اظہر حسین کی اکیسویں صدی کی لڑکی
تبصرۂِ کتاب از، خالد فتح محمد
کچھ کتابیں اپنی infancy میں ہی دم توڑ دیتی ہیں جس کی متعدد وُجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ تو کتاب خود ہوتی ہے۔ دوسری مصنف کی کوتاہی یا بے پروائی کہ وہ کتاب کو وہاں وہاں پہنچانے میں کام یاب نہیں ہوا جہاں جہاں اسے پہنچنا چاہیے تھا۔ تیسری ان دونوں کا میل بھی ہو سکتی ہے۔
کچھ ایسا ہی اظہر حسین کے پہلے افسانوی مجموعے اکیسویں صدی کی لڑکی کے ساتھ پیش آیا، جو مصنف نے ارادتاً ( کسی خوف کی وجہ سے) یا غیر ارادتاً کیا۔
اس مجموعے میں سولہ افسانے ہیں جسے حسنین پبلشرز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ ہر افسانے کے آغاز پر ایک تصویری خاکہ دینے کے بَہ جائے ناشر کتاب کی شکل اور setting پر ہی توجہ دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
ان افسانوں میں اظہر نے سیدھے سبھاؤ میں موجودہ زندگی کے المیے بیان کیے ہیں۔ موجودہ دور کے المیے کو بیان کرنا ایک گِھسا پٹا اور یُبُوست زدہ فقرہ لگتا ہے، لیکن اچھا فکشن ہمیشہ اپنے دور کے ان پہلووں کو سامنے لاتا ہے جن سے انسان خوف زدہ ہونے کے با وُجود ہمیشہ نبرد آزما رہتا ہے۔ اسے امیر کی امارت کے بَہ جائے اس کے غریب ہونے کے خوف میں زیادہ دل چسپی ہے۔
اظہر کے کردار قاری کے جانے پہچانے ہیں اور اسے ان کے ساتھ سفر میں اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔
ہم عصر فکشن میں ایکشن پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے جو کسی بھی طرح ایک ضعف نہیں جب کہ اظہر کے کرداروں کے ہاں سوچ حاوی ہے جو کردار کی رَہبری کرتی ہے، چہ جائی کہ مصنف خود رہبر بنے۔
نتیجے میں وجود پانے والا ایکشن غیر فطری محسوس نہیں ہوتا، جب کہ ہم عصر عمومی طور پر وجود دی گئی نا مانوس مقامیت میں مانوسیت پیدا کرنے کی سعی میں کام یاب نہیں ہو پا رہا۔
اظہر کے کرداروں میں راشد نئے آدمی کا ولولہ یا کافکا والوں کی لا یعنیت نہیں؛ وہ اپنی بے گانگی میں لپٹے ہوئے زندگی کیے جا رہے ہیں۔
زندہ رہنے کی یہی تمنا ان کا خاصا اور کام یابی کی طرف جاری سفر کو طے کرنے کی پختگی ہے۔