ماریو ورگس یوسا کی بیڈ گرل کے بے گانگی کے شکار مرد کردار
از، خالد فتح محمد
دی بیڈ گرل پیرو کے مشہور مصنف ماریو ورگاس یوسا کے فکشن کی فہرست میں ایک اہم عنوان ہے۔ ناول کی کہانی کا راوی (ریکاردو)پیرو کے شہر لیما کے ایک پوش علاقے کا رہنے والا ہے۔ جب وہ اِس کہانی کا آغاز کرتا ہے اُس وقت اُس کی عمر پندرہ برس ہے اور تیرہ سے سولہ سال کے لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے گھروں، ریستورانوں اور کلب گھروں میں معصوم قسم کی دعوتیں کرتے ہیں جہاں آئس کریم، مشروبات اور سینما دیکھتے ہوئے ہاتھ تھام کرایک آدھ دُزدیدہ سے بوسے کے علاوہ چھوٹی موٹی کھیلیں ہوتی ہیں۔
بلوغت کی طرف بڑھتے ہوئے اِن لڑکوں اور لڑکیوں کے ٹولے میں دو بہنیں بھی شامِل ہو جاتی ہیں۔ دونوں کے بقول وہ اپنے خاندان کے ساتھ چلّی سے جان بچا کر آئی ہیں۔ اُنھیں احترام اور ایک شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے،باُن کے ساتھی لڑکیوں کے لہجے سے مطمئن نہیں۔
ریکاردو بڑی بہن لِلی پر فریفتہ ہوجاتا ہے لیکن لِلی اُس کے ساتھ ایک لاتعلق سا،قدرے سرد مہری کا رشتہ رکھتی ہے۔ پھر پتا چلتا ہے کہ وہ بہنیں چلّی کی رہنے والی نہیں ہیں اور اُنھیں دوبارہ نہیں دیکھا جاتا۔
ریکاردو کا خیال ہے کہ دُنیا صرف پیرس ہے اور پیرو میں زندگی گزارنا در اصل زندگی ضائع کرنا ہے، وہ اپنے خواب کی تعبیر میں پیرس چلے جانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور وہاں یونیسکو کے ساتھ بطور مترجم کام کرنے لگتا ہے۔
بطور مترجم اُسے بین الاقومی کانفرنسوں میں شمولیت کے لیے کئی ممالک میں جانا پڑتا ہے۔ اُن دِنوں میں لاطینی امریکہ کے کچھ ممالک میں بائیں بازو کی مسلحہ جدوجُہد کا آغاز ہو چُکا تھا۔ ریکاردو کا ایک دوست پیرو سے نوجوان لڑکے لڑکیاں منگوا کر کیوبا میں تربیت کے لیے بھیجتا تھا اور اگر وقت ہوتا تو ریکاردو بھی اُس کی مدد کرتا۔
ایسے ہی ایک گروہ میں لِلی آئی۔ وقت گزر جانے کی وجہ سے ریکاردو کو اُسے پہچاننے میں دقت ہوئی لیکن لِلی نے اپنے لِلی ہونے سے انکار کردیا۔وہ کیوبا چلی گئی اور ریکاردو اُس کے ہجر میں جینے لگا کہ بچپن کی محبت پھر زندہ ہو گئی تھی۔ سننے میں آنے لگا کہ کیوبا میں لِلی کے تربیتی کیمپ کے کمانڈنٹ کے ساتھ تعلقات ہیں اور پھر یہ خبر آئی کہ اُس نے وہاں ایک فرانسیسی سفارت کار کے ساتھ شادی کر لی ہے۔
ایک مرتبہ ریکاردو کی لِلی کے ساتھ پیرس میں ملاقات ہوتی ہے۔ وہ اب اپنے خاوندکے نام سے جانی جاتی ہے۔لِلی اور ریکاردو کے درمیان میں بہت قریبی جسمانی تعلق پہلے ہی قائم ہوچکا ہوتاہے اور وہ چوری چھپے ایک دوسرے کی تسکین کاباعث بنتے ہیں۔لِلی کا خاوند عمر میں اُس سے کافی بڑا ہے،ایک دِن پتا چلتا ہے کہ وہ پیرس اور سوئٹزر لینڈ سے اپنے خاوند کے تمام پیسے لے کر غائب ہو گئی ہے۔
