بنجر زمینوں کو سیراب کرتا خالد فتح محمد
از، خلیق الرحمٰن
خالد فتح محمد سے میرا تعارف منشا یاد کے حوالے سے ہے جو اُن کے دیرینہ دوست رہے ہیں۔ منشا یاد کی زبانی خالد صاحب کا ذکر کئی بار سنا۔ اِن کی کہانیاں اور افسانے جو رسائل و جرائد میں چھپتے تھے گاہے گاہے پڑھنے کا اتفاق ہوتا رہا لیکن بالمشافہ ملاقات کچھ دن پہلے ہوئی ہے۔ فون پر اکثر بات ہوتی ہے اور ان کی پُرکشش شخصیت کا ایک ہیولا سا ذھن پر جو بنا تھا وہ ملنے پر اپنی تقویت کے ساتھ تکمیل کو پہنچا۔ خالد صاحب ایک مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں اور فون پر بھی ہمیشہ اپنائیت، محبت اور شفقت سے بات کرتے ہیں۔ نہایت committed ادیب ہیں اور ادب سے ادب کے ساتھ یہ وابستگی ایک مسلسل ریاضت اور محنت کا نتیجہ ہے۔ خالد فتح محمد کا ناول ’’کوہ گراں‘‘ بھی فکشن سے ان کی وابستگی کی ایک کڑی ہے۔
ان کی چند دیگر تخلیقات میں ’’ آئینے سے باہر چہرہ‘‘۔ ’’اے عشق بلا خیز‘‘ ، ناول ’’خلیج‘‘، ’’ بیرک ۷۲ کے قیدی‘‘ اور اب ’’کوہ گراں ‘‘ شامل ہوچکے ہیں۔ کوہ گراں کی کہانی اپنے لوکیل اور کردار نگاری میں ایک جیتی جاگتی زندگی کا شہکار ہے جو پاکستانی دیہی تہذیب کا روشن اور واضح چہرہ لے ہوئے ہے، یہ اِس حالیہ تہذیب و تمدن کا ایسا منظر نامہ ہے جو، آنے والے وقت اور زمانوں میں اپنے خد و خال کے ساتھ دکھائی دے گا۔ کہانی کا مرکز ی کردار حلیم پنجاب کے وسطی میدانوں کا باسی ہے۔ وہ ایک طویل عرصہ بعد اپنے آبائی علاقے کے جانب لوٹتا ہے۔
کہانی کار نے ابتدائی منظر نامہ کچھ اس ہنر مندی سے پینٹ کیا ہے کہ واپسی کا یہ سفر کھیتوں کھلیانوں، گاؤں کی گلیوں، پگڈنڈیوں، ٹوبے ٹبیوں اور چوباروں کی ایک زندہ تصویر بناتا ہوا کہانی کے اگلے مرحلوں ، واقعات اور مناظر سے بہت فطری بہاؤ کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ابتداً محسوس ہوتا ہے کہ یہ تعارف اور آغاز کچھ طویل ہو گیا ہے مگر در حقیقت یہ آغاز اِس پوری فضا کا احاطہ کر لیتا ہے جو اگلی کہانی کو مربوط کرنے کے لیے ناول نگار نے بڑی دل جمعی سے ترتیب دیا ہے۔ یہ حصہ ناول کے اگلے منطقوں، متنوع تجربات، اور مشاہدے کی ایک وسیع دنیا کا ایک ایسا مرحلہ ہے جس نے اس ناول کو خالی ، بنجر اور نا قابلِ کاشت زمینوں کے طویل علاقوں کی ایک اُجلی تصویر بنا کر رکھ دیا ہے۔
خالد فتح محمد کی کرافٹ اس مرحلے پر قابلِ دید ہے۔ فلیش بیک کی تکنیک کا بار بار استعمال کرتے ہوئے وہ مرکزی کردار حلیم کو راستوں، وٹوں، کھیتوں کے کناروں، کنووں ، ٹیوب ویلوں، ڈیروں، حویلیوں، کچے پکے راستوں، اور لہراتی فصلوں سے گزارتا ہوا گاؤں کی گلیوں اور صحنوں تک لے آتا ہے جہاں اس کی گزری زندگی کی رونق، سکون اور آسودگی محوِ خواب ہوا کرتی تھی۔ کیا دیکھتا ہے کہ
