بلتی اور اردو زبان کا صوتی،املائی اور معنوی اشتراک
ڈاکٹر جابر حسین
بلتی “بلتستان” میں بولی جانے والی مقامی زبان کا نام ہے۔بظاہر بلتستان کے نام ہی کی مناسبت سے یہاں بولی جانے والی زبان کو “بلتی” کہا جاتا ہے۔”پاکستان کا ثقافتی انسائیکلوپیڈیا” میں بلتستان کا محلِ وقوع ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
“پاکستان کے انتہائی شمال میں سلسلہ کوہِ قراقرم و ہمالیہ کے درمیان دس ہزار ایک سو اٹھارہ مربع میل پر پھیلا ہوا پہاڑی علاقہ بلتستان کہلاتا ہے جو سکردو،خپلو،شگر،کھرمنگ،رونگ یُل اور گلتری کی وادیوں پر مشتمل ہے۔۔۔بلتستان کے جنوب میں وادئ کشمیر،مشرق میں لداخ و پُوریگ ،مغرب میں گلگت اور دیامر کی وادیاں واقع ہیں جبکہ شمال میں کوہِ قراقرم کے برف پوش سلسلے بلتستان کو چینی صوبہ سنکیانگ سے جدا کرتے ہیں”
پاکستان کا ثقافتی انسائیکلو پیڈیا،جلد اول شمالی علاقہ جات،لوک ورثہ اسلام آباد،س ن،ص ۲۱۱
“بلتی”زبان بنیادی طور پر “تبتی” زبان کی ایک شاخ کہلاتی ہے۔خطہ بلتستان کا ایک قدیم نام”تبت خورد” بھی ہے جس کے معنی “چھوٹا تبت” کے ہیں۔”بلتی” زبان کا قدیم نام” تبتی” تھا۔ تبتی زبان
“بلتستان، بھوٹان،نیپال کے مشرقی علاقوں،لداخ،کرگِل اور چین کے صوبہ یونن،گانسو اور شنگھائی میں باہمی جغرافیائی اور تلفظ و لہجے کے فرق کے ساتھ بولی اور سمجھی جاتی ہے”اسنائیکلو پیڈیا، ص۲۱۷
دھیرے دھیرے بلتستان میں رائج تبتی زبان کو اسی علاقے کے نام کی مناسبت سے “بلتی” کہا اور لکھا جانے لگا اور اب یہی نام ہی رائج ہو چکا ہے۔ گلگت بلتستان کا جو علاقہ بلتستان کہلاتا ہے اس کی وادیوں شگر،خپلو،کھرمنگ، روندُو میں اس وقت جو زبان بولی ،سنی اور سمجھی جاتی ہے وہ”بلتی” زبان ہے۔بلتستان کے بعض علاقوں اور وادیوں میں بلتی آمیز “شنا” زبان بھی بولی جاتی ہے لیکن مرکزی اور بڑی زبان پورے بلتستان میں “بلتی” ہی ہے۔
اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں بلتی زبان کے حوالے سے لکھا گیا ہے” بلتستان والوں کی زبان لداخی اور تبتی زبانوں کی مخلوط صورت ہے۔اس میں عربی اور فارسی الفاظ کی بھی قدرے آمیزش ہے جو اسلامی اثر و نفوذ پر دلالت کرتے ہیں”
اردو دائرہ معارف اسلامیہ،جلد چہارم،دانشگاہ پنجاب،لاہور،۱۹۶۹ء،ص۷۵۴
تبتی/بلتی زبان کا ابتدائی رسم الخط”اَگے”کہلاتا تھا جو بلتستان میں اس وقت رائج و مرسوم نہیں۔”تبت اور لداخ میں اس وقت بھی یہی قدیم رسم الخط رائج ہے۔”ص۲۱۷
بلتستان میں اسلام کی آمد کے ساتھ جہاں اس علاقے کی تہذیب و ثقافت،مذہب و عقائد اور طرز بود و باش وغیرہ میں تبدیلی آئی وہاں بلتی زبان کا رسم الخط بھی بدل گیا اور “اَگے” کی جگہ فارسی رسم الخط” نستعلیق/نسخ” نے لے لی اور “اب تک کا تمام بلتی ادبی سرمایہ اسی فارسی رسم الخط میں موجود ہے”ص ۲۱۷