لندن میں اُن دِنوں ہر طرف بیٹلز کی گونج تھی۔ ریکاردو کانفرنسوں کے سلسلے میں وہاں جاتا رہتا اور اپنے ایک ہم وطن دوست کے ساتھ لندن کی ثقافتی زندگی میں بھی جھانکتا۔ ایک ڈاربی میں اُسے لِلی نظر آئی اور وہ ریکاردو کے اُسی ہم وطن دوست کے گھر اور ایک گم نام ہوٹل میں ملنے لگے۔
لِلی نے ایک لکھ پتی گھوڑپال کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ اُن کی مُلاقاتیں ایک ختم نا ہونے والے جنون کی توسیع ہوتیں اور ریکاردو نے وفورِ محبت میں اُسے ’بَیڈ گرل‘ کہنا شروع کر دیا۔ گھوڑ پال لکھ پتی کو بیڈ گرل کی وفاداری پر شک ہوا اور اُس نے عدالت میں اُس کی زنا کاری کے ثبوت پیش کر کے اُسے کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیا۔
ایک عرصہ تک بیڈ گرل کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ ریکاردو اُس کی محبت اور بے وفائیوں کو اپنی محبت کا حصہ سمجھتے ہوئے سپاٹ اور بے رنگ زندگی جیتا رہا۔ وہ ایک کامیاب مترجم بن چُکا تھا۔ وہ زندگی میں ترقی کرنے کے شوق کے بجائے بیڈ گرل کو یاد کرتے ہوئے جی رہا تھا۔
اُسے خبر ملتی ہے کہ بیڈ گرل سے ملتی جُلتی ایک عورت ٹوکیو میں دیکھی گئی ہے اور وہ ایک دوست کے ذریعے اُس کی وہاں تصدیق کرانے کے بعد اپنے لیے ٹوکیو میں ایک کانفرنس میں شمولیت کا انتظام کرواتا ہے۔ ٹوکیو میں بَیڈگرل ایک دادا گیر کی داشتہ بن کر رہ رہی تھی۔
ریکاردو اُسے ٹوکیو میں ملتا ہے اور بَیڈگرل ایک رات دادا گیر کی دی گئی دعوت کے بعد، ریکاردو کے علم کے بغیر، ایک ایسی محفلِ نشاط کا اہتمام کرتی ہے جس میں دادا گیر نے چھُپ کر اُن دونوں کو جُفتی کرتے ہوئے دیکھنا ہوتا ہے۔ ریکاردو، دادا گیر، کو کمرے میں کیے گئے گہرے اندھیرے میں دیکھ لیتا ہے اور اُسی وقت اُس عمارت میں سے نکل بھاگتا ہے ا ور بَیڈ گرل سے مایوس ہو کر پیرس میں، ایک کسک کے ساتھ، اپنی زندگی کرنے لگتا ہے۔
ریکاردو اُسے یاد رکھے ہوئے بھول چُکا تھا کہ ایک دِن وہ اُسے ملتی ہے۔ وہ، ریکاردو کو کوئی دوسری عورت لگی، وہ اُسے خوف زدہ اور بیمار نظر آتی ہے اور ریکاردو بَیڈ گرل کو اپنے گھر لے جاتا ہے۔
بَیڈ گرل کے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں، ریکاردو کو شک تھا کہ اُسے ایڈز ہو گیا ہے۔ بَیڈ گرل کی فَرج اور بڑی آنت کا آخری حصہ دھات والے اوزار کے دخول سے بُری طرح زخمی ہو چکے تھے اور ذہنی طور پر وہ ایک نفسیاتی کھنڈر بن چُکی تھی۔ وہ غسل خانے میں اپنی ضروریات کے لیے جاتی تو اپنا خوف دور کھنے کے لیے ریکاردو کا ہاتھ تھامے رہتی۔