’’وہاں اب ٹابلیاں نہیں رہی تھیں۔ سامنے راجپوتوں کے گھرمنہدم ہو چکے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے حویلی والی گلی میں داخل ہوا۔ دیسو کے گھر کا دروازہ بند تھا۔ وہ اُسے ڈھونڈ نڈ نکالنے سے یک دم خائف ہو جاتا ہے۔ ‘‘
حلیم کے گاؤں میں پانی نہیں تھا۔ اُس نے عمر کوٹ سے آگے چھور کا ریگستان دیکھا ہوا تھا ۔آبادیاں وہاں تک تھیں جہاں پانی پہنچا دیا گیا تھا یا پھرزمین کی کسی گہری دراڑ میں سے نکالا جا سکتا تھا۔ زندگی پانی کے ساتھ ہی منسلک تھی اور ہے۔ پانی جو انسان کی زندگی کا محور ہے۔ ناول نگار نے اپنی تہذیبی اور سماجی زندگی سے ایک ایسے نقطے کو کشید کیا ہے جس نے اِس ناول کو موضوع کے حوالے سے انفرادیت بخش دی ہے۔ وہ بتا تا ہے کہ ریگستا ن میں رہنے والے انسان پتلے ہوتے ہیں۔ مستقل پانی کی کمی کا شکار اِن کے ڈھور ڈنگر بھی چربی سے عاری ہوتے ہیں۔
حلیم برسوں بعد اپنے جس گاؤں لوٹا تھا اب وہاں پانی نہیں ہے اور اسے آئے ہوئے اگر چِہ چند ہی گھنٹے گزرے ہیں لیکن اُسے کوئی پرندہ نظر نہیں آیا۔ اُس نے سوچا کہ درخت ہی نہیں تو پرند کہاں ہو ں گے؟ فصل ، حشرات الارض، سایہ، مردار، سبزہ، گھر، روڑی، نہر، چھپڑ کچھ بھی نہیں،اور حیر ت کی بات ہے کہ تپِ دِق زدہ مراد علی اور دیسو زند ہ تھے۔ کیا اُنھوں نے پانی کے بغیر جینا سیکھ لیا تھا۔ پانی کے بغیر کیسے جیا جا سکتا ہے، پانی تو زندگی ہے۔ کیا ان دونوں کے علم میں ہے کہ گاؤں میں کہیں پر ایک ایک بوند پانی رِستا ہے جسے چوس کر جیا جا سکتا ہے۔
یہاں حلیم کی ملاقات فاطمہ کی بیٹی گڈو سے ہوتی ہے جو کہانی کی ہیروئن اور ناول کے پورے منظر نامے کا ایک اہم جیتا جاگتا کردار بھی ہے۔ لڑکپن میں حلیم کا فاطمہ سے تعلق رہا تھا مگر وہ بنجر زمین کی سختی سے لڑتی اب اِس دُنیا سے رخصت ہو گئی ہے اور گڈو سے تعلق کے جو سلسلے مرحلہ وار ناول نگار نے کہانی میں بنائے ہیں وہ بہت فطری ہیں۔ اس کردار کی بَہ دولت خالد فتح محمد نے عورت کی نفسیات، اُس کی فطرت، اُس کی معصومیت، چتر چالاکیاں، طرح دار جنس اور محفوظ اور سایہ دار چھتنار تلاش کرنے کے اَزلی خواہش جیسے رویوں کو ناول کی کہانی میں یو ں اُجاگر کیا ہے کہ عورت اپنی معصومیت اور مکاریت کے ساتھ کبھی ہنسی تو کبھی روتی دکھائی دیتی ہے۔
گڈو کا یہ کردار عورت کی مجموعی سائیکی کا پَرتَو بن گیا ہے۔ کہانی میں جنسی رو بہت تیز ہے نہ بہت آہستہ۔ یہ ایک ضبط شدہ رشتہ ہے جو آخر میں تمام حدود توڑ کر ایک فطری تعلق میں ڈھل جاتا ہے جس کی خبرِ اِن کے سوا کسی کو نہیں۔ کہانی کا تانا بانا وقوعے کی رُو پذیری کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
