تمھاری نیکیاں باقی (باقی صدیقی کا خاکہ)

baqi siddique life and character
باقی صدّیقی

تمھاری نیکیاں باقی

از، ڈاکٹر ارسلان راٹھور

یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے۔ میں کوئی بیس برس کا ہوں گا۔ وسائل کم تھے؛ کتاب گھر خال ہی خال نظر آتے تھے۔ بڑے شہروں کا یہ عالم تھا تو قصباتی علاقوں اور بستیوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ لے دے کے اخبار، ہفتہ وار رسالے، جنتریاں، گُل دستے اور فلمی ستاروں کے سستے نسخے، یہی کُل بساط تھی۔ نَیا بسایا گیا دارُ الحکومت ہمارے شہر سے دو تین گھنٹے کی مسافت پر تھا، مگر سفر کا یارا کسے ہوتا۔ ضرورت کی سادہ اشیاء اپنے شہر سے مل جاتی تھیں۔ باہر جانے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، ہاں یہ ضرور تھا کہ کچھ مَن چَلے اور نئی نئی چیزوں کے رسیا پاؤں کی زنجیر توڑنے پر آمادہ رہتے، لیکن یہ سب موقعے کی دست یابی پر منحصر تھا۔

میں نے گورنمنٹ کالج چکوال سے ایف اے پاس کیا تھا۔ کالج کا کتاب خانہ زیادہ منظم تو نہیں تھا، لیکن پانچ سات ہزار کتابیں اس میں ضرور رہی ہوں گی۔ یہی غنیمت تھی۔ دو سالوں میں برابر اپنے ذوق کی کتابوں سے مطالعے کی زَڑ لگ گئی تھی۔ اُن دنوں کمیٹی باغ میں واقِع لائبریری بھون چوک میں تھی۔ کتاب خانے نے آتشِ شوق بھڑکا رکھی تھی۔ شعر گوئی کا ذوق بوٹی بوٹی میں پھڑکتا تھا، طبیعت موزوں تھی اور اوسان بَہ جا، روزمرہ واقعات کو نظم کرنا عادت بن گیا تھا۔

اس زمانے کا شہر رقبے اور شہرت کے اعتبار سے چھوٹا ہی صحیح، لیکن ایسے معروف ادیبوں کا مرکز تھا، جو لاہور یا راول پنڈی کے اہم مصنفوں کے ماتھے پر آشنائی کے بَل چڑھا سکتا تھا۔ کرنل محمد خاں اور سید ضمیر جعفری تو خیر محرم کبائر میں سے تھے۔ باغ حسین کمال کے توسُّط سے احسان دانش، احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا بھی اُسے اپنا ہی شہر جانتے تھے۔ اوریئنٹل کالج کے جواں سال سکالر رفیع الدین ہاشمی بھی اسی مردم خیز مٹی سے ابھرے۔ اقبالیات کے شعبے میں اپنا لوہا منوایا۔ افسوس کہ حال ہی میں پیوندِ خاک ہو گئے۔

یہ تب کی بات ہے جب چکوال اور راول پنڈی کے درمیان انگریز بہادر کا بچھایا ہوا ریلوے ٹریک بے کار نہ تھا۔ راول پنڈی کا کرایہ کامل تین روپے تھا۔ ہاتھ تنگ ہونے کے باوجود ایک دو مہینے میں پنڈی جانے کی خواہش سر اٹھاتی تھی۔ پنڈی کے صدر بازار میں کتابوں کا ہفتہ وار میلہ ویسا ہی با رونق ہوتا جیسا اب ہے۔ فرق یہ ہے کہ اُس دور کے پڑھنے والے محض قاری سے بڑھ کر بھی کچھ تھے۔ رندانہ مستی نے روحوں کو سرشار اور جسموں کو نکھار رکھا تھا۔

چکوال سے نکل کر راول پنڈی صدر بازار پہنچنا یوں ہی تھا جیسے آج کوئی لاہور کے اردو بازار سے تہران کے ’بازارِ بزرگ‘ کا قصد کر لے۔ ریلوے سٹیشن سے اترتے ہی تانگے والا دو آنے میں صدر بازار لے جاتا۔ صدر بازار پہنچتے ہی دو رویہ کتابوں کا اژدحام دکھائی دیتا۔ آنکھ کی پُتلی کم پڑنے لگتی۔ یمین و یسار کتابوں کی یہ لمبی لمبی قطاریں دیکھنے والوں کی آنکھیں ٹھنڈی اور سینہ گرم رکھا کرتیں۔

