عاطف علیم کی کہانی کاری
از، یاسر چٹھہ
عاطف علیم کی جو کہانیاں جو ابھی تک ایک روزن پر شائع ہوئی ہیں اور ان کے ناول گرد باد اور مشک پوری کی ملکہ جو زیرِ مطالعہ رہے وہ ان کے بَہ طورِ ایک فکشن نگار، راقم السطور کے تاثر قائم کرنے کے بنیادی ماخذ ہیں۔
ان کی کہانیوں میں مجھے موضوعاتی عصری شعور thematic sensibility, contemporaneity and futuristicism اور مستقبل شناسی نظر آتی ہے۔ اس کی مثال ان کی پہلی کہانی میں ماحولیاتی تبدیلی کے استعارات برتنے سے میرے ذوقِ مطالعہ و طلبِ علم تک پہنچی۔
ان کا شعورِ عصر اور مسائل و موضوعات کا ادراک فن کارانہ پیش کاری کے رستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ یہ شعورِ عصر و مستقبل بینی ہمیش کے اور آفاقی ثقافتی مسائل سے بَہ یک وقت و لمحہ چشم پوشی نہیں کرتی۔
ایک کہانی کے اندر مختلف موضوعات کی برت اور پھر بھی موضوعاتی وحدتِ تاثر قائم رکھنا ان کی فن کارانہ چابک دستی کی مثال کہی جا سکتی ہے۔ مؤخّر الذّکر مشاہدہ ان کی زیر نظر کہانیوں پر منطبق نظر آتا ہے۔ کہانی عمدگی سے سنانا جانتے ہیں۔ یہ خوش تخیل فن کار زبان کے استعمال سے خود بھی لطف کشید کرتے ہیں اور اس لطف کشیدگی کے تجربے میں قاری کو ساتھ بھی رکھتے ہیں۔ پر عاطف علیم کے متعلق یہی سوال جو سید کاشف رضا کو ہے، وہ گرد باد کی قرات کے دنوں سے ہے:
“عاطف علیم جب جب راوی اساس بیانیہ لکھتا ہے تو غضب ڈھاتا ہے۔ اس افسانے ( یعنی بہ حوالہ مرگ بر دوش) میں بھی یہ غضب ڈھایا۔ تاہم مکالمے میں راوی کردار کی زبان پر بھی حاوی ہو جاتا ہے اور گگے کے اَبّا بیل کے مُنھ سے “جہد للبقا” جیسے الفاظ اوپرے لگتے ہیں۔ ایسے مکالموں کو بھی راوی اپنی زبان میں بیان کرے تو بہتر ہے۔ عاطف سسپنس کا بھی ماہر ہے…۔ عاطف کے ہاں پنجابیت اس کی کہانی کی زمین سے جُڑت کو اور نمایاں کرتی ہے۔”
عاطف علیم ایک خوش فکر، روشن خیال اور ترقی پسند ذہن رکھتے ہیں۔ اپنی جغرافیائی اساس سے جڑت کے آثار لسانی سطح پر جا بہ جا موجود ملتے ہیں، لیکن کبھی کبھی بَل کہ کافی دفعہ اسلوبِ زبان معرّب و مفرس نحوی رنگ سے بوجھل بھی محسوس ہونے لگتا ہے۔
روشن خیال اور خوش فکروں کو اپنے پرانے دیس اور نئے ملک و قوم، بَل کہ، اقوام کی زبانوں میں زیادہ رہنا ہی خوش آتا ہے۔ اور ہاں، اپنے سب کے سب احباب فکشن نگاروں سے گزارش کی جا سکتی ہے کہ فکشن نگاری کی زبان و آہنگ کی مقامیت کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہَمہ دم ذہن میں رہے کہ یہ زبان متوسط طبقے کی زبان سے میل کھاتی ہو۔ ناول کی صنفِ نثر یعنی ترویج اور پذیرائی اسی متوسط طبقے کی بَہ دولت ہوئی۔
مزید و متعلقہ: مشک پوری کی ملکہ کے باب میں چند تاثرات
تقسیم در تقسیم کا عہد: ادب عالیہ اور “غیر” کا ادراک
نئی صدی کے افسانے پر ایک تنقیدی نوٹ