’’وہ جانتا تھا کہ گڈو ایک تجربہ کار عورت ہے۔ وہ عمر کے اس حصے میں تھی جہاں شاید کچھ عرصے بعد وہ اپنی نمی کھو بیٹھے۔ وہاں پہنچ کر عورت ایک آدمی بننا شروع ہو جاتی ہے۔ وہ زہر خند سے سوچنے لگا کہ اسے آدمیوں کی ضرورت ہے لیکن اس آدمی نے رہنا تو عورت ہی تھی۔ ہر جسمانی تبدیلی اور ہر رویے سے۔‘‘
ہم دیکھتے ہیں کہ خالد فتح محمد نے ناول میں مرکزی کردارحلیم کی شخصیت کو اس طرح بُنا ہے کہ وہ اپنی تما م شخصی خوبیوں اور کم زوریوں کے ساتھ کہانی کا ایک زندہ کردار بن گیا ہے۔ وہ ایک پڑھا لکھا دیہاتی ہے اور اپنے گاؤں کا سب سے زیادہ ذھین انسان تسلیم کیا جاتا ہے۔ گاؤں آکر وہ لوگوں کی ایک خاص جماعت کو اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے منظم کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چٹان پورے گاؤں کے زیریں سطح پر نہیں ہو سکتی۔
ضروری نہیں کہ اپر چناب کینال جہاں تک جاتی ہے چٹان بھی وہیں تک جاتی ہو۔ وہ ہر حال میں گاوں کو سیراب دیکھنا چاہتا ہے۔ اس تگ و دو میں کہانی قاری کو کئی اَن دیکھے اور نا دیدہ راستوں سے گزارتی ہوئی پورے علاقے اور اس جیسے دوسرے علاقوں اور لوگوں کا بیانیہ اور قضیہ بن جاتی ہے۔ حلیم کا علاقہ اور اس جیسا بنجر کوئی دوسرا علاقہ کہانی کا اعماق وسیع کردیتا ہے اور ایک آفاقی لہر زیریں سطح پر ہمیں دکھائی دینے لگتی ہے۔
گاؤں میں پانی لانے کی حلیم کی اس منہ زور خواہش کو ناول نگار نے ایک پیرے میں یوں بیان کیا ہے:
’’گلوبل وارمنگ سے گلیشیئر پگھل رہے تھے۔ سائنس دان اور ماحولیا ت کے ماہر گلیشئروں کو پگھلنے سے روکنے کے طریقوں اور ذرائع پر غور کر رہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ ان کی کوشش ناکام ہو جائیں اور گلیشیر راتوں رات پگھل کر اس کی نہر کو پانی سے بھر دیں تا کہ اس کا گاوں پھر اسے آباد ہو جا ئے۔ وہ گلوبل وارمنگ کا واحد حامی تھا۔ اگر گلیشروں کے پگھلنے سے برفانی ریچھ اور دوسری برفانی مخلوق ختم ہو جائے گی تو ان کے نہ پکھلنے سے گڈو، مرا د علی اور دیسو ٹنڈا زندہ نہیں بچیں گے۔‘‘
ناول کا منظرنامہ ایک طبقاتی معاشرے کی روداد ہے، جو ایک تباہ ہوتی اور مٹتی ہوئی زمین اور بستی کو محفوظ کرنے اور بچانے کی کوشش میں مصر وف ہیں ۔ یہ ہندوپاک کی تما م پنجر ، سیم زدہ اور خشک سالی کی ماری زمینوں کا نوحہ ہے۔ اگر چہ یہ لوکیل گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کی اپر نہر اور گوگیرہ نہرکو لے کر ایک فرضی علاقے سے بنائی گئی ہے۔ یہاں نندی پور میں بجلی پیدا کرنے کا چھوٹا سا نظام بھی دکھایا گیا ہے۔ بمبانوالہ اور سمبڑیال کی پٹر ی کے ساتھ اپر چناب کینال بھی ہے جو ہمیشہ ایک غرور کے ساتھ بہتی رہتی ہے۔ وہ علاقہ صاف بتا یا گیا جہاں بمبانوالہ پر جا کر نہر دو حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ اپرچناب کینا ل جو نندی پور کی طرف جا نکلتی جاتی ہے اور بیدیاں راوی بمبانوالہ (بی آربی) لنک کینال مشرق کی طرف۔