اب تک کی تاریخ کے مطابق ۱۸۴۰ء میں بلتستان پر ڈوگرہ راج قائم ہوا ۔ڈوگرہ راجدھانی میں بلتستان کے لوگوں کا کشمیر اور کشمیرکے راستے ہندوستان آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔بلتستان کے لوگ تلاشِ معاش اور وسائلِ حیات فراہم کرنے کی غرض سے پاپیادہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کا سفر کرنے لگے۔یوسف حسین آبادی کے خیال میں یہی مزدور طبقہ”وہ اولین بلتی افراد ہیں جو عوامی سطح پر بلتستان میں پہلی بار اردو زبان درآمد کرنے کا سبب بنے”
یوسف حسین آبادی،بلتستان میں اردو تصانیف اور تالیفات،مشمولہ:پاکستان میں اردو،تیسری جلد،مرتبین:پروفیسر فتح محمد ملک،سید سردار احمد پیرزادہ،تجمل شاہ،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،طبع اول ۲۰۰۶ء،ص۳۲۵
پروفیسر فتح محمد ملک نے’’ شمالی علاقہ جات میں اردو زبان و ادب‘‘کے پیش لفظ میں لکھا ہے ’’انیسویں صدی کے اوائل سے لے کر بیسویں صدی کے اواخر میں فاٹا کے قیام تک اردو شمالی پاکستان کی دفتری، سرکاری، عدالتی اور تدریسی زبان رہی ہے۔‘‘ ۱ اس رائے کے بعد ڈاکٹر عظمیٰ سلیم کے اس نقطۂ نظر کو ملاحظہ کیجیے:
’’بلتی زبان اردو کے شانہ بشانہ چلتی آرہی ہے لہٰذا دونوں کا ایک دوسرے سے لسانی اشتراک کوئی عجیب بات نہیں‘‘۲
ان دو اقتباسات کے اندراج سے یہاں محض اس نتیجے تک رسائی مقصود ہے کہ جس طرح پاکستان کے مختلف صوبوں کی مقامی زبانوں اور بولیوں کا گہرا تعلق پاکستان میں بولی جانے والی اردو زبان سے ہے بعینہٖ کمیت و کیفیت کے کچھ فرق کے ساتھ شمالی علاقہ جات میں بولی، لکھی اور سمجھی جانے والی زبانوں اور بولیوں کا بھی پاکستانی اردو سے ایک مضبوط لسانی، املائی اور معنوی ربط و تعلق ہے۔ اس ربط و تعلق کی تحقیق و تلاش فی الوقت مقامی بولیوں کی ترقی و بقا کے لیے تو ضروری ہے ہی پاکستانی اردو کی جڑوں اور اسکے فروغ و استحکام کے لیے بھی اسکی ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے۔
’’مقتدرہ قومی زبان گزشتہ چند برسوں سے بڑی سرگرمی کے ساتھ سرزمین پاکستان میں اردو زبان و ادب کی جڑوں کی تلاش اور آبیاری میں منہمک ہے۔‘‘ ۳ پروفیسر فتح محمد ملک کی اس بات میں یقیناًبہت وزن اس اعتبار سے ہے کہ اب جبکہ پاکستان میں بولی جانے والی اردو اپنی ایک الگ شناخت اور پہچان کی حامل بن چکی ہے۔ یونیورسٹیوں کی سطح پر پاکستانی افسانہ، پاکستانی ناول، پاکستانی تنقید، پاکستانی غزل جیسے موضوعات پر اعلیٰ سطح کے تحقیقی اور تنقیدی کام ہوا بھی ہے اور ہو بھی رہا ہے۔ ادبی حوالے سے قطع نظر لسانی حوالے سے بھی پاکستان میں رائج اردو اور اس کی جڑوں کی مقامی و علاقائی زبانوں اور ان کے ادب میں تلاش و جستجو کا کام بھی پاکستانی اردو کے استحکام و فروغ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر فتح محمد ملک اور ان کے مخلص ساتھیوں کی شبانہ روز کوششوں کے نتیجے میں منظر عام پر آنے والی کاوش ’’پاکستان میں اردو‘‘ کی پانچ جلدیں اسی تلاش و جدوجہد کا ثمر ہیں۔‘‘ ۴
