بنجارہ
از، ڈاکٹر فضل احمد خسرو
مداری ہے، بہروپیا ہے، غدار ہے۔ ہمارے کمیوں کو ورغلا رہا ہے، گمراہ کر رہا ہے۔ یہ غریب غربا کو ہمارے خلاف سرکشی اور بغاوت پر اُکساتا ہے۔ اسے زمین آباد کی پاک سرزمین سے نکال دیا جائے۔ اسے بھیانک سزا دی جائے کہ پھر کوئی کمی کمین ہمارے سامنے سر نہ اُٹھا سکے۔
پنچایت میں سارے چودھری منہ سے جھاگ اُڑاتے پھیپھڑے پُھلائے اپنے دشمن کے خلاف ماحول کو غضب ناک اور زہر آلود کر رہے تھے۔ بنجارہ پنچایت میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اس کی اس بے نیازانہ حرکت سے پنچوں کے غصے میں اور زیادہ اُبال آ رہے تھے۔ پنچایت کا سرپنچ چودھری نورا سب کی باتیں ایسے انہماک سے سن رہا تھا جیسے سارے ہی چودھری اسی کی بولی بول رہے ہیں۔ وہ بنجارے کو دی جانے والی ہر ایک گالی پر خندہ لب ہو کر شاباش دیتا او رخوشی کااظہار کرتا۔ سب کی باتیں سن کر چودھری نورا اپناطے شدہ فیصلہ سنانے لگا۔
”بنجارے کے جرائم اور گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اتنی لمبی کہ زمین آباد کے قوانین اس کے لیے مناسب سزا کا احاطہ نہیں کر پا رہے۔ اس نے خواب بیچے ہیں، کمیوں اور غریبوں کو ایسی بغاوت پر آمادہ کیا ہے کہ اپنے مالکوں آقاؤں کے سامنے برابر لاکھڑاکیا ہے۔ صدیوں سے سرجھکا کر چلنے والوں کو سر اُٹھاکر بات کرنے کا غرور دیا ہے۔ اگر اسے زمین آباد کی عوام کے سامنے عبرت کا نشان نہ بنایا گیا تو یہ ایک دن ہم سب سرداروں کو غریبوں اور کمیوں کے سامنے عبرت کا نشان بنا دے گا۔ ہماری پشتی جائیدادوں کو لوٹ لے گا اور ہماری ہی دولت سے ہمارے لیے موت کے پھندے خریدے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ زمین آباد کے قوانین سے بڑھ کر اُسے سزا دی جائے۔“
آؤ! سارے سر جوڑ کر سوچتے ہیں کہ اس گستاخ باغی کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ بن باس، نہیں نہیں، بن باس تو اسے اور طاقتور بنا دے گا۔ باہر جا کر کے تویہ آزاد ہو جائے گا۔ اس کی آواز اور زیادہ گھائل کرے گی۔ ہمیں تو اس آواز کو اتنا گہرا دفن کرنا ہے کہ پھر کبھی بھی لوٹ کر نہ آئے۔ محض اس کی آواز کو ہی نہیں دفن کرنا، اس کے سر چڑھے جادو کو بھی توڑنا ہے۔ چاہے اس کے لیے غریب غربا ءکمیوں کی ایک نسل ہی کو کیوں نہ مٹانا پڑے۔
زمین آباد کا سماج ایک ٹھہری ہوئی ساکن و ساکت جھیل کی طرح کا تھا۔ رسم و رواج سے لے کر مذہبی روایات تک نسل در نسل اوہام و تاریکی میں سفر کرتا ہوا ایک جاگیردار معاشرہ تھا۔ اس میں سارے ہی اپنے اپنے پالے میں خوش تھے۔ آمر کو امر اور طا قت کے اقتدار کو سرجھکائے تسلیم کرتے تھے۔ جاگیردار، خان، سردار، چودھری سارے ہی دیوتا تھے، ظلِ الہٰی تھے۔ کمزور لوگ اسی لیے اطاعت بجا لاتے تھے۔
چار پرگنے کے اس گاؤں میں بہت سی قومیں آباد تھیں…. لیکن گاؤں کے پتی دار صرف جاگیردار، سردار، خان، ملک، چودھری ہی تھے۔ باقی ساری کی ساری خدمت گزار قومیں تھیں۔ ان کے آباؤ اجداد نے نسلوں پہلے اپنی محنت کو رہن رکھا تھا اور یہ ہماتڑ آج تک رہن کی قیمت چکا رہے تھے۔ رہائی کی ایک ہی صورت تھی، اور وہی تھی موت۔ بغاوت کے راستے پر بھی تو موت ہی پہرےدار کھڑی تھی۔ ہر طرف منڈلاتی ہوئی موت کو دیکھ کر محنتی سر جھکا لیتے تھے۔
