عورت کی صنفی حیثیت پر سوالات ستاروں پر بھی رقم ہیں
(یاسر چٹھہ)
ڈاکٹر ایمی مینذر(Amy Mainzer) امریکی خلائی ادارے ناسا میں فلکیاتی طبیعیات کی سائنسدان ہیں۔ ڈاکٹر ایمی مینذر نے 23 جون 2010 میں ایک سیارچہ دریافت کیا۔ اس کا نام دینے کا حق بین الاقوامی فلکیاتی سائنس کی یونین کے ضوابط کے مطابق ڈاکٹر ایمی مینذر کے پاس تھا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ایمی مینذر کہتی ہیں:
“میری پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ہمکار ڈاکٹر کیری نیوینٹ نے میری توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی کہ اگرچہ بہت سے سیارچے دریافت کئے گئے ہیں، لیکن ان میں سے بہت کم کے نام خواتین کی خدمات کے اعتراف میں خواتین کے نام پر رکھے گئے ہیں؛ مزید یہ کہ اس نام رکھنے کے کام میں رنگت والی خواتین بطور خاص بہت زیادہ نظر انداز ہوئی ہیں۔ (اگرخواتین کے کچھ نام آئے بھی ہیں تو معدودے چند سفید فام خواتین کے جو کہ نہ ہونے کے برابر پیں۔)” بحوالہ سی این این
جنہوں نے اپنے نام دینے کے حق کو استعمال کرتے ہوئے 11 اپریل 2015 کو اپنے دریافت شدہ سیارچے کا نام اپنی ہمکار کی بات سے اثر لیتے ہوئے پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسفزئی کے نام پر رکھا۔ مزید کہتی ہیں کہ سیارچے کا نام ملالہ کے نام پر رکھنے سے نوجوانوں تک یہ بات پہنچے گی کہ:
“سائنس اور انجینئرنگ سب کا مشترکہ و مشمولہ اثاثہ ہے۔” بحوالہ دی انڈیپینڈنٹ
نیچے آنے والی والی سطروں میں ہم دیکھیں گے کہ فلکیاتی سائنس، اجرام فلکی کو نام سونپنےکی روایت میں کیسی قدروں کی پابندی کرتی آئی ہے۔ نیچے جاری مضمون میں لیلی اے میک نیل کے aeon.co کے مضمون کا بہت زیادہ استفادہ کیا گیا ہے۔ لیلی اے میک نیل سائنسی موضوعات پر لکھنے والی مصنف، متعلم اورغیر وابستہ محقق ہیں۔ آپ کے پسندیدہ موضوعات میں خواتین اور صنفیات، سائنس کی تاریخ، اور صنفی بنیادوں پر علیحدہ شدہ عوامی اور اشرافیائی سائنس ہیں۔ آپ Lady Science جریدے کی مدیر بھی ہیں۔
خاتون شاعرایڈرائین رچ 1968 کے برس کے دوران تحریر شدہ اپنی نظم پلانیٹیریم میں علم فلکیات کی عینک سے عورت کی شناخت کے بحران کے موضوع سے نبرد آزما ہوئیں۔ ایڈرائین رچ امریکہ کی ایک اہم اور سرکردہ عوامی دانشور تھیں۔ آپ بہت پڑھی جانے والی لکھاری تھیں اور آپ کی تحریریں انتہائی اثر کی حامل مانی جاتی تھیں۔ آپ ایک انتہائی اعلی تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئیں اور اپنی تعلیمی زندگی میں بہت بلند پایہ ریکارڈ کی حامل رہیں۔ آپ کی شاعری اور مضامین میں واضح تبدیلی کی لہر پائی جاتی ہے جس کا خلاصہ نیویارک ریویو آف بکس میں کیرول مسک نے ان الفاظ میں نشان زد کیا ہے:
“ایڈرائین رچ نے اپنی شاعری کا آغاز ڈبلیو بی ییٹس اور ڈبلیو ایچ آڈن کے اسالیب کی نفیس انداز میں مشق کرنے سے کیا؛ بعد میں ان کی شاعری کو آپ کی بہ حیثیت ایک بیوی اور ماں کے طور کی رنگ و روشنی میسر ہوئی۔ آپ کی زندگی میں سوچ کا رکنا یا جامد پن نہیں دکھائی دیتا، بلکہ ایک تسلسل سے ہمہ دم روانی دوانی ہے۔ آپ کی نظموں میں بھی اسی طرح کی ہمہ دم روانی پائی جاتی ہے: آپ نوجوانی میں بیوہ ہوجانے سے لے کر تنگ آئی فارملسٹ سے ہوتی ہوئی، روحانی اور خطیبانہ معالج کا کردار ادا کرتے کرتے، فیمینائی رہنما کا درجہ حاصل کر گئیں… حتٰی کہ ایک نئے انداز کے رائج و مروج فیمینائی ادب کی چابک دست ماہر بن گئیں۔”
ایڈرائین رچ نے اپنی محولہ بالا نظم پلانیٹیریم، خاتون ماہر فلکیات کیرولین ہرشل کے ساتھ بیتنے والے معاملے کو جاننے کے بعد لکھی؛ کیرولین ہرشل 1750 میں جرمنی میں پیدا ہوئیں اور بہ لحاظ پیشہ ماہر فلکیات تھیں۔
کیرولین ہرشل 16 مارچ 1750 کو ہینور، جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے اٹھانوے برس کی عمر پائی۔ کیرولین کے بھائی ولیم کو طاقتور سے طاقتور دوربینیں بنانے کا شوق تھا تاکہ وہ آسمانوں کے اندر دور تک اجرام فلکی کا مشاہدہ کر سکیں، کیرولین ہرشل اس کام میں اپنے بھائی کا ساتھ نبھاتی تھیں۔ بحوالہ ناسا
کیرولین عمدہ پایے کی ایسی ماہر فلکیات تھیں جنہوں نے آٹھ دم دارے ستارے اور تین دیگر سحابیے دریافت کئے تھے۔ ان کمالات کے صلے میں انہیں شاہ پروشیا اور لندن کی شاہی فلکیاتی سوسائٹی کی جانب سے بہت زیادہ خراج تحسین موصول ہوا۔ لیکن اس ساری کی ساری داد و تحسین کے باوجود ان کی اپنی ذات بہ نسبت اپنے بھائی ولیم کے، جنہوں نے یورینس سیارہ دریافت کیا، گہنائی رہی۔
اس نظم اور اس کے مندرجات کا مزید جائزہ لینے سے پہلے ایڈرائین رچ کی انگریزی زبان میں نظم پلانیٹیریم کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیجئے:
پلانیٹیریم
عورت، ایک عفریے کے روپ میں
عفریت ایک عورت کے روپ میں
آسمان میں جا بہ جا موجود ہے
ایک عورت، ‘ برف کےاندر
گھڑیالوں اور آلات میں گھری
یا پھر زمین کو ناپتے ہوئے’
اپنے اٹھانوے برسوں میں
آٹھ سحابیے دریافت کرلیتی ہے
اس پر چاند اسی طرح حاکم تھا
جیسے کہ ہم پر حاکم ہے
وہ رات آسمانوں میں
چمکیلے عدسوں پر سوار ہو کر جاتی تھی
وہاں جا کرعورتوں کی ایک کہکشاں کا منظر دیکھتی
‘جو اپنے ‘گناہوں کے عذاب جھیلتی نظر آتی تھیں
ان دماغ کی آنکھ کے مقامات کا منظر دیکھ کر بھی
پسلیوں کی ہڈیاں برف ہوئی جاتی ہیں
لیکن اس کی آنکھ
وہ زرخیز آنکھ، وہ تیز نور والی آنکھ اور یقین سے بہرہ ور’ آنکھ
یورپ کی پہلی دوربین سے لیس فلکیاتی لیبارٹری یورینس برگ سے اٹھتی آنکھ
نووا سے جا ٹکراتی ہے
عین اپنے درون قلب سے
روشنی کی ہر لہر ٹوٹتی پھوٹتی جاتی ہے