بنک سے قرض لے کر ریکاردو اُس کے اعضا کی مرمت کروا کے اُسے نفسیاتی طور پر تعمیر کرتا ہے۔ بَیڈ گرل ابھی تک دُنیا میں جعلی شناختوں کے ساتھ محوِ سفر رہی تھی اور اب وقت تھا کہ وہ کہیں مُستقل زندگی گُزارے۔ ریکاردو نے مشورہ دیا کہ وہ پیرس میں ہی رہے اور شناخت کے کاغذات دُرست کرنے کے لیے اُس کے ساتھ شادی کر لے، چناں چہ وہ شادی شدہ زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ بَیڈ گرل نے ایک کیٹرنگ فرم میں ملازمت کر لی اور ریکاردو کے ساتھ وہ ایک پُر سکون زندگی گزارنے لگی۔
ایک دِن بَیڈ گرل نے ریکاردو کو بتایا کہ وہ اُس کے ساتھ تنگ سے گھر کی زندگی سے اُکتا چکی تھی اِس لیے وہ اُسے اُس مرتبہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا رہی ہے۔ ریکاردو شکست خوردہ، مایوس، زخمی انا کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش میں فالج کے معمولی سے حملے کی زد پر آ جاتا ہے۔
ریکاردو کی بیماری سے اُس کے جسمانی معمولات پر کوئی خاص اثر تو نہیں پڑا، صرف اُس کے کام کرنے کی رفتار کم ہو گئی جس کے نتیجے میں اُسے ملنے والے کاموں میں کمی آ گئی اور دوسری طرف اُس کے بنک کے قرضے پر بڑھتے ہوئے سود کی وجہ سے اُسے اپنا گھر بیچنا پڑ گیا۔
اُس کی اپنی عمر سے آدھی لڑکی کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے اور وہ اکٹھے رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ لڑکی سٹیج سیٹ ڈیزائنر ہے اور اُسے سپین میں بورخیس کے ایک کھیل کے سیٹ کی آرائش اور روشنی کا کام ملتا ہے۔ وہ لڑکی اپنے کام میں مصروف ہوتی اور ریکاردو ایک کیفے میں بیٹھا تمام دِن فکشن کے ترجمے کرتا۔
اطالوی لڑکی کی بورخیس کے کھیل کے پروڈیوسر اور کوریوگرافر میں دل چسپی کی وجہ سے ریکاردو اُسے جرمنی میں شو کرنے پر جانے سے نہیں روکتا اور اُسی کیفے میں اپنے تراجم کیے جاتا ہے کہ ایک دِن بَیڈ گرل وہاں پہنچ جاتی ہے۔
کیفے میں ریکاردو اور بَیڈ گرل دیر تک اپنا رشتہ طے کرنے میں ایک دوسرے پر اِلزام لگاتے ہیں؛ ریکاردو اُسے بے وفا اور بَیڈ گرل اُسے کم سِن سے جنسی رغبت رکھنے والا کہتی ہے۔ آخر کار ریکاردو اُسے اپنے کمرے میں لے جاتا ہے۔ بَیڈگرل کے پیٹ پر اُس کی جنس سے لے کر ناف تک ایک گہرے چیرے کا نشان تھا اور اُس کی چھاتیاں بھی کاٹ دی گئی تھیں۔
بَیڈ گرل کیٹرنگ فرم کی مالک کے بوڑھے خاوند کے ساتھ بھاگ کر گئی تھی، بوڑھے نے اُس کے کینسر کا علاج کروایا جو پھر سے زندہ ہو رہا تھا ،ایک صحت افزا مقام پر گھر لے کر دیا اور اتنے شئیر خرید کر دیے جو اُسے زندگی بھر کے لیے کافی تھے۔ اب وہ یہ سب اُسے دینے کے لیے آئی تھی۔
اُس دِن کے بعد وہ سینتیس دن زندہ رہی اور بوڑھے کے دیے گھر میں فوت ہو گئی!
