر میری آنکھوں میں پیدا ہوتی تھی۔وہ طلب ان مرزا صاحب نے تا عمر معرفت ان کی تذلیل کرتی رہے دیکھ لی تھی اور ہمیں ایمانداری اور سچائی کا درس دینے لگے تھے۔ یہ نہیں ایمانداری اور سچائی بری باتیں ہیں مگر ان کے لیے بھی معرفت کی ویسی تربیت ضروری ہے جیسی ہم نے تجھ نادان کی کر دی ہے۔ یعنی ان کے لیے معرفت کی اطاعت بہت ضروری ہے اور خادماوں کو مالکن کا درجہ کبھی نہیں دینا چاہیے کہ معرفت کے محل میں فساد برپا ہو جاتا ہے۔
تو میں وہ عام حجام نہیں تھا، میں شہر کا سب سے بڑا عالم بھی تھا۔پورے شہر میں میرے علم و فضل کے چرچے تھے۔ دور دراز سے بڑے بڑے علم کے متلاشی میری دکان پر آتے تھے اور اپنی علم کی پیاس بجھاتے تھے کہ ایک دن ایک درویش میری دکان پر نمودار ہوئے۔انھوں نے مجھے سے اشکال حقیقی کا مسئلہ دریافت فرمایا۔ میں نے اس موضوع پر ایک طویل بیان فرمایا اور حوالہ جات مجھے ازبر تو ہوتے ہی تھے۔ وہ بزرگ میری یہ تقریر سنتے رہے۔اچانک انھوں نے میری گردن پکڑ کر انھوں نے مجھے آئینے کے سامنے کر دیا اور فرمایا تو نے متاع عمر رائیگاں جا نے دی۔ اور ایک گڈی اشکال حقیقی کی مجھے دکھائی۔ اشکال حقیقی کے بارے میں بحثیں تو میں نے بہت کی تھیں لیکن جب دیدار مبارک ہوا تو سرخی اور سبزے کا ایک فردوس میرے ذہن میں آباد ہوا۔پھر جو آئینے میں میں نے دیکھا نہ تو حجام رہا، نہ امام رہا بس جو رہا وہ ایک احمق جسے اپنے علم پر گھمنڈ بہت تھا لیکن معرفت سے بہت دور تھا۔وہ بزرگ اچانک غائب ہو گئے۔اس دن سے میں نے ایک سرخ عمامہ اور ایک سبز خرقہ سلوا لیا۔ اب تو میرے پاس خرقوں اور عماموں کی بہتات ہے اور دور دراز کے ملکوں سے اشکال حقیقی کی کبھی سوغاتیں آتی ہیں اور جب اشکال حقیقی کا ہجر سہنا دشوار ہو جاتا ہے تو میں دور دراز کے ملکوں کو روانہ ہو جاتا ہوں تا کہ دیدار سے فیض یاب ہوں اور اشکال حقیقی کو اپنے ساتھ لے آتا ہوں کہ معرفت کی دنیا مسلسل وصل کی دنیا ہے ،ایک جان کے وہ ہزار قالب جن کی شکست و ریخت کی معرفت بہت ہی کڑی سزا دیتی ہے۔ ان قلوب کا تحفظ اور سلامتی ہی معرفت کی تسکین کا سبب ہے۔ اور معرفت کی تسکین کا مطلب مدار ج اور مراتب میں اضا فہ ہے۔
وہ بزرگ اب بھی اچانک نمودار ہوتے ہیں اور اشکال حقیقی میں سے اپنا حصہ لے کر اچانک غائب ہو جاتے ہیں۔معرفت ان کے حضورو غیاب کو توانا و تابندہ رکھے۔یہ ان کی نظر کرم کا نتیجہ ہے کہ معرفت کے مقاصد کی نگہبانی مسلسل ہوتی رہتی ہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی مرد عاقل جستجو کے طلسم سے آزاد ہو کر معرفت کے فردوس میں داخل ہو جاتا ہے اور اپنی مرادیں پاتا ہے۔یہ ان کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ جب مجھ پر راز منکشف ہوئے تو کرامات کی تشہیر ہو گئی۔ یہ ان کے حسن سلوک کا شاخسانہ ہے کہ انھوں نے معرفت کو فروغ دیا۔انھوں نے ہی مجھے بتایا تھا کہ بے چین دلوں کو احساس جرم سے کیسے نجات دلانی ہے۔پھر میں ایسا رواں ہوا،کہ کچھ نہ پوچھو۔ وہ امراء اور روساء جو دنیاوی فریب کے زیر اثر جن زیادتیوں پر شرمندہ تھے، میں نے ان زیادتیوں کو ان کی نگاہوں میں فضیلتیں کر دیا تھا۔ جسے وہ جرم سمجھ کر کے پچھتاتے تھے، اسے میں نے احسن قرار دیا ۔ پھر ان دکھی دلوں اور شاندار سواریوں والوں کے حلقے قائم کیے اور حلقہ در حلقہ، سلسلہ در سلسلہ اہل اقتدار و دولت کی گرفت اچھی زندگی کی پجاریوں پر سخت ہوتی گئی۔ میرا حقیقی اشکال کا ذخیرہ بڑھتا گیا۔دنیا کے فریب میں مبتلا بد قسمت بد حال ہوتے گئے۔
یہ کہہ کر شیخ بشیر حجام عرف شیخ قطعی و بریدی نے توقف فرما یا اور غور سے میری آنکھوں میں دیکھا اور اشکال حقیقی کو اپنی جیب سے نکالا، بصد احترام انھیں چوما اور میری آنکھوں کے سامنے لہرا یا، تب سے یہ بے نور و بے وقعت آنکھیں دریائے معرفت کی موجیں بن گئیں ہیں اور انسانیت کی ذرا سی آبجو کے بہاؤ کے رستے ڈھونڈتی رہتی ہیں کہ وہ رستے بھی بند کرنے کی تگ و دو کی جائے۔ شیخ نے میرے چہرے پر نظر کی اور کہا۔ شاد باش اے طارق، اے سگ زنجیر بستہ، اب تیرے چہرے سے عزت نفس اور لطف و کرم کے تاریک سائے ہٹ گئے ہیں اور معرفت کی تجلیاں دم بدم بڑھتی جا رہی ہیں اور تیری آنکھوں میں قطع و برید کے قدیم حوالے بھی نظر نہیں آتے اور تیرا چہرہ اس پکے فرش کی طرح ہو گیا ہے، جس پر بارش بھی حیات افزائی میں ناکامی پر رقص بسمل کرتی ہے۔اب کلام بے سود ہے کیونکہ تو خفی اشارتوں اور جلی بشارتوں کی منزلوں کا مسافر ہو گیا ہے۔تو کامیاب ہو گیا، تو کامران ہو گیا کہ انسان دوستی کے جوہر تو نے کھو دیے ہیں، اب تجھے کانوں سے بالیاں کھینچنے میں کوئی تامل نہیں ہو گا۔ یہ کر شیخ بریدی خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد جب بھی شیخ کے ساتھ ہوں، ان سے سارے معاملات اشارتوں میں ہی طے ہوتے ہیں، زکات گاہ سے کنگن اٹھانے کا ارادہ ہو تو شیخ دائروں کے اشارے کرتے ہیں، کسی کو تناسخ کے سفر پر روانہ کرنا ہو تو شیخ ہاتھوں کی قینچیاں بناتے ہیں، کسی کو معرفت سے خوف دلانا ہو، تو شیخ استرا تیز کرنے کا ہاتھوں کا اشارہ کرتے ہیں۔غرض شیخ کے تصرف میں جتنی بھی معرفت ہے اور اس کے جتنے بھی زاویے ہیں، شیخ نے ان کے لیے مناسب اشارے مقرر کیے ہوئے ہیں۔