زیر تحریر مضمون میں شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان میں بولی جانے والی ایک اہم زبان ’’بلتی‘‘ اور اردو زبان میں موجود ان مشترک الفاظ کا ایک جائزہ پیش کیا جائے گا جو املا، معانی اور صوتی لحاظ سے دونوں زبانوں میں مشترک ہیں۔ اس اشتراک کا جائزہ لینے کے لیے تین (۳) طرح کے الفاظ پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
i۔ وہ الفاظ جو محض صوتی و املائی لحاظ سے اردو اور بلتی میں مشترک ہیں اور معانی کے لحاظ سے مختلف معانی کے حامل ہیں۔
ii۔ وہ الفاظ جو محض املائی لحاظ سے مشترک ہیں معنی اور صوت کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
iii۔ وہ الفاظ جو معنی کے لحاظ سے یکساں ہیں تلفظ و ادائیگی اور کسی حد تک املائی لحاظ سے مختلف ہیں۔
الف: سب سے پہلے ان الفاظ پر نظر ڈالیں گے جو اردو اور بلتی زبان میں صوتی اور املائی لحاظ سے مشترک اور معنی کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ ان الفاظ کی فہرست طویل ہے یہاں بطور مثال صرف چند الفاظ پیش کیے جائیں گے۔
اِن کے علاوہ مندرجہ ذیل الفاظ بھی اسی قبیل کے ہیں۔
چھَت، ہو، پُل، پھَل، شَر، اِن ، نَسْ، گُلْ، بِلْ، ہِلْ وغیرہ
ب: صوتی و املائی لحاظ سے مختلف جبکہ معنوی لحاظ سے یکساں الفاظ بھی تعداد میں ڈھیر سارے ہیں۔ بطور مثال چند لفظ ملاحظہ کیجیے۔
ج: لفظی اور املائی لحاظ سے مشترک جبکہ صوتی آوازوں کے لحاظ سے مختلف الفاظ کی تعداد بھی کم نہیں۔ بطور مثال درج ذیل الفاظ پر غور کیجیے۔
متذکرہ بالا کوئی نہ کوئی مشترک پہلو رکھنے والے الفاظ واصوات کے علاوہ اردو اور بلتی کے کئی الفاظ و اسماء ایسے بھی ہیں جو گلگت بلتستان میں مقامی سطح پر بولی جانے والی اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کے نام، روایتی کھانوں کے نام، رسوم و رواج کے نام و عنوانات وغیرہ اور بہت ساری اصطلاحات اب گلگت بلتستان میں رائج اردو زبان میں شامل ہو گئی ہیں۔ مثلاً درج ذیل بلتی کھانوں کے نام ملاحظہ کریں جو گلگت بلتستان میں بولی جانے والی اردو میں داخل و رائج ہوئے ہیں۔
آٹے سے بننے والی ایک قسم کی دیسی ڈش جو تکونی دانوں کی صورت میں بنتی ہے۔ خوبانی کی گری کے تیل اور اخروٹ کے پسے ہوئے گودے کیساتھ کھائی جاتی ہے۔
جَو سے بننے والی ایک حلوا نما خاص ڈش جو مخصوص تقاریب یا ایام میں دیسی مکھن / گھی کیساتھ کھائی جاتی ہے۔
آٹے کو گوندھنے کے بعد خمیرے کے چاول نما چھوٹے چھوٹے دانے بنائے جاتے ہیں پھر ان دانوں کو گوشت، مرچ مسالا ڈلے پانی میں خوب ابال کر کھایا جاتا ہے۔
گندم کے آٹے کو پانی سے لئی کی طرح بنا کر توے پر پکایا جاتا ہے۔ عام طور پر چائے کیساتھ اس (کِسِر) کو کھایا جاتا ہے۔ ۵
گندم کے دانوں کو پانی میں ابال کر کئی دن بگھوئے رکھا جاتا ہے۔ جب گندم کے دانے پھول جاتے ہیں تو انھیں پانی سے نکال کر سکھایا جاتا ہے پھر انھیں پیس کر آٹا سا بنایا جاتا ہے جسے ’’ہرژب‘‘ کہتے ہیں۔ ڈھائی تین سیر گندم کے سادہ آتے میں ایک پاؤ مِٹھا آٹا (ہرژب) ملا دیا جاتاہے جس سے بنی ہوئی میٹھی سی روٹی ’’ہرژب کُھور‘‘ کہلاتی ہے۔ ۶
