عورت کیا پہنے ، کیا سوچے، زندگی کیسے گزارے: اختیار کس کا؟
ارم عباسی
‘جب لڑکیاں چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن کر باہر نکلیں گی، جسم سے بال اتار کر ننگی ٹانگوں یا بازوؤں کی نمائش کریں گی تو مرد تو متوجہ ہوں گے نا۔’ یہ موقف ہے لال مسجد سے منسلک شہدا فاونڈیشن کے صدر اور وکیل طارق اسد کا جنھوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کر رکھی ہے کہ بیوٹی مقابلے مِس وِیٹ پاکستان اور ٹی وی چیلنز پر چلنے والے دیگر میوزک پروگرامز پر پابندی لگائے جائے کیونکہ یہ اسلامی اقدار کے منافی ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے طارق اسد نے کہا ‘دیکھیے ناں یہ پروگرامز نوجوان لڑکیوں کو سکھاتے ہیں کہ وہ آزاد ہوں۔ اپنی مرضی سے زندگی جیئں۔ یہ محض مغربی ایجنڈا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا ’اسلام عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اب ان شوز میں لڑکے سر سے لے کر پاؤں تک لڑکیوں کا میک اپ کرتے ہیں یہ تو غلط ہے ناں۔‘’اسلام تو لڑکیوں کو نامحرم سے ہاتھ ملانے کی بھی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی اس بات کی کہ لڑکیاں بن ٹھن کر باہر نکلیں اور پھر نامحرم مرد انھیں دیکھیں۔’
اس موقف سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ مذہب کا استمعال کرتے ہوئے عورت کے جسم اور سوچ پر قابض ہو سکتا ہے؟ خواتین کے حقوق کے تحفط کے لیے کام کرنے والی بیشتر تنظیموں کا خیال ہے کہ عورت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو کنٹرول کرنے کی خواہش کے پیچھے عورتوں مردوں سے کم تر سمجھنے کی سوچ ہی کارفرما ہے۔
کالم نگار عائشہ سروری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ‘صدیوں سے مرد عورت کی زندگی کنٹرول کرتے آئے ہیں کبھی دولت میں اضافے کے لیے تو کھبی اپنی تسکین کے لیے۔ یہ عورت کا اختیار اور بنیادی حق ہے کہ وہ کیا پہنے، کیا سوچے، کیسی زندگی گزارے۔ یہ اختیار وہ کسی بھائی، شوہر یا باپ کو منتقل نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی اسے کرنا چاہیے۔ کسی کو اس سے یہ اختیار چھیننے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔’
اسلام آباد کی شہری سندس کہتی ہیں ‘لڑکیاں بن ٹھن کر گھر سے نہ نکلیں تاکہ مرد انہیں نقصان نہ پہنچائیں یہ کتنی فضول سوچ ہے۔ یعنی پاکستان جیسے ملک میں جہاں آئے دن عورت کو کھبی غیرت تو کھبی گھریلو تشدد کے نتیجے میں مار دیا جاتا ہے، تو کیا اس کی ذمہ دارعورتیں خود ہی ہیں؟ یہ تو وہی بات ہو گی جیسے انڈیا میں ریپ کرنے والے ایک شحض نے کہا تھا کہ اس نے لڑکی کا ریپ اس لیے کیا کیوں کہ اس نے چھوٹے کپٹرے پہنے ہوئے تھے۔’
جبکہ روبینہ کا کہنا ہے ‘میں خوبصورت کسی اور کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے لگتی ہوں۔ میں نوکری کرتی ہوں اور کوشش کرتی ہوں کہ میں اپنا خیال رکھوں کیونکہ یہ میرا حق ہے۔’اس کیس کی گذشتہ سماعت میں عدالت کو بتایا گیا کہ ویٹ سمیت دوسری کمپناں لڑکیوں کے پروگرامز میں حصہ لینے کے لیے ٹیکس میسیجز بھیجتی ہیں آخر انہیں نمبر کہاں سے ملے۔
اس سلسلے میں عائشہ سروری کا کہنا ہے کہ ‘یہ معاملہ ٹیلی کام سیکٹر کے قوانین سے متعلق ہے۔ تاہم جہاں حقوق کا معاملہ ہے تو ایک عورت اور ریاست کے درمیان کنٹریکٹ ہوتا ہے جس کے تحت ریاست پر لازم ہے کہ ہر شہری کی طرح وہ عورتوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔’
انھوں نے کہا کہ ‘عورتوں کو برابری کا درجہ دینے کا خواب اب محض خواب نہیں بلکہ حقیقت بنتا جا رہا ہے ایسے میں پاکستان میں انہیں کمتر سمجھنا یا انہیں خود اپنے فیصلے کرنےکا حق نہ دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔’ بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی تو ہو رہی ہے مگر معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی کوششوں کے بغیر عورتوں کے حقوق کی پامالی روکنا ناممکن ہے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد