بلوچستان کے علاقے جنگل پیر علی زئی میں کئی دہائیوں سے افغان پناہ گزین آباد ہیں مگر حاجی فیض اللہ کی طرح ان میں سے متعدد ایک بار پھر شناخت کے مسئلے سے دوچار ہے۔
پرچون کے دکاندار حاجی فیض اللہ کے پاس پاکستان کا قومی شناختی کارڈ بھی تھا اور وہ انتخابات میں جمعیت علما اسلام کو ووٹ بھی دے چکے ہیں لیکن اب ان کا کارڈ بلاک کر دیا گیا ہے۔
’میرا نانا کراچی کے راستے حج کے لیے سعودی عرب گیا تھا۔ پھر میرا والد کوئٹہ ایئرپورٹ سے حج کے لیے گیا۔ میں بھی کوئٹہ سے حج کے لیے جا چکا ہوں۔ اب میرا بیٹا جو کہ ہماری چوتھی نسل ہے، جنگل پیرعلی زئی میں رہتے ہیں۔ ہمارے پاس شناختی کارڈ تھے جو اب بلاک ہو چکے ہیں۔ ہمیں ان 35 برسوں میں پہلے کوئی ایسی بڑی مشکل پیش نہیں آئی۔‘
پاکستان سے رضاکارانہ طور پر افغان شہریوں کا انخلا تو کئی سالوں سے جاری تھا لیکن قومی ایکشن پلان میں بھی ان کی واپسی کو شامل کر لیا گیا، ایسے کئی ہزار شناختی کارڈ بھی منسوخ کیے گئے جو افغان شہریوں نے قومی رجسٹریشن اتھارٹی کے بعض اہلکاروں کی معاونت سے حاصل کیے تھے۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو مردم شماری میں شامل نہ کیا جائے لیکن قوم پرست جماعتیں ان پناہ گزینوں کی موجودگی میں مردم شماری پر شک و شبہات کا اظہار کر رہی ہیں۔
نیشنل پارٹی تو مردم شماری کو ملتوی کرنے کا بھی مطالبہ کر چکی ہے۔ پارٹی کے صدر وفاقی وزیر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ وہ عسکری اور سیاسی قیادت کے سامنے یہ برملا کہہ چکے ہیں کہ ’اگر غیرملکیوں کی موجودگی میں آپ نے مردم شماری کرائی اور اس کے نتیجے میں ڈیموگرافیکل تبدیلی آئی تو ہم اور مشکل میں چلے جائیں گے۔ یہ جو دہشت گردی ہے اس کو بڑھاوا ملے گا اور بلوچ عوام ان نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔‘
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی بلوچستان کے اقتدار میں اتحادی ہیں، لیکن دونوں میں مردم شماری پر اتفاق نہیں۔
پی کے میپ کے سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور بلوچ قیادت مردم شماری نہیں چاہتی تھی کیونکہ بلوچ سمجھ رہے تھے کہ حقیقی مردم شماری ہوئی تو وہ اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔ پنجاب کو بھی خطرہ تھا کہ مردم شماری درست ہوئی تو پورے ملک کے مقابلے میں وہ کم ہوجائیں گے۔
سنہ1998 کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی مجموعی آبادی 65 لاکھ تھی جس میں بلوچی اور براہوی بولنے والوں کا تناسب 55 فیصد، جبکہ پشتو بولنے والوں کا 30 فیصد تھا۔
سنہ2011 کی خانہ شماری کے وقت بلوچستان کی کل آبادی کا تخمینہ دُگنا یعنی ایک کروڑ 30 لاکھ لگایا گیا تھا تاہم یہ اضافہ اُن علاقوں میں نظر آیا جہاں افغان پناہ گزیں آباد ہیں۔
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے 1998 کی مردم شماری کا بائیکاٹ کیا تھا۔ سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ ‘ہم نے بلوچوں اور مرکزی حکومت کو کہا کہ ایک مشترکہ کمیشن بنا لو جو مرکز کی طرف سے ہو یا دوسرے صوبوں کی طرف سے ہو۔ وہ آ کر مردم شماری کرے نہیں تو پشتون بلوچ کمیشن بنایا جائے جو دونوں علاقوں کی مردم شماری کرے لیکن اس کے لیے مرکز اور نہ ہی بلوچ تیار تھے۔ اب جس کی نیت میں گڑ بڑ ہو وہ شفافیت تو نہیں چاہتا اس لیے جرگے نے بائیکاٹ کیا۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘بلوچستان کی سب سے بڑی زبان پشتو ہے، اس کے بعد بلوچی، براہوی ہے اور سندھی ہے۔ ہماری آبادی کم از کم بھی 50 فیصد ہے، ہم پورے ملک کو چیلنج کرتے ہیں اگر درست مردم شماری ہو تو پشتون 50 فیصد نہ ہوں تو پھر ہم یہ تسلیم کرلیں گے کہ ہم بلوچوں اور براہویوں کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔’
وفاقی وزیر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ پچاس فیصد آبادی کا دعویٰ پشتون نہیں کر رہے بلکہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کر رہی ہے جو پشتونوں کی واحد نمائندہ جماعت نہیں۔
‘وہ الٹرا نیشنل ازم کی بات کرتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ آدھا بلوچستان پختونوں کا ہے۔ ان کے اس رویے اور انتہا پسند لائن کی وجہ سے ہم بعض اوقات مشکل حالات میں چلے جاتے ہیں۔’
بلوچستان کے علاقوں ڈیرہ بگٹی، کوہلو، آواران اور مکران بیلٹ میں جاری ریاستی آپریشن اور وہاں سے نقل مکانی کی وجہ سے بھی بلوچ قوم پرستوں کو مردم شماری کو تشویش ہے۔ ان علاقوں میں انتخابات کے دوران ووٹنگ کی شرح بھی کم رہی ہے جبکہ مردم شماری میں فوج کی شمولیت کے باعث لوگوں اور اداروں میں اعتماد کا بھی فقدان ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ صوبے میں گزشتہ 15 سالوں سے شورش جاری ہے جس میں گھر منہدم ہوئے اور جلا دیے گئے۔ لوگوں کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ اپنا وطن اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں آباد ہوں اس صورت میں مردم شماری کس طرح ہو سکے گی۔
‘آئی ڈی پیز جب تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جاتے میں سمجھتا ہوں کہ مردم شماری کرانا بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ایک اور بڑی زیادتی ہوگی۔’
مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر اسمبلی نشستوں میں اضافہ ہوگا اس کے علاوہ، قومی مالیاتی ایوارڈ اور ملازمتوں میں کوٹہ کا بھی تعین ہونا ہے۔ جس پر پہلے ہی پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں اختلافات کا شکار ہیں اور اس ‘آتش فشاں’ صوبے میں مردم شماری لاوے کی طرح پک رہے ہیں۔