بات چل نکلی ہے ، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے

ایک روزن لکھاری
نصرت جاوید، صاحب مضمون

بات چل نکلی ہے ، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے

(نصرت جاوید)

بدھ کی صبح اُٹھ کر اخبارمیں چھپا کالم اپنے فیس بک اور ٹویٹر اکائونٹس پر لگانے سے فارغ ہوا تو گزشتہ رات آئے پیغامات دیکھنا شروع ہوگیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب بہت سارے پیغامات کی بدولت مجھے اطلاع یہ دی گئی کہ شریف خاندان کی دولت اور اثاثوں کو حلال یا حرام ٹھہرانے والی JIT نے سپریم کورٹ کے متعلقہ بنچ کے روبرو ایک ’’شکایت‘‘ پیش کی ہے۔ مقصد اس کا ہمارے عالیٰ جناب ججوں کو یہ بتانا ہے کہ جے آئی ٹی کو تفتیشی عمل منطقی انجام تک پہنچانے میں بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ اس کے خیال میں یہ رکاوٹیں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر براجمان وزیر اعظم نواز شریف کے ایماء پر کھڑی کی جارہی ہوں گی۔

اس ملک کے تحریری آئین کے مطابق ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ ہونے کے دعوے دار 2017 کے بہادر شاہ ظفر بنے نواز شریف کی جانب سے خود کو بدعنوانی کی تہمت سے بچانے کے لئے مبینہ طورپر اگر واقعتا کچھ ہتھکنڈے اختیار کئے جارہے ہیں تو اس کے بارے میں حیران ہونے کی کوئی گنجائش کم از کم میرے ذہن میں تو موجود نہیں۔
میں ہکا بکا البتہ یہ جان کر ضروررہ گیا کہ اپنے ٹی وی پروگرام میں JIT کے قیام پر کئے میرے ایک دیانت دارانہ تبصرے کو بھی میڈیا میں ہوئے ان تبصروں میں شمار کرلیا گیا ہے جو whatsapp کی برکتوں سے چنے مصفا تفتیش کاروں کو صاف شفاف انصاف کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے نہیں دے رہے۔ مجھے خبر نہیں کہ میرے تبصروں سے ناراض ہوئی JIT کی نظر میں انصاف کی راہ میں یہ رکاوٹیں میں شریف خاندان سے ’’لفافے‘‘ لے کر کھڑی کررہا ہوں یا نہیں۔

