آزادی مارچ کے کارکنوں کا سیاسی ویژن تو تحریک انصاف والوں جتنا ہی ہے؟
میں آج پشاور موڑ اسلام آباد میں جمع جس crowd کو دیکھ کر آیا ہوں، اس نے مجھے خوف زدہ کر دیا ہے۔
آزادی مارچ کے مطالبات سے میری سیاسی ہم دردی اور سلیکٹیڈ ٹولے سے میری نفرت اپنی جگہ، لیکن اس وقت جو ہجوم کشمیر ہائی وے پر موجود ہے اس میں شامل اکثریت ان لوگوں کی ہے جو صرف اپنے امیر کی اطاعت میں وہاں موجود ہیں۔
میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق اس جوش و جذبے سے تمتماتے ہوئے ہجوم کو سرسری طور پر دو حصوں میں تقیسم کیا جا سکتا ہے:
- ایک حصہ وہ ہے جو چاروں صوبوں کے شہری علاقوں سے تعلق رکھتا ہے،
- اور دوسرا وہ ہے جو زیادہ تر مدرسوں کے گھٹن زدہ اور یک سر غیر سیاسی ماحول سے نکلا ہے اور پھر ان میں اکثریت خیبر پختون خوا کے پس ماندہ دیہی علاقوں کی سیٹنگ سے تعلق رکھتی ہے۔ جو اپنے ویژن کے مطابق جانے کون سی صدی میں رہ رہے ہیں۔
اس تقسیم کو دوسری طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک تو جے یو آئی، مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی، اے این پی اور پختون خوا ملی پارٹی کے سیاسی یا نیم سیاسی کارکنوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ خوب جانتے ہیں کہ وہ کیوں آئے ہیں۔ وہ معاملات کو سیاسی اور معاشی حوالے سے دیکھتے ہیں اور سیاسی و معاشی اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں، لیکن یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں نہیں ہیں۔
بڑی تعداد جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے ان مذہبی کارکنوں کی ہے جن کا سیاسی ویژن اتنا ہی محدود اور سطحی ہے جتنا خود عمران خان اور اس کے یوتھیا ٹولے کا ہے۔
دوسرا زاویہ:
مولانا کا دھرنا اور مبصرانہ کسوٹیوں کی پریشانیاں از، احمد علی کاظمی
اگر آزادی مارچ کا ہجوم سراسر سیاسی ہجوم ہوتا تو یہ جمہوریت اور مستقبل کے حوالے سے بہت بڑی خوش خبری تھی، لیکن اس ہجوم کا کنٹرول اس کے نیم سیاسی اور مکمل طور پر مذہبی حصے کے ہاتھ میں ہے۔ وہ مذہبی اصطلاحوں میں بات کرنے کے عادی ہیں اور معاملات کو مذہبی عینک سے ہی دیکھنے کی انہیں تربیت دی گئی ہے۔
ان سے بات کرو تو مارے حیرت کے بندہ گنگ ہو جائے۔ ان میں سے کوئی توہینِ رسالت ﷺ کے سدِّ باب کے لیے آیا ہے، کوئی ختمِ نبوّت ﷺ، کوئی اسلامی نظام کے نفاذ اور کوئی اور ایسے ہی تصورات کو دماغ میں بٹھائے آیا ہے۔
ان سب میں قدرِ مشترک امیر کی اطاعت ہے۔ ان کے نزدیگ کسی بھی قسم کے اقدام پر آمادہ ہونے کا جواز امیر کا حکم ہے۔
یہ لوگ سیاسی کارکن نہیں روبوٹ ہیں جن کی خاص طرح کی ذہن پرداخت conditioning ہوئی۔ میرے خوف کی بنیاد یہی مذہبی شدت پسندی اور conditioning ہے۔
دوسری جانب ان کا مقابلہ ایک یک سر مختلف قسم کی conditioning والے یوتھیا ٹولے کے ساتھ ہے جو اصل پریشان کن صورت حال ہے۔
یوتھیا ٹولے کے امیر عمران خان نے گلگت میں جس گندے انداز میں اس پہلے سے مشتعل ہجوم کو مزید مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، اور اس کے وزیر شذیر جس طرح آزادی مارچ کے لیڈروں اور شُرَکاء کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس کے بعد کسی بھی طرح کی معاملہ فہمی کی توقع عبث ہے۔ یوں مجھے خدشہ ہے کہ صورتِ حال dead end کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
اللہ خیر کرے!
از، محمد عاطف علیم
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.