بلوچستان سے افسانے : انجیر کے پھول
(محمد حمید شاہد)
کہتے ہیں، بابلی سلطنت کا پہلا بادشاہ نمرود نسبی لحاظ سے بلوص تھا۔ شام اور حلب کے وہ لوگ جو اوپر جا کر اسی سلسلہ نسب سے جڑجاتے ہیں۔ بلوصی کہلائے۔ یہ لوگ رومیوں کی دراز دستیوں سے تنگ آکر ایک وسیع اُجاڑ اور خشک وادی میں پناہ گزیں ہوئے جو وادی بلوص کہلائی ۔ یہی وادی آج کا بلوچستان ہے اور ا س میں بسنے والے بلوچ گزرے وقتوں کے بلوص ہیں۔
تاریخ اپنے بھید اتنی سہولت سے نہیں کھولتی جتنا ہم گمان کیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم فوراً کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ نہیں پاتے، پہنچ بھی جائیں تو بہت جلد پچھتانا پڑتا ہے کہ نئے نئے آثار ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ نئی حقیقتیں اپنے اسرارعیاں کرکے ہمیں پہلے فیصلوں سے انحراف تک لے آتی ہیں۔ انہی آثار کے وسیلے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بلوص بعد میں بلوش اور بعلوث کے ناموں سے پکارے گئے۔
ظاہر ہے ہر نام کی اپنی تاریخ اور تاریخ کے پہلو سے پھوٹتی اپنی دیو مالا ہوتی ہے۔ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ وابستہ کہانیوں کے بھی اپنے اپنے بھید ہیں۔ تاہم یہ سارے آثار اور حوالے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کل کے بلوص اور بلوش اور بعلوث ہی آج کے بلوچ ہیں۔ اورجہاں وہ آج کل بس رہے ہیں۔ یہ وادی کبھی بلوص ہوگی مگر اب بلوچستان ہوگئی ہے۔
شمال میں کوہ سلیمان کے مختلف سلسلے، مشرق میں کیرتھر اور پب کے پہاڑیاں، مغرب میں ایرانیوں کی قدیم تہذیب اور جنوب میں چار سو ستر میل تک سرحدوں کو چوم چوم کو پلٹنے والے بحیرۂ عرب کے وسیع پانیوں کا سلسلہ۔ اور اس کے بیچ وہ علاقہ پڑتا ہے، جسے دیکھنے نکلو تو حیرتیں سینوں پر چڑھ دوڑتی ہیں اور جاننے اور بوجھنے کو ذرا کریدو تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایک لاکھ سینتیس ہزار مربع میل کے اس علاقے میں پھیلے لگ بھگ چوبیس پچیس لاکھ انسانوں کے دُکھ سکھ نے کہانی کے وجود کو بھی ایک نئے لطف سے سرشار کیا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے بلوچی ہوں کہ براہوی، دونوں سامی الاصل ہیں۔ کوئی بلوچوں کو ترکمانی قرار دے دیتا ہے اور کچھ کے نزدیک یہ ایرانی ہیں۔ انہیں راجپوت یا پھر آریا ثابت کرنے والوں کے بھی اپنے اپنے دلائل ہیں تاہم بلوچ خود کو امیر حمزہ کی اولاد بتاتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کوہ حلب سے آئے تھے۔
عربوں کی طرح قبائلی نظام قائم کرکے رہنا اور ان کا، چاہے وہ رند ہو یا لاشاری ، کورائی ، بلیدی اور جتوئی، عربوں جیسی روایات کو امین ہوجانا ہمیں بلوچوں کی بات مان لینے پر مجبور کر تا ہے۔