ناول میں دو اہم کردار ہیں، جزوی کردار اتنے اہم نہیں لیکن وہ کہانی کو ایک قوتِ محرکہ ضرور بہم پہنچاتے ہیں۔ ریکاردو ایک مجرد اور بے کیف زندگی گزارتا ہے جو پچاس اور ساٹھ کی دھائی میں ممکن نہیں رہا تھا۔ اُس نے ساری زندگی بَیڈ گرل کے انتظار میں گزاری اور وہ اپنی بے راہ روی کے سفر سے جب بھی واپس آئی تو وہ اُسے ایسے ہی ملا جیسے وہ اُس کے علاوہ کسی کی وفادار نہیں تھی۔
دوسری طرف بَیڈ گرل کو اپنے سوا کسی سے محبت نہیں تھی۔ وہ اُس بیک گراؤنڈ سے آئی تھی جہاں غربت تھی اور یہ اُس کا اپنی خاندانی غربت سے بدلہ لینے کا ایک طریقہ تھا۔ للوسا، تئیس برس کی عمر میں پیرس چلا گیا تھا اور وہاں اُس نے فلابئیر کا ناول ’میڈم بوواری‘ پڑھا۔ یہ ناول ایک عرصے تک اُس کے ذہن پر نقش رہا چناں چہ میڈم بوواری اور بَیڈ گرل میں مماثلت دیکھی جا سکتی ہے۔
میڈم بوواری ایک کم زور عورت تھی۔ مضافات میں زندگی گزارتے ہوئے اُس سفر کو ترجیح دی جس میں اُس نے ہوس اور خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ بَیڈ گرل نے غربت کی زندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے مرد کو وسیلہ بنایا اور ہوس اور خواہش کے اُس سفر پر چل نکلی جس کا کہیں انجام نہیں تھا۔
مضافاتی زندگی نے میڈم بوواری کے اندر ایک خلا پیدا کر دیا تھا جسے پُر کرنے کے لیے اُس نے ہوس اور خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ذرائع سے بڑھ کر زندگی کرنے لگی جو اُس کے زہر کھا کر مرنے پر اختتام پذیر ہوئی۔
بَیڈگرل نے زندگی کو ایک اور نظر سے دیکھا۔ وہ میڈم بوواری کی طرح مضافاتی زندگی کی تنگی اور قید کو سمجھتی تھی اور اُس نے اپنے جسم اور دماغ کو سیڑھی کے طور پر استعمال کیا۔ اُس کے اِس نظریے میں ہوس اُس طرح ایک کردار نہیں رہی جیسے میڈم بوواری میں تھی۔
اگر اُس کی جنسی زندگی کا، ریکاردو کے ساتھ تعلق میں، موازنہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ کسی طور معمول کا رشتہ پسند نہیں کرتی تھی۔
شاید یہی پرورژن اُسے ایسے مردوں کے پاس لے گئی جو اُس سے عمر بڑے تھے۔ناول کے دونوں کردارذاتی طور پر دنیا سے کٹے ہوئے تھے، ریکاردو نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی اِس طرح بسر کی کہ اُسے زیادہ کی کبھی خواہش نہیں رہی تھی۔ اُسے ترجمہ کرنا پسند تھا اور بطور مترجم اُس نے مالی استحکام حاصل کرنے کے بجائے اپنی سہولت کو ترجیح دی، اُس کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ روسی زبان سیکھ کر کلاسکس کا ہسپانوی یا فرانسیسی میں ترجمہ کرے۔