اسی طرح جیسے ہماری روح ہمارے بدن سے پرواز کرتی ہے
آخرکاریورینس بورگ کا بانی ٹائیکو سرگوشی کرتا ہے کہ
مجھے اس سینہ بھسم کرتے خیال سے بچاؤ
کہ میں نے جو کیا بے کار کیا، جو جیون بتایا لغو و لا یعنی بتایا
آج بھی جو ہم دیکھتے ہیں، صرف ہم ہی دیکھتے ہیں
اور دیکھنا بدلتا جا رہا ہے
وہ نور جو پہاڑ کو جلا کے رکھ دیتا ہے
پرانسان زندہ بچ رہتا ہے
پلسر ستارے کے بھیجے ریڈیو سگنل سے اٹھتی ایک دل کی دھڑکن
ایسی دھڑکن جو میرےجسم و جان اور دل کو بھی شرابور کئے جاتی ہے
وہ ریڈیو کا سگنل جو ثور کے ستارے سے آ رہا ہے
مجھ پ ہر بار اس سگنل کے آنے سے جیسے ایک حملہ ہوتا ہے
لیکن میں پھر بھی اپنے قدموں کھڑی ہوں
میں ساری عمر ستاروں سے بھیجے سگنلوں کے رستے میں کھڑی رہی ہوں
ان سگنلوں کا سامنا کرتی رہی ہوں
جو بالکل مستقیم و راست بھیجے گئے
کائنات کی اس زبان میں جس کی تشریح و تفسیر نا ہوسکے
میں کہکشاؤں کا بہت گھنا گہرا بادل ہوں
اس قدرالجھا ہوا کہ روشنی کی ایک کرن مجھ سے پار ہونے میں پندرہ برس لے جائے
اور اسے پندرہ برس ہی لگے ہیں
مین عورت کی صورت میں ایک آلہ ہی تو ہوں
جو ستاروں سے آتے سگنلوں کی شبیہوں میں تفسیر کرنے کی کوششوں میں ہوں
کہ شاید میرے جسم کو کچھ قرار آئے
اور (شاید کہ میرے ارد گرد چوکڑی مارے) دماغ کی بنت کچھ نئے طور سے ہوسکے۔
نظم کی ابتدائی سطروں میں ایڈارئین رچ ایک ‘ایک عفریت کی شکل میں عورت’ اور ‘ایک عورت کی شکل میں عفریت’ کے طور کیرولین کی عکاسی کرتی ہیں۔
آسمان، محترمہ ایڈرائین کا کہنا ہے کہ، اس طرح کی عفریت دکھائی دینے والی عورتوں سے بھرے پڑے ہیں؛ بلکہ عفریت دکھائی دی جانے والی عورتوں سے اٹے پڑے ہیں۔ کلاسیکی اساطیر (mythology) سے نکالی ہوئی ایسی خواتین شخصیتیں اور کم ذاتیں جو اپنی خطاؤں کی سزا بھگت رہی ہیں؛ اور جو کئی ایک ستاروں، مختلف سحابیوں اور دیگر اجرام فلکی کو ان کے مخصوص نام حاصل کرنے کا اور سونپے جانے کا ذریعہ ہیں۔
ایڈرائین رچ اپنی تصوراتی آنکھ سے کیرولین کو اس کی اپنی ہی دوربین کے چمکدار عدسے کی شعاؤں پر سوار کرا کے چھائی رات کے آسمان تک پہنچنے کی عکاسی کرتی ہے۔ اس اندھیرے پر ستاروں سے اٹے آسمان پر جا کر ایڈارئین رچ ان رنگا رنگ نصیبوں ماری کئی ایک بیویوں، بہت ساری بیٹیوں، اور صنف سخت جاں یعنی آدم کے مذکر زاد کو حرص و حوس کا شکار کرنے والیوں پر نظر ڈالتی ہیں: پر یہ سب تو عفریت بن چکیں۔
آخر وجہ کیا تھی؟ یہ کیوں عفریت بن گئیں؟ ان آدم کے مذکر زادوں کا ظلم دیکھئے توان قرارشدہ ڈائنوں نے اپنی جنس و صنف سے وابستہ توقعات کے ٹریفک سگنل جو توڑے تھے۔ ہاں جی، کافی بڑا جرم ہے اور گناہ بھی۔ یاد رکھنا ہوگا کہ جرم سماجی اور ریاستی تصور ہے، جبکہ گناہ آسمانی دانائی کے تصورات سے خلق تصور!
