عورت کہانی
ڈاکٹر توصیف احمد خان
1970 کی دہائی میں تحریک نسواں کے زیراثر تاریخ نویسی کے اندر بھی تبدیلیاں آگئیں۔ اب تک تاریخ مردوں کے نقطہ نظر سے لکھی جاتی تھی جس میں عورتیں یا تو بالکل غائب تھیں یا مردوں کے تابع اور فرمانبردار ہونے کی حیثیت سے ان کی خواہشات، مفادات اور منصوبوں کی تکمیل کرتی تھیں، یعنی ان کی کوئی آزاد حیثیت نہیں تھی۔ چونکہ مؤرخ تاریخ میں انھیں کو جگہ دیتے رہے ہیں کہ جن کے پاس طاقت واقتدار ہو اور چونکہ عورتوں کے پاس وہ طاقت نہیں تھی جس کی تعریف مؤرخ کرتے آئے ہیں۔ اس لیے انھیں تاریخ سے خارج کردیا گیا لیکن تحریک نسواں کی حامی عورتوں نے اپنی تاریخ جو دیکھی تو انھوں نے طاقت کے اس تصور کو بدل دیا۔
ممتاز مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی نے ریاض اخترکی عورت کہانی کے تعارف میں اس پیراگراف کے اختتام پر تحریر کیا کہ ریاض اختر نے اپنی اس کتاب میں عورتوں کی تاریخ کا وسیع تناظر میں مطالعہ کیا ۔ہر ملک و قوم کے اساطیر نے عورت کو کیا مقام دیا تھا، پھر کن مراحل سے گزر کر مادرسری معاشرے سے عورت پدرسری معاشرے اس کو مرد کا زیردست بنا کر مذہب، سماجی اور سیاسی روایات ان سب نے مل کر عورت کو معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ بنادیا۔ یہ سب کچھ عورت کہانی میں تفصیل سے موجود ہے۔
کتاب کے ناشر ایوب ملک کہتے ہیں کہ ژاک دریدا نے لکھا ہے کہ جو شخص عورتوں کی تاریخ لکھنا چاہتا ہے تو اسے یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ اس کا تعلق ایک تحریک سے ہے۔ یہ محض الفاظ کا ہیر پھیر نہیں بلکہ یہ یا تو قدامت پرستی کا اظہار کرنے کی یا اسے توڑنے اور تبدیل کرنے کی سعی تھی۔ ریاض اختر نے عورت کہانی لکھ کر ژاک دریدا کے اس قول کو سچ ثابت کیا ہے۔ ریاض اختر کی کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب کا عنوان افسانے اور حقیقت ہے۔ ریاض اختر تخلیق کائنات پر ہونے والی بحث کو چار خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
اول فلسفیانہ نظریات، دوم اساطیری روایت، سوم مذہبی تعلیمات اور چہارم سائنسی تجربات ۔ ہر ایک کا اپنا اپنا دائرہ علم و تحقیق ہے جو بالعموم ایک دوسرے سے ٹکراؤ اور تضاد کی صورت سامنے آتا ہے۔ وہ قدیم ترین مہر گڑھ تہذیب کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ آج سے چار دہائی پہلے تک وادئ سندھ اور سمیری تہذیبوں کو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں اولیت حاصل تھی مگر 1970 کی دہائی میں بلوچستان کے علاقے مہرگڑھ میں کھدائی کے دوران مختلف اشیاء اور مورتیوں کی دستیابی پر معلوم ہوا کہ یہاں کے باسی مذکورہ دونوں تہذیبوں سے بھی قدیم تہذیب کے حامل تھے۔ کاشتکاری اور اس سے متعلقہ اشیاء اور شواہد سے ان کی قدامت کا اندازہ سات ہزار برس قبل مسیح سے 5,500 برس قبل مسیح کے دوران کا لگایا گیا ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ کو کچھ شواہد بھی ملے ہیں جن کا تعلق قبل از ہجری سے معلوم ہوتا ہے، تاہم جسے مہرگڑھ تہذیب کا نام دیا گیا ہے اس کے عہد کا تخمینہ سات ہزار سے 3,200 برس قبل مسیح ہے۔ گویا جب وادئ سندھ اور سمیری تہذیبیں عالم شیر خواری میں تھیں اس وقت مہر گڑھ تمدن اپنے عروج پر تھا۔ وہ تخلیق کے عنوان سے لکھتے ہیںکہ عورت (پنڈورا کی تخلیق) پنڈورا کا نام کسی کے لیے اجنبی نہیں۔ معاملہ عورت کے حسن و ادا کا ہو، عشوہ طرازی یا مکاری یا پھر زندگی کی سختیوں اور آرام کی کی بات کہیں نہ کہیں اس کا حوالہ ضرور آتا ہے۔
مصنف یونانی دیومالا کی کہانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ زیس دیوتا ارض و سما کا مالک تھا۔ اقتدارکے سنگھاسن پر پہنچنے کے لیے اسے جنگ و جدل سے کام لینا پڑا۔ زیس دیوتا کے بھائیوں کو ٹائٹان (Titan) کہا جاتا ہے۔ زیس نے مزید خون خرابے سے بچنے کے لیے سلطنت اپنے بھائیوں میں تقسیم کردی اور خود نہ صرف زمین اور آسمان کا مالک بنا بلکہ دیگر حکمرانوں دیوتاؤں کا نگراں بھی تسلیم کرلیا گیا۔ ٹائٹانوں نے آپس میں شادیاں کیں۔ زیس کے ایک بھائی آیاپتس (Iapetus) نے اپنی بھتیجی سے شادی کی۔اس جوڑے کے ہاں چار لڑکوں نے جنم لیا جنہوں نے جوان ہو کر اٹلس، مینی تبس، پرومیتھس اور ایبی میتھس کے ناموں سے شہرت حاصل کی۔
پرومیتھس نے ٹائٹانوں کی جنگ میں زیس کا ساتھ دیا تھا۔ فتح کے بعد زیس نے اسے اور ایبی میتھس کو زمین پر جانداروں کی تخلیق کی ذمے داری سونپی۔ پرومیتھس نے سب سے آخر میں مرد کی تخلیق کی۔ پرومیتھس نے انسانوں کو آگ کا تحفہ دیا۔ یہ بات زیس کو منظور نہ تھی لہٰذا اس نے انسان کی مشکلات میں مبتلا کر کے سال کو مختلف موسموں میں تقسیم کیا۔ روایات کے مطابق اس دور میں کھیتی باڑی کا آغاز ہوا۔ انسان کے پاس آگ کی موجودگی زیس کو مغلوب التعصب کیے رکھتی تھی۔ اس نے انسان کو سزا دینے کے لیے عورت کی تخلیق کی جسے پنڈور اکا نام دیا۔
زیس کے حکم پر عورت کے قلب میں شوانی ذہن اورپردرد فطرت بھی شامل کی گئی۔ عورت کہانی میں ہندو روایات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ ابتدائے زمانے میں ہندو دیوتا نو آشتری نے دنیا کو پیدا کیا۔ جب عورت کی تخلیق کرنے لگا تو اس نے دیکھا کہ سارا ساز و سامان مرد کی تخلیق میں صرف ہوا تو آشتری بہت پریشان ہوا اور گہری فکر میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے مندرجہ ذیل اقدامات کیے۔ اس نے چاند کی گولائی، سانپ کا زیروبم، شاخ پیچاں کی پیچیدگی، گھاس کی لرزش، گلاب کی پتی کی نزاکت ، پھول کی ملائمت، پتے کی لطافت، ہرن کی نگاہ، سورج کی کرنوں کی شوخی، دھند کے آنسو، ہوا کی بے وفائی، خرگوش کی بزدلی، مورکی خودپسندی، فاختہ کی گردن کی نرمی، ہیرے کی سختی، شہد کی میٹھی خوشبو، شیر کی ستم گری، آگ کی حرارت، برف کی خنکی، کوے کی بکواس اور فاختہ کی کوک کو یکجاکیا اور عورت بنادی۔ پھر اس نے مرد کو یہ تحفہ کے طور پر دے دی۔