ان اشاروں کی رونمائی اتنی مسلسل ہے کہ کچھ معرفت دشمن بھید پا لیتے ہیں مگر معرفت کے سلسلے اتنے گہرے ہیں کہ معرفت سے دشمنی وہ صدا ہے کہ کوئی سنتا ہی نہیں، جو سن لیتا ہے، وہ سمجھ نہیں پاتا اور جو سمجھ لیتا ہے، وہ کچھ کر نہیں پاتا اور جو کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے، اس پر معرفت کی بجلیاں اس طرح برستی ہیں کہ اسے ریت کے ٹیلوں کے نیچے اپنے دوستوں کے بے جان جسموں اور بے قرار روحوں کے دامن میں ہی پناہ ملتی ہے اور ریت کے ٹیلے معرفت کے گلشن کو اجاڑ نہیں سکتے۔راہوں سے اٹھنے والی گرد میر لشکر کی شہامت و شوکت کی مدحت کرے یا مذمت، میر لشکر کو پامال کرنے سے روک نہیں سکتی۔اے رفیق، معرفت کے اس سفر میں شیخ کا دنبال تھامنے سے میں طارق خستہ، طارق زر فروش ہو گیا ہوں۔
یہ کر ہمارے شیخ خاموش ہو گئے اور رات تھوڑی دیر تک چپ چاپ بڑھتی رہی۔ اس خاموشی میں ہم سب کو ایسا لگا جیسے کوئی ہماری منت سماجت کررہا ہو کہ رات کو روک لو۔ پتا نہیں وہ کوئی صدا تھی یا ہمارا واہمہ۔ہمارا یہ رد عمل فطری سا ہو گیا ہے کہ جب ہمیں کوئی واہمہ بے چین کرتا ہے تو ہماری آنکھیں شیخ کے چہرے پر آکر ٹھہر جاتی ہیں اور شیخ کے چہرے پر رستے اور نقشے بن جاتے ہیں اور ہمارے واہمے دور ہو جاتے ہیں اور ہماری بے چینی مٹ جاتی ہے۔پر جانے اس دہائیاں دیتی رات میں کیا بات تھی کہ میں نے شیخ کے چہرے پر جانے بوجھے رستے اور نقشے نہیں دیکھے بلکہ وہاں کوئی چہرہ ہی نہیں تھا، صرف ایک خلا سا تھا،جس میں میری نگاہیں کوئی چہرہ ڈھونڈ رہی تھیں۔وہ چند لمحے جن میں شیخ کا چہرہ نہیں ملتا تھا میری زندگی کے بہت ہی کرب ناک لمحے تھے۔ بڑھتی ہی رات کی خاموشی بھیڑیوں کی غراہٹوں میں بدل گئی تھی، پھر گیدڑوں کی ہو کیں بلند ہوئیں اور کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا اور اس قدر شور برپا ہواکہ میں نے ایک رفیق کی پشت سے قبا ہٹائی اور قبا میں سر چھپا لیا۔معرفت کا سارا ماحول متعفن ہو گیا، تب شیخ نے کسی ادق زبان میں کوئی دوہا کہا، میں نے رفیق کی قبا سے نجات پائی اور شیخ کی آواز کی سمت چہرہ گھمایا اور اس بار مجھے شیخ کا چہرہ مل گیا۔شیخ کے چہرے پر نہ صرف معرفت موجود تھی بلکہ وہ سب رستے اور نقشے جو کھو گئے تھے وہ بھی شیخ کے چہرے پر رقم تھے۔ شیخ نے فرمایا:
اے رفیقو، رات سے خوفزدہ مت ہو۔ رات کے اسرار معرفت کے راز ہیں۔بھلا ہو ملا زرزادہ کا جنھوں نے رات کی عظمت سے ہمیں روشناس کیا۔ ہم اس بات پر نازاں تھے کہ رات میں رستے جاننے کی اہلیت ہمیں سب گمراہوں جن کو کتابوں میں صاحبان درد ودل کہتے ہیں سے افضل بناتی ہے ۔ ملا زرزادہ کے سامنے ہم نے اپنی فضیلت کی شیخی بگھاری تو ملا صاحب نے ہماری تصیح فرمائی اور ہمیں تاکید فرمائی کہ رات کی تاریکی میں رستے اور نقشے جاننا بے شک معرفت کی سمت درست قدم ہے مگرجب سالک خود شب سیاہ بن جائے تو اس کا معرفت میں وہ ادغام ہو تا ہے کہ معرفت کے دشمنوں کا ہر نسخہ، ہر طریقہ اور ہر وار ناکام ہوتا ہے۔راہ مقصود سے آگاہی تو صرف اک رستہ ہے، شب سیاہ ہو جانا ہی منزل ہے۔شب سیاہ میں راہ مقصود کے مسافر شب سیاہ کی رفعتوں سے شناسا نہیں ہو پاتے کہ شب سیاہ ان کو پیچیدہ راہوں میں وہ چکر دیتی ہے کہ جب انھیں لگتا ہے کہ وہ قارون کے خزانوں کے امین ہو گئے ہیں، تب ان کے تابوت بنائے جا رہے ہوتے ہیں۔وہ خود کو طائر لاہوتی سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کے لیے قفس تیار کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ وہ خود کومعرفت کا افتخار سمجھ کر حیات و مرگ کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں، ان کے پھانسی کے پھندے بنے جا رہے ہوتے ہیں، وہ معرفت کا رازداں جان کر فضاوں میں قلابازیاں کھانے کی شوخیاں کر رہے ہوتے ہیں،ٹھیک اسی وقت ان کے پر کاٹے جا رہے ہوتے ہیں۔
وہ شہر کی مشہور حسیناؤں کے ساتھ رقص معرفت میں مصروف ہوتے ہیں، لیکن معرفت انھی حسیناؤں کے ذریعے ان کے لیے بیڑیاں بنا رہی ہوتی ہے۔ ہمارے شیخ نے ہماری طرف نظر کی اور کہا، بھلا ہو ملا زرزادہ کا کہ معرفت کی بلندیاں ان کا مقدر ہوئیں کیونکہ انسانیت کی پستیاں انھوں نے اختیار کیں۔اور ہم ابھی معرفت کے درخشاں آسمان میں تابندہ ہیں کہ ہم نے شب سیاہ کی سنگت نہیں کی ہم خود شب سیاہ بن گئے۔
شیخ کلام کر رہے تھے اور بھیڑیوں کی غراہٹیں، کتوں کی بھونکنے کی آوازیں اور گیدڑوں کی ہوکیں شیخ کے کے شیرین تکلم میں مدغم ہو گئیں اور محفل معرفت متبسم ہو گئی۔