فکشن نگاروں کو اپنے اندر کے شاعر کو کہانی کی بُنت تک محدود کرنا ہی بھلا ہو گا۔ نثر کی قاری تک رسائی کو صرف لوچ کی بَلّی نہیں چڑھائیے۔ (یہ آخری چند جملے اجتماعی اور بڑی مکانیت یعنی space میں مکالمہ کے لیے ہے، یہ عاطف علیم پر کسی طور اکیلے کے لیے نہیں سوچا گیا۔ اسے محض یہاں پر قلم بند کیا جانا اس کی عمومیت کا مجاز نہیں۔
صاحبِ طرز افسانہ نگار جناب اجمل اعجاز، عاطف علیم کے ناول گرد باد پر ایک مختصر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی کردار نگاری کو کسی حد تک اسی طور پر سوال زَد کرتے ہیں:
“آپ کا انداز تحریر نہایت شگفتہ، دل نشین، رواں اور منفرد ہے، جو قاری کو ہر قدم اپنی لطافت اور دل چسپی سے لبریز رکھتا ہے۔ ناول کے تمام کردار نہایت مضبوط اور قاری کو اپنی محبت اور ہم دردی کی گرفت میں لینے والے ہیں؛ سوائے چودھری فلانے اور ڈھمکانے کے، جو اپنے وجود میں روایتی اور ظالم زمین دار کی بھر پُور عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ کہانی قدم بہ قدم بھر پُور دل چسپی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور قاری کو حیرتوں اور غیر متوقع واقعات کے ہم رکاب مطالعہ کی مہمیز عطا کرتی ہے اور اختتام پر اسے یک گونہ مسرت اور تسکیں عطا کرتی ہے۔”
چودھری فلانے اور ڈھمکانے کے کرداروں کی محدودیت اور گرد باد بَہ طورِ فن پارہ کے متعلق ایک متبادل رائے یہ دی جا سکتی ہے کہ ان کی بَہ ظاہر محدودیت ہی ان کے مقابل مزاحمت کا ایک انداز ہے۔ گو کہ اس مزاحمت میں عاطف علیم کے اندر کی فن کارانہ لطافت کی سطح کی مزاحمت سامنے آتی ہے۔ جیسا کہ چودھری فلانے اور چودھری ڈھمکانے کے کردار اپنے ناموں سے واضح ہیں کہ سماجی ٹائپس types تھے۔ یہ تیار شدہ اور خارجی ساختیں ناول میں ٹرانسپلانٹ ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔
اب جب کہ ان ایسے کرداروں کو معاشرہ اور نظامِ سیاست و حکومت اور ریاست پنپنے دینے آئے ہے، ان کو کوئی فن کار و ادیب کیسے نیا لباس یا ماسک پہنا سکتا ہے، اور فن کار و ادیب بھی بہ طورِ خاص وہ جس کا سر و کار ادب برائے زندگی ہو، لیکن ساتھ ہی اسلوبی و فن کارانہ خوبیاں بھی عزیز ہوں۔
یا پھر ان کرداروں کو ہی مرکزی کردار بنا کر بیانیہ ان کی کوئی کایا کلپ کرتا، بَہ ہر حال ہمیں تو یہ دیکھنا ہے نا کہ کتاب میں کیا کِیا گیا ہے، ورنہ کیا “کیا جانا چاہیے،” کا فریم ورک برتنا شروع ہو جائیے تو پھر تو متن ہمیش ہی کے لیے سیال رہے گا۔ “جو ہونا چاہیے،” وہ قاری کا چشمِ تخیل و ذہنِ رسا اپنی کسی خاص وقت کی قرات، یا مختلف وقتوں کی قراتوں میں مختلف تخلیقی و ذہنی حالتوں پر چھوڑنا بہتر ہو گا۔ میرے خیال میں چودھری فلانے اور ڈھمکانے کے کرداروں کی محدودیت والا پہلو ناول کے بہ طورِ فن پارے کی تحدید شاید نہیں کر پاتا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.