حیدر شیرازی
دنیا میں ہر ادارے کی اپنی اہمیت ہے۔ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جنہیں اپنے اپنے پیشے سے جڑنے کا مضبوط احساس ہو، اس سے محبت ہو اور اپنی بہترین صلاحیتوں کے ذریعے عوام کی خدمت کریں۔ ایک ڈاکٹر اگر مکان کا نقشہ بنائے یا اگر انجینئر اوپن ہارٹ سرجری کرے تو معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اپنے اپنے شعبے سے تعلق جوڑ کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہئے۔ ہمارا المیہ بھی یہی ہے اورہمیں اِس پر قابو پانے کی ضرورت ہے، ہمیں ماضی میں ایسے بے شمار لوگ ملے جن کی سوچ کو جہالت سے تشبیہ دی جائے یا کچھ اور کہا جائے۔ ہم نہ جانے کیوں اپنے اداروں کو مستحکم بنانے کی بجائے دوسروں کے کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اگرصحافت کی بات کی جائے تو بے شمار ایسے صحافی، تجزیہ نگار، کالم نگار، اینکر نظر آتے ہیں جو اعلٰی حکومتی عہدوں پر براجمان ہیں اور دو طرفہ رزقِ حلال کھانے کی روزانہ مشق کرتے ہیں۔
ایسا بھی معلوم ہوتاہے کہ ہم تنخواہ اور مراعات کے چکر میں سیاسی یا دوستی کی آڑ میں کوئی خاص کرسی یا شعبہ ہتھیانے کے چکر میں ہیں۔ اِس کی چند بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ ہم اپنے شعبے کے کامیاب لوگ نہیں ہوتے اس لئے ناجائز راستے سے دوسروں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ ساری پاک وپاکیزہ ہستیاں اپنے ادارے میں رہتے ہوئے محنت کریں تو شائد ملک و قوم کی زیادہ بہتر خدمت کر سکیں۔آج کل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی بات ہو رہی ہے اگر کوئی اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد بھی کْرسی پر براجمان رہے تواِس سے چند بنیادی غلطیاں جنم لیں گی جو یہ ہیں کہ اِس زور زبردستی سے ایک تو جونیئرز کی حق تلفی ہو گی۔ جن کاسنیارٹی میں نام ہوتا ہے، اور دوسرا قانون کی بالا دستی نہیں ہوتی اوریہ بھی ملک و قوم کی ایک خدمت ہے کہ قانون پر عمل کیا جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو قانون کی جگہ شخصیت پرستی جنم لیتی ہے۔
ایک بات یاد رکھنا ہو گی کہ ہمارے درمیان حضرت آدم سے لے کر امام تک کوئی نہیں رہا تو کیا کسی شخص کے زندہ رہنے کی گارنٹی دی جا سکتی ہے اور کب تک ملک و قوم کی خدمت کرتا رہے گا ایک نہ ایک دن اس کی جگہ دوسرے نے لینی ہے یہ نظام قدرت ہے اِس میں بہتری ایسے ہی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے اَدوار میں خوب سے خوب کام کریں اور باقی آنے والوں پر چھوڑ دیں۔ یہ تو بنیادی باتیں ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے حال ہی میں ترکی میں فوجی بغاوت کی ہوا چلی ہے، بھلا ادارے کا حکومت سے کیا لینا اس پر بحث ضروری ہے اور اسلام نے امیر المومنین اور سپہ سالار کے کام اور رویے کو تقسیم کر کہ ادارے کی الگ پہچان اور اہمیت بیان کر دی۔ اسی طرح اپنے اپنے شعبوں میں بہتری لانا قوم کے لئے عظیم قربانی کہلاتا ہے۔
ترکی میں فوجی بغاوت ہوئی اور بیشک عوامی طاقت ہی تخت کو تختہ بنا دیتی ہے۔ کسی اور شعبے کی کیا بات کروں صحافت کو دیکھ لیں پاکستان میں سینیٹر، پارٹی رہنما صحافی بنے ہیں اور حکومتی عہدوں پر صحافی بیٹھے ہیں، کیا یہ ڈکٹیٹر شپ نہیں کہ اپنے کام چھوڑ کر دوسرے کی کرسی پر جھوما جائے، اور یہ لوگ کس منہ سے آمریت کے خلاف باتیں کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ خود اپنے شعبے کے ایک منی آمر ہوتے ہیں۔ اور یہی صحافی جب حکومتی عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں تو کیا انہیں جمہوری روایات کا امین کہا جائے؟ اور کیا یہ کسی حکومتی ادارے پر مارشل لاء نہیں لگاتے جس کرسی پر ادارے کے سینئر کا حق ہے اور جو اپنے شعبے کی کمزوریوں کو جانتا ہے اس کا کیا حق نہیں مارا جا رہا ہوتا۔ ہم پی ٹی وی کی بات کریں۔پیمرا کی بات کریں، اسٹیل مل کی بات کریں، پی۔آئی۔اے کی بات کریں کون سا شعبہ ایسا نہیں جو مارشل لاء کی نظر نہ ہوا ہو جہاں جمہوریت کا نعرہ لگا کر آمر نہ بٹھا دیئے ہوں، ہم میڈیا کو دیکھ لیں کون کون مارشل لاء لگائے بیٹھا ہے کون پچھلے دروازے سے آیا۔ آج پاکستان کے تقریباََ ایک درجن اداروں کا جائزہ لگایا جائے تو تمام اداروں پر جمہوری بادشاہوں نے اپنے خاص آمر بٹھا رکھے ہیں۔ بس افسوس نادانوں پر جو صرف فوجی بوٹ کو آمریت سمجھتے ہیں کوئی آمر ہو نہ ہو مارشل لاء لگے نہ لگے آمریت تو ہمارے معاشرے کی جڑوں تک سرائیت کر چکی ہے، اور ہم نادانوں کی سوئی فقط جانے کی باتیں جانے دو پراٹکی ہوئی ہے۔
دنیا سے مقابلے کا ایک بنیادی نکتہ ہے کہ ہمیں اپنے شعبے کا لائق اور محنتی ہونا چاہیے۔ یہاں اداکار مارننگ شو کرتے ہیں، صحافی کرکٹ چلاتے ہیں، سینیٹر تجزیہ نگار ہیں، سیاسی پارٹی کے رکن ٹاک شوز کرتے ہیں، اچھا بولنے والے علماء بنے ہیں، فوج کاروبار کر رہی ہے، بیورو کریٹ اسلامی اسکالر بنے ہیں، کمشنر کالم لکھتے ہیں، موروثی سیاست پر لبیک کہتے ہیں تو خاک ادارے ترقی کریں گے اوریہ لوگ آمر یت کے سب سے بڑے مخالف۔۔۔ بس اتنا کہوں گا گریبان میں جھانکو، آئینہ تو دیکھو کہیں ایسا تو نہیں داغ اپنے چہروں پہ اور آئینے کو خراب کہا جا رہا ہے۔ ہر شخص میں ایک قابض ایک آمر موجود ہے۔ خود کو بدلو نظام بدل جائے گا۔ ترکی میں بغاوت ہو گئی اور اس کے لئے اتنا کہنا بہت ہے جہاں عوام کی حکومت عوام کے لئے بہتر فیصلے کرے تو وہاں آمریت کا ڈر نہیں رہتا وہاں ظلم و تشدد اور بے انصافی سے ڈر لگتا ہے۔ سچااور محب وطن کسی سے ڈرتا نہیں اور اگر اس نے وطن کے لئے کام کیا ہو تو اُسے خوف نہیں ہوتا۔اور واقعی ترکی والوں نے عوام کی خدمت کی اور ظاہر ہے نیوٹن کے تیسرے قانون کے مطابق ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ عوامی خدمت ہی حکمران کی طاقت ہے نا کہ چھوٹے وعدے۔
آخر میں اتنا کہہ دوں وہ تو ترکی تھا جس میں عوام ٹی وی پر اردگان کے ایک بیان پر سامنے آگئے ہمارے حکمرانوں کو ملک چلانا بھی نہیں آتا کم از کم بجلی کی صورتحال کو تو بہتر کر دینا چاہیے تاکہ خدا نہ کرے ایسا معاملہ ہو تو عوام کو تو پتا چلے کہ صاحب نے تقریر میں کہا ہے کہ سڑکوں پر نکلو؛ یہ نا ہو کہ تقریر بھی لوڈ شیڈنگ کی نظر ہو جائے۔