شیخ کو یوں متبسم پا کر ہماری ہمت بندھی اور ہم نے شیخ سے عرض کی۔یا شیخ اگر ملا زرزادہ کی حکایت عنایت ہو تو ہمارے دل و دماغ کی گور میں معرفت کا ایک اور در کھل جائے گا۔ سالکین معرفت کے تن و جاں کے گورستان سے ہمدردی کا جو غبار بچ گیا ہے ،وہ بھی دھل جائے گا۔
شیخ نے فرمایا۔ رفیقو رات بڑھ گئی ہے اور ہم مسلسل تمھیں اسرار و رموز معرفت سے روشناس کرتے کرتے تھک بھی گئے ہیں اور تمھیں پتا ہی ہے
حرم میں معرفت نے ایک نئی مہربانی بھی عطا فرمائی ہے گرچہ کم سن ہے مگر محبت کی طرح معرفت بھی ماہ و سال کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہ سن کر سب رفیقوں نے قہقہے بلند کیے اور شیخ کی دادوتحسین فرمائی۔ اچانک حجرے کے کسی گوشے سے ایک صدائے گریہ بلند ہوئی اور اتنی بلند ہوئی
جیسے آسمان کو چھونا چاہتی ہو۔ اس روتی ہوئی بلند آواز نے رفیقوں کے قہقہے بجھا دیے اور ہمارے شیخ بھی کچھ گھبرا گئے۔
دوچار لمحے گزرنے کے بعد شیخ نے آہستگی سے ارشاد کیا کہ اے رفیقو،آسمان کی طرف بڑھتی ہوئی اس آواز کا گھائل ہونا بہت ضروری ہے۔ اس آواز کی نارسائی میں معرفت کی بقا ہے۔ شیخ کا یہ فرمانا تھا ہم سب صاحبان غوغائے معرفت اور ہا و ہوئے حقیقت میں محو ہو گئے، اس عالم مستی میں ہم نے دائروں میں گھومتے ہوئے وہ مستانہ وار رقص کیا کہ سارا ماحول ہماری طرف متوجہ ہو گیا ۔ عام حالات میں یہ رقص غوغا صدائے گریہ کو توڑ دیتا تھا، گھائل کر دیتا تھا مگر آج کچھ نیا ہو گیا، وہ صدا بڑھنے لگی۔ شیخ پر میری نگاہ پڑی، تو دیکھا شیخ سکڑنے لگے اور شیخ کی دیکھا دیکھی ہم سب بھی سکڑنے لگے۔ اتنی گھٹن ہوئی کہ سانس رکنے لگا۔ شیخ نے اس عالم میں جانے کیسے تالی بجانے کی کرامت کی۔ تالی بجتے ہی حجرے میں توانا نوجوان نمودار ہوئے اور انھوں نے جہاں سے صدائے گریہ بلند ہوئی تھی، اس مقام پر اپنے ہاتھوں میں تھامی لاٹھیوں کی برسات کر دی۔چند لمحوں میں ہی صدائے گریہ نے دم توڑ دیا اور نوجوان ایک جسم گھسیٹتے ہوئے حجرے سے باہر چلے گئے۔ ہم نفسوں کے تنفس ہموار ہوئے تو ہم نے شیخ سے دریافت کیا یا شیخ یہ کیا ماجرا تھا۔ شیخ نے فرمایا، منزل معرفت میں مودب خاموشی سب سے بہترین گفتگو ہے۔
لیکن کبھی کبھار چند افراد جو معرفت کے لائق نہیں ہوتے، وہ اس مودب خاموشی کو پامال کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ لیکن اے رفیقو ہمارے حجرے کی مودب خاموشی میں اس دل کی صدا جو دشت بن چکا ہے، تمھاری زاویہ نشینی میں ناکامی ہے اور اپنے رفیقوں کے انتخاب اور تربیت میں غفلت ہے۔ سب رفیقوں نے شیخ سے وہ مودب خاموشی کے عالم احترام میں وہ معذرت طلب کی ۔ اس قسم کی معذرت معرفت کی دنیا میں غفلت کی تکرار کوتقریبا نا ممکن بنا دیتی ہے۔صد شکر شیخ نے وہ معذرت قبول فرمائی لیکن ہم سب کو مرغ و پاپوش کی سرزنش کے ذلت آمیز مگر فرحت انگیز مراحل سے گزرنا پڑا۔ان ضروریات کے بعد شیخ نے کلام کا سلسلہ جوڑا۔
اے رفیقو معرفت کی راہوں میں صدائے گریہ کی شکست بہت ضروری ہے کہ صدائے گریہ کو للکار بنتے کچھ دیر نہیں لگتی اور للکار سے معرفت کی ناکامی کچھ دور نہیں۔ صدائے گریہ اگرچہ بہت خمار آگیں ہے مگر اس سے لطف اٹھانے کے مقامات بڑے تفکر و تدبر سے چننے پڑتے ہیں۔بھلا ہو ملا زرزادہ کا، اگر صدائے گریہ کے معرفت کے دشمنوں کے کانوں تک پہنچنے کا ذرا سا بھی اندیشہ ہو تو وہ بہت احتیاط کرتے تھے۔وہ معرفت میں ذرا سا خلل برداشت نہ فرماتے تھے۔ ایک دفعہ چلے کے دوران اک چڑیا نے شوخی کی حالت میں ملازرزادہ کا چہرہ آلودگیوں کی ترویج و توسیع کے لیے چنا۔ اب آلودگیاں ملا صاحب کے لیے نئی نہ تھیں کہ انھوں نے معرفت کی سرخوشی کے لیے آلودگیوں میں ہی مقام کر لیا تھا لیکن معرفت کی دنیا میں مدارج و مراتب سے غفلت کی سزائیں ہوتی ہیں۔ انھوں نے کوہسار میں رفیقوں کے جھنڈ کے جھنڈ روانہ کیے جنھوں نے ان گنت چڑیوں کو
ملازرزادہ کی سامنے زندہ و مردہ پیش کر دیا۔ مردوں کو ملا صاحب نے قریبی نالے میں پھینک دیا اور زندوں کو دستر خوان کی زینت بنا یا۔ تب سے عالم طیور کی پشتیں غرور سے محروم ہو گئی ہیں۔جہاں کہیں بھی تیل میں رچی ہوئی داڑھیاں نظر آئیں، پرندوں کی یہی کوشش ہوتی ہے، کہ وہ رخصت لیں اور جھاڑیوں میں روپوش ہو جائیں۔ ایک کوے ہیں جو باز نہیں آتے مگر ان کی ضرورت ہے کہ وہ لاشوں کے سب سے بہترین منتظم ہیں۔معرفت سے ناآگاہ، مردوں، عورتوں اور بچوں کو تو رخصتی و روپوشی کی سہولت بھی میسر نہیں۔ روزانہ کسی نہ کسی کو معرفت سے لاعلمی کا بھگتان بھگتنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو معرفت کے اچھے خاصے عالم بھی ملازرزادہ کی معرفت شناسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ملا زرزادہ کی دنیا معرفت کی بلندی کی وہ دنیا ہے کہ تاریک رات میں کوہسار سے شہر کی جعلی روشنیوں کی بتیاں بھی اگر نظر آجائے تو تم پر فحاشی اور بدکاری کا مقدمہ قائم ہو جائے گا۔معرفت کی اس دنیا میں روشنی کی ہر جہت پر، روشنی کی ہر شکل پر پابندی ہے۔ آفتاب ڈھونڈو گے تو زندان میں ملے گا، ماہتاب سے ملاقات کی خواہش ہو تو چادروں میں لپٹا چپ چاپ طمانچے سہہ رہا ہو گا۔