آج کے دن تک بھی فلکیات شاید وہ واحد سائنسی علم ہے جو اپنے ناموں کی روایت کے سلسلے میں قدیم یونانی اور رومی اساطیر کی بہت زیادہ حد تک اسیر ہے۔ علم کائنات اور اساطیر انسانی تہذیب کی ردائے تاریخ میں بن دیئے گئے ہیں۔ تو یہ سب ناموں کا معاملہ جدید دور کے ماہرین فلکیات کو وراثت میں ملا ہے؛ حیرانی کاہے کو ہو۔
کلاسیکی اساطیر اپنے اندر کی ہر فکر کے خیالی ریشے سے زن بیزار ہے۔ ان اساطیر کو استعمال میں لا کر اجرام فلکی کو نام دینے میں اسی پرانی سائنسی ثقافت کے اسی گھسے پٹے انداز اور تحت الشعور کا اعادہ ہوتا ہے جو عورت کی کامیابیوں کی قدر و منزلت کو گھٹا کر دیکھنے کے عادی ہیں۔
کیرولین ہرشل بھی تو اس بڑے ثمثیلی نظام میں موجود ایک کڑی کی مانند ہی ہے۔ مرد دیوتا، اور دوسرے مردانہ کردار لامحدود طاقتوں کے لطف لیتے نہیں تھکتے، جبکہ ان کی ہم منصب خواتین لسانی تشدد اور ذلت کا سامنا اپنے مقدر کی پوٹلی میں باندھے پھرتی ہیں۔
آسمانوں پر دعویداری جتانے اور ان کے نام رکھنے کی بابت جس ایک اسطورہ کو استعمال کیا گیا ہے وہ Cassiopeia کا اسطورہ ہے؛ یہ شمالی نصف کرہ میں ایک ستاروں کا جھرمٹ ہے۔ یہ ایتھوپیا کی ایک اساطیری ملکہ رانی کے نام سے منسوب ہے۔ اس ملکہ رانی کو Poseidon نے غرور کرنے پر اس کے اپنے ہی تخت کے ساتھ باندھ کر کوڑوں کی سزا دی۔ اسی Cassiopeia کی بیٹی Andromeda کو بھی اپنی ماں کے گناہوں کی سزا جھیلنا پڑی؛ اور سزا بھی کیا تھی؟ اس بیٹی کو ایک چٹان کے ساتھ زنجیروں میں باندھ دیا گیا۔ Andromeda اس وقت تک زنجیروں میں جکڑی رہی جب تک سمندری دیو Cetus نے اس کی عصمت دری نہیں کی۔ اسطورہ کے مطابق Perseus اسے بچا لیتا ہے اور Andromeda کو اپنی شریک حیات بنا لیتا ہے۔
لیکن فلکیاتی ماہرین کے علمی اور نام دینے کے شعور میں Andromeda آج بھی ایک جھرمٹ میں چٹان کے ساتھ زنجیروں سے بندھی کسی سمندری دیو Cetus سے سزائے عصمت دری کے انتظار کی کیفیت سے آزاد نہیں ہو پائی ہے۔
Pleiades سات بہنوں کے طور پر بھی جانی جاتی ہے، ثور کے ستاروں کے جھرمٹ میں سے ایک گروہ ہے۔ سات بہنیں کبھی ایسی لڑکیاں تھیں جو ساتھ ساتھ رہتے ہوئے رات کے آسمان کے سایے میں رقص کرتی رہتی تھیں۔ لیکن یکبارگی ہوا یوں کہ Orion کا ان سات بہنوں پر رال ٹپک پڑا؛ وہ سات برس تک ان سات بہنوں کے پیچھے پڑا رہا۔ ان سات بہنوں کی جان بخشی کو Zeus آیا اور انہیں تمام کی تمام سات بہنوں اس نے ستاروں میں تبدیل کردیا۔ لیکن Orion جوکہ خود بھی ستاروں کا ایک جھرمٹ ہے آج بھی ان کے پیچھے پیچھے پھرتا ہے۔
مرد ماہرین فلکیات جب اجرام فلکی کے ناموں کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کا سینہ چوڑا کر دینے والے اور ان کا کلاہ اونچا کردینے والے ناموں کے مثالی کردار سامنے نظر آتے ہیں۔ ستاروں کے وہ جھرمٹ جنہیں مردانہ نام عطا کئے گئے ہیں وہ نام اپنے ناموں کی صوتیات سے فتوحات اور بہادری کے مثالی قصوں کی یاد تازہ کرتے معلوم ہوتے ہیں؛ یہ ہرگز کسی کے طاقتور کے زیر تسلط اور ضبط و قبضے میں ہونے کی داستانوں کا بیان سناتے نام نہیں ہوتے۔
