بابا فرید ، بیت المقدس اور ہندوستانی سرائے
از، ڈینئل سیلاس ایڈمسن (بی بی سی)
تاریخی شہر بیت المقدس (یروشلم) میں ایک چھوٹا سا کونہ ایسا ہے جو ہمیشہ سے ہندوستان سے منسوب رہا ہے۔ اگر ہمیشہ نہیں تو گذشتہ آٹھ سو برس کی تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے اور اس جگہ کے موجودہ متولی کا دعویٰ ہے کہ ان کا گھرانہ آنے والی نسلوں تک یہاں بھارت کا پرچم لہراتا رہے گا۔
سنہ 1200 کے لگ بھگ جب صلاح الدین ایوبی کی فوجوں نے صلیبیوں کو یروشلم سے نکال باہر کیا تو ہندوستان سے آئے ہوئے ایک درویش نے اس شہر میں قدم رکھا۔
اس درویش کا نام فریدالدین اور لقب ’گنج شکر‘ تھا اور ان کا تعلق بھارت، پاکستان اور افغانستان بھر میں پھیلے ہوئے مشہور چشتیہ سلسلے سے تھا۔ آج بھی ان تینوں ممالک میں ہزارہا لوگ اس صوفی بھائی چارے کا حصہ ہیں اور یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ بابا فرید کی سوانح حیات لکھنے والے کہتے ہیں یہاں پہنچنے کے بعد بابا فرید اپنا زیادہ تر وقت مسجد اقصیٰ کے ارد گرد پتھرکے فرش پر جھاڑو لگاتے یا روزہ رکھ کر اس قدیم شہر کے اندرون میں واقع ایک غار کی خاموشی میں عبادت میں گزارتے تھے۔
کوئی نہیں جانتا کہ بابا فرید کتنا عرصہ بیت المقدس میں رکے، لیکن ان کی پنجاب واپسی اور پھر سلسلۂ چشتیہ کے سربراہ بننے کے برسوں بعد تک بھی ہندوستان سے حج کے ارادے سے جانے والے لوگ مکہ کے راستے میں بیت المقدس میں قیام کرتے رہے۔ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اس مقام پر نماز پڑھیں جہاں بابا فرید نے نماز پڑھی تھی اور اس جگہ سوئیں جہاں بابا فرید سوئے تھے۔ دھیرے دھیرے بابا فرید کی یادوں سے منسلک جگہ پر آستانہ بن گیا اور ’ہندوستانی سرائے‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا مہمان خانہ بھی جہاں ہندوستانی حاجی قیام کرتے تھے۔
آج آٹھ صدیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ سرائے یہاں موجود ہے۔اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ایسے شہر میں جہاں زمین کے چپے چپے پر ہر کوئی پوری شدت سے اپنا تاریخی حق جتاتا ہے وہاں یہ جگہ اب بھی ایک ہندوستانی گھرانے کے ہاتھ میں ہے۔
اس سرائے کے موجودہ رکھوالے 86 سالہ محمد منیر انصاری جنگ عظیم دوم سے پہلے سے اس مقام پر رہ رہے ہیں اور وہ ان تاریخی دنوں کے گواہ ہیں جب فلسطین کی سرحد اس سرائے کے مرکزی دروازے تک محدود ہو گئی۔
’یہاں کے تمام رہائشی ہندوستانی تھے۔ لگتا تھا کہ میں ہندوستان میں ہی ہوں۔ جوں ہی آپ سرائے کے گیٹ سے اندر آتے تو آپ ’ریاست ہندوستان‘ میں ہوتے۔ اس زمانے میں لوگ بحری جہاز سے آتے تھے۔ وہ کھانے کی اشیاء، چاول، حتیٰ کہ اپنا نمک بھی ہندوستان سے ساتھ لاتے تھے۔ آپ جیسے ہی سرائے کے اندر داخل ہوتے، آپ کو ہندوستانی کھانوں کی خوشبو آنا شروع ہو جاتی اور آپ دیکھتے کہ یہاں رکے ہوئے مسافر اپنے کپڑے دھو کر یہاں صحن میں سوکھنے کے لیے پھیلا رہے ہیں۔‘
پھرجنگ عظیم کی وجہ سے یہاں حاجیوں کا سلسلہ رک گیا اور منیر انصاری کا رنگین بچپن بھی ختم ہو گیا۔
سرائے میں حاجیوں کی بجائے فوجی قیام کرنے لگے اور یہ جگہ ’انڈین فورتھ انفینٹری ڈویژن‘ کے ان فوجیوں کی لیے مختص ہو گئی جنھوں نے سنہ 1948 میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ کے آغاز پر فوج کی نوکری چھوڑ دی تھی۔