کتب فروش بھی طرح طرح کے تھے، کچھ کو کتابیں سجانے سنوارنے کا چسکا ہوتا، کچھ بوریاں اور ٹاٹ بچھائے ڈھیری سی لگا دیتے۔ ڈھونڈنے والے آتے اور اپنی پسند کے گوہر و موتی ڈھونڈ نکالتے۔ کیا زمانہ تھا؛ ٹھہرا ہوا وقت، سست رفتار دوپہریں، دیر آمیز شامیں۔ گویا وقت نے فراغت اور سکون کے بادلے اوڑھے ہوئے تھے۔ ایک بار جی نے اُکسایا تو راول پنڈی چلا آیا۔ اتوار کا دن تھا، کالسمک فی الماء کے مصداق، کتاب بازار جانا نا گزیر تھا۔ ایک سے بڑھ کر دوسرا سٹال توجہ گیر، کتب بینی میں دو گھنٹے گزر چلے۔ اِنھی خرمنوں کو الٹتے پلٹتے خردہ حجم کی ایک کتاب ہاتھ لگی، نام تھا ’’بارِ سفر‘‘۔ سرورق سادہ لیکن با وقار، صفحات کم مگر تأثّر وقِیع۔ پہلی ہی نظر میں خریدنے کی ٹھان لی۔

کتاب کو الٹا پلٹا، کچھ شعر حافظے سے ایسے چپکے کہ وقت کی قید سے آزاد ہو گئے:

دل ہے دیوار، نظر ہے پردہ

دیکھنے والے بھلا کیا دیکھیں

آدمی ساتھ نہیں دے سکتا

تیز ہے سایے کی آواز ابھی

واہ، یہ باقی صدیقی تو بڑے جہاں دیدہ، زخم خوردہ اور نبّاضِ وقت معلوم ہوتے ہیں! میں کتابوں کے بیچوں بیچ بیٹھنے کے لیے گوشہ یا قطعہ ڈھونڈنے لگا تا کِہ ایک آنے کی چائے کے ساتھ اِن شعروں سے انصاف کر سکوں۔ اچانک نا دیدہ ہاتھوں نے عقب سے آ کر میری آنکھوں کو حلقہ بند کر لیا۔ مُڑ کے دیکھا تو ہمارے راول پنڈی ہی کے دوست عثمان مرزا کھڑے مسکرا رہے تھے۔ بغل گیر ہوئے، کتاب دیکھتے ہی کہنے لگے: ظالم! یہ باقی تم نے اچھا ڈھونڈا۔ کیسا حسین اتفاق ہے، آج شام حلقۂ اربابِ ذوق میں اِنھی کی غزلیں ہیں۔ ان کا کلام کیوں نہ اِنھی سے سنا جائے۔

میری واپسی شام پانچ بجے طے تھی اور حلقے کا پروگرام ساڑھے پانچ بجے شروع ہونا تھا، لیکن سچ پوچھیے تو اُن کے فوری نظر سے گزرنے والے شعروں نے بھی دل موہ لیا تھا۔ واپسی کا ارادہ بے ارادہ ہونے لگا۔ عثمان مرزا خود شاعر تھا، شکم کی آگ چکوال سے راول پنڈی لے آئی تھی، لیکن مصرعہ اپنی عمر سے پانچ سال آگے کا کہتا۔ نئے شعر کا عاشق تھا اور “عارف” تخلص کرتا تھا۔ اُسی کی معرفت مجھے حلقۂِ اربابِ ذوق کا پتا چلا تھا۔ اُس زمانے کے پنڈی میں حلقے کا اجلاس مال روڈ پر قائم کنٹونمنٹ کی لائبریری میں منعقد ہوتا تھا۔ پانچ بجنے میں ابھی پہر تھا۔ یہ وقت یقیناً رنگین ہی گزرنے والا تھا۔

عثمان مرنجاں مرنج آدمی تھا، غپ اُڑانے کا ماہر، گفتگو لَچّھے دار، داستان سے داستان نکالنے والا! چائے کا ایسا دل دادہ تھا کہ پوچھیے مت۔ ایک نشست میں درجن بھر فنجان چڑھا لینے والا میں نے پوری زندگی نہ دیکھا۔ غالب نے تو مگس کی قے کا ذکر کیا تھا، میں نے اُسے چائے کی قے کرتے بھی دیکھا۔ جہاں چائے نہ ملتی، اونچی آواز میں ظہوری کا شعر بدل کر پڑھتا:

یک نعرۂ مستانہ زجائے نہ شنیدم

ویراں شود آن شہر کہ “چا” خانہ نہ دارد

بَہ ہر حال، چائے کے ظروف لبالب، شوق کو تیز کیے، ہم باقی کے کلام کی سیر کر چکے تھے۔ ’’بارِ سفر‘‘ مختصر سی کتاب ہے:

تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں

ہم بھی نیند کی صورت اُڑتے جاتے ہیں

تم بھی اُلٹی اُلٹی باتیں پوچھتے ہو

ہم بھی کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہیں

بیٹھ کے روئیں، کس کو فرصت ہے باقی

بھولے بسرے قصے یاد تو آتے ہیں

باتوں باتوں میں کھلا کہ باقی ابتداء میں عدم کے تلامذہ میں سے ہیں، لیکن طبیعتوں کے فرق نے جلد ہی فرقتوں کے عراق پھیلا دیے۔ بعد میں یہ واقعہ باقی نے بھی مجھ سے بیان کیا۔ اِنھی کی زبانی بھی سنتے جائیے:

’’ایک دن رات گئے، عدم کا بڑا لڑکا خالد میرے پاس آیا اور عدم صاحب کے لا پتا ہونے کی اطلاع دی۔ مجھے غریب پر بڑا ترس آیا۔ میں خالد کو لے کر شہر بھر میں گھومتا پھرا۔ جتنے ٹھکانے معلوم تھے، وہاں جوتے گِھسا لیے۔ قسمت دیکھیے، ہم جہاں تھک ہار کے بیٹھے، وہیں سے تھوڑے فاصلے پر عدم ایک نالے کے کنارے مخمور و مدہوش مل گئے۔ مجھے دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گئے اور کہنے لگے، باقی! تم ہر وقت میرے پیچھے نہ پڑے رہو۔ تم ایک مُلّا ہو اور بس، شاعر کبھی نہیں بن سکتے۔ اِس واقعے کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میرے اور اُن کے تعلقات میں اپنائیت جاتی رہی۔‘‘

چائے خانے سے اُٹھنے کے بعد ہم نے حلقے کی ٹھانی۔ یہ نومبر کے آخری دن تھے۔ سردی اپنے جوبن پر تھی۔ مغرب سے پہلے ہی شام کے سایے پھیل رہے تھے۔ ہاتھ کے اشارے سے تانگہ روکا اور منزل کو روانہ ہو گئے۔ کنٹونمنٹ کی لائبریری کے باہر دس پندرہ لوگ کھڑے تھے۔ اِنھی کی معرفت علم ہوا کہ آج کے اجلاس کی صدارت شاعرِ مزدور، احسان دانش کر رہے ہیں۔ سونا چاہوں، ہیرے کی کنی ہاتھ آئے۔ میری قسمت جاگ گئی۔ احسان دانش سے یہ میری پہلی با ضابطہ ملاقات تھی۔ اُن کے نام اور کام کا شہرہ طول و عرض میں تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں تشریف بھی لے آئے۔ چہرے مہرے سے عجب رعب مترشّح تھا۔ ہاتھ کی بُنائی کے کھدر کا موٹا قمیص شلوار (یا شاید کھلا پاجامہ؟) زیبِ تن تھا۔ اُس پر شملے کا سلیٹی سویٹر، اوپر سیاہ رنگ کی موٹی صدری۔ سر پر جناح ٹوپی، نہ لمبی نہ چھوٹی، ایک طرف جھکی ہوئی۔ آنکھیں سیاہ لیکن چمک دار۔ پپوٹے بوجھل اور نمایاں، بایاں پپوٹا زیادہ سوجھا ہوا جیسے کُشتی کھیل کر آ رہے ہوں۔ لہجہ بھاری، جسم کسرتی، رنگ گہرا۔ قد مَیانہ لیکن نکلتا ہوا، پاؤں میں ڈلہوزی کا جوتا۔ مجموعی طور پر مجھے اُن کی شخصیت خاصی غیر شاعرانہ لگی۔ ہونا بھی یہی چاہیے تھا، عمر بھر مزدوری کی چکی پیسی۔ جاں سپاری اور شے ہے، نَزاکت اور اُس کا ظاہر سے کیا رشتہ۔

قدرتِ خدا کی کہ ابھی میں اور عثمان اُن کے پہلو میں ادب سے سلام کیے سر جھکائے ایستادہ تھے کہ دہنے ہاتھ سے ایک کوتاہ قد آدمی نے آ کر اُن کے کان میں کچھ کہا۔ مرحوم کے چہرے پر تشویش نے جالا تان دیا۔ وہیں اُنھوں نے حلقے کے سیکرٹری (غالباً آغا مسعود رضا خاکی قزلباش، ضعفِ یادداشت دیکھیے — ہائے ارذل العمر!) سے سرگوشی کر کے اجازت لی۔ لوگ روکتے ہی رہ گئے، اُنھیں رکنا تھا نہ رکے۔

