آزادی مارچ سیاست اور خطہ
آزادی مارچ اسلام آباد کی بھیگتی فضا میں حکومت کو آٹھ آٹھ آنسو رلانے کی نیت سے خراماں خراماں اپنے اہداف کے حصول کی جانب بڑھ رہا ہے۔ حزبِ مخالف کے اس آزادی مارچ کے پڑاؤ کو گو ابھی تک با ضابطہ دھرنے کا نام نہیں دیا گیا ہے، مگر حکومت اور مختلف چینل اسے دھرنا سمجھے بیٹھے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے چار روز آزادی مارچ میں اضافے کا عندیہ دیتے ہوئے طاقت ور غیر جانب دار محکمے اور حکومت کو مزید وقت دے ڈالا ہے کہ وہ مزید سوچ و بچار کر لیں۔
ان تمام سے قطعِ نظر حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور حزبِ مخالف کی رہبر کمیٹی کی بات چیت کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں؛ اور شاید حکومتی نا کامی کی انہی وجوہات کی بنا پر عسکریت پسند سیاسی جگادری چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی مولانا کو رام کرنے کے لیے متحرک کر دیے گئے ہیں۔
آمدہ اطلاعات کے نتیجے میں حکومت نے مذاکرات کے مکمل اختیار چوہدری پرویز الٰہی کو دے دیا ہے؛ جس سے حکومتی جماعت نے کم از کم اپنی پسپائی کا با ضابطہ اعتراف یا تو بڑوں کے دباؤ میں کیا، یا پھر اپنی سیاسی نا تجربے کاری کی بنا پر۔
وجہ کوئی بھی ہو، اس سب کے با وُجُود چوہدری برادران کی تین میٹنگز مولانا کو اسٹبلشمنٹ بیانیے پر رضا مند نہیں کروا پائی ہیں؛ جب کہ مولانا سے مزید مذاکرات کا عندیہ بھی دے دیا گیا ہے۔ دوسری طرف حزبِ مخالف کے سینیٹرز نے آج مشترکہ اجلاس میں حکومت کے غیر سنجیدہ رویّے پر بھی تنقید کی ہے۔
اس صورتِ حال کے تناظر میں آزادی مارچ کی ہراول جماعت جمعیتِ علمائے اسلام بھی اپنے پَتّے دکھانے پر کسی جلدی میں نظر نہیں آتی، جب کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے فرماں بردار میڈیا اور دیگر ذرائع عوام میں آزادی مارچ کی متنازع حیثیت بنانے میں جُتے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب اس سیاسی دھما چوکڑی میں مہنگائی اور بے روز گاری میں جکڑی عوام اور سماج کے اساتذہ، ڈاکٹر، اود صحافی سمیت دیگر بے روز گار اپنے طور پر احتجاج کے راستے پر ہیں، یا خاموشی سے ملک کی تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی صورتِ حال کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔
اس گنجلک سیاسی ماحول میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مولانا و حزبِ مخالف کی جماعتیں اس آزادی مارچ کو واقعتاً کسی منطقی انجام پر پہنچانا چاہتے ہیں، یا وہ کون سی طاقت ور قوتیں اس آزادی مارچ کی پشت پر ہیں جو حزبِ مخالف کے اس مشترکہ مارچ کو ثابت قدم رہنے پر مجبور کر رہی ہیں۔
اس سوال کے دو حصے ہیں ایک اندرونی قوتوں کا، جب کہ دوسرا خطے کی سیاسی و معاشی صورت حال کو اپنے حق میں کرنے والی عالمی قوتوں کا۔ اس تناظر میں نظر آ رہا ہے کہ بنیادی طور پر یہ آزادی مارچ فوجی سربراہ کی ملازمت میں توسیع کے ضمن میں اپنے سیاسی تحفظات کا اظہار ہے؛ جب کہ اس سے جڑی عالمی طور سے دو متحارب معاشی قوتیں امریکہ اور چین ہیں۔
اس صورتِ حال کے تجزیاتی حوالے سے امریکہ کے نہ نظر آنے والے اتحادی پاکستان، بھارت، سعودی عرب ہیں جب کہ چین کے اتحادی ایران، روس اور کسی حد تک شام و ترکی دکھائی دیتے ہیں۔ خطے کے مستقبل کی معاشی بالا دستی میں جہاں امریکہ اور چین آمنے سامنے ہیں وہیں ان دو کی ملکی مخالف و حامی طاقتیں بھی ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان میں چین کا معاشی اتحاد اس وقت امریکی اتحاد سے زیادہ بہتر پوزیشن میں نظر آتا ہے جو کہ فوجی حمایت کے بَہ جائے سیاسی حمایت کو خطے کی بہتری کے لیے سُود مند سمجھتا ہے، جب کہ امریکہ اپنے ہتھیاروں کی مارکیٹ کے لیے فوجی قوت کو اہم سمجھتے ہوئے بھارت اور پاکستان کو قریب کر کے مذکورہ طاقت ذریعے اپنا اثر اس خطے میں مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
اس عالمی کش مکش میں موجودہ آزادی مارچ کو دیکھنے سے حالات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے؛ لہٰذا اس آزادی مارچ کو کسی طور نہ کم زور اور نہ لا وارث سمجھا جا سکتا ہے۔
اس آزادی مارچ میں فائدے کی دوڑ میں دوڑتے ہوئے این جی اوز ٹائپ لبرل کی کوئی حیثیت نہیں، جب کہ ترقی پسند سیاست کے نقطۂِ نظر سے اس آزادی مارچ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب اس مارچ کو جمعیتِ علمائے اسلام کی مارچ سیاست کے پلیٹ فارم سے کیوں کروایا گیا یہ آئندہ ایک دو روز بعد…
از، وارث رضا