ناول کے جزوی کردار بھی بیگانگی کا شکار ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ہیں۔ ریکاردو کا ہم وطن دوست جو لندن میں سکونت پذیر تھا اور جس کے گھر میں ریکاردو اور بَیڈ گرل ملابھی کرتے تھے، اپنا اکلاپا مٹانے کے لیے ہپیوں اور دسرے ایسے آزاد خیال گروہوں سے ملنے لگا جو حیوانوں والی جنسی زندگی گزارنے میں یقین رکھتے تھے۔
وہ ایک ایسی بیماری سے مرا جس کا اُس وقت کسی کو علم ہی نہیں تھا اور تب تک ایڈز پر سے پردہ نہیں اُٹھایا جا سکا تھا۔ بَیڈ گرل کا باپ غُربت اور بیٹی کے کٹھور پن کا ڈسا ہوا سمندر سے دوستی لگا لیتا ہے۔ وہ سمندر کی زبان سمجھنے لگتا ہے اور لہروں کو روکنے کے لیے بنائی جانے والی دیواروں کی تعمیر اُس کی سفارش کے بغیر نہیں کی جاتی اور سمندر اُسے کبھی مایوس نہیں کرتا۔
اُسے نیم پاگل تصور کیا جاتا ہے۔ کیٹرنگ فرم کے مالک کا خاوند ایک بوڑھا آدمی ہے جسے گھر میں نظر انداز کیا جاتا ہے اور وہ اپنے اکلاپے کا حل بَیڈ گرل کے ساتھ بھاگ جانے میں سمجھتا ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کے لیے اُن کی دولت، عزت اور وقار کی علامت تھا، اُس کے بھاگ جانے سے خائف ہو گئے کہ وہ جائیداد بَید گرل کے نام نہ کردے چناں چہ اُسے پاگل قرار دینے کی عدالتی کارروئی آغاز کر دیتے ہیں۔
اِس سلسلے میں ایک اور ناول کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے اور وہ ناول ہے سنکلئیر لوئی کا ’مین سٹریٹ‘۔ مین سٹریٹ میں کیرل بڑے شہر سے مضافات میں جاتی ہے۔اُس کے لیے وہاں ہر چیز مختلف اورنئی ہے اور وہ جلد ہی اِس مضافاتی یکسانیت سے اُکتانا شروع ہو جاتی ہے۔ اِس طرح بین الاقوامی ادب کی تین اہم عورتیں مضافاتی زندگی سے خائف اپنے اپنے فیصلے کرتی ہیں۔(
بَیڈ گرل پیرو کے دارالخلافے کی رہنے والی ہے لیکن اُس کی سوچ میں لیما بھی ایک مضافات ہی ہے۔) کیرل کو مضافات پسند تھے اور وہ کسی چھوٹے قصبے یا گاؤں میں ایک مین سٹریٹ بنانا چاہتی تھی۔ کیا تینوں نے مضافات سے اپنے اپنے طریقے سے بدلہ لیا؟
بَیڈ گرل اپنے جسم کے اہم اعضا کینسر کی نظر ہونے کے بعد جب ریکاردو سے میڈرڈ میں ملتی ہے تو وہ جانتی ہے کہ اُس کی زندگی اب اپنے اختتام پر ہے۔ وہ ایک بھاری رقم خرچ کر کے، کسی سُراغ رساں ایجینسی کے ذریعے، ریکاردو کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
وہ اُسے صرف دو چیزوں کے لیے ڈھونڈتی ہے: یہ بتانے کے لیے اُس نے زندگی میں اُس کے سوا کسی سے محبت نہیں کی اور بوڑھے کی دی ہوئی دولت اور جائیداد اُس کے نام کرنا چاہتی ہے۔ بَیڈ گرل نے ریکاردو کے ساتھ کبھی اپنی محبت کا اقرار تو نہیں کیا تھا لیکن اُس کا ہر مشکل مرحلے میں اُس(ریکاردو) کے پاس پناہ حاصل کرنا بھی ایک طرح سے اعترافِ محبت ہی تھا جسے ریکاڈواپنی محبت کے وفور میں نہ سمجھ سکا۔