جب تک منیر انصاری اپنے والد کی جگہ ’شیخ‘ یا سرائے کے نگہبان بنے، اس وقت تک گولہ باری اور فلسطینی مہاجرین کی بہتات کی وجہ سے سرائے کی عمارت خاصی خراب ہو چکی تھی۔
لیکن، ابھی اس سے بھی زیادہ برا وقت آنے والا تھا۔ سنہ 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں جب اسرائیلی فوجیں گولے برساتی ہوئی شہر میں داخل ہوئیں تو سرائے کی عمارت بھی گولوں کی زد میں آ گئی۔
’67ء کی جنگ پیر پانچ جون کو شروع ہوئی اور دوسرے دن ہم نے کئی فوجیوں کو اپنے مرکزی دروازے پر گرا پایا۔ رات تک 50 سے 60 فوجی سرائے کے گیٹ کے اندر شدید زخمی حالت میں پہنچ چکے تھے۔ وہ اُردن کے فوجی تھے۔ ان کی حالت بہت خراب تھی اور وہ پینے کو پانی مانگ رہے تھے۔
’یہ منگل کی رات کی بات ہے۔ لیکن جب ہم بدھ کی صبح باہر نکلے تو وہاں کوئی بھی فوجی نہیں تھا۔ وہ لوگ اپنا ساز وسامان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، حتیٰ کہ اپنی وردیاں بھی چھوڑ گئے تھے۔ اس دن اسرائیلی بیت المقدس کے ’قدیم شہر‘ میں داخل ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔ اردن کے فوجی جو ہتھیار چھوڑ گئے تھے، وہ مقامی لوگوں نے اٹھا لیے اور اسرائیلی فوجیوں کے خلاف لڑنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی قیمت ہمیں چکانا پڑی۔‘
جب اسرائیلی فوجی سرائے پر بمباری کر رہے تھے تو شیخ منیر اپنے بیوی بچوں کو لے کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے کو بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب وہ بابا فرید کے آستانے کے قریب پہنچے تو ان کے قریب ہی ایک گولہ پھٹا۔ آستانے کی چھت نیچے آن گری۔ شیخ منیر کا چہرہ اور ہاتھ بری طرح جھلس گئے۔ انھوں نے اسی حالت میں زندہ بچ جانے والے عزیزوں کو ملبے سے نکالنا شروع کر دیا، لیکن ان کی والدہ، بہن اور دو سالہ بھانجا مر چکے تھے۔
بعد میں جب شیخ منیر ہسپتال سے اپنے گھرانے سمیت واپس آئے تو انھیں سرائے کی جگہ ایک کھنڈر نظر آیا۔’ ہم گھر لوٹے تو بہت اداس، بہت غمزدہ تھے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں اس وقت کیا حالت ہوگی۔ زیادہ تر کمرے تباہ ہو چکے تھے۔ میرے اپنے ہاتھ جل چکے تھے، میری آنکھیں بند تھیں اور میرے سارے بال جل چکے تھے۔ بہت بری حالت تھی ہماری۔‘
شریعت کے ماننے والوں کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ موسیقی اور رقص کے دلدادہ صوفی قدرے مشکوک قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔
شیخ منیر کی حالت اچھی تھی یا بہت بری، لیکن انھیں ایک بات پتہ تھی اور وہ یہ کہ سرائے کو چھوڑ جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس کی تایخ اتنی قدیم تھی، اتنی قدیم کہ اس جگہ کے ساتھ ان دنوں کی یادیں منسلک ہیں جب صلاح الدین ایوبی یروشلم میں اپنے پاؤں جما رہے تھے۔
بابا فرید نے جس بیت المقدس میں قدم رکھا تھا وہ تقریباً نصف صدی تک عیسائیوں کے ہاتھ میں رہنے کے بعد کچھ ہی عرصہ پہلے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا۔ اس وقت تک صلیبی طاقتیں بحیرہ روم کے ساحلوں پر ایک عرصے سے رہ چکی تھیں اور وہ اس خطے سے واپس نہیں گئی تھیں۔ صلاح الدین ایوبی جانتے تھے کہ اگر مسلمانوں نے بیت المقدس اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے تو اس کے لیے انہیں نہ صرف صلیبی فوجوں کا مقابلہ کرنا ہوگا بلکہ اس شہر سے انہیں اتنا ہی شدید لگاؤ ہونا چاہیے جتنا صلیبیوں کو ہے۔