براہویوں کا قصہ بھی بھید بھرا ہے۔ براہوی خود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نسبت سے جوڑتے ہیں۔ تاہم ان کے بارے میں اس حوالے سے مختلف روایات پڑھنے کو ملتی ہیں۔ گریرسن نے ان کی دراوڑی زبان سے قیاس قائم کیا تھا کہ ہو نہ ہو یہ یہیں کے مستقل باشندے ہیں۔
بعضوں کا خیال ہے کہ ان کا تعلق گوجر قبائل سے ہے۔ اور بعضے براہوی کے لفظی معنی پہاڑی آدمی سے انہیں مستقل بسنے والے قرار دیتے ہیں۔ لکھنے والوں نے انہیں ایرانی گوجر، کرد اور ترک مغول بھی لکھا ہے۔ تاہم یہ رئیسانی، مینگل، بزنجو اور بگٹی ہوں یا نوشیروانی، شاہوانی، رند، مری یا پھر مگسی، دیناری اور زہری ان کے ہاں بھی قبائلی نظام بڑامضبوط ہے۔ اور اس نظام کی بھی اپنی مستحکم روایات ہیں۔
اس سارے منظر نامے کو ذہن میں تازہ کرنے کے بعد اب ہم نہایت اعتماد کے ساتھ ان کہانیوں کے بہت قریب رہ کر کچھ وقت گزار سکتے ہیں، جو بلوچستان کی سرزمین پر بسنے والوں نے لکھیں اور وہ بھی یوں کہ ان کی خوشبو اور ان کا مزاج ہمارے تخلیقی وجود کا حصہ ہونے لگا ہے۔ یہ کہانیاں شہری زندگی کی پر پیچ گلیوں، بھرے پڑے دفتروں، لہلہاتے کھیتوں اور لمحہ لمحہ انسانوں کو نگلتے بازاروں سے نہیں پھوٹیں بلکہ انہیں سراوان اور جھالاوان کے علاقوں نے جنم دیا ہے اور وہ بھی کچھ اس طرح کے ان میں بلوچستان کی وسعتیں سماگئی ہیں، وسعتیں بھی اور ان وسعتوں پر محیط دُکھ کا آسمان بھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ بلوچی ، پشتو اور براہوی کہانیوں کو افضل مراد نے اُردو میں ایک مجموعے کی صورت مہیا کرکے اُردو کہانی پر ایک نئے ذائقے کا دریچہ وا کیا ہے۔ افضل مراد خود بھی امکانات سے بھرے ہوئے تخلیق کار ہیں۔ شعر کہتے ہیں، کہانی لکھتے ہیں اور خلوص نیت سے تخلیقی عمل سے جڑے رہتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کہانیوں کو ترجمہ کرتے ہوئے انہوں نے تخلیق نو کا سا سماں باندھ دیا ہے۔ یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے کہیں بھی کوئی جملہ اچٹا ہوا نہیں لگتا۔ مترجم نے زبان سادہ اور روں رہنے دی تاہم اس التزام کے ساتھ کہ ہر جملہ ایک دوسرے کے ساتھ گندھ کر آئے ہیں۔ سطروں میں یہ قرینہ بھی موجود ہے کہ ان میں وہ سارے بھید اور ساری روایات کی مہک کو بھی بس گئی جنہیں اس علاقے کی مٹی نے یہاں کی کہانی کے خمیر بنا یا ہوا ہے۔
کتاب کا نام ڈاکٹر تاج رئیسانی کے خوبصورت براہوی افسانے ’’ انجیر کے پھول ‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اسی نام سے تاج رئیسانی کے براہوی افسانوں کا مجموعہ بھی آچکا ہے۔ افضل مراد نے جن دیگر براہوی کہانیوں کو اُردو کے قالب میں ڈھال کر اس مجموعے کا حصہ بنایا ہے۔ ان میں ظفر علی مرزا کی ’’ چیخ ‘‘، وحید زہیر کی ’’ اَدھورے خواب ‘‘، آخری نظر‘‘ اور عارف ضیاء‘‘ کی ’’ بارش کی دعا‘‘ اور ’’ چرواہے کے گیتوں کی محبوبہ ‘‘ اثیر عبدالقادر شاہوانی کی ’’ ڈاکٹر ‘‘ اور خود افضل مراد کی تین کہانیاں ’’گمشدہ خطوط ‘‘ ، ’’آخری فیصلہ” اور ’’دوسرا سچ‘‘ شامل ہیں۔