یا وہ اُس کے پاس اِس لیے آتی تھی کہ وہ جانتی تھی کہ ریکاردو کے لیے ناکامئِ محبت کی اذیت ہی اُس کی اِس مادی دنیا میں کامیابی ہے۔ بَیڈگرل اپنی اِس سوچ میں زیا دہ غلط بھی نہیں تھی، ریکاردو اُسے چاہتے ہوئے بھی رد نہ کرسکا اور اگر رد کر بھی دیتا تو فوراً قبول کر لیتا۔ اُنھیں اپنے مستقل اکلاپے کا احساس تھا اور وہ اپنی اپنی زندگی کے خالی غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے کچھ دیر ایک دوسرے کو از سرِ نو تعمیر کر کے ایک دوسرے میں پناہ ڈھونڈ لیتے۔
بَیڈ گرل، بیگانگی کے شکار ایسے دو لوگوں کی کہانی ہے جو ایک دوسرے سے دور ہوتے ہوئے غالباً دور نہیں تھے اور وہ جب بھی قریب آئے، دور ہونے کا خوف اُن کے اوپر تلوار کی طرح لٹکتا رہا۔ اِس خوف میں اُن کی اپنی اندرونی بے یقینی کے علاوہ خارجی عوامل بھی شامِل تھے۔ بَیڈ گرل کو ہروقت اپنے اُس وقت کے خاوند یا رکھنے والے کا خوف رہتا۔
یہاں دونوں فریق (بَیڈ گرل اور اُس کا مرد )ایک دوسرے کونقصان پہنچانا چاہتے تھے کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کو استعمال کر رہے تھے۔ فرانسیسی سفارت کار اُس کے ذریعے اپنی نا جائز دولت سوئس بینکوں تک پہنچا رہا تھا جب کہ لکھ پتی گھوڑا پال اپنی انا کی تسکین کے لیے اُسے ساتھ رکھنا چاہتا تھا اور وہ ایک انتہائی حاسد آدمی بھی تھا اور جاپانی دادا گیر اُس سے مردانہ کم زوری دور کرنے کے لیے افریقی ہاتھی دانت اور دوسرے جانوروں کی چربی سے بنائے گئے پاؤڈر، منشیات اور نوادرات وغیرہ سمگل کرواتا اور اجتماعی جنسی محفلوں میں اپنی پرورژنیں اُس پر آزماتا اور بوڑھے کے ساتھ اُس کا بھاگنا زندگی کی یکسانیت کو دور کرنا تھا۔
زندگی کا یہ ڈھنگ بَیڈ گرل نے اپنے لیے خود ہی چُنا تھا اور اگراُس کی صحت اجازت دیتی تو وہ اِسے اُس وقت تک جاری رکھتی جب تک وہ جاری رکھ سکتی۔ جہاں بَیڈ گرل نے زندگی کو شکست دینے کے لیے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ اُس وقت تک جنگ لڑی جب تک اُس کے ہتھیار کھنڈے نہیں ہو گئے، اِس کے برعکس ریکاردو کا نظریہ بالکل مُختلف تھا، وہ جنگ نہیں لڑنا چاہتا تھا۔
بَیڈ گرل اُس کے لیے پہلے ایک ہمیشہ زند رہنے والا تصور تھی اور پھر اُس کے لیے اپنی جسمانی نا آسودگی کے باوجود ایک زندہ حقیقت بن گئی اور وہ کوشش کے باوجود اُسے اپنی سوچ سے الگ نہ کر سکا۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح بَیڈ گرل کے ساتھ شادی کر کے ایسی زندگی گزارنا چاہتا تھا جس میں اُسے ایک روحانی سکون میسر ہو۔