آج بھی ناسا NASA پرانی اساطیر اور مختلف تاریخی ادوار کے دریچوں کو کھنگالتی ہے تو اسے کئی ایک ایسے نام آسانی سے ہاتھ لگ ہی جاتے ہیں جن سے یہ اپنی خلائی سواریوں اور مشنوں کو نام دیتے ہیں۔ اورائین Orion، ناسا کے ایک ایسے خلائی مشن کا نام ہے جس میں عملے کے سوار ہوکر جانے کا بندوبست کیا گیا ہے اور جسے مریخ کی طرف سفر کرنے کے لئے استعمال ہونا ہے۔ اس مشن کو یہ نام اسی اورائن سے ملا ہے جو اسطوراتی سات بہنوں کے پیچھے پیچھے بھاگنے جیسے کرتوتوں میں مصروف رہا۔
کیپلر، گلیلیو، کاپر نیکس، اور کیسینی جیسے نام سائنسی مقتدرہ کے ذخیرۂ اسماء سے ہی حاصل کئے گئے ہیں۔ ان ناموں کی فہرست میں سے کیرولین ہرشل جیسی عورتوں کے نام نکال باہر کر دیئے گئے۔ بہت سارے خلائی مشنوں کو اوپر بیان کئے گئے سائنسی مقتدرہ کے ناموں میں سے نام دیئے گئے ہر چند کہ کائنات کے کونوں کی تحقیق و سراغ رسانی کرنے والے ان مشنوں میں کسی مرد کو سوار ہو کر نہیں بھی جانا تھا۔
حتٰی کہ ان خلائی مشنوں، جن کے نام بظاہر صنفیاتی حوالوں سے باہر کی چیز ہونا تھے، ان کے بھی خفیہ ناموں کو نام بھی مردانہ اسماء میں سے ہی دیئے گئے۔ Voyager اور Pioneer کے نام زبان پر لانے سے چشم تصور میں مرد کرداروں کے ایسے نام ہی ذہن میں آتے ہیں جنہوں نے تحقیق وجستجو میں اپنے گھر بار تیاگ دیئے ہوں۔ کیونکہ گھر بار کا کسی مثبت حوالے سے چھوڑنا انسانی و بشریاتی علوم میں مردانہ صفت کے طور پر ہی تشکیل دیا گیا ہے۔
کچھ مستثنیات بھی البتہ موجود ہیں۔ Sojourner، جوکہ مریخ کی طرف جانے والی ایک مشین کا نام ہے۔ اسے یہ نام Sojourner Truth کے نام کی یاد میں دیا گیا؛ یہ سوجرنر ٹروتھ اپنے آقا سے بھاگے ہوئے ایک غلام تھے جو بعد میں خواتین کے حقوق کی تحریک اور انسداد غلامی کی تحریک کے کارکن بن گئے تھے۔ لیکن اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چشم کشا اور بر محل ہوگا کہ یہ خیال آرائی سائنسی برادری کے اندر کے کسی ذہن کی پیداوار نہیں تھی۔ بلکہ اس کا منبع اس مشن کا نام رکھنے کے سلسلے میں ہونے والے ایک مضمون نویسی کے مقابلے کے انعقاد کے توسط سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ نام ایک بارہ سال کی بچی نے اس منعقدہ مضمون نویسی کے مقابلے میں تجویز کیا تھا۔ البتہ اس تجویز کا تسلیم کیا جانا اگر کسی شکریے کا تقاضا کرتا ہے تو وہ ان کا ضرور ادا کیا جانا چاہئے۔
Artemis نام کی ایک خلائی سواری ہے۔ یہ چاند کے کا پیچھے والے مدار میں موجود ہے۔ اس خلائی گاڑی کا نام شکار، کنوارے پن اور عمل تولید کی دیوی کے نام پر ہے۔ لیکن تھوڑے سے غور کرنے پر یہ تخفیفی صنفیاتی رنگوں میں رنگا خیال ہے۔ Artemis ممتا اور پاکیزگی کی دو ایسی صفات میں ملفوف ہے جو کلاسیکی نسوانیت کا اہم جزو شمار ہوتے رہے ہیں۔
Artemis بغیر انسانی عملے کی ایک ایسی خلائی مشین ہے کا نام ہے جو اس وقت سیارہ عطارد کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ رومی اساطیر میں وہ عطارد کی بیوی تھی اور اس کے اندر ایسی خصوصیات تھیں کہ یہ دھند کے بادلوں کے اندر سے بھی اپنے خاوند کی بے وفائیوں اور دھوکا دہیوں کو بھانپ لیتی تھی؛ ان بادلوں کے اندر سے جنہیں اس کا خاوند اپنے ان کرتوتوں کو چھپانے کے لئے پیدا کرتا تھا۔