اساطیر اور عظمت نسواں کے باب میں ریاض اختر تحریر کرتے ہیں کہ عورت کو باعث تخلیق سمجھتے ہوئے زمین پر ہریالی اور نشوونما بھی اسی سے وابستہ کردی گئی۔ اس کا اولین اظہار زرخیز علاقوں میں قدیم انسان کی قیام پذیری کے عہد میں ہوا جب وہ بتدریج شکار اور خطرناک ذریعہ حیات سے زراعت کی طرف منتقل ہوا۔ عورت چونکہ پہلے ہی اس میدان میں اپنی صلاحیتیں دکھا چکی تھی اس لیے وہ مردوں کی نگاہ میں ایسی مشین بن گئی جو نسل انسانی کی مسلسل افزائش کے ساتھ ساتھ زمین کی کوکھ سے حیات بخش اجناس پیداوار کا سبب تھی۔ زندگی اور موت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ اس لیے حیات کے علاوہ موت کو بھی عورت کی پراسرار قوت سے وابستہ کیا گیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ زراعت اور گلہ بانی حیات انسانی میں رونما ہونے والا پہلا انقلاب تھا۔
سوال کیا جاتا ہے کہ جب دور حیوانیت میں مرد شکار میں مصروف رہتے تھے تو عورتوں کے مشاغل کیا تھے؟ عورتیں مل جل کر محنت، کام کاج اور ایجادات میں مصروف تھیں تو اس مصروفیت نے کلام اور زبان کی تخلیق کی۔ گلہ بانی کی ابتداء کا سہرا بھی عورت کے سر جاتا ہے۔ اس نے ایک جگہ قیام کے لیے جانداروں کو سدھانا اور استعمال کرنا سیکھ لیا جس سے خوراک کا حصول آسان ہوگیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب مرد نے عورت کو حالت حمل اور بعد از بچے کو جنم دیتے دیکھا تو اسے کسی ان دیکھی پراسرار قوت کا کارنامہ سمجھا۔
ریاض اختر لکھتے ہیں کہ موجودہ پدرسری معاشرے سے قبل عورتوں کی حکومت اور بالادستی کے شواہد ملتے ہیں، یوں ایک طبقہ بالخصوص خواتین نے لکھا ہے کہ دور قدیم میں مردوں نے اپنی جسمانی طاقت اتحاد جنسی بنیادوں پر محنت کی تقسیم، ذاتی ملکیت کے تصور کی تخلیق اور ریاست کے قیام کے بل بوتے پر عورت کی سماجی اور سیاسی بالادستی کو ختم کردیا۔ ایک دانشور سیجوفن کا کہنا ہے کہ یونانی اور کلاسیکی دور میں عورتوں کی بالادستی تھی۔
مارکسی فلسفی اینگلز نے اس امر پر زور دیا ہے کہ عورت کی محکومیت ذاتی ملکیت کے نظام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ وہ اس دعویٰ کو بیہودہ اور بعد از قیاس ٹھہراتا ہے جس کے مطابق عورت عہد بربریت ہی سے مرد کی غلام چلی آرہی ہے۔ اینگلز کے خیال میں اس تصور نے سترویں اور اٹھارویں صدی کی فلسفیانہ اور ثقافتی تحریک کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دور قدیم سے ہی عورت نہ صرف آزاد تھی بلکہ وحشی اور غیر مہذب مردوں میں قابل احترام سمجھی جاتی تھی۔
کتاب میں زوال نسواں اور نظام پدریت کے عنوان سے لکھا گیا ہے کہ اساطیر کی ابتداء سے ہی نسواں عناصر کو انتہائی فعال اور طاقتور سمجھا گیا۔ قوت پیدائش نے اسے تمام تخلیقات کا منبع اور جواز تسلیم کیا۔ کتاب کے ناشر ایوب ملک نے لکھا ہے کہ ریاض اختر نے انتہائی محنت سے یہ کتاب تخلیق کی ہے۔ بدلتی دنیا پبلکیشنز نے خوبصورت انداز میں یہ کتاب شایع کی ہے۔
بشکریہ: ایکسپریس اردو
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.