اللہ میاں کا کارخانہ از، محسن خان (ہندوستان) کے زیرِ طباعت ناول سے اقتباس
جب میں رخسانہ خالہ کے گھر سے واپس گیا تو اماں اوندھی پڑی تھیں اور نصرت بد حواسی کے ساتھ ان کی پیٹھ سہلا رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی نصرت نے پوچھا چچا جان کے گھر گیا […]
جب میں رخسانہ خالہ کے گھر سے واپس گیا تو اماں اوندھی پڑی تھیں اور نصرت بد حواسی کے ساتھ ان کی پیٹھ سہلا رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی نصرت نے پوچھا چچا جان کے گھر گیا […]
وہ مجھے نائی کی دکان پر لے گئے۔ حاجی جی تو یہ چاہتے تھے کہ میرے بال اتنے چھوٹے کر دیے جائیں کہ ماتھے پر نہ آئیں مگر میں یہ نہیں چاہتا تھا۔ نائی نے میری بات مانی […]
بابا جان کا مزاج بچوں کا سا ہو گیا ہے۔ بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتے ہیں۔ بچوں کے کھلونے چھین لیتے ہیں۔ کوئی بات مزاج کے خلاف ہو کشتی پر اچھلتی ہوئی مچھلیاں […]
میں نے لڑکپن میں جو گاؤں دیہات دیکھے تھے ان کے نقش ذہن میں محفوظ تھے۔ کچی دیواروں پر پتاور کے چھپر اور استراحت کے لیے پیال کے بستر یا ایک زندہ آدمی کی حکایت […]
حوالہ اور لنک دے کر شائع کیا جا سکتا ہے۔