اگرچہ عمومی طورپر عمران خان صاحب اور ان کے بے پناہ چاہنے والوں کی مہربانیوں سے ہمارے عوام کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ صحافی ’’نذر اللہ نیاز حسین‘‘ والے رویے کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام نہیں دیتے۔ میرے ساتھ یقینا ’’کھایا پیا کچھ نہیں،گلاس توڑا‘‘ والا معاملہ ہوگیا ہے۔ انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے کا الزام بھی لگ گیا اور شریف خاندان سے عوضانہ کے طورپر ایک دھیلا بھی نہ ملا۔
اپنا ذکر JIT میں بیٹھ کر ایک مقدس فریضہ سرانجام دینے والوں کی جانب سے ’’گنہگاروں‘‘ کی فہرست میں دیکھا تو دل گھبراگیا۔ پہلی اور بنیادی فکر تو یہ لاحق ہوگئی کہ کیا JIT کی شکایت پر غور کرنے والے جج صاحبان انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اگر مجھ ایسے تبصرہ نگاروں کا مکوٹھپنے کا حکم صادر فرمادیں گے تو میں اپنے رزق کا بندوبست کس طرح کروں گا۔ 1975سے سوائے لکھنے پڑھنے اور ٹی وی پر بولنے کے کسی اور ذریعہ سے دو وقت کی روٹی کمانے کا طریقہ ہی سوچ نہیں پایا۔ اگر میرا کام ’’انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے والا‘‘ ثابت ہوگیا تو شاید فروٹ کی ریڑھی لگانی پڑے۔ یہ ریڑھی لگابھی لی تو شاید پھر بھی ایک دھیلا کما نہیں پائوں گا کیونکہ ان دنوں اکثر ہماری ’’سول سوسائٹی‘‘ کی غربت سے پریشان ہوئے کئی حق گو مجاہد لوگوں کو ریڑھیوں سے فروٹ نہ خریدنے پر اُکسارہے ہیں۔
اپنی پریشانی پر مزید دُکھ اس لئے بھی ہوا کہ میں شاید وہ پہلا صحافی تھا جس نے ارسلان کے ابو کے زمانے میں ’’متوازی عدالت‘‘ کی ترکیب ایجاد کی تھی اور انتہائی خلوص،دیانت داری اور فکر مندی کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو یہ بات سمجھانے پر بضد رہا کہ عدالت کو اس کا کام کرنے دیا جائے۔ کوئی ہائی پروفائل یا سیاسی طور پر explosive مقدمہ عدالتوں کے روبرو پیش ہو تو اس کی سماعت کے روز شام سات بجے سے رات 12 بجے تک ٹی وی سکرینوں پر ’’متوازی عدالتیں‘‘ لگانے سے گریز کیا جائے۔ مجھے خبر نہیں تھی کہ ایک دن میرا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا جو مبینہ طورپر ’’صاف شفاف‘‘ عمل احتساب کی راہ میں روڑے اٹکانے کے مرتکب گردانے جائیں گے۔ ’’سو پیاز اور سو جوتے‘‘ کی عملی مثال بن کر دل اداس ہوگیا۔ رزق چھن جانے کا خوف اپنی جگہ موجود اور ساتھ ہی شدید ترین احساسِ ذلت۔
اپنی ذلت کا احساس سب سے زیادہ تکلیف دہ اس لئے بھی محسوس ہوا کہ 1975 سے صحافت کو ایک پیشہ نہیں عشق کے طورپر اپنانے کے بعد سے آج تک جو لکھا اور بولا وہ سراسر غلط ہوسکتا ہے۔ بدنیتی کا مگر اس میں کبھی کوئی حصہ نہیںرہا۔ ’’لفافوں‘‘ کی تہمت عمران خان کے بے پناہ چاہنے والوں نے تواتر کے ساتھ ہمیشہ لگائی ہے۔ ضمیر میرا البتہ اس ضمن میں ہمیشہ مطمئن رہا۔ عمر کے آخری حصے میں قبر کی جانب بڑھتے ہوئے خود کو شریف خاندان کی ’’ناجائز دولت‘‘ کا سراغ لگانے والے عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام نے بہت تکلیف پہنچائی ہے۔

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: جے آئی ٹی اور کچھ پریشان کن معاملات، از نجم سیٹھی

اس الزام کی شدت اس لئے ناقابل برداشت محسوس ہوئی کہ اسے ٹویٹر پر کسی جوشیلے نوجوان نے جلے دل کے ساتھ نہیں لگایا ہے۔ ریاست کے چھ دائمی اداروں پر مشتمل ایک تفتیشی ٹیم نے متفق ہوکر صحافیوں کی ایک فہرست تیار کی ہے جسے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے روبروپیش کیا گیا ہے۔ یہ سب تاریخی ریکارڈ کا حصہ بھی بن گیا ہے۔ میرے منہ پر کالک مل دی گئی۔Lady Macbeth کے ہاتھ پر اپنے شوہر کے خون کے داغ تھے۔ وہ تاعمر اس داغ سے نجات پانے کے لئے Spot-Spot چیختی اپنے ہاتھوں کو دھوتی رہتی تھی۔ داغ مگر دھل کر نہ دئیے۔

آپ کی شہرت پر لگے داغ جیسا کہ کپڑے دھونے والے ایک پائوڈر کے اشتہار میں بیان کیا گیا ہے’’اچھے‘‘ ہرگز نہیں ہوتے۔ ان سے نجات پانے کا طریقہ صرف ’’انشاجی اُٹھو اب کوچ کرو‘‘ ہی ہوا کرتا ہے۔ خودکشی مگر ہمارے دین میں حرام ہے۔ اسے چند صورتوں میں جائز بھی قرار دیا گیا ہوتا تو مجھ ایسے پیدائشی بزدل میں اس کی ہمت ہی نہیں۔ ربّ نے میری موت کا جو دن متعین کیا ہے اس دن تک زندہ رہنا ضروری ہے اور یہ زندگی رزق کمائے بغیر ممکن ہی نہیں اور مجھے سوائے لکھنے اور بولنے کے اور کچھ آتا ہی نہیں ہے۔ بلّھے شاہ کے حکم کے مطاق لہذا ’’توںآخو آخو کہہ‘‘ کا رویہ اپنانے پر مجبور ہوں۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔


بشکریہ: نوائے وقت