کام جاری رکھیں، نام سے کیا فرق پڑتا ہے؟
از، مبشر علی زیدی
پاکستان میں کسی شخص کے لیے نام بدلنا آسان نہیں۔ دس طرح کی دستاویزات پیش کرنے کے باوجود شناختی کارڈ پر نام تبدیل کرانا ایک مشکل کام ہے۔
لیکن کسی کالعدم تنظیم کے لیے نام بدل کر کام کرنا نسبتاً بہت آسان ہے۔ گزشتہ سترہ سال میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام کا سامنا کرنے والی کئی تنظیموں نے نام تبدیل کرکے سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
حال ہی میں امریکا نے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ملی مسلم لیگ کے نام سے گزشتہ سال قائم کی گئی جماعت ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لے چکی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ ملی مسلم لیگ لشکر طیبہ کا سیاسی چہرہ ہے۔
سینئر تجزیہ کار احمد رشید نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈیپ اسٹیٹ تمام کالعدم تنظیموں کی ابھی تک حمایت کررہی ہے۔ جب تک اجازت نہ ہو، کوئی شخص کیسے جلسے کرسکتا ہے اور ٹی وی پر آسکتا ہے؟ اتنے سال سے جو کھیل چل رہا ہے، وہ اب بند کرنا پڑے گا اور ان تنظیموں کو غیر مسلح کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن بھی کالعدم تنظیموں سے ڈرا ہوا ہے۔ وہ حکومت اور فوج کے ساتھ ان کے بارے میں بات کرتا ہے اور اگر وہ کہتے ہیں کہ انھیں چھوڑ دیں تو الیکشن کمیشن بے بس ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں حافظ سعید کی زیر قیادت لشکر طیبہ پر 2002 میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس کے بعد اس نے جماعت الدعوة کے نام سے کام شروع کردیا تھا۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے نام سے اس کی این جی او بھی سرگرم ہے جس کے دفاتر ملک کے کئی شہروں میں قائم ہیں اور یہ بغیر کسی رکاوٹ کے چندہ جمع کرتی ہے۔ اس کے علاوہ تحریک آزادی کشمیر کو بھی لشکر طیبہ کی ذیلی تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
لشکر طیبہ کے ساتھ جیش محمد پر بھی 2002 میں پابندی لگائی گئی تھی۔ اس کے بعد مسعود اظہر کی سربراہی میں اس تنظیم نے تحریک الفرقان کے نام سے سرگرمیاں جاری رکھیں۔ آج کل یہ خدام الاسلام کے نام سے بھی کام کررہی ہے۔
1980 کی دھائی میں بننے والی ایک اور جہادی تنظیم حرکت المجایدین نے 1993 میں اپنا نام حرکت الانصار رکھ لیا تھا۔ لیکن امریکا کی جانب سے پابندیاں لگائے جانے کے بعد اس نے فضل الرحمان خلیل کی زیر قیادت دوبارہ پرانا نام حرکت المجاہدین اختیار کرلیا۔
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ 1980 کی دھائی میں دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ ساجد نقوی کی قیادت میں ایک گروپ نے اپنا نام بدل کر تحریک جعفریہ رکھ لیا۔ اسے کالعدم قرار دیا گیا تو اس نے پہلے تحریک اسلامی اور پھر شیعہ علما کونسل کے نام کی تحت سرگرمیاں جاری رکھی ہیں۔
حق نواز جھنگوی کی قیادت میں بننے والی سپاہ صحابہ پر پابندی کے بعد اس تنظیم نے محمد احمد لدھیانوی کی سربراہی میں پہلے ملت اسلامیہ پاکستان اور پھر اہل سنت و الجماعت کے نام سے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ پشاور کے الیکشن میں حصہ لینے والی راہ حق پارٹی کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے۔
سینئر تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق کالعدم تنظیمیں دوسرے نام سے کام نہیں کرسکتیں۔ لیکن اس وقت تقریبا تمام ایسی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نہ ریاست اور نہ ہی حکومت انتہاپسندی کو روکنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ جب باہر سے کوئی دباؤ آتا ہے، تب ہی اس سلسلے میں اقدامات کیے جاتے ہیں۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ کالعدم تنظیمیں سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے اپنا نام بدل لیتی ہیں لیکن ان کے سربراہ تبدیل نہیں ہوتے اس لیے وہ آسانی سے پہچان لی جاتی ہیں۔
بشکریہ: VOA