یہاں حلیم کی ملاقات حفیظ خان سے ہوتی ہے جو مذہبی مزاج کا حامل ہے، جس کے باعث ناول نگار مولویت، رجعت پسندی، تحریک طالبان اور کلاشنکوف کلچر جیسے خیالات کواس لیے اُجاگر کرتا ہے تا کِہ اس کا تا نا بانا آخرمیں وقو ع ہونے والے مرکزی واقعے سے جا کر جڑ جائے جب ڈیم کو بارُود کے دھماکے سے اُڑا دیا جائے گا۔ آخر میں امین جو میتھ اور فزکس کا طالب علم بھی رہا ہے اور جو کہانی کے کلائمکس کے وقت مرالہ میں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے بارودی مواد سے ہیڈورکس کو صبح کی پہلی کرن کے کے وقت اُڑا دیتا ہے اور خود بھی اس کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔
ناول میں ایک قد آور حسیت اور فنی ذکاوت جا بہ جا نظر آتی ہے۔ رواں دواں نثری اسلوب کے ساتھ ایک عصر ی آگہی دکھائی دیتی ہے۔ فرد کی کی نفسیاتی اُلجھنوں کو نمایاں کرنے میں بھی ناول نگار کام یاب رہا ہے۔ موضوع کو اُبھارنے اور تکنیک کوبرتنے میں بھی خالد فتح محمد خاصے کام یاب دکھائی دیے ہیں، خاص طور پر جغرافیائی پس منظر کو جس طرح اُنہوں نے اُجاگر کیا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔ کیوں کہ ناقدین کا کہنا ہے کہ ہر کام یاب فن پارہ ہمیشہ مقامیت سے آفاقیت کی اور سفر کر تا ہے۔ اپنی زمین سے جڑے بغیر تخلیق کار ہوا میں معلق ہو کر رہ جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں پنجابی لہجے کے ساتھ سنواری گئی اس زبان میں نستعلیقی رچاؤ بھی پیدا کر دیا جاتا اور زبان و بیان کے ساتھ اسلوب کی طنابیں کچھ اور بھی کھینچ دی جاتیں، تو اس بیانیہ کی اہمیت اور افادیت دو چند ہوجاتی ۔ مجھے ’’سمر سامر ‘‘کے خالق اسلم سراج الدین جن کا تعلق بھی گوجرانوالہ سے ہی تھا یاد آ گئے جو افسانہ لکھ کر اسلوب اور زبان کو سنوارنے پر اتنا زور لگا دیتے کہ کہانی کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی نیٹنگ ہو جاتی۔ ناول ایک لمبے پینڈ ے کا سفر اور لمبی سانس کی دوڑ ہے۔ اگر ہر مقام پر ناول نگار تخلیقی سطح کی ایک ہی جیسی چابک دستی اور ہنر مندی دکھا سکے تو یہ اس کی کام یابی ہے۔
کچھ مقامات پر لگا کہ لکھاری کا قلم ڈھیلا ہو گیا ہے اور ہاتھ تھک سا گیا ہے۔ جیسے کتاب پڑھتے ہوئے پروف ریڈنگ کے بہت سی اغلاط نے بے مزا کیا۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہ سب تو تخلیقی کھیل اور لکھنے والے کے متخیلہ کا حصہ ہے اور میری نظر میں خالد فتح محمد یقینی طور پر اس تخلیقی کھیل کے بہت ہی عمدہ اورمشاق کھلاڑی ہیں۔