عورت ، فحاشی اور حاجی صاحب
(فداء الرحمن)
ارشد صاحب مقامی سکول میں شعبہ تدریس کے ساتھ وابستہ ہیں اور حاجی شیر دل کے قریبی اور دیرینہ دوستوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ حاجی صاحب چند یوم قبل آٹھویں بار حج کی “سعادت” حاصل کرنے کے بعد واپس تشریف لائے تو ارشد صاحب مبارکباد دینے ان کے ہول سیل سٹور پر حاضر ہوئے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد حاجی صاحب نے دورانِ حج پیش آنے والے روحانی احوال سے ارشد صاحب کو آگاہ کرنا شروع کیا۔
حاجی صاحب: ارشد میاں، بیت اللہ میں عبادت کرتے ہوئے اور دعا مانگتے ہوئے جو سکون ملتا ہے، عاجزی کی جو کیفیت طاری ہوتی ہے، معرفت کے جو در وا ہوتے ہیں اور مسجدِ نبوی میں آقاﷺ کے روضہ مبارک کی زیارت کرتے ہوئے آقا ﷺ کی جو محبت دل میں پیدا ہوتی ہے، اس کے لئے باطن کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اور الحمد اللہ میں ان انعامات سے بغیر کسی استحقاق کے نوازا گیا۔
روحانیت اور معرفت الہیٰ سے بھرپور گفتگو جاری تھی کہ میلے کچیلے لباس میں ملبوس، گود میں شیرخوار بچہ اٹھائے، حاجی صاحب کو دعائیں دیتے ہوئے امداد کا تقاضا کرنے لگی۔ عورت ، جو اصلاً گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے والی “چیز” ہے، کو یوں سرِ بازار بھیک مانگتے دیکھ کر حاجی صاحب کے تن بدن میں تو جیسے آگ لگ گئی۔
حاجی صاحب: اوئے دفعہ ہو ! تم جیسی کمینی عورتوں کی وجہ سے ہم جیسے شرفاء کی اولاد بے راہ روی کی طرف مائل ہوتی جا رہی ہے۔ تم جیسی عورتوں کی وجہ سے فحاشی کا سیلاب ہماری اعلیٰ اخلاقی اقدار کو بہا کر لے جا رہی ہے۔ اپنے گود میں گناہ کی نشانی بھی ساتھ ہی اٹھائے پھر رہی ہو۔ (حاجی صاحب کا روئے سخن بھکارن کی گود میں موجود شیر خوار کی طرف تھا۔)
ارشد صاحب معاملے کی سنگینی کو بھانپ گئے اور جھٹ سے دس روپے کا نوٹ جیب سے نکال کر بھکارن کو دینے لگا کہ حاجی صاحب نے “جوشِ ایمانی” میں آ کر ان کو بھی روکا اور ان کے اس فعل کو فحاشی کے فروغ اور فاحشہ عورتوں کی مدد جیسے “مذموم” جرائم کا فتویٰ دے کر ارشد صاحب کی عاقبت کی بربادی کی خبر دی۔
حاجی صاحب: ارشد میاں، کیوں اپنی حلال کی کمائی ایسے بد کردار لوگوں کی نذر کر رہے ہو جنہوں نے معاشرے میں فحاشی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور جن کے کرتوتوں کی وجہ سے معاشرے میں موجود اعلیٰ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے۔
ارشد صاحب: حاجی صاحب، آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ ان لوگوں کو اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس کا حل کیا ہے؟ نیز عورت اگر کسی مجبوری کی وجہ سے گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو اس کو فحاشی قرار دینے کی بنیاد کیا ہے؟
حاجی صاحب نے گرجدار آواز سے ارشد صاحب کی بات کاٹی اور فرمانے لگے۔
یہ سب ان کا اپنا کیا دھرا ہے۔ اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف زندگی بسر کرنے والے لوگ ایسی ہی ذلت بھری اور کمینگی سے بھرپور زندگی گزارتے ہیں۔ نماز، روزے کا کچھ بات نہیں ان جاہلوں کو۔ ان کی عورتیں بے پردہ پھرتی رہتی ہیں اور نوجوان نسل کو بے راہ روی کی طرف مائل کر رہی ہیں۔ میرا بس چلے تو انہیں صفحہ ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے مٹا دوں۔
ارشد صاحب کو نجانے کیا سوجھی اور ایک سوال کیا۔
ارشد صاحب: حاجی صاحب چھوڑیں ان باتوں کو اور اپنا موڈ ٹھیک کریں۔ سنا ہے کہ آپ کی بڑی بیٹی نے میڈیکل کا امتحان نمایاں پوزیشن سے پاس کیا ہے۔ مبارک ہو!