اس کام کے لیے صوفیوں کا کردار بہت اہم تھا۔
اسلام کے ابتدائی ایام سے ہی بیت المقدس دنیا بھر کے صوفیوں کو اپنی جانب کھینچتا رہا ہے۔ ان لوگوں میں کچھ عجیب و غریب کردار بھی شامل تھے۔ کچھ روشنی کی تلاش میں ننگے پاؤں قصبہ قصبہ پھر رہے تھے اور کچھ مجنون جو صحرا میں اونی چوغے پہنے پھرتے رہتے تھے اور جہاں رات پڑتی وہاں ریت پر ہی سو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں میں وہ تارکِ دنیا کردار بھی شامل تھے جو خدا کی یاد میں گریہ کرتے اور محبت کے گیت گاتے قریہ قریہ پھرتے رہتے تھے۔
اسلامی رجعت پسندی کے محافظ اور مذہبی قوانین اور شریعت کے ماننے والوں کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ موسیقی اور رقص کے دلدادہ صوفی قدرے مشکوک قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔
لیکن ان صوفیوں کے ماننے والوں کی تعداد کبھی کم نہیں ہوئی اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ صوفی روایت میں خدا کی رحمت اور نرمی کو اجاگر کیا جاتا ہے نہ کہ ایسے خدا کا خوف جس کے قوانین اٹل ہیں اور اس کے ہاں معافی نہیں، سختی ہے۔
شہر کو فتح کرنے کے بعد صلاح الدین ایوبی نے گنبدِ صخرا کے نیچے چٹان کو عرق گلاب سے غسل دلوایا اور یروشلم کو ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے لیے پاک کیا۔ صلاح الدین نے اس متبرک شہر میں صوفیوں کا کھُلے بازوؤں کے ساتھ استقبال کیا اور شہر کے تمام مزاروں اورمقبروں پر صوفیانہ اظہارِ عقیدت کی حوصلہ افزائی کی۔
یہی وہ ماحول تھا جس میں ہندوستانی حاجیوں کا پہلا قافلہ پنجاب کی روائتی دھنوں اور سازوں کے ساتھ بابا فرید کی سرائے پر پہنچا تھا۔
ہو سکتا ہے کہ اپنی پنجابی دھنوں میں یہ حاجی بابا فرید کا کلام ہی گا رہے تھے کیونکہ بابا فرید نے ایک دو نہیں ، بلکہ ہزاروں ایسی نظمیں تخلیق کی ہیں جن میں عشق حقیقی کے بیان کے لیے بھی عشق مجازی کے استعارے استعمال کیے جاتے ہیں۔
بابا فرید نے اپنے دور کی دونوں بڑی مذہبی زبانوں عربی اور سنسکرت کے بجائے اپنی مادری زبان پنجابی کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس سے پہلے کسی نے ادب میں پنجابی زبان استعمال نہیں کی تھی۔
بابا فرید کی شاعری نے نہ صرف پنجابی ادب کی بنیاد رکھی بلکہ ان کی نظموں نے پنجاب کی صوفی روایات اور سکھوں کی مذہبی روایات کو ایک لڑی میں پرو دیا۔یہ بابا فرید کے صوفیانہ کلام کا کمال ہی ہے کہ ان کی درجنوں عارفانہ نظموں اور اشعار کا پرتو ہمیں سکھوں کی مقدس ترین کتاب گرو گرنتھ صاحب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔
بابا فرید کے بیت المقدس میں قیام کرنے کے بعد کے تین چار سو برسوں میں دنیا بھر کے صوفیوں کو یہاں آ کر ہندوستانی صوفیوں کے مریدوں سے ملنے کا موقع ملا۔ اس دوران سرکاری سطح پر یہاں ان گروہوں کی رہائش اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے مدرسے اور دیگر عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ مراکش سے لے کر کرائمیا، اناتولیہ اور ازبکستان سے آنے والے درویشوں نے اس سرائے اور اس سے ملحقہ سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
