ہم آمریت پسندی کی زلف سے کیوں بندھے رہیں؟
از، نصیر احمد
راہیں چننے کے مرحلے آ جائیں تو شفاف فیصلے کام یابی کے امکانات بڑھا دیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے یہ دیکھنا پڑتا ہےکہ کیا چننے جا رہے ہیں، اس سے کون سے فوائد منسلک ہیں، اور اس سے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اور فیصلے کے دیگر امکانات کیا ہیں۔ اور اس کے بعد فیصلے میں تاخیر بھی نہیں کرنی چاہیے۔
سولھویں سترہویں صدی میں برطانیہ عظیم کی ملکۂِ معظمہ الزبیتھ اوّل کے عہدِ زَرّیں میں جان ڈن نامی ایک شاعر گزرے ہیں۔ اور انھیں ایمان مجھے روکے ہے اور کفر کھینچے ہے جیسے مرحلے در پیش آ گئے تھے، اور اپنی ذہنی تسلی کے لیے دونوں میں ایک توازن بنانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ کہتے تھے کہ زمین میرا جسم ہے اور فلک میری روح، اور خدا نے مجھے ان دونوں کے درمیان معلق کر دیا ہے۔ اب جسم زمین کی طرف کھینچتا ہے تو روح زمینی ہونے سے روک لیتی ہے اور جب روح فلک کی طرف مائل بَہ پرواز ہوتی ہے تو جسم اسے زمین کی طرف گھسیٹ لاتا ہے۔
ہمارے خیال میں ایک مذہبی ذہن رکھنے کے با وُجود ڈن لُچّے لفنگے ہی تھے۔ چاہیں تو عاشق آشفتہ سر بھی کہہ لیں۔ بَہ ہر حال، ان کے ذہن میں ایک کش مکش چلتی رہتی تھی کہ وہ کون سا راستہ اختیار کریں۔ اور کش مکش کے نتیجے میں معاملات دھندلے ہوتے رہتے تھے۔
بعد میں وہ زاہد عابد بھی ہو گئے تھے اور کلیسائی حلقوں میں کافی مقبول بھی، لیکن ایک دھند پھر بھی موجود رہی اور جنابِ مسیح کی دلہن (عیسائیت) میں وہ جس کے حسن کو زوال نہ تھا جھلکتی رہی۔ وہی حقیقت اور مجاز کا قصہ جس میں معاملات اتنے دھندلے ہو جاتے ہیں کہ پتا نہیں چلتا کہ کون کیا ہے اور موقع پرستوں کی نکل پڑتی ہے۔ لیلیٰ لیلیٰ چِلّاتے ہیں اور اگر جواب آ جائے کہ گھر میں ماں بہن نہیں ہے، تو جواب دیتے ہیں کہ دیدی آپ تو ویسے ہی برا مان گئیں، ہم تو حقیقت کے لیے بے قرار ہیں۔
ملکۂِ معظمہ کے اس عہد زریں میں کرسٹوفر مارلو بھی تھے اور ملکُ الشُّعَرَا ولیم شیکسپئیر بھی۔ شہزادے ہیملیٹ کے بارے میں ان کا کھیل ہیملیٹ تو آج بھی کافی مقبول ہے۔ اس کھیل میں شہزادہ ہیملیٹ بھی دبدھا، تذبذب، گو مگو اور الجھن میں پڑے ہیں کہ بادشاہ جس نے ان کی ماں سے مل کر ان کے باپ کو قتل کر کے جس تخت پر ان کا حق ہے اس پر قبضہ کر لیا تھا، اس بادشاہ سے باپ کے قتل کا انتقام کب لیں اور کب اپنا حق حاصل کریں۔ ‘ہوں یا نہ ہوں، الجھن آن پڑی۔’
اور اس الجھن سے وہ جھگڑتے رہتے ہیں، مگر کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پاتے۔ ماں کو بھی طعنے دیتے رہتے ہیں اور جو امیر زادی ان پر عاشق ہے، اس کو بھی نا حق ستاتے رہتے ہیں۔ ایک دفعہ بادشاہ کو قتل کرنے کا ہیملیٹ کو موقع بھی ملتا ہے، لیکن وہ اسے یہ کہہ کر ضائع کر دیتے ہیں کہ ابھی عبادت کر رہا ہے، اس حالت میں مر گیا تو بہشتی ہو جائے گا۔ اور اسی الجھن میں امیر زادی کے باپ کو قتل کر دیتے ہیں جسے قتل کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔
اور ان کی الجھن ڈنمارک، جس کے وہ شہزادے ہیں، کے لیے اور ہیملیٹ اور اور ان کے کُنبے اور دیگر لوگوں کے لیے دل دوز المیے جنم دیتی ہے۔ اور تقریباً سارے کردار ہی تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں؛ باپ کے قتل کا غم اور ہیملیٹ کی محبت کی کش مکش امیر زادی کو پگلا دیتی ہے۔ بادشاہ ہیملیٹ کا ارادہ بھانپ جاتے ہیں مگر ملکہ کی تسلی کے لیے فوری فیصلے کی بَہ جائے سازش کا جال بُنتے ہیں، جس کے نتیجے میں جان سے جاتے ہیں۔
ملکہ کو بھی بیٹے اور نئے شوہر میں حمایت کے لیے چُننے میں دشواری ہوتی ہے اور وہ بھی فیصلہ نہیں کر پاتیں اور قتل ہو جاتی ہیں۔ اور ہیملیٹ بھی اسی الجھن میں جب شہر ٹھیک کرنا ہوتا ہے، تو جنگ پر نکل جاتے ہیں اور معاملہ ملتوی کرتے ہیں اور آخر میں خود بھی مرتے ہیں اور امیر زادی کے بھائی کو بھی مار دیتے ہیں۔ اور ڈنمارک پر کسی اور بادشاہ کا قبضہ ہو جاتا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں ہر طرف کنفیوژن، تذبذب، گو مگو اور راہیں چننے کے فیصلوں میں تاخیر ہو، وہاں ان لوگوں کی کام یابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جن پر واضح ہو کہ انھوں نے کرنا کیا ہے، اور کیسے کرنا ہے۔ اس کے لیے انقلابِ فرانس سے لے کر ایرانی انقلاب تک کا مطالَعَہ کر لیں، ان سب انقلابوں میں وہی گروہ کامیاب ہوا ہے جنھیں انقلاب سے بہت عرصہ پہلے سے ہی پتا تھا کہ انھوں نے کیا کرنا تھا اور کیسے کرنا تھا۔
کنفیوژن میں شاید کچھ اچھائی کا بھی عمل دخل ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں نے فیصلوں کے برے نتائج کی طرف بھی دیکھنا ہوتا ہے، جب کہ انقلابیوں کے لیے اچھائی برائی ان کے اعمال ہی طے کرتے ہیں۔ ان کے نظریات میں ان کے اعمال کے جواز فراہم کرنے کی بہت گنجائش ہوتی ہے۔
یہی معاملہ طرزِ حکومت کا ہے۔ طرزِ حکومت کے بارے میں ہمارے ہاں بہت کنفیوژن ہے۔ جمہوریت چاہیے مگر اس سے منسلک ضروری چیزیں نہیں چاہییں۔ اختیارات کی تقسیم کا جہاں تک معاملہ ہے تو ہم وائمر ری پبلک کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ نقالی کرتے رہتے ہیں کہ عوام کے ووٹ ہوں، نمائندے منتخب ہوں، لیکن انھیں فوج جب بھی چاہے چلتا کر دے۔ کبھی اس بات کی ہم آئین میں ہم آٹھویں ترمیم جیسی ترامیم کے ذریعے گنجائش رکھ دیتے ہیں اور جب یہ گنجائش ہٹ بھی جائے تو کوئی نہ کوئی آئین میں میکانزم موجود ہوتا ہے جس کی نوعیت بھی غیر جمہوری ہوتی ہے اور اس کے غیر جمہوری استعمال کے ذریعے منتخب نمائندوں کو برخاست کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اختیارات کی منصفانہ تقسیم ہی جمہوریت کی کام یابی کی وجہ ہے۔
اور پھر آئین میں ایسی شقیں موجود ہیں جن کے ذریعے انسانی برابری کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ ان شقوں کے نتیجے میں پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کو آئینی طور پر بھی برابری کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ خواتین کو بھی برابری کے آئینی لحاظ سے برابری کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ اور صنفِ ثالث کے معاملے میں تو ابھی با قاعدگی سے گفتگو ہی نہیں شروع ہوئی۔ دنیا کے جمہوری آئینوں میں انسانی برابری اگر چِہ بَہ تَدریج ہوئی ہے، مگر ساٹھ ستر سالوں سے جمہوریتیں اس پر عمل پیرا ہیں۔ جس کی وجہ انسانی برابری ایک ایسا جمہوری اصول بن گیا ہے جس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کو جمہوری نہیں کہا جا سکتا۔
اور پھر ایک نظریاتی سسٹم بھی موجود ہے جس کے ذریعے قوم اور مذہب کے نام پر آئین کو بھی معطل کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا سکتا ہے۔ آئین کی بار ہا معطلی کے نتائج بڑے پیمانے پر لا قانونیت کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں کہ لوگ بھی سیکھ گئے ہیں کہ انھوں نے قوم اور مذہب کے نام پر تعلیم کی ہوئی جذباتیت کے ذریعے قانون کی خلاف ورزی کیسے کرنی ہے۔ قانون کی عمل داری بھی ایک ایسا جمہوری اصول ہے جس کی عدم موجودگی میں جمہوریت کو جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔
اور پھر شہریت کی تعلیم جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ گھر میں ہوں، یا دفتر میں، یا دوستوں میں ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی آمریت قائم کر لیں جس میں انھی کی بات چلے اور اس نفسیات کے نتیجے میں طاقت کے غیر جمہوری استعمال کے مقابلے چلتے رہتے ہیں؛ اور شہریت کی تعلیم کی نام کی جمہوریتوں نے بھی کوشش نہیں کی۔ ان ذاتی آمریتوں کے مقابلوں کے نتیجے میں شہر ایسے بگڑتے ہیں کہ انھیں جمہوری سینس میں شہر کہا ہی نہیں جا سکتا۔
مذہب کے بارے میں ریاست کی غیر جانب داری بھی ایک اہم جمہوری اصول ہے۔ صدیوں کی مسلسل جنگوں کے بعد لوگ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مذہبی آزادیاں تو قائم رہیں، مگر ریاستی فیصلے مذہب کی بنیادوں پر نہ کیے جائیں کہ یہ ایک ایسا معاملہ جس پر اتفاقِ رائے ممکن نہیں ہے۔ جن جمہوری ریاستوں نے یہ حقیقت تسلیم کر لی، ان کی ایک اکثریت اس دنیا کا حصہ ہے جسے ہم ترقی یافتہ دنیا کہتے ہیں۔ اس کی بَہ جائے ہم نے جمہوریت اور مذہب کو متضاد قرار دے کر مذہب کے نام پر کاملیت پرستی اختیار کر لی۔
اگر مذہب انسانیت کی فلاح ہے تو ہماری اور ہماری طرح کے دیگر معاشروں کی انسانی حقوق سے متعلق نا کامیاں کاملیت پرستی سے مذہب کے تضادات فاش و ظاہر و بَر ملا واضح کرتی ہیں اگر دانشورانہ بینائی کا ناتا حِسِیّات، خِرد اور ضمیر سے قائم ہے، یعنی کاملیت پرستی سے مستعار لیے ہوئے نظریات کے نتائج کو خطاؤں سے آباد جمہوری ذہن نہیں قبول نہیں کرتا اور نہ وہ ایک مہر باں خدا کی رضا ہو سکتے ہیں۔
پھر جمہوریت کی بنیاد فرد اور فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے اور اس کے حقوق و فرائض کے سلسلوں کے سودے ہیں۔ جب فرد کو فرد نہیں سمجھیں گے، اس کے حقوق کا احترام نہیں کریں گے، یعنی اسے اچھی تعلیم نہیں میسر ہو گی، آزادئِ اظہار پر پابندیاں ہوں گی، روز گار کے مواقع نہیں ملیں گے، علاج اچھا نہیں ہو گا، تخلیقی صلاحیتوں کا جمہوری استعمال نہیں کر سکے گا، اس کی جمہوری اخلاقیات اور جمہوری قوانین سے وابستگی نہیں ہو گی اور جو زیادہ تر انسانیت سے نفرت میں مبتلا ہو گا، اور جس کے لیے کسی معاملے میں سچی بات کرنا ناممکن ہو جائے گا، وہ فرد فرائض نہیں ادا کر پائے گا۔ اور یہی ہو رہا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے جمہوریت کے الٹ ہو رہا ہے۔
اب ایسی جمہوریت جو جمہوریت نہ ہو معاشی، سیاسی اور معاشرتی ترقی کی وجہ نہیں بن سکتی۔ اور ہمیں جمہوریت کے ذریعے معاشی، سیاسی، معاشرتی ترقی چاہیے تو جمہوریت پر عمل کرنے کا پندرہ بیس سال تجربہ کرنا پڑے گا۔ آمریتیں ہم تجربہ کر چکے ہیں اور انھیں بار بار جمہوریتوں بھی کہہ چکے ہیں، لیکن آمریت کو جمہوریت کہنے سے معیشت اور معاشرت کے حوالے سے مثبت نتائج نہیں رُو نُما ہو رہے۔ سالوں سے نہیں ہو رہے، مگرہم راہ چننے میں تاخیر کیے جا رہے ہیں اور جو فیصلے کرنے ہیں، وہ ملتوی کیے جا رہے ہیں۔
سعدی شیرازی کا ایک شعر ہے۔
در آفاق گشادہ است ولیکن بستہ ست
اس سر زلف تو در پائے دل ما زنجیر
کہ آفاق تو وسیع ہیں لیکن میرے دل نے خود کو تیری زلف کی زنجیر سے باندھ لیا ہے۔ اس سے پہلے کے شعر میں سعدی یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس شہر میں غریب اور فقیر ہیں کہ تیرے زلفوں کی کمند کے گرفتار ہیں اور دل تمھارا اسیر ہے۔
کشادہ آفاق کے لیے تو کاملیت پرستی اور آمریت پسندی کی جو زنجیر ہم نے اپنے دلوں کو پہنا دی ہے، وہ توڑنی پڑے گی اور جمہوریت کے نام کو اپنے جمہوری افکار اور جمہوری اعمال سے معانی سے آشنا کرنا پڑے گا، ورنہ صرف جمہوریت کہنے سے معاملات بگڑتے رہے ہیں اور اگر ہم جمہوری فیصلے نہیں کریں گے تو معاملات بگڑتے ہی رہیں گے۔ اور جس زلف سے دل بندھا ہے، اس کے حوالے سے یہ بھی تو دیکھنا ہوتا ہے کہ زلف ہے کہ مار سیاہ۔ سعدی مطلق العنان بادشاہی کی زلف سے بندھے تھے، مگر اب اگر مُطلقُ العنان بادشاہی سے بہتر طرزِ حکومت دنیا میں موجود ہے تو ہم کاملیت پرستی اور آمریت پسندی کی زلف سے کیوں بندھے رہیں؟