گاؤں کے مولوی صاحب نے بھی انہیں یہی مذہبی دانائی کی بات سمجھائی تھی کہ جاگیریں خداوند کی عطا ہیں۔ جاگیرداروں کی خدمت خدا کی مرضی ہے۔ اس سے روگردانی کرنا دونوں جہان میں برباد ہونا ہے۔ خُدا اس سے خوش ہوتاہے جو اپنے مالک کے سامنے سر جھکائے رکھتا ہے۔ مولوی کے ساتھ ساتھ پیرو مرشد بھی انہیں روئے زمین پر خُدا کے نمائندے جانتے تھے۔ گو یہ نمائندے بھی پیرو مرشد کو ڈھیروں ادب دیتے تھے، ان کی خانقاہوں میں حاضری بھرتے اور چراغی دیتے تھے۔
مولوی صاحب دین کے علم کے عالم، پیرو مرشد خدا رسیدہ، دونوں کی بات ایک ہی تھی تو پھر کسی اور بات کی گنجائش ہی کہاں رہ جاتی تھی۔ کہیں کسی کے دل میں کوئی خیال گزرتا بھی تھا تو وہ بھی توبہ استغفار کرتا ہوا احساسِ گناہ کے ساتھ اپنے آقاؤں کے حضور سربہ سجود ہو جاتا تھا۔
موچی، تیلی، لوہار، ترکھان، نائی، دھوبی، قصائی، کُنجڑے، پراچے، بھاڑئیے، دکاندار، خوردہ فروش زمینوں پر کھیتی باڑی کا کام کرنے والے سارے کے سارے کمی کمین تھے…. اور اپنے اس منصب کو بخوبی جانتے مانتے تھے، خوشی خوشی سرجھکائے زندگی نباہ رہے تھے۔ اسی لیے تو زمین آباد کا معاشرہ جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح تھا۔ خاموش، پرسکون، راضی بہ رضا…. ایسے میں جاگیردار قبیلے کا ایک بانکا اپنے باپ کے قبیلے سے بغاوت کرتے ہوئے ا ن بے حیثیت کمی کمینوں میں آ ملا۔
کہتے ہیں، وہ اپنی ماں کے قبیلے کی طرف لوٹ آیا تھا۔ اس بانکے نے بنجارے کا بھیس لے کر ایک انوکھا اور الگ سا کام شروع کر دیا تھا۔ وہ کام تھا! خواب بیچنے کا۔ باقی سب لوگ تو اپنی اپنی چیزیں اور محنت بیچتے تھے، لیکن یہ بنجارہ خواب بیچتا تھا۔ اس کی شخصیت میں دلکشی اور بات میں اثر انگیزی تھی۔ جو اسے دیکھتا، اس سے ملتا پھر اسی کا ہو جاتا۔ یوں یہ بنجارہ اپنے باپ کے قبیلے میں مداری اورجادوگر کہلانے لگا۔
بنجارے نے زمین آباد کے ساکن و جامد معاشرے میں خوابوں کے کنکر پھینکے تو صدیوں سے سوئی ہوئی لہریں جاگ ا ُٹھیں۔ سب کو یوں محسوس ہوا کہ بنجارہ ان ہی کے دل کی بات کہہ رہا ہے۔
بنجارہ جانتا تھا۔ وہ تو کچھ بھی نہیں کہہ رہا۔ صرف وہی بتا رہاہے جو ان کے دل میں پہلے سے موجود ہے۔ یوں دل کی بات نے دل سے دل تک سفر کیااور خوابیدہ لہروں میں طوفانی ارتعاش پیدا ہونے لگا۔ بنجارے نے ناآسودہ غلام ذہنوں میں خواب بوئے۔ خوابوں کی فصل اُگی تو سوالوں کے کانٹے نکل آئے۔ سوالوں کے ان کانٹوں نے تمام جاگیرداروں اور وڈیروں کو لہولہان کر دیا۔
بنجارے کی باتوں میں بڑی حیرتیں تھیں۔ جب اس نے کہا کہ عورتیں بھی انسان ہیں تو عورتوں نے مسکرا کر شرم سے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپالیا …. پھر انہوں نے سوچا تو برملا اعلان کر دیا کہ ہاں ہاں! ہم بھی انسان ہیں۔ ہمارے بھی حقوق ہیں۔ اس زمین آباد میں ہماری محنت کا بھی برابر حصہ ہے۔