خلافت عثمانیہ کے دور کے مشہور سیاح ایویا سیلیبی 17ویں صدی میں یہاں پہنچے تو انھوں نے لکھا کہ یروشلم میں صوفیوں کے 70 آستانے تھے اور انھوں نے یروشلم کو ’درویشوں کا مکہ‘ قرار دیا۔
جس دن جنگ عظم دوئم شروع ہوئی اس دن بھی ان میں سے بیشتر آستانے اپنی جگہ موجود تھے۔ یہاں تک کہ صلاح الدین ایوبی کا تعمیر کردہ آستانہ بھی یہاں موجود تھا جس کی اتنی صدیوں تک حفاظت کا سہرا خلافت عثمانیہ کے سر جاتا ہے۔
لیکن جنگ اور دور جدید کے آغاز نے ہندوستانی حاجیوں کی بیت المقدس میں قیام کی روایت کو ختم کر دیا۔ مشرق وسطیٰ میں نئی سرحدوں کے کھینچے جانے کے بعد حاجیوں کے قافلوں کے راستے مسدود ہو گئے۔ نہ صرف یہ بلکہ خود صوفیوں کے بارے میں کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ان کا طرز زندگی باغیانہ ہے اور جدید دور میں قرونِ وسطیٰ کی ان روایات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایک کر کے ان آستانوں کے دورازے بند ہونا شروع ہوگئے اور یہ قدیم عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکا ہونا شروع ہو گئیں۔ یہاں تک کہ جب سنہ 1922 میں خلافت عثمانیہ کا سورج غروب ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آنے والوں برسوں میں ’ہندوستانی سرائے‘ ایک مرتبہ پھر زندہ ہو جائے گی۔
سچ پوچھیں تو اس سرائے کی بحالی کی وجہ شدید مایوسی کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی۔
برطانیہ کی نوآبادیاتی چالوں سے بیزار اور یورپ بھر سے یہاں یہودیوں کی آمد کے خوف سے، یروشلم کے مسلمان حکام نے دوست تلاش کرنا شروع کر دیے۔ ان حکام کی نظریں اں وقت خلیجی ریاستوں اور امارات کی جانب نہیں تھیں کیونکہ ان دنوں امارات کی اپنی مالی حالت دگرگوں تھی۔ ان لوگوں کی نظریں مشرق میں ہندوستان پر لگی ہوئی تھیں جہاں نہ صرف لاکھوں مسلمان بستے تھے بلکہ ان مسلمانوں میں سے کچھ انتہائی دولت مند تھے۔
چنانچہ سنہ 1923 میں بیت المقدس کے مفتی اعظم الحاج امین الحسینی نے مسجد اقصیٰ کی مرمت اور تعمیر نو کی غرض سے مالی مدد کی درخواست کے ساتھ ایک وفد ہندوستان روانہ کیا۔ یہ وہی مفتی اعظم ہیں جنھیں مسجد اقصیٰ اور دیگر اسلامی مقامات کی بحالی کے لیے مالی امداد کی تلاش نے ہٹلر اور مسولینی کا مشترکہ دشمن بنا دیا تھا اور وہ دونوں ان کے قتل کے درپے ہوگئے تھے۔
ہندوستان پہنچنے پر وفد کی ملاقات ’تحریکِ خلافت‘ کے رہنماؤں سے ہو گئی جو ان دنوں برطانوی راج کے خلاف تحریک چلا رہے تھے اور ایک عالمی اسلامی خلافت کے لیے کوشاں تھے۔ فلسطینی مہمانوں نے اپنے ہندوستانی میزبانوں کو سرائے کی حالتِ زار کے بارے میں بتایا اور ان سے پوچھا کہ آیا ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ کسی ہندوستانی مسلمان کو اس سرائے کی دیکھ بھال کے لیے بیت المقدس بھیج سکیں۔
اس درخواست کے جواب میں جو شخص سنہ 1924 میں یروشلم پہنچا اس کا نام نذیر حسن انصاری تھا۔ وہ اتر پردیش کے قصبے سہارنپور سے آئے تھے۔ اگلے 27 برسوں کے دوران نذیر حسن انصاری نے نہ صرف ہندوستانی سرائے کی مرمت اور تزئین کی بلکہ اس خیال کو بھی زندہ کرنے کی کوشش کی کہ یروشلم اب بھی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔
جب ہندوستان میں تحریکِ خلافت کے رہنما محمد علی جوہر کا سنہ 1931 میں انتقال ہوا تو ان کی میت کو فلسطین لایا گیا اور اسے مسجد اقصیٰ کے اندر دفن کیا گیا۔
صلاح الدین ایوبی کی طرح فلسطینی مسلمان حکام نے بھی ان برسوں میں بہت کوشش کی کہ وہ اس شہر کے مقدس مقامات سے منسلک مسلمانوں کی تاریخ کو زندہ کریں اور اس شہر سے تاریخی محبت کے نئے دعوے داروں کا راستہ روکنے کی کوشش کریں۔ ماضی کے برعکس، یروشلم کے نئے دعوے دار صلیبی عیسائی نہیں بلکہ صہیونی تحریک کے کرتا دھرتا تھے۔
12 ویں صدی کی طرح 20 ویں صدی میں بھی ایک مرتبہ پھر مذہب اور سیاست گنبدِ صخرا کی دیواروں سے ٹکرا رہے تھے۔
جوں جوں ہندوستانی حاجی سرائے میں قیام کے لیے آنا شروع ہوگئے، اس جگہ کی رونقیں بھی بڑی حد تک لوٹ آئیں۔
سنہ 1920 اور 30 کی دہائیوں میں شیخ نذیر کئی مرتبہ ہندوستان گئے اور مسلمانوں سے مزید مالی مدد کی درخواست کرتے رہے۔ جن مخیر مسلمانوں نے شیخ نذیر کی مدد کی ان میں حیدر آباد کے نظام بھی شامل تھے جن کی تصویر سنہ 1937 میں مشہور امریکی رسالے’ٹائم‘ میگزین کے سرورق پر ’دنیا کا امیر ترین شخص‘ کی سرخی کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔
سرائے کی بحالی اپنی جگہ، لیکن شیخ نذیر کے اس عمارت سے لگاؤ کی شاہد سرائے کی دیواروں میں لگی اینٹیں یا سیمنٹ نہیں بلکہ ان کی نسل ، ان کا خون ہے۔ بیت المقدس پہنچنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد شیخ نذیر نے فلسطینی خاتون مُسّرہ سے شادی کر لی جنھوں نے سنہ 1928 میں منیر کو جنم دیا۔
اپنی پیدائش کے تقریباّ چالیس برس بعد سنہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں شیخ منیر نے اپنی اسی والدہ کو ’صلاح الدین سٹریٹ‘ کے قریب مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا۔ اس وقت تک بیت المقدس پر اسرائیل کا کنٹرول ہو چکا تھا۔
شیخ منیر کا غم اپنے پانچ بچوں کی ہنسی اور شرارتوں میں قدرے کم ہو گیا ہے۔ انھوں نے اپنے بچوں کی پرورش ہندوستان سرائے میں ہی کی، اور اس دوران وہ اسرائیلی راکٹوں سے تباہ ہو جانے والے کمروں کی مرمت بھی کرتے رہے اور سرائے کے صحن میں لیموں کے پودے لگاتے رہے جو آج گرمیوں کی سہ پہر میں لہلہا رہے ہیں۔
آج سرائے میں ایک لائبریری، مسجد اور مہمانوں کے لیے کمرے بھی ہیں جہاں کچھ ہندوستانی اب بھی آ کر ٹھہرتے ہیں۔
سنہ 2011 میں شیخ منیر کو ’پراواسی بھارتیہ سمن‘ ایوراڈ بھی ملا جو کہ بھارتی صدر کی جانب سے ملک کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دینے والے ہندوستانیوں کو دیا جاتا ہے۔
سرائے کی چھت پر شیخ منیر نے بھارت کا قومی پرچم لہرا رکھا ہے جس کی نارنجی اور سبز پٹیاں شہر میں دور سے دکھائی دیتی ہیں، ایک ایسے شہر میں جو آج بھی اتنا ہی بے یقینی کا شکار ہے جتنا تاریخ میں ہمیشہ رہا ہے۔ لیکن شیخ منیرحالات سے گھبرانے والے نہیں۔
’مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔ انصاری گھرانہ جو خدمت آج کر رہا ہے، میں اس کے مستقبل سے پریشان نہیں ہوں۔ میرے مرنے کے بعد میرا بیٹا نذر اس زاویے کا شیخ بن جائے گا اور اس کا نظام سنبھال لے گا۔
میں نے پوچھا کہ آپ کو یقین ہے کہ نذر، جو کہ بیرونِ ملک کام کرتا ہے، وہ اس زاویے کا نطام سنبھالنا چاہے گا؟
شیخ منیر نے دیوار پر لگی ہوئی اپنی والد کی تصویر سے نظر ہٹا کر فرش کی جانب دیکھا، قدرے توقف کے بعد ہاتھ فضا میں بلند کیے اور کہا:
’ سوال یہ نہیں کہ وہ کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ اسے یہ کرنا ہے۔‘