ازلی سچائی

ازلی سچائی

ازلی سچائی

منظورکوہیار/ننگرچنا

۲۳ ذی القعد ۳۰۹ ہجری کی رات، بغداد کے مرکزی قید خانہ’’ بابِ خراسان‘‘ کی کال کوٹھڑی کا فولادی دروازہ ایک طویل چی چُوں کی آواز کے ساتھ کھلتا ہے۔ ایک جہاندیدہ اور پاکیزہ دل شخص بڑی شان اور سنجیدگی سے اندر داخل ہوتا ہے۔ کال کوٹھڑی کا داروغہ ’’النشار‘‘ دروازہ بند کرتا، چابی گھما کر اس کے بندہونے کا اطمینان کرتا اور واپس ہو لیتا ہے۔

وہ شخص کال کوٹھڑی کی باہری دیوار گیر مشعل کی مدہم روشنی میں اندراِدھر اُدھر نظریں دوڑاتا ہے تو اسے زمین پر ایک پرانی چٹائی نظرآتی ہے۔ چٹائی دریائے دجلہ کی آبی گھاس کے پتوں سے بنی ہوئی ہے، جگہ جگہ سے کٹی پھٹی اور تشدد کیے گئے قیدیوں کے خون سے منقش ہے۔ وہ شخص چٹائی کا ایک کونہ پکڑ کر جھاڑتا ہے تو کئی زمانوں سے جمی دھول نکل کراڑنے لگتی ہے۔ وہ ا س چٹائی کو بچھاکر بے فکری کے ساتھ اس پر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ تمام منظر کال کوٹھڑی کی دیواروں میں بنے بِلوں سے چھوٹے بڑے چُوہے اور چھت میں لٹکتی چمگادڑیں دیکھتی رہتی ہیں۔

کال کوٹھڑی کا داروغہ’’ النشار‘‘ ایک ہاتھ میں تلوار لہراتا اور دوسرے ہاتھ میں بغدادی نان ہلاتا ہوا، پیروں سے دھم دھم کرتافولادی دروازے تک پہنچتا ہے۔ ایک ہاتھ سے نان کو سلاخوں سے اندرکرتے ہوئے اس شخص سے کہتا ہے،’’ اے ملحد! اے کافر!اے ملعون!! کھا کر سیر ہو کہ کل تجھے قربانی کے مینڈھے کی طرح تڑپایا جائے گا۔‘‘

وہ شخص ذلت آمیز جملوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بڑے صبر اور آہستگی کے ساتھ اٹھتا، بسم اللہ کرکے بغدادی نان لیتا اور لوٹ کر چٹائی پر بیٹھ جاتاہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ بھوکی نظریں اس کے نان کو تک رہی ہیں۔ وہ نان کے چار حصے کرکے، تین حصوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے کال کوٹھڑی کے بِلوں کے سامنے رکھتاہے اور چوتھے حصہ کا چُورہ بنا کر فرش پر بکھیر دیتا ہے۔

یہ تمام منظر چھت سے لٹکی ہوئی ایک بوڑھی چمگادڑ بڑی حیرانی کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں ایسا قیدی نہیں دیکھا تھا، جو اتنا مطمئن اور پرسکون ہو۔ اس نے تو قیدیوں کو آہ و زاری کرتے اور سسکتے بلکتے دیکھا تھا، چیختے چلاتے، دھاڑیں مارکر روتے ہوئے پایا تھا۔

بالآخر اس بوڑھی چمگادڑ سے رہا نہ گیا۔ اس نے اس شخص سے اپنی فطری زبان میں سوال کیا،’’ اے قیدی! تم کس مٹی کے بنے ہوئے ہو؟ اپنی قسمت سے نالاں ہو نہ ہی کوئی شکایت کرتے ہو! اے قیدی! تمھاری سخا بھی عجب ہے کہ ملا ہوا ایک نان بھی تم نے ایسے حیوانوں میں بانٹ دیا، جن سے عام قیدی نفرت کرتے ہیں۔ تمھارا نام ؟‘‘

’’ میرا نام حسین بن منصورحلاج ہے۔‘‘ قیدی نے بوڑھی چمگادڑ کی زبان سمجھتے ہوئے جواب دیا۔

’’ اے حلیم و بردبار قیدی!اس کال کوٹھڑی میں تو قاتلوں اور رہزنوں کو رکھا جاتاہے۔ تم سے آخرکیا گناہ سرزد ہوا ہے کہ یہاں پہنچے ہو؟ ‘‘ چمگادڑ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا۔