کمی کمین غریب غربا ءمحنت کش طبقے کو اس بات کا اچنبھا تھا کہ ساری دولت اور جاگیریں ان کے خون پسینے کی ہوئی محنت کی منجمد شکلیں ہیں۔ دولت مند ان کی محنت چُرا کر ہی دولت مند ہے۔ سارا سرمایہ انہوں نے اپنی محنت سے پیدا کیا ہے اور اس پر ان ہی کا زیادہ حق ہے۔ سرمایہ دار، جاگیردار اور وڈیرا تو نکھٹو نکما ہے جو دھوکے سے محنت کو ہتھیا کرطاقت و دہشت کے زور پر ا ن کی محنت کو دبائے بیٹھا ہے۔ یوں یہ طبقہ ان کی محنت کھاتا ہے اور ان ہی پر حکم چلاتا ہے۔ محنت کش طبقے نے ٹھان لی کہ اب یہ الٹی گنگا نہیں بہے گی۔
انسان ہونے کے احساس نے زمین آباد کے غریبوں کو ایک توانائی بخش دی۔ اس توانائی نے جب نوجوانوں، طالب علموں کے ذہنوں میں سفر کیا تو ایک بپھرے طوفان کی صورت اختیار کر گئی۔ صدیوں سے خوابیدہ اور خاموش معاشرہ ایک فشار کی طرح پھٹ پڑا۔
زمین آباد کی حکمران قوتوں کو اس کی شدت کا اندازہ ہوا تو ان کی روح تک کانپ گئی۔ انہوں نے اردگرد کے ہی نہیں درو دراز کے چودھریوں کو بھی مدد کے لیے بلا لیا۔ سارے چودھری، پیر اور مولوی سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے ہر حیلہ اور ہر ہر جتن کیا لیکن اس طوفان کی گرد نہ بےٹھ سکی۔ تمام دام ا ور داؤ آزمائے گئے، ظلم و ستم کے ہر ہر طریقے کو روا رکھا گیا…. لیکن اتنی ہی قوت اور شدت سے نعرئہ مستانہ بلند ہوتا چلا گیا۔
اب زمین آباد کی پنچایت میں انتہائی فیصلے کرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ انہوں نے بانکے بنجارے کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے پھانسی گھاٹ کے جھولے میں جھولا دیا۔ اس کے وجود کو انتہائی گہری قبر میں اُتار دیا تاکہ کوئی خواب شگوفہ پھر سے نہ پُھوٹ پڑے۔ یہ بھی پنچوں کی غلطی تھی۔ وہ بنجارہ تو اپنے سارے خواب غریبوں کے ذہنوں میں بو گیا تھا۔ اس کے پاس تو اب کوئی خواب نہیں بچا تھا۔ وہ سارے خواب بیچ کر اپنے باپ کے قبیلے کی طرف جا چکا تھا۔
یوں انہوں نے اپنے ہی بھائی بند کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کر دیا تھا۔ ایسا کرکے وہ شرمندگی کے دوہرے عذاب میں مبتلا ہو گئے۔ ان کی جیت ان کی ہار بن گئی اور مرنے والا غریبوں کے دل پھر سے جیت گیا۔ اب نچلے طبقے کے لوگوں میں ہر کوئی بنجارہ بن چکا تھا اور خوابوں کی پرورش کر رہا تھا۔
جاگیرداروں، وڈیروں کو پھر وہی مشکل در پیش تھی۔ انہوں نے زمین آباد کے مذہبی پنڈتوں کی شوریٰ کو بلایا کہ وہ اپنی چالاکی سے مذہب و ملت کو ڈھال بناتے ہوئے انہیں اس امنڈے ہوئے طوفان سے بچائیں۔ انہیں یہ احساس بھی دلایا کہ تمہارا وجود بھی ہماری ہی وجہ سے ہے۔ اگر ہم نہ رہے تو تم بھی نہیں رہو گے۔ ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور کشتی طوفان میں ہے۔