شیخ نے تھوڑی دیر قیام کیا اور پھر کلام کیا۔ تم لوگوں کی غفلت نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم حرم جانے کا ارادہ ملتوی کریں اور تم لوگوں کی معرفت میں تربیت کے لیے ہمیں تم لوگوں کو ملا زرزادہ کی حکایت عنایت کرنی پڑے گی۔رات بڑھتی جا رہی ہے اور ہمیں اختصار سے کام لینا ہو گا اس لیے تھوڑے کو بہت جانو کہ معرفت، دانائی شاعری اور لباس کا حسن اختصار سے ہی اجاگر ہوتا ہے مگر معرفت اور لباس کا اختصار ہم جیسے عارفوں کے لیے مخصوص ہے۔ یہ کہہ کر شیخ نے تامل فرمایا اور ہم سب رفیق دیدہ و دل شیخ کے سراپے پر جمائے شیخ کی برہنگی کے منتظر ہو گئے۔ صد شکر شیخ نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا ورنہ ہم سب کو نفی میں اثبات کی مشقت سہنی پڑتی۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد شیخ نے ملا زرزادہ کا قصہ بیان فرمانا شروع کر دیا۔ ملا زرزادہ فرماتے ہیں۔ یا شیخ یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب شہر میں تازہ تازہ معرفت کے غلغلے بلند ہوئے۔ مجھے تو معرفت کی خبر ہی تاخیر سے ہوئی کہ میں ایک دور دراز پہاڑی علاقے میں ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد کا پیش امام تھا، جس میں نمازی روز عید کو ہی نمودار ہوتے تھے ۔ اس گاؤں کے رئیس کے گھر سے کھانا مجھے ملتا تھا ، جس کے بدلے میں رئیس کی مالش سے لے کر کئی اور خدمتیں مجھے سر انجام دینا پڑتی تھیں۔ بہت کڑے دن تھے۔ رئیس کی بھینس دن کو گم ہوتی تھی اور میں ساری ساری رات جنگل اور بیابان میں ڈھونڈتا رہتا تھا۔
تو اے رفیق، محنت و مشقت کا دکھ اتنا زیادہ نہ تھا کہ آرام کی ساعتیں بھی میسر تھیں اور خوردو نوش کی راحتیں بھی مل جاتی تھیں کہ رئیس کی بیگم ایک پار سا اور دیندار خاتون تھی اور اس نے اپنی بیٹیوں کی تربیت بھی بہت اچھی کی تھی۔ ارد گرد کے لوگوں کو بھی ہم سے ہمدردی تھی کہ رئیس سے وہ جلتے تھے۔ہم بھی رئیس کے اہل خانہ کے حسن اخلاق سے لطف اندوز ہونے کے گر بھی سیکھ گئے تھے اور لوگوں میں اس کے لیے نفرت کے جذبات اپنے حق میں استعمال کرنے کے ہنر سے بھی واقف ہو گئے تھے۔ رئیس کی بدقماشی اور ظلم و جبر کو نمایاں کرتے رہتے اور اپنی مظلومی اور پارسائی کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے رہتے۔
پھر لوگوں کو پیدائش ، شادی اور تدفین جیسے اہم معاملات میں ہماری رہنمائی درکار تھی جس کے صلے میں چاہے لوگ ہم سے بیزار ہی ہوں مگر ہمارے بغیر ان کا گزارا نہیں ہو تا تھا۔ بس یہ جان لیں کہ ہم اس قریے میں ایک ایسے غریب رشتہ دار تھے جس کو عزت دو تو اپنا نقصان ہو جائے اور جس کی تذلیل کرو تو قبیلے دار ملامت کرنے لگتے ہیں۔لیکن رئیس کی ہمارے لیے تحقیر اتنی زیادہ تھی کہ ہمارا تحقیر پرست سماج بھی اسے ناگوار سمجھتا تھا۔اور ہمارے دل میں رئیس کے لیے جتنی عدا وت تھی، اس کی گہرائیوں کو اس وقت کوئی بھی نہیں سمجھ سکا۔ رئیس کو اس کے باپ نے شہر میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا تھا اور اس بیرونی تعلیم کے زیر اثر رئیس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بچیوں کا ایک سکول منظور کرا لیا۔ اے رفیقو، معرفت سے ہم اس وقت اتنے آگاہ نہ تھے لیکن اتنا تو جانتے ہی تھے کہ خاتون دشمنی کے بغیر کاروبار معرفت نہیں چل سکتا اور تعلیم یافتہ خواتین معرفت کے سارے راز فاش کر دیتی ہیں۔ اب تو معرفت کا فضل ہے کہ ہم نے تعلیم کو اس قدر معرفت آشنا کر دیا ہے کہ معرفت اور تعلیم کی دوئی مٹ گئی ہے اور راہ معرفت میں وہ یگانگت ہوئی کہ جن اور پری کی تمیز کرنا ممکن نہیں رہا لیکن اے عزیز تعلیم یافتہ خواتین سے ہمیشہ ہوشیا ر رہنا کہ معرفت سے ان کا رشتہ کبھی بھی پختہ نہیں ہو سکتا کہ معرفت خاتون دشمن
ہو تی ہے اور دشمن کو بے شک آپ افیون پلا دیں، اس کے سچ جاننے کے امکانات رہتے ہیں۔ خیر ہم نے اس سکول کی مخالفت کی تھی ، رئیس نے اس دن کے بعد ہماری تحقیر کو اپنی اور ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بنا دیا۔ہم نے پرکھو ں کی دہائی دی لیکن رئیس کے پاس طاقت اور پیسہ تھا اور مستقبل کا وعدہ بھی۔ان لوازمات کی موجودی میں اجداد کا ذکر خیر کچھ موثر نہیں ثابت ہوا۔
رئیس بھی ایک عارف ہی تھا لیکن اس کی معرفت خام تھی کہ اسے اپنی رعایا سے تھوڑی بہت الفت بھی تھی اور ان کی پسندیدگی کا بھی وہ مدعی تھا۔ معرفت کی دنیا میں یہ بہت بڑی خامیاں ہیں۔ معرفت کا راز یہ ہے اقرار و الفت کے سایوں کو نخوت کے ذریعے دور ہٹانا پڑتا ہے۔
لیکن یہ سب کچھ کھٹن تھا۔ ہم اپنے آپ کو مشکل سے محفوظ کر پا رہے تھے اور رئیس کو تھوڑی بہت تکلیف ہی پہنچا سکتے تھے۔ لیکن ایک دن معرفت کی مہربانی ہوئی۔ درویشوں کا ایک گروہ ہمارے قریے میں نمودار ہوا۔ رئیس ان کو قریے سے نکالنے کے درپے تھا لیکن ہمارے کہنے پہ رئیس کے اہل خانہ نے ان درویشوں کو وہاں رہنے کی اجازت دے دی۔ جلد ہی ان عالی ہمت مسافروں سے ہماری دوستی ہو گئی۔
وہ التفات و ارتباط ہوا کہ جلد ہی رازو نیاز ہونے لگے۔رازو نیاز ہوئے تو مشکلیں حل ہونے لگیں۔ راہیں کھلنے لگیں۔ معبود خانے میں عبادت گزاروں کی تعداد بڑھنے لگی۔ رئیس کے خلاف نفرت کا پرتشدد اظہار ہونے لگا۔ جائیداد کے جھگڑے بنام خدا ہونے لگے۔ اور پھر ایک دن رئیس کا چوراہے میں قتل ہو گیا۔ اس کی اہلیہ اور بیٹیوں کو ہم نے خود خنجر سے ذبح کیا۔وہ بہت تڑپیں لیکن ہم نے اس رقص بسمل سے لطف اٹھایا۔ اور معرفت میں بلند مقام پایا۔
تو اے رفیق، اب ہمارے پاس معرفت کی بدولت سب کچھ ہے۔ ایسی دولت جس پر لوگ لالچی نگاہ بھی نہیں ڈال سکتے کہ نظر بد کا انجام سب کو معلوم ہے۔ ایسی عزت جس کے اظہار میں ذرا سی کوتاہی ہو جائے
تو لاٹھیاں کوتاہی کی درستی کر دیتی ہیں۔ ایسا نام کہ ہر وقت قریے میں گونجتا رہتا ہے، ایسا قریہ جس میں معرفت کے اور ہمارے غلاموں کے سوا سب کے ہاتھ نعمتوں سے دور ہیں۔
یہ فرما کر ہمارے شیخ خاموش ہو گئے اور کہا ملا زر زادہ کی حکایت کی قطع و برید کا بہت دکھ ہے لیکن اختصار سے عقدہ کشائی کرنی پڑی ہے کہ رات مختصر ہوتی جا رہی ہے اور کار معرفت طویل ہے۔ اس لیے تھوڑے کو ہی بہت جانو۔معرفت میں اختصار و طوالت کی حکمتوں سے ہمیں شیخ مدحت دروغ باف نے آگاہ کیا تھا۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ جنبش ابرو میں وہ توانائی ہونی چاہئے کہ تقریر کی ضرورت ہی نہ رہے اور قسمتیں بدل جائیں۔ہم نے بلند آواز نعرہ تحسین بلند کیا اور شیخ سے التجا کی کہ وہ ہمیں شیخ مدحت دروغ باف کی حکایت معرفت عطا کریں تا کہ ہماری انسانیت سے محرومی پختہ ہو جائے۔شیخ نے رضامندی ظاہر کی اور شیخ دروغ باف کا قصہ یوں بیان کیا۔
تو اے رفیق، میری معرفت کی حکایت فیضان نظر یا کرامت مکتب کی داستان نہیں ہے۔ میری معرفت تک رسائی معرفت کے مخالفین کے سبب ہوئی اور معرفت میں فنائے ذات میری اپنی کاوش ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں شہر میں جاری معرفت کا مسلسل مقابلہ ہار رہی تھی اور تم تو جانتے ہو معرفت سے دوری میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔کبھی ملامتیں، کبھی اذیتیں اور معرفت کا ہمہ وقت خوف۔ میں معرفت کی ستم رسیدہ تھی اور معرفت کے لیے میرے دل میں نفرت سی پیدا ہو گئی تھی۔ اور عارفین مجھے اس نفرت کی بہت سزا دیتے تھے۔اس زمانے میں میری ایک انسانیت کی ہمدردی، مہربانی، عشق و محبت، آزادی و برابری اور جودو سخا کے خوفناک امراض میں مبتلا ایک حرافہ سے ہو گئی جو میری بہت گہری دوست بن گئی۔وہ حرافہ، اے رفیق، بہت بڑی معرفت شناس تھی اور اگر گمراہ نہ ہوتی تو مرد معرفت کی پستیوں کی حکمرانی سے محروم ہو جاتے۔وہ ریاضتوں پر ٹھٹھا کرتی، وہ مجاہدوں پر قہقہے لگاتی، وہ زاویوں کا مذاق اڑاتی اور دائروں پر خندہ زن ہوتی۔وہ بلا نوش بھی تھی اور جب کبھی ترنگ میں آکر معرفت کی جب کبھی ہجو گاتی تو عارفین اس سے پناہ مانگتے۔
اس نے میری معرفت کی بہت تعلیم کی کہ معرفت کیسے دماغی، جذباتی اور جسمانی کمزوریوں کو نشانہ بنا کے شجر ظلمت کی طرح لوگوں کو اپنے سایوں میں لپیٹ لیتی ہے۔اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ معرفت کا اپنے ایک آزاد انسان ہونے کے ذریعے مقابلہ کیا جا سکتا ہے اے رفیق معرفت کے علاوہ اگر کسی اور پیمانے سے اسے دیکھا جائے تو وہ بہت ہی اچھی دوست اور ایک بہت ہی شاندار انسان تھی۔لیکن اے رفیق معرفت کے علاوہ کسی اور شے کو پیمانہ بنانا بہت بڑی حماقت ہوتی ہے۔ شجر ظلمت کے نیچے اشرفیاں گننا اور حکایات کے سلسلوں کو دراز کرنا ہی دانشمندی ہے کہ حکایات کی درازی ہی شیخ قطعی و بریدی جیسے گیسو تراشوں کو عارف نواز بنا دیتی ہے۔اور پھر جعلی باتوں اور جعلی روشنیوں کی بارگاہ میں جھکنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ہر صاحب جمال کے چہرے پر کالک ملنے کے نتیجے میں جو پر سرور بے خودی عطا ہوتی ہے وہ حسن حیات کی زیب وزینت میں کب ملتی ہے کہ حسن حیات میں اضافہ کرنا بہت مشکل ہے جبکہ چہروں پر تیزاب ڈالنا اور بے گناہوں کا قتل کرنا بہت سہل اور پر لطف ہے۔مظلوم کی سسکیاں کون سنتا ہے جہاں قاتلوں کے گلے میں ہارڈالنے والوں کی قطاریں طویل ہوں۔ اے رفیق، ان قطاروں کو کبھی مختصر نہ ہونے دینا اور رہی وہ حرافہ اور اس کے دو چار دوست اور ایک دو چاہنے والے وہ سب سچ کو سہل اور توجہ طلب بنانے کی مشقتوں میں مصروف ہیں اور یہ سمجھوتے معرفت کو اور توانا کرتے ہیں۔ لیکن وہ بے چارے کیا کریں، تم نے تو سنا ہی ہو گا، کاٹ دار سچ بولنے والی ایک اور حرافہ شیخ نابینا غیبی کی کرامتوں کا تاب نہ لا کر نا پسندیدہ روحوں کے عقوبت خانے میں پہنچا دی گئی ہے۔