منصور حلاج نے مسکراتے ہوئے کہا،’’ ایسا ہی گناہ، جیسا میں نے ابھی ابھی کیا ہے کہ ہر جاندار کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے، تا کہ کوئی بھی چوری اور سینہ زوری نہ کرے۔ میں تو انسانوں کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ حقیقت کی معرفت حاصل کرو۔ اگر ان کا وجود حقیقت ہے تو ان کی ضرورتیں بھی حقیقت ہیں۔ کوئی بھی انہیں اپنے حقوق اور ضروریات سے محروم نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی ان کی انفرادیت کو دبا سکتا ہے۔‘‘

’’ یہ تو کوئی جرم نہیں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جرم تو کوئی اور کیا ہو اور تم بتانا نہیں چاہتے ؟‘‘ چمگادڑ نے بے یقینی کی کیفیت میں پوچھا۔
’’ ہاں، ایسا ہی ایک اور ناقابلِ برداشت جرم بھی کیا ہے ۔ جب میں نے کہا کہ مجھے خدا کے حوالہ سے اپنی ذات کے اظہار کے لیے کسی سے بھی اجازت لینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس کی روح میری روح میں یوں سما گئی ہے جیسے عنبر مشکِ ناب میں مل جاتا ہے اور اُس (اللہ) نے تمام راز میرے دل میں یوں سما دیے ہیں جیسے روح بدن میں۔ جب کوئی چیز اسے چھوتی ہے تو مجھے چھوتی ہے۔ ہر وقت اور ہر حال میں ’’وہ‘‘ میں بن جاتا ہوں۔‘‘ منصورحلاج نے وضاحت کے ساتھ بوڑھی چمگادڑ کو بتایا۔

’’ یہ بات تو میرے ایسی حقیر چمگادڑ بھی سمجھ سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کل کا انسان ہم سے بھی گیا گزرا ہے!!‘‘ چمگادڑ نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔

’’ تم سمجھ گئیں، اس لیے کہ تم فطرت کے زیادہ قریب ہو۔ انسان اشرف المخلوقات کہلاتاہے لیکن وہ فطرت سے بہت دور ہوگیا ہے۔‘‘ منصور حلاج نے چمگادڑ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’ خیر! ان گناہوں کے لیے تمھاری سزا کیا تجویز ہوئی ہے؟‘‘

’’ مُثلہ۔‘‘ منصور حلاج نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’ مُثلہ! یہ کس قسم کی سزا ہے ؟‘‘ چمگادڑ نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا۔

’’ مُثلہ کی سزا کے تحت پہلے مجھے صلیب پر کھڑا کیا جائے گا، پھر میرے ہاتھ باندھے جائیں گے۔ پہلے میرے ہاتھ اور پھرپاؤں کاٹے جائیں گے۔ اس کے بعد میری آنکھیں نکالی جائیں گی اور آخر میں زبان کاٹی جائے گی۔ پھر سر قلم کرکے خلیفہ کے پاس بھیجاجائے گا اور سربریدہ بدن کو تیل میں ڈبوکر جلایا جائے گا اور سب سے آخر میں میری راکھ کو دجلہ کی لہروں کے حوالہ کیا جائے گا۔‘‘

’’ اے صاحبِ بصیرت چمگادڑ! کل اگر تم یہ منظر دیکھنا چاہو تو ضرور آنا اور گواہی دینا کہ ہم نے نمازِ عشق ادا کرتے ہوئے کوئی کوتاہی نہیں برتی۔‘‘ْ منصور حلاج نے چمگادڑ کو دعوتِ خاص دیتے ہوئے کہا۔

’’ اے مردِ حق ! میں اپنے ربّ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھ سے ایسا کچھ دیکھنے والی قوّت بہ وقتِ یوم سلب کرلی ہے ۔کیا انسان واقعی اتنا سفاک اور دل کا اندھا ہو چکا ہے کہ وہ ازلی سچائی کو سمجھنے سے قاصر ہے!؟‘‘

’’ ہاں، اے دانا و بینا چمگادڑ!انسانی سماج کا یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔‘‘ منصور حلاج نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اپنا شعر پڑھا۔
شعر سن کر بوڑھی چمگادڑ دیگر چمگادڑوں کے ساتھ بھڑک کر اُڑی اور کال کوٹھڑی کے روشن دان سے نکل کر منصور حلاج کا سنا ہوا شعر بہ آوازِ بلند دہرانے لگی۔

اعمی بصیر و اِنّی ابلہ فطن
و لی کلام اذا ما شئت مقلوب

(اندھا ہوں لیکن بصیرت رکھتا ہوں۔ سادہ طبیعت ہوں لیکن فطین ہوں اور یہ میرا کلام غور کرنے پر اُلٹا بھی ہو سکتا ہے۔)

درختوں پر سوئے پرندے اور کیڑے مکوڑوں میں کھبلی مچ گئی۔ لیکن ’’ النشار‘‘ کال کوٹھڑی کے باہر آنکھیں موندے ہوئے اونگھتا رہا۔