دشت کی وسعت، خشکابوں کی زرخیزی کے صدیوں پرانے گیتوں کی عاجزی، رشتوں میں بندھی اور خدمت پرمامور لڑکیوں کے نہ ختم ہونے والے دکھوں کا سلسلہ، گواڑخ اور نیلی کے پھول، کوہ مردار کے دامن سے اٹھنے والی ماں کی چیخیں، چرواہے کے گیتوں کے سربستہ راز اور وہ اندھی ہوس، جس نے ڈاکٹر کے نشتر کو ڈاکو کا خنجر بنادیا، اپنی کینچلی بدلتا ہوا معاشرہ، یہ سب کچھ اور بہت کچھ ان کہانیوں سے پھوٹ کر ہمارے جامد مزاجوں پر قدرے مختلف رنگوں کی پھوار برساتا ہے۔ یوں کہ ہم بہت دیر تک اس پھوار تلے بھیگتے رہنا چاہتے ہیں۔
پشتو کی صرف تین کہانیاں اس مجموعے کا حصہ بنی ہیں۔ در محمد کاسی کی ’’2035‘‘ نصیب اللہ سیماب کی ’’ آب حیات‘‘ اور فاروق سرور کی ’’ پرندہ ‘ ‘ تاہم اپنے مزاج اور مہک کے اعتبار سے یہ اُن پشتو کہانیوں سے مختلف ہوجاتی ہیں جو ادھر صوبہ خیبر پختون خواہ میں لکھی جارہی ہیں اور تواتر سے اُردو میں ترجمہ ہورہی ہیں۔ کوئٹہ چمن روڈ پر سسکتی زندگی کا نقشہ ہویا بوجھ بن جانے والی قدیم روایات، وہ یخ بستہ ہواؤں کی یورشیں ہوں کہ جن سے ہر منظر جم جاتا ہے یا خان کا وہ ڈیرا جہاں وقت قلانچیں بھرتا ہوا بہت آگے نکل گیا ہے، اپنے بچوں کے لیے لمبی حیاتی کی دعا مانگتی ماں کی ہتھیلیوں پر اُگ آنے والا شہادت کا سرخ پھول ہو یا وہ پرندہ جو کبھی بولتا تھا تو امن ہو جایا کرتا تھا؛ یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے ہر واقعہ اور کہانی کا ہر موڑ تا زہ تازہ اور مختلف لگتا ہے۔
بجا کہ کہیں کہیں کہانی لکھنے والوں کی معصومیت جھلک دینے لگتی ہے مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ بہت سے مقامات پر کہانی خود اس بچے کی طرح معصوم ہوجاتی ہے جو اپنے ننھے منے پاؤں باپ کے بڑے بڑے بوٹوں میں ڈال کر بوسوں کا حقدار ہو جایا کرتا ہے۔
بلوچی زبان سے ترجمہ کی ہوئی کہانیاں پشتو اور براہوی کہانیوں کے مقابلے میں زیادہ تیکھی ہیں۔ اس مجموعے کے لیے افضل مراد نے جن بلوچی کہانیوں کو ترجمہ کیا ہے، ان کی تفصیل کچھ یوں بنتی ہے۔ غنی پرواز کی دو کہانیاں ’’تھوڑا سا پانی‘‘ اور ’’ دس دس کے چار نوٹ ‘‘ صورت خان کی ’’ قتل رحم دلی ‘‘ پروفیسر صبا دشتیاری کی ’’کہاں سے آئے ہو ؟‘‘ منیر بادینی کی’’ اور پھر گیٹ کھلا ‘‘ ڈاکٹر علی دوست بلوچ کی ’’ تاریک راہیں ‘‘، ڈاکٹر نعمت گچکی کی ’’کیا یہی زندگی ہے‘‘ ، گوہر ملک کی دو کہانیاں ’’اور بلوچ نے مجھے دھکا دیا ‘‘ اور ’’ دادی کیوں تنہا ہے‘‘، حکیم بلوچ کی ’’ بے گناہی کا گناہ ‘‘ اور پروفیسر عزیز بگٹی کی کہانی ’’ ہانی اب بھی بے بس ۔‘‘