معرفت شیخ نابینا غیبی کی عمر دراز کرے، جب بھی کوئی مشکل آ پڑتی ہے، جانے کہاں سے نمودار ہوتے ہیں اور مشکلوں کو بھگا دیتے ہیں۔ ہاں تو اے رفیق، عارفین نے جب مجھے اس حرافہ کے چنگل میں پایا تو سب نے میری مشکل کشائی کی۔ یہاں تو میں سب عارفین کو پیچھے چھوڑ گئی، میں کسی چنگل میں گرفتار نہیں تھی، میں تو معرفت کی دشمنی کو معرفت کا زینہ بنانے کا ایک عارفانہ تجربہ کر رہی تھی۔اور ایک دن میں نے یہ چلہ ختم کر لیا۔اے رفیق ایک دن وہ وقت آ گیا کہ قینچیوں کی صدائیں تھیں اور اس حرافہ کے سنہرے بال کٹ رہے تھے، اس کے ہا تھ پیر رسیوں سے بندھے تھے اور اس کے منہ پر کپڑا لپٹا ہوا تھا، جس کے اوپر محبت اور آزادی کے حروف کندہ تھے اور ہم سب عارفین اس حرافہ پر سنگ زنی کر رہے تھے۔اور معرفت نے وہ دائرہ اور وہ حصار قائم کیا ہوا تھا کہ اس کے چاہنے والے اور اس کے دوست اسے پار نہیں کر سکتے تھے۔بس سب خاموشی سے دیکھتے رہے اور ہم سب عارفین بلند آواز میں قہقہے لگا رہے تھے۔ اسی شام شہر میں شیوخ اور عارفین نے ایک تقریب منعقد کی اور مجھے معرفت کا مقابلہ جیتنے پر دستار فضیلت عطا فرمائی۔ تب سے میں روزانہ شیخ نیاز نائیک کے ہمراہ بعد از عشاء معرفت پر روزانہ درس دیتی ہوں جس کو پوری دنیا میں سنا جاتا ہے اور بہت داد و تحسین ہوتی ہے ، راہ بدسلوکی کے مسافروں کے جتھوں کو قوت ملتی ہے اور معرفت کے مخالفوں کا درد ناکامی بڑھتا ہے۔
معرفت کی عمر دراز ہو معرفت کے مخالفین کے ہاتھوں میں کیڑے پڑیں کہ وہ معرفت کی مخالفت میں کچھ نہ لکھ سکیں کہ اے عزیز لکھے ہوئے سے ڈرتے رہنا کہ لکھا ہوا تو معرفت بھی نہیں مٹا سکتی۔یہ کہہ کر ہمارے شیخ خاموش ہو گئے۔
اسی اثنا میں صبح کی آمد کے پیام آنا شروع ہو گئے، صدائے فلاح بلند ہوئی، گھنٹیوں کی آوازیں آنے لگیں اور طیور اپنے سمع خراش نغمے گانے لگے۔ ہمارے شیخ نے کمبل میں سر چھپا لیا۔ ہم نے شیخ کا اشارہ سمجھتے ہوئے مجلس برخاست کی۔
پھر کافی دیر تک ہم سرائے عارفین میں خورد نوش میں مصروف رہے کہ دن چڑھ آیا ۔ کسی رفیق نے تجویز دی کہ بڑے دن ہوئے ہم نے شہر نہیں دیکھا۔ سب رفیقوں نے اس تجویز کو پسند کیا اور ہم سب شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ دیکھا دو تین نوجوان ایک سفید ریش بزرگ کے گلے میں رسی ڈال کر اسے غلاظتوں بھری گلی میں گھسیٹ رہے تھے ، اسے گالیاں بھی دیتے جا رہے تھے اور اسے ٹھڈے بھی مارتے جا رہے تھے۔ ہم نے وجہ دریافت کی تو ان میں سے ایک نوجوان نے جواب دیا۔ کہ یہ احمق ہمارا والد ہے، اسے اپنے عزیزوں، دوستوں، رشتہ داروں سے محبت اور غریبوں سے بہت ہمدردی ہے، جس کے نتیجے میں جو اشرفیاں ہمارا حصہ تھیں، وہ اس کی معرفت دشمنی نے ضائع کر دیں اور اب ہم اسے یہ نکتہ تعلیم کر رہے ہیں کہ یہ اپنی اشرفیاں ضا ئع کرنے کی عادتوں سے باز آجائے اور اسے احساس ہو کہ اشرفیوں کے ضیاع کے نتیجے میں بہت گھسٹنا پڑتا ہے۔ ہم نے ان نوجوانوں کو شاباش دی اور اس بزرگ کو دوچار لاتیں رسید کیں اور آگے بڑھ گئے۔ دوسری گلی میں ہم نے دیکھا ایک شخص ایک عمر رسیدہ خاتون کے سر پر جوتے لگا رہا ہے۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ اپنے بھائی کی بیٹی کی شادی پر قیمتی تحفہ دے آئی ہے اور وہ لوگ غریب ہیں، ان کی طرف سے اس طرح کے تحفے ملنے کی امید نہیں ہے، یہ کوڑھ مغز بوڑھی سرمایہ داری کے بنیادی اصولوں سے بھی آگاہ نہیں ہے، میں اس کے سر سے محبت کا بھس جھاڑ رہا ہوں کہ آئندہ یہ تحائف دینے کی سخاوتوں سے باز رہے۔ تیسری گلی میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں ہر کوئی کسی نہ کسی کو پیٹ رہا تھا۔ ایک نوجوان ایک لڑکی کو طمانچے مار رہا تھا ہم نے اس سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ یہ بے وقوف میری عاشق تھی، بہت امیر تھی ، میں نے ساری دولت لوٹ لی، اب یہ میرے کام کی نہیں رہی، میں اس قطامہ کو قحبہ خانے میں فروخت کرنے کا خواہاں ہوں، لیکن اس کے تن و جاں سے عشق کا آ سیب نہیں نکلتا۔
ایک جگہ پر چند سنگ تراش شہر کے پہلے والی کے مجسمے پر ڈاڑھی مونچھ لگا رہے تھے لیکن ان سنگ تراشوں پر چند شریر بچے آوازے کس رہے تھے ہم نے ان ناہنجار بچوں پر شفقت پیزار کی اور پوچھا کہ تم ان سنگ تراشوں کو کیوں تنگ کرتے ہو ، ان بچوں میں سے ایک نے روتے روتے جواب دیا کہ والی شہر ایک عظیم انسان تھا اور وہ داڑھی مونچھوں کے بغیر ہی بہت عظیم اور حسین لگتا ہے اور تم لوگ بدمعاش ہو، وہ سنگتراش نہیں سنگ دل ہیں۔ ایک رفیق کو جو غصہ آیا تو اس نے ان بچوں پر مزید شفقت پیزار فرمائی۔کچھ آگے گئے تو دیکھا ایک شخص ایک کتاب کو پاؤں تلے مسل رہا ہے ، اس سے دریافت کیا تو اس نے بتایا یہ قانون کی کتاب ہے اس کو جتنا بھی کچلوں گا معرفت کی اتنی ہی ترویج ہو گی۔ اس بات پر رفیقوں نے اس شخص پر اشرفیاں نچھاور کیں جو ارد گر مارتے اور مار کھاتے لوگوں نے چن لیں لیکن اس درویش کو انعام دینا ضروری تھا ، اس لیے ہم نے اسے ہم نے اسے دشت اخلاقیات جو ہم لوگوں کی محافل شبینہ کا مرکز ہے ، وہاں آنے کی دعوت دے دی۔لیکن ہمارے رفیق کو بھی اشرفیوں کے ضیاع کا ملال تھا اور باقی رفیقوں نے اس کا ملال کم کرنے کے لیے مرغ و پاپوش کی مقدس رسم دہرائی۔ تھوڑی دور آگے گئے تو عجب ماجرا دیکھا۔
