بین الاقوامی سیاسی و سماجی ماحولیات اور ہم
از، اشرف جاوید ملک
یاد کریں صومالیہ کی بھوک سے مرتی ہوئی اس بچی کو جس کی موت کے انتظار میں ایک گِدھ آنکھیں جمائے بیٹھا تھا۔
یاد کریں اس فوٹو گرافر کو کہ جس کے پاس اس کے اپنے حصے کا راشن پانی تھا، مگر وہ دنیا کی بہترین تصویر بنانے جا رہا تھا، اور پھر اس نے وہ تصویر بنا لی۔
جسے دنیا بھر میں بہت سراہا گیا اور اس فوٹو گرافر کو اعزازات سے نوازا گیا۔ لوگوں کی تنقید نے بعد میں اس کا ضمیر جھنجھوڑا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس وقت یورپی جنگلات کے لاکھوں اونٹ کہاں تھے؟ ان کا گوشت اور کھال ان ہزاروں صومالیائی، ایتھوپیائی اور دوسرے غریب افریقی ممالک کے لوگوں کی بھوک مٹا سکتا تھا۔ تب بھی شاید آسٹریلیا کے انہی جنگلات میں تین لاکھ سے زیادہ اونٹ بے مہار پھر رہے تھے۔ جہاں اب دس ہزار سے زائد اونٹوں کو دنیا بھر کے ماہر نشانہ باز نشانہ لگا کر قتل کر رہے ہیں۔
ان کے پاس شُوٹرز ہیں، ہیلی کاپٹرز ہیں، اونٹ ہیں اور انہیں مارنے کے لیے سرمایہ بھی موجود ہے۔ اگر ان کا گوشت یا ان کی کھال افلاس اور قحط زدگی کے شکار ممالک کو دے دی جاتی تو کچھ مشکل نہیں تھا۔ اس گوشت کو محفوظ بھی کیا جا سکتا تھا۔ اور اس کی فراہمی کو بھی کسی ایک بحری جہاز سے آسان بنایا جا سکتا تھا، مگر نہیں۔
جب صومالیہ میں قحط زدگی تھی تب بھی یورپ کے سپر سٹورز اشیاء و اجناس سے بھرے ہوئے تھے اور امریکی اسلحہ، اسلحہ کی منڈیوں میں لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہو رہا تھا۔
جب آسٹریلیا میں کینگروز اپنے بچوں کو گودی میں لیے جنگل کی آگ سے خوف زدہ ہو کر سڑکوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔ جب کچھ معصوم جانور آگ سے بچاؤ کرنے والی ٹیم کے اراکین کی ٹانگوں سے مدد کے احساس کے تحت اجڑی ہوئی آنکھوں اور ویران روح و ابدان لِیے چمٹے ہوئے تھے اور جب ایک مادہ جانور، جانوروں کے ہسپتال میں موت و حیات کی کش مکش میں تھی اور اس کا معصوم بچہ اسے زندگی کی طرف واپس لانے کی سعی میں اس کے جسم سے چپکا ہوا تھا تو اس وقت دنیا بھر کے نشریاتی مراکز اور انسانی گروہوں کی توجہ اور ہم دردیاں ان کی طرف تھیں۔
اس وقت کیا کسی نے یاد کیا؟ شام میں بمباری سے مرنے والے اور زخمی ہو کر پکارنے والے سینکڑوں معصوم بچوں پر کیا بیتی؟ فلسطین اور عراق میں لاکھوں مائیں اور بچے بمباری سے مرے۔ افغانستان میں لعنت آف آل بمبز ((جسے مدر آف آل بمبز کہنا شرم کی بات ہے (گرا کر سینکڑوں لوگوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ مدارس میں نہتے حفاظ بچے ہوں، شادی کی باراتیں ہوں، یا سماجی تقریبات سب کو نشانہ بنایا گیا۔ کیا وہ معصوم نہیں تھے؟ وہ بھی معصوم تھے۔ تب یورپ کے کار و باری میڈیا کی ہم دردیاں کہاں تھیں؟
کارو باری میڈیا کی میڈیا وار نے یورپیوں کی ایک کثیر تعداد کو جو ذہن سازی کرنے کی کوشس کی ہے اس کے مطابق بلا تفریق فرقہ اور رنگ و نسل تمام مسلمان دہشت گرد ہیں اور انہیں نشانہ بنایا جانا ہی دنیا کی فلاح ہے۔
اس وقت دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جو کچھ ہو رہا ہے اس میں انسانیت کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ باہر تو باہر ہمارے اپنے ملک میں بھی راؤ انوار اور عذیر بلوچ اور اس مائنڈ سیٹ سے ملتے جلتے ہوئے بہت سے واقعات ہمیں یہی باور کرواتے ہیں کہ ہم انسان نہیں رہے۔ ہم آپس میں بیر رکھتے ہیں اور اس ہم اس خود غرضانہ سوچ کے تحت مذہب کا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ “مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔
انسان اور انسانیت کا بھرم رکھنے میں ہی امن ہے اور اسی سے ہی ہماری زندگی کی بَہ حالی اور خوش حالی کا راز پوشیدہ ہے۔ اگر ایسا ہو گیا ہم متحد ہو گئے تو دشمن منھ کی کھائے گا۔ سانپ واپس چلا جائے گا اور لاٹھی ہمارے کام آتی رہے گی۔
آسٹریلیا میں جن اونٹوں کو قتل کیا جارہا ہے یہ سب غریب ممالک کے کام آ سکتے تھے۔ اور یہ غریب ممالک بھی غریب نہیں تھے سرمایہ دارانہ ہتھکنڈوں نے انہیں غربت کی طرف دھکیل دیا۔
مگر یہ اونٹ یہ جانور صومالیہ، سوڈان، ایتھوپیا، یوگنڈا اور برما کے کام نہیں آنے والے یہ آسٹریلیا اور یورپ کے ہیں۔ انہیں کسی ملک کی بھوک محرومی یا غربت سے کیا لینا دینا؟