آزادی کو کیا سمجھتے ہو ؟
وسعت اللہ خان
ہوا، بادل ، بارش، روشنی، خوشبو، خوشی، محبت آپ محسوس کر سکتے ہیں، چھو بھی سکتے ہیں مگر قید نہیں کر سکتے۔ آزادی کا بھی ایسا ہی قصہ ہے۔ یہ کوئی برتن یا دس بائی آٹھ کا پانا یا فیتہ بند تحفہ نہیں بلکہ احساس کا نام ہے۔ ایک جانور، ایک سال کا بچہ اور ایک نابینا بھی بتا سکتا ہے کہ آزادی فضا میں گھلی ہوئی ہے کہ نہیں۔
جہاں دلیل سے آزادی ثابت کرنا پڑ جائے سمجھ لو آزادی نہیں آزادی کا دھوکا ہے۔ آزادی کو گلے میں اتارا نہیں جا سکتا، گلہ آزاد ہو تو آزادی خود بخود گنگنانے لگتی ہے، آزادی کوئی سجا نہیں سکتا کیونکہ آزادی خود ایک زیور ہے۔ آزادی کو کوئی بےگھر نہیں کر سکتا۔ باہر تنگ ہو جائے تو وہ دل و دماغ میں گھر بسا لیتی ہے۔
مگر آزادی کے غصے سے ڈرنا چاہیے۔ وہ اپنی بے توقیری اور توہین کا انتقام غلامی کا شکنجہ کس کے لیتی ہے۔ کون سا شکنجہ؟ جسمانی کہ ذہنی؟ یہ بھی آزادی طے کرتی ہے ۔آزادی کا گلہ گھونٹنا دراصل اپنا گلا گھونٹنا ہے۔
آزادی زود رنج ہے، اس کے نخرے، خرچے، پسند نا پسند نظرانداز کرنے والوں کو آزادی بنجر تنہائی کی وادی میں دھکیل دیتی ہے اور پھر گاہے گاہے اپنی جھلک اور چھب دکھلانے کا عذاب نازل کرتی رہتی ہے۔ ہاں آزادی کو بس ایک بار منایا جا سکتا ہے بارِ دگر نہیں۔
کسی بھی ریاست اور سماج میں آزادی کی مقدار ماپنے کے کئی طریقے ہیں۔
گھٹن کے خاتمے اور کھلی فضا میں سانس لینا آزادی ہے۔ بد عقلی، اندھی منطق اور مریضانہ خود اذیتی کا پا بجولاں ہونا آزادی ہے۔ انسانی تخیل کے پر شعوری طور پر نہ کاٹنا آزادی ہے۔
سچ بولنے پر تحفظ اور جھوٹ کا کڑا محاسبہ اور سچ کے نام پر جھوٹ تھوپنے کی حوصلہ شکنی آزادی ہے۔ بلاخوف و خطر کہنا، سننا، اختلاف کرنا، اختلاف کا احترام کرنا اور اختلاف کر کے بھی زندہ رہنا اور رہنے دینا ہی آزادی ہے۔ اگر کسی باغ پر آزادی کا بورڈ لگا ہو اور وہاں صرف گلاب کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہو تو یہ باغ نہیں گلابوں کا جنگل ہے۔
جب آزادی کے چھوٹے دائروں کو اجتماعی فلاح کے نام پر ایک بڑے دائرے میں مدغم کر کے چھوٹے دائروں کی شناخت مٹا دی جائے تو پھر بڑے دائرے میں صرف فسطائیت ہی آزاد گھوم سکتی ہے بھلے اس نے کوئی بھی چولا پہن رکھا ہو۔ بھلے اس کے تھیلے میں بہلانے والے کتنے ہی شاندار کھلونے کیوں نہ ہوں۔ بھلے اس کی ڈگڈگی سے کیسے ہی خواب بندھے ہوں۔ فسطائیت کی آزادی باقیوں کے لیے زنجیرِ غلامی کے سوا کچھ نہیں؟
جس طرح ایک ریاست میں دو بادشاہ ممکن نہیں اسی طرح ایک سماج میں یا تو آزادی راج کر سکتی ہے، یا غلامی۔ دونوں میں پرامن بقائے باہمی تب ہی ممکن ہے اگر آگ اور پانی میں سمجھوتہ ہو سکے۔ اس اصول کے علاوہ جو بھی دلیل دی جائے گی وہ دلیلِ دلال کے سوا کچھ نہیں۔
چلیے چھوڑیے اس خشک آزادی نامے کو، کچھ اشعار سنیے۔
ہے اور نہیں کا آئینہ مجھ کو تھما دیا گیا
یعنی میرے وجود کو کھیل بنا دیا گیا
میرا سوال تھا کہ میں کون ہوں، اور جواب میں
مجھ کو ہنسا دیا گیا ، مجھ کو رلا دیا گیا
میرے جنوں کو تھی بہت خواہشِ سیر و جستجو
مجھ کو مجھی سے باندھ کر مجھ میں بٹھا دیا گیا
میں نے کہا کہ زندگی؟ درد دیا گیا مجھے
میں نے کہا کہ آگہی؟ زہر پلا دیا گیا
خواب تھا میرا عشق بھی، خواب تھا تیرا حسن بھی
خواب میں یعنی ایک اور خواب دکھا دیا گیا
( احمد نوید )