استاد کب چِلّہ کَشی کے فضائل تعلیم کرنے لگتے ہیں؟
از، نصیر احمد
جسے تیسری دنیا کہتے ہیں اس میں کاملیت پرست آمریت، پیشہ ور گدا گری سے بہت ملتی جلتی ہے کہ بڑے بھکاری اپنے ہی لوگوں کو مفلوج کر کے، اندھا، گونگا، بہرا بنا کر، ہاتھ پاؤں توڑ کر، اپاہج بنا کر، بے عقل بنا کر، بد صورت،گھناؤنا اور کرِیھ کرتے ہوئے دنیا کو بلیک میل کرتے ہیں، خوف زدہ کرتے ہیں اور امیر سے امیر تر ہو جاتے ہیں۔
مگر خَستہ حالوں پر یہ مکمل کنٹرول شاید نَخوَت و تکبر سے کچھ ایسے مالا مال کر دیتا ہے کہ اعمال کی فطرت کی طرف نگاہ ہی نہیں جاتی۔ مگر جیسے ہمارے ہاں لوگ گدا گری کی حقیقت جانتے ہیں، مگر دس روپے کے نوٹ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پارسائی بھی تو نَخوَت و تکبر فراواں کر دیتی ہے اور گدا گری کی نوعیت، ماہیت، خاصیت، خصوصیات اور نتائج سے بے پروا کر دیتی ہے۔
گداگری سے ملتی جلتی یہ کاملیَّت پرست آمریت، بہت سے سندر سپنے پھیلا دیتی ہے: کہیں ریشِ سفید اور کفش ہائے بُرّاق، ولایتِ عصر کے نشے میں جھوم رہے ہوتے ہیں، کہیں شاکیہ مُنی کے تبسّم میں حقائق گم ہو جاتے ہیں؛ کہیں نر، نارائن، نیل کنٹھ کی مدُھرتا میں گم جہالت رانڈ کا سانڈ بنی ہوتی ہے؛ کہیں حکمتِ عمَلی کے دائروں میں لمبے لمبے ٹوپ پہنے حماقت، یہ دیکھ نہیں پاتی کہ اپنے لوگوں کے امکانات معدوم کرتے ظلم و ستم میں قائدانہ صلاحیتیں تو در حقیقت عِفرِیت ہیں۔
جنھوں نے گدا گری سے ملتی جلتی یہ کاملیّت پرست آمریت چنی تھی، وہ احمق تو سادھو سَنّت اور اولیائے کرام جانے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں تو گفتگو ہی نہیں کی جا سکتی، لیکن ملکی ترقی کا مطلب لوگوں کی بہتری ہے اور لوگوں کی بہتری انھیں مفلوج، بے صلاحیت اور تہذیبی اوصاف سے تہی دامن کرتے ہوئے نہیں کی جا سکتی۔
مکمل قبضے سے چیختا دھاڑتا ہجوم تو جمع ہو جاتا ہے، لیکن اس جَمِّ غفیر کی موجودگی سے کسی فرد کی سائنسی اِستِعداد، دماغی صلاحیتوں اور مِعیارِ زندگی میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ کسی کی آنکھیں نوچ کر اسے ماہرِ فلکیات نہیں بنایا جا سکتا۔ فلکیات میں مہارت کا مِعیار گر جاتا ہے۔ وہ عطارد، مریخ، زہرہ، مشتری، کاہکَشاں، پروین کی چھان بین کرنے کی بَہ جائے گردشِ فلک کے واسطے ہی دیتا رہ جاتا ہے اور ان سب اَجرامِ فلَکی کے نام پر بائِیوں کے نام رکھے جاتے ہیں۔
جب کسی بھی معاملے پر سچ بولنے کی اسے اجازت ہی نہ ہو تو ایسا صحافی تو سنسنی خیزی نہیں بڑھائے گا تو کیا کرے گا؟ کاملیت پرستی کی فطرت پر غور کرنے کی بَہ جائے غیر ملکی دیکھتے ہی مِرگی میں مبتلا ہو جائے گا۔
اور استاد جس نے روشن خیالی تعلیم کرنی ہے، اگر روشن دماغی کا مُبہم سا اظہار بھی کرے، اور پھانسی گھاٹ کے بارے میں پریشانی کا شکار ہو جائے تو اس نے چِلّوں کے فضائل پر ہی لیکچر دینے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ مزاحمت ختم ہو جاتی ہے، آرزوئیں بھی مٹنے لگتی ہیں اور ایک بھاری اکثریت کاملیّت پرستی کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے اور کاملیت پرست آمریت کی نگرانی میں لوگ ایک دوسرے کو مفلوج کرنے لگتے ہیں۔
سچ، علم، شہریَّت، جمہوریت اور اخلاقیات کی مُعاشَرَتی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ بس مُنھ پر انگلی رکھنے کی دیر ہوتی ہے کہ زمین و زمان اور مکین و مکان خاموش ہو جاتے ہیں، لیکن ایجاد و اختراع غائب ہو جاتے ہیں اور رہ جاتی ہیں انسانیت کو پست کرتی سازشیں۔
انسانیت پست کرتی ان سازشوں کی سربراہی میں کیسا شَرف؟
سب کچھ اعتقاد و تقلید تو نہیں ہوتا اور حقائق بھی موجود رہتے ہیں کہ تیسری دنیا کی گداگری سے ملتی جلتی آمریَّتوں نے یہ حقائق دکھا کر غیر ملکی امداد بھی تو لینی ہوتی ہے۔ معاشرے پر پولیو کی ایک ذہنی شکل نافذ کرتے ہوئے جسمانی پولیو کے خاتمے کے لیے پروپوزل بھی تو بنانی ہوتی ہیں۔
اس سب کے بعد شرف بس اک بناوٹ ہی تو رہ جاتا ہے۔ بناوٹیں بھی ایسی جو انشا اللہ خان انشا کرتے تھے کہ غزل میں فریدون و افلاطون بھی ان کے آگے غوں غوں کرتے تھے، لیکن چند اشرفیوں کے لیے سوانگ بھرنے پڑتے تھے۔
لیکن صاحبِ عالَم نے ہونٹوں پر انگلی دھر دی ہے اور زمان و مکان نے اپنے مُنھ پر ٹیپیں چپکا لی ہیں، اور کاملیت پرست آمریت تیسری دنیا کے لوگوں کو ابھی تک مفلوج اور معذور ہی رکھے ہوئے ہے۔