جاگیرداروں کے پنچ نُورا عقلِ کُل کی بنائی ہوئی مجلسِ شوریٰ نے بڑے غورو حوض کے بعد ایک انوکھا اور عجیب حل ڈھونڈ نکالا کہ اس طوفان سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ زمین آباد کی ساری زمینوں میں، سارے پانیوں میں ایسا زہر ملا دیا جائے کہ فالتو جڑی بوٹیوں کی طرح بنجارے کے بوئے ہوئے سارے خواب مر جائیں۔ پھر ہر طرف سکون ہی سکون ہو گا۔ وہی پراناطاقت کا دور لوٹ آئے گا۔ غریب پھر سُدھائے ہوئے بیل کی طرح کام کریں گے۔
مرض الموت میں مبتلا جاگیرداروں، وڈیروں نے یہ زہر بھی فوراً ہی آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ تمام زمین آباد میں زہر پاشی کر دی گئی۔ خوابوں کی فصل کو اس زہر سے کہیں کہیں طاقت کے بل بوتے پر اُجاڑ دیا گیا۔
خواب گھروندے ویران ہو گئے۔ ایک اور عذاب نے زمین آبادکو اپنی پکڑ میں لے لیا۔ انہوں نے یہ زہر مذہبی ٹھیکیداروں کے ذریعے بکھیرا تھا۔ اس سے مولویوں کو بے پناہ طاقت مل گئی۔ انہوں نے جاگیرداروں سے اپنا حصہ دہشت کے زور پر لینے کی ٹھان لی۔ اب ان کے پاس مذہب کی طاقت بھی تھی اور بندوق کی سچائی بھی تھی۔ اب یہ اپنے راستے کی ہر دیوار گرا دینا چاہتے تھے۔ اس نئے ماحول میں خوف اور دہشت کی نئی نئی فصلیں اُگ آئیں۔ دہشت گردی کی فصل تھی، لوٹ مار، بے ایمانی و بدعنوانی کی فصل تھی، جہالت کی فصل تھی۔ ہر طرف سانپ، بچھو، جنگلی درندے، شکاری پرندے راج کرنے لگے۔
زمین آباد کے اطراف اور دُوردراز کے چودھریوں کو اس پر تشویش ہوئی تو انہوں نے دنیا کے امن کو بچانے کی اور زمین آباد میں امن بحال کرنے کی ٹھان لی۔ یہ ان کا اپنا پروردہ ماحول تھا سو اس فتنے کو نابود کرنا بھی ان ہی کی ذمہ داری تھی۔ سُنا ہے کہ یہاں سے اُٹھنے والی زہریلی ہوا نے دور کے دیسوں کو بھی جُھلسانا شروع کر دیا۔ اس لیے انہیں اپنی پڑی تو زمین آباد کی نبیڑنے کے لیے آ گئے۔
زمین آباد کے حکمران تو سمجھتے تھے کہ ہم نے خوابوں کو فتح کرلیا ہے لیکن وہ یہ حقیقت بُھلا بیٹھے تھے کہ خواب مرتے نہیں ہیں۔ زمین آباد کے غریب طبقوں نے خوابوں کے بیج اپنے ذہنوں اور آنکھوں میں سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں اصرار ہے کہ وہ مناسب وقت پر انہیں ضرور اُگائیں گے۔ پھر سوالوں کی فصل اُگے گی۔ یہ سوال ایک طوفان اُٹھائیں گے اور یہ طوفان سب کچھ بہا لے جائے گا۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ محنت کشوں کی محنت کا ثمر خود ان کے ہاتھوں میں آئے گا۔ اب کوئی بنجارہ ان میں موجود نہیں ہے۔ اب کے بار غریب اپنی لڑائی آپ لڑیں گے اور مصالحت کا کوئی راستہ درمیان میں نہیں ہو گا۔
فضل احمد خسرو کا تعلق اوکاڑہ سے ہے اور وہ انجمنِ ترقی پسند مصنفین پنجاب کے سینئر نائب صدر ہیں۔ آپ کی تخلیقات صبحِ صدا، شہرِ بے آذاں، لمحۂِ موجود، ہجر ہلونے، وفاواں عشق دیاں کو صاحبانِ علم و فن میں بھرپور پذیرائی ملی۔ آپ کی اردو شاعری پر ایم فل اور پنجابی افسانوں پر ایم اے کے تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں۔ آپ کا اندازِ تحریر اورتفکر نہایت اچھوتا ہےاور قاری کا دل موہ لیتا ہے۔