حاجی صاحب: بس یہ تو مولا کا کرم ہے ارشد میاں، ہماری صاحبزادی کی خواہش ہے کہ ڈاکٹر بن کر علاقے کے غریب عوام کی خدمت کر کے دکھی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں اپنا حصہ ڈالے تاکہ روزِ آخرت بارگاہِ الہیٰ میں سرخرو ہو سکے۔
عورت نمناک آنکھوں سے کبھی شرفاء کی طرف اور کبھی اپنے شیرخوار کی طرف دیکھ کر معاملے کہ تہہ تک پہنچنے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ آخر کار بوجھل انداز میں تقریباً ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ وہاں سے روانہ ہو نے لگی کی یکایک قریبی مسجد سے اذان کی آواز آنے لگی۔ بھکارن تو جیسے اسی کا انتظار کر رہی ہو۔ یکایک زمین پر ڈھیر ہوگئی اور اللہ میاں کے سامنے شکوے شکایتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اپنی ہچکیوں کی زبان میں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ شکم سیر ہو کر، تسبیح ہاتھ میں لے کر، لمبی ریشِ مبارک پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ، ہر جملے کے بعد سبحان اللہ، الحمد اللہ اور ماشاء اللہ کی ورد کرتے ہوئے۔ دوسروں کے ایمان و اخلاق کے فیصلے کرنے سے پہلے میری بھی تھوڑی سی خبر گیری کی ہوتی۔ مانا کہ میں آپ کے اس “معزز” معاشرے کا حصہ نہیں ہوں مگر کم از کم بنتِ حوا ہونے کے ناطے میرے جذبات و احساسات کی لاش کو یوں سرِ بازار بھنبھوڑنے تو نہ دیتے۔
وہ مجبور عور ت جو اپنے شیر خوار کی ننھی جان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہتی ہے کہ:
“مجھے تمام برائی کا سبب گرداننے کی بجائے ملاوٹ کرنے والوں، ذخیر اندوزوں، ناجائز منافع خوروں کے خلاف آپ کا جوشِ خطابت کب حرکت میں آئے گا؟”
جو سوال کرتی ہے کہ:
مذہب کے ناکافی فہم کی بنیاد پر مجھے “فحاشی” کا مرتکب مجرم قرار دے کر دنیا بدر کرنے کی بجائے میرے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کا احساس کب پیدا ہوگا؟”
جیسے آسمان کی طرف اپنی نمناک آنکھیں اٹھائے اوپر والے سے شکوہ کناں ہوکہ:
“پروردگار ! گواہ رہنا کہ تمہارے فوجداردستوں کا واحد کام یہ رہ گیا تھا کہ دوسروں کی عزتیں سرِ بازار اچھالیں اور وہ بھی تیرے حبیبِ پاک ﷺ کے لائے ہوئے پاک دین کے نام۔۔۔ مولا! تُو گواہ رہنا کہ ہم اپنی قسمت پر چار و ناچار راضی رہے لیکن تیرے بندوں میں سے کچھ پارسا ایسے بھی تھے جو ہم سے خیرات میں ملا ہوا نوالہ بھی چھیننا چاہتے تھے۔”
اس کی گود میں لیٹا اور اپنے اندوہناک مستقبل سے یکسر بے خبر معصوم سی جان بھوک سے بے حال رو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بھی اپنی ماں پر لگنے والےبے بنیاد الزامات کی چارج شیٹ لیکر حاجی صاحب کے خلاف علیم و خبیر ذات کی بارگاہ میں سسکیاں لیتا اور آہ وبزاری کرتا ہوا حاضر ہو نا اور کہنا چاہتا ہے کہ:
“پروردگار! تم نے بد گمانی اور بے بنیاد الزام لگانے سے واضح طور پر منع کیا تھا لیکن تیرا یہ “پارسا” بندہ میری ماں کو بدکار اور فاحشہ کہنے والوں میں سے ہے۔ اس نے میری ماں پر بے بنیاد الزام لگایا۔ ان سے میری ماں کی بے عزتی کا بدلہ لے کر دیں۔”
یہ سوالات معاشرے کے چہرے سے منافقت کی رِدا نوچنے کےلئے کافی تھے۔ ارشد صاحب جاتے جاتے غور کرنے لگےکہ آٹھویں بار حج کرنے کے بعد حاجی صاحب کی کردار و گفتار میں کیا “جوہری” تبدیلی آئی ہے۔ بغور جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ پہلے دورانِ گفتگو حاجی صاحب ہر جملے کے بعد صرف” ماشاء اللہ” اور “الحمد للہ” کا ورد ذوق و شوق سے فرماتے تھے اب اس میں “سبحان اللہ” کا اضافہ ہو گیا تھا۔
(فداء الرحمن، ایم فل علوم اسلامیہ، قرطبہ یونیورسٹی پشاور کیمپس)