ہم نے دیکھا ایک خاتون کو چند سپاہیوں نے زنجیروں میں جکڑا ہو ا ہے اور اس کے بدن پر وہ سپاہی چابک برسا رہے ہیں۔ وہ چیختی اور چلاتی ہے اور ہم نے یہ بھی دیکھا تکلیف کی شدت نے اس کے چہرے کا حسن نہیں چھینا اور ہم نے یہ بھی تماشا کیا کہ جب وہ سپاہی مارتے مارتے تھک کر ہانپنے لگتے ہیں اور سستانے لگتے ہیں تو وہ خاتون ، وہ زہرہ جمال ہنسنے لگتی ہے اور اس کی مترنم ہنسی کی گونج میں ارد گرد پھیلا ہوا تشدد جیسے بے معنی ہو جاتا ہے، تھم سا جاتا ہے۔ اس وقفے میں یوں لگتا ہے جیسے معرفت کے کوئی معنی نہیں ہیں۔حالانکہ معرفت کی ساری عظمت اس کے معانی سے تہی ہونے میں ہے لیکن پھربھی جیسے ہم سب لوگوں کو سانس لینے میں دشواری سی محسوس ہوئی۔ صد شکر ان سپاہیوں نے چابک اندازی دوبارہ جاری کردی، اور ہماری سانسوں کو ہمواری نصیب ہوئی۔ جو رفیق سپاہیوں کے سرخیل ہیں، ان سے اس احوال کے بارے میں معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ اس خاتون کو صدق و صفا کا مرض لاحق ہے اور صدق و صفا کی صفت ہی یہی ہے کہ اذیت میں چیخنا چلا نا اور فراغت میں ہنسنا اور قہقہے لگانا اور اگر صدق و صفا کے عارضے میں مبتلا لوگوں کو فراغت و راحت مل گئی تو معرفت کے تانے بانے بکھر جائیں گے۔
ہم نے اس رفیق کو نصیحت کی کہ اس خاتون پر چابک برسانے والے سپاہیوں کی اس طرح تنظیم کی جائے کہ اسے فرصت و راحت کا ایک لمحہ بھی نصیب نہ ہو، قہقہے درکنار، اسے مسکرانے کی بھی اجازت نہ ملے۔ سب رفیقوں نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور اس پر فوری عمل در آمد کے لیے چھاؤنی میں ہرکارے دوڑا دیے۔اس کے بعد ہم ایک سیاہ ریش نوجوان کے قریب سے گزرے تو شخص مذکور بچوں کو ذبح کرنے میں مصروف تھا۔ہم نے بچوں کے قتل کے بہت فرمان جاری کیے تھے لیکن اتنے قریب سے اس سیاہ ریش کو بچوں کو قتل کرتے دیکھا تو ہمارے چہروں پر تکدر کے آثار نمودار ہوئے۔ یہ ماجرا دیکھ کر سیاہ ریش شخص نے فرمایا کہ تم کیسے عارف ہو، یہ قتل نہیں ہے، یہ تو دھوکا ہے، نظر کا فریب ہے، عارضی دنیا کا طلسم ہے اور روح کی بالیدگی کے لیے اشد ضروری ہے کہ روح کی نفاستوں کا راز ہی جسم کی بے حرمتی اور توہین میں ہے۔ چونکہ لذات دنیا کو بچوں سے بہت پیار ہوتا ہے، اس لیے بچوں کا قتل بہت ضروری ہے کہ وہ عالم اجسام کی بہترین اشکال ہوتی ہیں تو معرفت کے دشمنوں کا یہی علاج ہے کہ ان کے سامنے ان کو جو سب سے زیادہ عزیز ہے ،اس کو تکلیف دیں کہ انھوں عبرت حاصل ہو کہ ان کی عبرت آموزی میں ہی معرفت کی بقا ہے۔اس سیاہ ریش کی گفتگو تو شاندار تھی لیکن کسی وجہ سے جو ہمارے فہم میں نہیں آسکی اور ہمارے دل کی بے چینی بڑھ گئی اور سیاہ ریش بزرگ کے پاس سے ہم تیزی سے گزر گئے۔
اس بزرگ کے بعد ہماری شخص لوہے کے ایک مکان پر کھڑے ایک لمبے تڑنگے شخص سے ہوئی جو سارے شہر کو گالیاں دے رہا تھا اور چند زن و مرد اس شخص کی گالیاں سن کر تالیاں پیٹ رہے تھے اور چند خواتین رقص میں محو تھیں۔ایک اور رفیق نے اس حیرت ناک منظر کی یوں تفسیر کی۔ کہ یہ شخص ہمارے شیخ کی خوش قسمتی میں بے وقوفی کی ترویج کا ایک معجزہ ہے۔ یہ شخص عارف نہیں ہے لیکن معرفت کا مطلب ہی یہی ہے کہ بیوقوفوں کی بیوقوفی کو راہ معرفت کی فراخی کا مزدور بنا دینا۔ بس اس شخص کو شیخ نے تعلیم ہی یہی دی ہے کہ تمھاری بلندی اور سرفرازی کا ثبوت دوسرے لوگوں کی توہین میں ہے، تب سے یہ شخص بلند سے بلند مقاموں کی جستجو میں ہے اور جب بھی کوئی بلند مقام پا لیتا ہے اپنی تعریف اور دوسروں کی توہین میں مصروف ہو جاتا ہے۔ معرفت اس کی حماقت کو محفوظ رکھے اور معرفت کے بلند ترین مقامات بھی اس شخص کی حماقت سے محفوظ رہیں۔
پھر چند لوگ اور بھی دیکھے جو فرقہ بازی میں مصروف تھے، یہ معرفت کا ایک قدیم کھیل ہے جس میں گزشتہ واقعات کی بنیاد پر موجود انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔یہ کھیل بھی معرفت کے اور کھیلوں کی طرح اشرفیوں کے ارد گرد گھومتا ہے لیکن اس میں اشرفیوں کا نام لینا بہت برا خیال کیا جاتا ہے۔اس طرح کے بہت سارے کھیل معرفت نے ایجاد کیے ہیں اور جن کے کھلاڑیوں کی کمی نہیں ہے کیونکہ معرفت سے قربت کی خواہش بہت سارے دلوں میں ہے۔
غرضیکہ شیخ کے سارے معتقدین نے شہر میں ہر طرف تشدد برپا دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ معرفت کی سلامتی اور ہماری حفاظت اسی تشدد کی ترویج میں ہے۔ اور ہم خراماں خراماں شہر کی سب شاندار عمارت خزینہ معرفت میں داخل ہو گئے۔جیسے ہی عمارت کے وسیع سبزہ زار میں پھولوں کی روشوں پر قدم پڑے تو اک دنیائے حیرت سے دوچار ہوئے۔ ایسا منظر نہ کبھی دیکھا، نہ تشکیل کیا، نہ تنظیم کیا اور نہ ترتیب دیا۔ اس منظر کو ہم نے اپنے شیخ کا معجزہ جانا جس کی جلد ہی تردید ہو گئی۔نقاب پوشوں کا ایک جم غفیر ہاتھوں میں ترکشیں، نیزے، بھالے اور تلواریں لیے ہوئے ہمارے شیخ کو گھیرے میں لیے ہوا تھا اور ہمارے شیخ کی وہ حالت تھی جو ہم نے کبھی بھی نہ دیکھی تھی۔
جیسے کسی خر سرکش کو صاحبان خر خیرہ سری کی سزا دے رہے ہوں۔ شیخ کا گریبان چاک تھا، چہرے پر زخموں کی جیسے ایک بارات سجی تھی، جبہ ، خرقہ اور عمامہ سب تار تار تھا۔اور شیخ ہر لات کو جواب التجا سے اور ہر تھپڑ کا جواب منت اور سماجت سے عطا فرما رہے تھے۔اور وہ ناہنجار شیخ کی تشریف پر نیزوں کی انیاں چبھو رہے تھے، جس پر شیخ بلبلا سے جاتے۔ شیخ اپنے دست مبارک سے ان کے قدم چھو رہے تھے اور کبھی اپنے لبوں سے ان کے پیر چوم رہے تھے ، جس کے جواب میں انھیں مزید ضربیں سہنا پڑتیں۔ ہم شیخ کے معتقدین سوچ ہی رہے تھے کہ ابھی کوئی کرامت رونما ہوتی ہے مگر شیخ کی حجامت کے علاوہ کوئی واقعہ رونما نہ ہوا۔ابھی ہم اسی عالم حیرت میں تھے کہ ہم پر بھی لاتیں اور گھونسے برسنے لگے اور ہم بھی شیخ کے ہم نوا بن گئے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ دنیا کیوں پلٹ گئی ہے، لیکن اب ہم لوگ بدلتی دنیا کے رحم و کرم پر تھے اور سوالوں کے جواب اب اس بدلی ہوئی دنیا کےاختیار میں تھے۔ اچانک ایک شمشیر لپکی اور شیخ کا سر تن سے جدا ہو گیا۔اس کے بعد سکوت طاری ہو گیا کچھ دیر بہت چہروں سے نقاب ہٹنے لگے اور ہم نے دیکھا کہ وہ چہرے ہمارے لیے ذرا بھی اجنبی نہ تھے۔وہ چہرے ہمارے جانے پہچانے تھے۔ شیخ کے فرزند کا چہرہ، میری دختر کا چہرہ، ایک بزرگ رفیق کی زوجہ کا چہرہ۔ سب چہرے ہمارے جگر کے ٹکڑوں کے تھے۔اور یہ چہرے دیکھ کر ہمارے چہروں پر استفسار کا اک جہان آباد ہو گیا۔ اور شیخ کا فرزند گویا ہوا۔
میں تمھارے شیخ محترم کا معنوی فرزند ہوں، میرے حقیقی والد کو شیخ نے کشتی کا عذاب دیا تھا، جس کا مجھے کوئی گلہ نہیں اور تم سب کو اور شیخ کو بھی کوئی گلہ نہیں کرنا چاہیے۔ تم سب نے شیخ کی رہ نمائی میں معرفت کی راہ اختیار کی اور بہت منزلیں طے کیں لیکن تم نے درویشی کے غرور میں قیام کی ذہنی آسانی شعار کی۔ معرفت تو تاریکی کا سمندر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ تمھیں دیکھتے دیکھتے ہم لوگ معرفت تم لوگوں سے زیادہ سیکھ گئے اور معرفت کی جستجو کی ذمہ داری سنبھال لی۔تم لوگوں کے جانے کا وقت آ گیا ہے۔
پھر ہر طرف سے رحم اے لخت جگر، کرم اے پسر، لطف اے دختر کی صدائیں بلند ہوئیں ، جو پرزور قہقہوں کے شور میں دم توڑ گئیں۔کسی ایک نے کہا کہ معرفت میں معرفت سے رشتے کے سوا سب رشتے بے معنی ہوتے ہیں اور قہقہوں کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ ایک رفیق نے روتے روتے گزارش کی کہ کیا ہمارا انجام تمھیں معرفت اور تمھارے انجام کی تعلیم نہیں کرتا تو ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ تمھارے پاس معرفت کی راہ سے ہٹنے کے مواقع تھے لیکن تم نے وہ مواقع ضائع کر دیے۔ اب تو معرفت نے زندگی کو ہر طرف سے جکڑ لیا ہے، کسی کے پاس معرفت سے ہٹنے کا امکان نہیں رہا۔ اس سمع خراش بلی کے سوالوں کے جواب اکثر کے پاس نہیں ہیں اور جن کے پاس ہیں ان کو کون پوچھتا ہے۔ اب تو روشنی کوئی نہیں دکھاتا، سب روشنی چھپاتے پھرتے ہیں۔اس پر ہم نے دیوانہ وار گریہ گیا اور ان میں سے اکثر ہم پہ خندہ زن ہوئے لیکن دو چار نے ہتھیا رپھینک دیے اور خزینہ معرفت سے دوڑتے ہوئے باہر چلے گئے۔پھر قطاریں بن گئیں اور گردنیں کٹنے لگیں اور اپنی باری آنے سے پہلے میں نے وہ جو دوڑ کر خزینہ معرفت سے نکل گئے تھے، ان کے حق میں بہت دعائیں کیں کہ وہ معرفت کے زوال کی امید ہیں اور محبت، آزادی اور خرد بقا کی آس بھی ہیں۔ اور میں نے معرفت سے ناتا توڑ لیا۔
میں نے اپنی باری آنے سے پہلے شہر سے دور ایک گاوں میں اپنے دادا جی کو بہت یاد کیا جو مجھے غریبوں سے ہمدردی، عزت نفس کی سلامتی، رشتہ داروں سے محبت، فصلوں ، جانوروں، درختوں اور ہماری ندی سے محبت کی تعلیم کیا کرتے تھے۔ وہ مسافروں اور مہمانوں کی خدمت پر بہت اصرار کرتے تھے۔ وہ مجھے دلاوری کے درس دیا کرتے تھے اور پھر میری ماں جو راتوں کو جاگ جاگ کر میری تیمارداری کیا کرتی تھیں۔پھر میرے دوست جو مجھ پر جان نثار کرتے تھے اور پھر میرے استاد جو معرفت سے تحفظ کی تعلیم کرتے تھے۔ وہ سب جاں بحق ہوئے۔ صد شکر انھوں نے انسانیت کا وہ زوال نہیں دیکھا جو میری ان بدنصیب آنکھوں نے دیکھا۔ اس وقت مجھے شیخ سے، شیخ قطعی و بریدی سے، شیخ ملا زرزادہ سے، شیخ طارق زر فرو ش سے شیخ مدحت دوروغ باف سے اور ان ساروں سے جو تشدد میں مصروف تھے، سخت گھن آئی اور اپنے وجود پر میں نے بہت ملامت کی کہ یکایک دردکی اک تیز لہر جیسے پوری کائنات دوڑ گئی اور اس کے بعد اندھیرا ہی تھا۔