مذکورہ الفاظ کے علاوہ بلتی کے بہت سے اور بھی الفاظ اور اصطلاحات ایسی ہیں جو گلگت بلتستان میں بولی جانے والی اردو میں اسطرح استعمال ہوتی ہیں جیسے خود بلتی زبان میں۔ یہ الفاظ اور اصطلاحات اس قدر زبان زدِ عام و خاص ہوچکی ہیں کہ
’’یہاں بولی جانے والی اردو نے بلتی کے اشتراک سے ایک نیا آہنگ اختیار کیا ہے۔‘‘ ۷
اردو کم و بیش پورے پاکستان کی چھوٹی چھوٹی مقامی بولیوں کے اشتراک سے ان کے اپنے اپنے محدودومخصوص جغرافیوں اور دائروں میں قومی زبان ہونے اور رابطے کی زبان ہونے کا فریضہ ادا کر پارہی ہے۔ مقامی اور علاقائی بولیوں اور زبانوں سے اردو نے جذب و قبول کا سلسلہ اب بھی جاری رکھا ہوا ہے
۔ اردو کو علاقائی اور مقامی زبانوں کے قریب تر لاکر ان کے درمیان لسانی، ادبی اور تہذیبی و ثقافتی اشتراک پیدا کرنا نہ صرف قومی وحدت و اتفاق کے معاملے میں اہمیت رکھتا ہے بلکہ پاکستانی ثقافت میں بے حد تنوع اور رنگا رنگی پیدا کرنے کا بھی ایک نہایت اہم ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پروفیسر فتح محمد ملک قومی اور علاقائی زبانوں کو قریب تر کرنا ایک قومی فریضہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ان کے مابین لسانی، ادبی اور تہذیبی لین دین کی خوشگوار فضا قائم کرنا ایک اہم قومی فریضہ ہے۔‘‘ ۸
دیگر قومی و علاقائی اور بین الاقوامی زبانوں سے جذب و انجذاب کا عمل اردو کے لیے کسی بھی دور میں کوئی پیچیدہ یا ناقابل عمل امر نہیں رہا ہے۔ اردو زبان کی اب تک کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس نے ہر دور میں دیگر زبانوں بالخصوص علاقائی اور دیسی بولیوں سے دل کھول کر جذب و قبول کا سلسلہ قائم رکھا حتیٰ کہ ڈاکٹر سلطانہ بخش کے مطابق
’’اردو میں شامل اصل دیسی الفاظ کا تناسب سوا تین (۳) فیصد ، سامی، فارسی اور ترکی زبان کے الفاظ
تقریباً ۲۵ فیصد اور یورپی الفاظ کا تناسب صرف ایک فیصد ہے۔‘‘ ۹
جذب و قبول کی اس بنیادی روایت کو نہ صرف جاری رکھنا اس وقت پاکستانی اردو کی ایک اہم ضرورت ہے بلکہ پاکستانی تہذیب و ثقافت کی یکجہتی اور قومی وحدت و ہم آہنگی کے لیے جذب وانجذاب کی اس روایت کو تیز اور مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ
’’قومی اور علاقائی زبانوں کے تخلیق روابط ہماری قومی تہذیب کی شیرازہ بندی اور توانائی کے ضامن بھی ہیں اور پاکستان کے قومی ادب کی صورت گر بھی‘‘۱۰
بلتی زبان اور اردو زبان کے باہمی لسانی، لفظی اور معنوی ربط کو باقاعدہ اور ٹھوس شکل میں سامنے لانے کے سلسلے میں اولین حیثیت محمد علی شاہ بلتستانی کی تالیف کردہ ’’بلتی اردو لغت‘‘ کو حاصل ہے۔ اگرچہ اس لغت میں بلتی زبان میں رائج و مستعمل تمام الفاظ کا اندراج نہیں ہو پایا ہے۔ مؤلف کو بھی اس بات کا پورا پورا احساس ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے بالکل درست لکھا کہ