بَیڈ گرل نے اُسے ہمشہ جذباتی احمق کہتے ہوئے ٹال دیا۔ پانے اور کھونے، ملنے اور نا ملنے نے اُسے زندگی کے ایسے چوراہے پر کھڑا رکھا جہاں صرف بے یقینی اور محرومی کا گزر تھا۔
یہ ناول صرف بَیڈ گرل اور ریکادو کی محبت کی کہانی نہیں، اِس میں پچھلی صدی کی پچاسویں، ساٹھویں اور سترویں دھائیوں میں پیرو کے سیاسی اور معاشی حالات کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
گو ریکاردو پیرو سے مستقل طور پر نقل مکانی کر چکا ہے لیکن وہ خطوط اور ایک آدھ بار وہاں جا کر مایوسی کے ساتھ اپنے ملک کے معاملات نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں دیکھتا ہے۔ اِس کے بر عکس بَیڈ گرل کو اپنے ملک کے سیاسی اور معاشی حالات سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔
اُس کے کردار میں ایک عجیب طرح کی خود غرضی تھی۔ اُس کے ذہن میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی منصوبہ پروان چڑھ رہا ہوتا ہے اِس لیے وہ کبھی کھل کر اپنے خیالات کسی پر ظاہر نہیں کرتی۔ اُس کی شخصیت کے دو غلاف تھے، ایک وہ جس میں وہ ریکاردو کے ساتھ اپنی محبت کا اعتراف نہیں کرتی اور دوسرا جس میں وہ سوائے جاپانی دادا گیر کے، اپنے ہر خاوند کو دھوکا دیتی ہے۔
کیا اُسے جاپانی بدمعاش کے ساتھ محبت تھی یا وہ اُس سے خائف تھی؟ اُس کے ساتھ رہتے ہوئے اُسے متعدد جنسی اذیتوں سے گزرنا پڑا لیکن اُس نے ریکاردو کو اپنے زخموں کے بارے میں کبھی سچ نہیں بتایا اوریہ جاپانی بدمعاش کا خوف ہی تھا جو اُسے سچ بتانے سے روکے ہوئے تھا یا کیا یہ صرف انا پرستی تھی؟
یہ بھی ممکن تھا کہ وہ جنسی اذیت کو پسند کرتی ہو اور اُس کا ریکاردو اور اپنے دوسروں خاوندوں کو چھوڑ جانے میں اُن کے معمول کے جنسی رُجحانات ہوں۔ بَیڈ گرل شکست و ریخت کی ایک علامت بھی ہے جب ریکاردو امن اور اُمید کی؛ اُس نے بَیڈ گرل کی بار بار کی بے وفائیوں کے باوجود اُسے اور اُس کے خیال کو اپنی زندگی سے کبھی الگ نہیں کیا۔
بَیڈ گرل اپنے دور کی بے یقینی، خود غرضی اور نا اُمیدی کو ظاہر کرتی ہے جب کہ ریکاردو انسانیت کے وسیع تر پہلو اُمید اور اعتبار کا نمائندہ ہے۔ بَیڈ گرل اِنسانی آزادی اور خود مُختاری کی ایک شکل ہے تو ریکاردو ثابت قدمی اور در گزر کرنے کی۔ ماریا ورگاس للوسا نے اِس ناول میں انسانی جذبات کی کھینچا تانی اور احساس کی گہرائی کو بہت چابک دستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
چار دھائیوں پر محیط ناول قاری کو تین برِ اعظموں میں لے جاتا ہے جہاں مختلف ادوار میں انسانی زندگی کے کئی چہرے سامنے آتے ہیں۔ یہ ناول محبت کی ایسی کہانی ہے جو سہولتوں کے بجائے انسانی جذبوں اور خواہشوں پر مبنی ہے!