میں نے ان کہانیوں کو تیکھا اس حوالے سے کہا ہے کہ ان میں معنی کا وفور کچھ زیادہ اور بہاؤ قدرے تیز ہے۔ جہاں جہاں سطروں کی اندر طنز چھپا ہوا ہے وہ بھی بہت زہرناک، کٹیلا اور گہرا ہے۔ بے بسی اور محتاجی انسانی صورتوں کو کیسے بدل دیتی ہے اور ترو تازہ گٹھے ہوئے جسموں سے ساری طاقت پانی بن کر کیسے بہہ نکلتی ہے، تنگ دستی اور غربت کیسے مقروض کرتی ہے اور مقروض ہونے والے کس طرح اپنے لیے فیصلہ کرنے کے حق سے دستبردار ہو جاتے ہیں، اندرونی سامراج کس طرح عوام کے مرغوب نعرے لگا کر انہیں استحصال کا شکار بنا تا ہے۔ آخر وہ کون سا جذبہ ہے جس کی تسکین کے لئے ہم کچلے جانے والوں پر تالیاں بجاتے ہیں۔ گھنی چھاؤں والے جنگلوں، ٹوٹے پھوٹے مگر جنت جیسے گھروں اور بے غرض محبت کے ساتھ دیکھتی نگاہوں کے ہالے سے نکل کر ہم منافقت اور ریاکاری کے آہنی دروازوں کے سمت ہر باہر کیوں لپکتے ہیں۔
تاریکیوں کے راہی روشن راہوں کو کیسے مسدود کردیتے ہیں۔ ان ننگے بھوکے لوگوں کے لیے کیا زندگی کے کوئی معنی بنتے بھی ہیں، جو گلابی جاڑے کو اپنا لحاف قرار دیتے ہیں۔ یا وہ یخ راتوں کو ٹھٹھرا کر مرجانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ جو ترقی اور خوشحالی ہے یہ اس دھرتی کی سمت کیوں نہیں بڑھتی جس کا سینہ ایندھن بنالیا جاتا ہے۔ ہم خوش فہم کیوں رہنا چاہتے ہیں۔ اور وہ کیا اسباب ہیں کہ ہم تنہا ہوتے جارہے ہیں۔ روشن روایات کے راستے کس طرح تاریک غاروں کی سمت مڑ کر ان میں گم ہوجاتے ہیں۔ اور حرص ، لالچ اور طمع کی وجہ سے کس طرح بے گناہی بھی گناہ بن جاتی ہے۔
ہماری عورت ماں بہن بیٹی اور بیوی کے معزز رشتوں میں بندھ کر بھی بے بس اور لاچار کیوں ہے اور وہ کون لوگ ہیں جنہیں ہم ہر بار اپنے استحصال کا اختیار دے دیتے ہیں ۔۔۔ سوال ۔۔۔ سوال ہی سوال ۔۔۔ اور ہر سوال اس تیز دھار خنجر جیسا ، جو پوست پھاڑتا، ماس چھیدتا دل کو چھونے لگتا ہے۔ بلوچی کہانیوں کا یہی وصف انہیں اس مجموعے کی براہوی اور پشتو کہانیوں سے مختلف کر دیتا ہے۔ تاہم مٹی اور روایات کی مہک ان کہانیوں میں بھی پوری طرح رچی بسی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں ریورینٹر رمیئر نے پہلی پہل 1907ء میں براہوی کی سترہ کہانیاں، ایک ناول اور آٹھ نظمیں جمع کرکے شائع کی تھیں۔ اسی برس لانگ ورتھ ڈیمز نے بلوچی زبان کے قدیم ادب کو یکجا کیا۔ بلوچی، براہوی اور پشتو کہانیوں کے تراجم کا یہ مجموعہ مرتب کرکے افضل مراد اسی قدیم روایت سے جڑ گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ افضل مراد کی یہ کاوش بلوچستان میں نہ صرف کہانی کے فروغ کے لیے انجیر کا پھول ثابت ہوگی، اس کتاب کی اشاعت سے اردو افسانے پر بھی ایک نئے ذائقے کا دریچہ وا ہوگا۔