’’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس (بلتی اردو لغت) میں سب بلتی الفاظ آگئے ہوں گے بلکہ دس فیصد سے زیادہ الفاظ اس میں نہ ہوں گے۔ میرا مقصد محض اس کام کی ابتدا کرنا ہے۔۔۔اس وقت اس لغت میں نو ہزار سے کچھ زیادہ الفاظ موجود ہیں۔‘‘ ۱۱
ضرورت اس مر کی ہے کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام علاقائی و مقامی زبانوں اور بولیوں کے تمام مشترک الفاظ، محاوروں، ضرب الامثال، تلمیحات، تشبیہات اور استعارات وغیرہ پر توجہ دے کر انھیں سامنے لایا جائے اور میڈیا کے ذریعے پھیلایا جائے نیز انھیں اردو لغات کا حصہ بنایا جائے تاکہ پاکستانی اردو اپنے نمو اور ترقی کے لیے اپنی ہی جڑوں اور اپنے ہی دیس سے توانائی حاصل کرنے کو اپنا شعار بنا لے۔ اس سلسلے میں ایک لغت نگار نے نہایت پتے کی بات کی ہے۔
’’صوبائی یا دیہاتی زبانوں کے وہ لفظ بھی جو اردو کی تعلیم یافتہ عوام کی زبان پر جاری ہیں اور ان کے معنی عام بول چال میں سمجھے جاتے ہیں وہ سب بھی لغت مین درج کیا جانا ضروری ہے۔‘‘ ۱۲
حوالہ جات
۱۔ فتح محمد ملک، پروفیسر ’’پیش لفظ‘‘ شمالی علاقہ جات میں اردو زبان و ادب‘‘ ڈاکٹر عظمیٰ سلیم، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبع اول ۲۰۰۸ء، ص ۳
۲۔ عظمیٰ سلیم، ڈاکٹر: شمالی علاقہ جات میں اردو زبان و ادب، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، طبع اول ۲۰۰۸ء، ص ۳۶۴
۳۔ فتح محمد ملک، پروفیسر ’’پیش لفظ‘‘ پاکستان میں اردو (جلد سوم)، مرتبین: پروفیسر فتح محمد ملک، سید سردار احمد پیرزادہ، تجمل شاہ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، طبع اول ۲۰۰۶ء ص ن
۴۔ ایضاً، ص ن
۵۔ حسرت محمد حسن، پاکستان کا ثقافتی انسائیکلوپیڈیا (شمالی علاقہ جات) جلد اول، لوک ورثہ اسلام آباد، ۲۰۰۴ء، ص ۲۲۲
۶۔ ایضاً، ص ۲۲۱
۷۔ عظمیٰ سلیم، ڈاکٹر: شمالی علاقہ جات میں اردو زبان و ادب، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ۲۰۰۸ء، ص
۸۔ فتح محمد ملک ’’پیش لفظ‘‘ بلتی اردو لغت، محمد علی شاہ بلتستانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبع اول، ۲۰۰۳ء، ص ج)
۹۔ سلطانہ بخش، ڈاکٹر’’اردو کی لسانی مفاہمت‘‘ مطبوعہ: اخبار اردو جلد ۳۰، شمارہ ۴، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، اپریل ۲۰۱۲، ص ۷
۱۰۔ فتح محمد ملک، پروفیسر ’’اردو اور پاکستان کی دیگر زبانوں کا ربط باہم‘‘ مطبوعہ: اخبار اردو، جلد ۲۵، شمارہ ۵، مقتدرہ قومی
زبان اسلام آباد، مئی ۲۰۰۸، ص ۳۷
۱۱۔ صبا، محمد علی شاہ، بلتستانی ’’مقدمہ‘‘ بلتی اردو لغت، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ۲۰۰۸ء، ص ح
۱۲۔ نسیم امروہوی’’پیش لفظ‘‘ جامع نسیم اللغات اردو، مرتبین: سید قاسم رضا نسیم امروہوی، سید مرتضیٰ حسین، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ۱۹۸۳ء، ص ۶
3 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.