Juno نام کی خلائی مشین کے ذمے بھی یہی کام لگایا گیا ہے۔ دیکھ لیجئے اب بھی اگر کسی نسوانی نام کی حامل خلائی مشین خلا میں کائنات کے رازوں کی تلاش کے لئے بھیجی جا رہی ہے تو اس کو اسی صنفیاتی آنکھ سے دیکھنے کی عام مردانہ عادت نہیں گئی۔ وہی گھریلو استعارے اجاگر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس صنفیاتی ذہن کی ایک اور مثال نیو ہورائزن مشن کی لیجئے: ایلیس براؤن جو ناسا کی Mission Operations Manager ہیں، جس کا کام ںظام شمسی کےباہری کناروں کا مطالعہ و تحقیق کرنا ہے، انہیں عام طور MOM کہا اور سنا جاتا ہے
کیرولین ہرشل نے اسطوراتی نسوانی کرداروں کی طرح اپنی دوربین میں سے سب پرانا ہی دیکھا۔ اس کی دوربین میں سے بھی اسے اپنے آس پاس کی حقیقت کا عکس نظر آیا۔ کیرولین ہرشل کو دکھائی دیا کہ اس کی اپنی شناخت اس کے اپنے پیشہ ورانہ منطقے کے مردوں کے حوالوں پر ہی منحصر ہے۔ اس کا کوئی آزاد وجود نہیں۔ شاید اسی کا یہ نتیجہ ہوسکتا ہے کہ کیرولین نے اپنے وجود کو محض اپنے بھائی ولیم کی مددگار کے عکس و شبیہ پر ہی دیکھا؛ اسے اپنی ذات میں خود کو ایک آزاد اور خودمختار سائنسدان کے طور پر دیکھنے کا سامان تعیش میسر نا ہوسکا۔
کیرولین لکھتی ہیں:
“میں کچھ بھی تو نہیں۔ میں نے کچھ بھی تو سر انجام نہیں دیا۔ میں جو کچھ ہوں، یا دوسرے لفظوں میں جس کا مجھے ادراک ہے کہ میں اپنے بھائی کے رہین منت ہوں۔ میں وہ آلہ ہوں جسے میرے بھائی نے اپنے استعمال کے لئے وضع کیا ہے۔”
کائنات میں خواتین کی عکاسی یا تو بطور ڈائنوں اور عفریتوں کے طور پر کی گئی ہے، یا انہیں گرہستن، اور محض بچے پالنے والیوں کے تخفیفی استعاروں کے طور اجاگر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ کیرولین نے بھی اپنے آپ کو پھراسی تخفیفی روایت میں دیکھا ہے؛ اپنی پہچان کریدی ہے اور مجبورا میسرات کو ہی اپنی وضع شناخت کے لئے استعمال کیا ہے۔ کیرولین ہرشل نے اپنے لئے گھریلوعورت کی پہچان کرکروانے والے استعارے تلاشے ہیں۔ جیسا کہ کیرولین کی والدہ بھی انہیں باقی گھر کے مردوں کی محض غلام و نوکر کے طور پر دیکھنے کی روادار تھیں۔
آج بھی آسمان اسی زن بیزاری کی عینک اور دوربین سے کھنگالے جانے اور اس کے بعد ہونے والی دریافتوں کو نشان زد کئے جانے کی روایت پر قائم ہیں۔ خلائی گاڑیوں اور ستاروں کے جھرمٹوں کے نام دینے جیسے بظاہر بے ضرر کاموں سے بھی مردانہ بالادستی کی وہی پرانی بو آتی ہے۔
فلکیات کی سائنس انہی صنفیاتی رویوں کو بلا کم و کاست آگے بڑھانے اور ترویج دینے کا کام کر رہی ہے۔ اس چیز کا مزید اجرام فلکی کو خواتین کے نام دینے میں سیدھا سادا حل موجود نہیں۔ تبدیلی کا نقطۂ آغاز اس حقیقت کے اعتراف سے ہوسکتا ہے کہ فلکیاتی سائنس کی اپنی علمیاتی شبیہ عورت کے استحصالی برتاوے کی صدیوں پرانی روایت کی کہانیوں کے بتاتے رہنے پر ہی قائم ہے۔