پرانا دستور اور ملک ریاض کا وطنِ وطن عزیز
از، امر گل
بالآخر فائلوں کو پہیے لگ گئے اور بحریہ ٹاؤن کو پر.. ملک کی سب سے بڑی عدالت میں فیصلہ طے پا گیا اور مبلغ چار سو ساٹھ ارب کے حق مہر کے بدلے انصاف کی دلہن بحریہ ٹاؤن سے بیاہ دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ سپريم کورٹ کی قانونی لغت اب بحریہ ٹاؤن کی تشریح کن الفاظ میں کرے گی؟ میرا خیال ہے کہ یہ تشریح متوقع طور پر کچھ یوں ہو سکتی ہے:
بحریہ ٹاؤن کراچی: ایک ایسا پروجیکٹ، جسے سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا، جو بعد ازاں اسی غیر قانونی پروجیکٹ سے غیر قانونی طور پر کمائے گئے پیسوں کے عوض قانونی قرار پایا.
دیگر الفاظ میں: غیر قانونی طور پر قانونی!
مذکورہ تشریح شاید معاملے کی وضاحت کرنے کی بجائے اسے مزید الجھا رہی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے، کہ صورت حال ہی کچھ ایسی نادر و نایاب ہے.
سوال یہ ہے کہ کیا ملک ریاض کے اس قول زریں کو بھی اب قانونی حیثیت حاصل ہو گئی ہے کہ اس ملک میں فائلوں کو پیسوں کے پہیے لگا کر ہر نا جائز کام کروانا ممکن ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ جب مبلغ چار سو ساٹھ ارب میں ایک غیر قانونی پروجیکٹ قانونی بن سکتا ہے، تو کیا تین ہزار ساٹھ ارب میں ایک صوبہ اور تیس ہزار ساٹھ ارب میں یہ ملک خریدا جا سکتا ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا رات سے چاند کا چندہ اور ستاروں کا بھتہ وصول کر کے ہم اسے روشن و تاباں دن لکھ اور پکار سکتے ہیں؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ کہنا ٹھیک تھا کہ جنگ کے میدان کے بعد سب سے زیادہ نا انصافیاں عدالتوں میں ہوئی ہیں؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا انصاف قسطوں میں پیسے ادا کر کے خریدا جا سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ پھر بغیر پلاننگ کے پیدا ہو کر قسطوں میں مرنے والی غریب مخلوق انصاف کہاں سے اور کیسے خریدے؟ کیا ان کے لیے کوئی سستا بازار قائم ہو گا؟ کیا ان کے لیے کبھی انصاف کی سیل لگے گی؟
یہ تمام اخلاقی سوالات ہیں اور اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ جب پیسوں کہ بدلے حق میں فیصلہ دیا جا سکتا ہے تو ان سوالوں کا جواب بھی دیا جانا چاہیے!
چوہدری کتنا صاحب تو خوش ہو گئے
لیکن انکل کیوں حیران و پریشاں ہے
وہ سوچ رہا ہے کہ غیر قانونی قرار دیے جانے کی انتہائی حد پر پہنچنے کے بعد خرار سے ایک مٹھی بھر بھینٹ چڑھانے پر سندِ قبولیت۔ کیا یہ قانون کی کم زوری ہے، اخلاقیات کی بے بسی ہے یا پھر محض ایک تماشا؟