ہم تو یہ بھی نہ کہہ پائے: پل میں یہاں تھا، پل میں ستاروں کے ساتھ تھا۔ جاتے جاتے اُنھوں نے اپنے دائیں جیب سے ایک پھیکا اور روکھا سا کاغذ نکال کر آغا صاحب کو پکڑا دیا۔ یہ اُن کی باقی صدیقی سے متعلق رائے تھی، جس کو وہ لکھ کر لائے تھے۔ میں نے کتابوں میں پڑھا اور بُزرگوں سے سُنا ہے کہ احسان دانش محفلوں میں لکھی ہوئی آراء پڑھنا پسند کرتے تھے؛ ایک تو رائے نپی تلی، دوسرا کسی خیال یا لفظ کا پچھتاوا نہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ فی البدیہ گفتگو کا چٹخارا جاتا رہتا ہے۔ بعد کو معلوم ہوا کہ باقی صدیقی کی پہلی کتاب ’’جامِ جم‘‘ احسان دانش ہی نے لاہور سے چھاپی تھی۔

حلقے کے پروگرام کے آخر میں تو وہ طوفان اُٹھا کہ الامان! لیکن آغا مرحوم نے احسان دانش کی جو رائے پڑھ کر سنائی، دل پر نقش ہو گئی۔ آج بھی گاہے دُہراتا ہوں تو دل میں چین پاتا ہوں، سنیے:

’’وہ (باقی) احساس کا ایسا تھرمامیٹر لیے ہوئے ہے جو گرمی کی حبس، سردی کی شدت، برسات کی خوش گواری، گداؤں کی شکستہ حالی، رقص، رخصتی اور آوارگی وغیرہ کو ہر لمحہ روشن رکھتا ہے اور یہی سب سے بلند خصوصیت ہے شاعر کی۔ باقی اپنے کلام کے آئینے میں ویسا ہی شاعر معلوم ہوتا ہے جیسا فطرت نے بنایا ہے۔‘‘

تھوڑی دیر بعد باقی صدیقی خود بھی تشریف لے آئے۔ وہ اتنے عمر رسیدہ نہ تھے، جتنے کم زور۔ چہرے سے پژمردگی اور قامت سے خمیدگی نمایاں تھی، گویا ناسخ مرحوم کے شعر کی زندہ صورت ہو:

کچھ سمجھ کر نا توانی نے دیا ہے خم اُسے

قصرِ تن میرا بنا تھا جب سے بے محراب تھا

تھوڑا مزید غور کیا تو اُن کے خدوخال کھلنے لگے اور مجھے اُس لمحے تک لے گئے، جب زندگی کی پریشانیوں اور مسلسل تنہائی نے اُنھیں نہ ڈسا ہو گا۔ قد درمیانہ، گندم گوں چہرہ، ماتھا چوڑا اور لوح ایسی صاف گویا تحریر کے واسطے تراشی گئی ہو، رخسار کی ہڈیاں موزوں حد تک نمایاں۔ دہانہ کم گھیر، کَلّے نمایاں اور ڈھلے ہوئے، ٹھوڑی خوب صورت اور متناسب۔ چہرے کا زیریں حصہ جوانی میں ہُو بَہ ہُو اُس نقشے پر ہو گا، جسے فرنگی “jaw-lined face” کہتے ہیں۔

۱۹۳۲ء سے ۱۹۳۶ء کے قیامِ بمبئی میں اُنھیں جو فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا، اُس میں اُن کے اس کتابی چہرے کو ضرور دخل ہو گا۔ یہ سلسلہ شاید اور بھی دراز ہوتا، لیکن راول پنڈی کے مشہور سِنیما کے باہر جب اُن کی بڑی تصویر آویزاں ہوئی، تو جہاں جہاں اُن کے رشتے کے لیے پیغامات بھیجے جاتے، وہ یہی کہہ کر اُنھیں داماد بنانے سے گریزاں ہوتے کہ ’’اُنھوں نے بھانڈوں اور مراسیوں کا پیشہ اختیار کر لیا ہے۔‘‘ شاید اُن کے ہمیشگی مجرد رہ جانے میں اِس عامل کو بھی اہمیت حاصل ہو:

شیشۂ ما از نَزاکت خود شکست

ورنہ در دستِ کسی سنگی نبود

اجلاس کا آغاز ہوا تو باقی صدیقی کو سٹیج پر مدعو کر لیا گیا۔ اسٹیج تو کہنے ہی کو تھا، اصل میں تو بس نشستوں کی رُوکار تھی۔ باقی نے تنقید کے لیے دو غزلیں پڑھیں۔ چھوٹی بحر کی، صاف غزلیں تھیں۔ داخلی کسک اِن کو چیزے دِگر بنا رہی تھی۔ باقی کی خواندگی آہستہ تھی، مجھے حسرت موہانی یاد آئے۔ جن لوگوں نے اُنھیں پڑھتے ہوئے سُنا تھا، وہ اُن کی عظمتِ کردار کے ساتھ ساتھ پڑھت کی کم آہنگی کے شاہد تھے۔ یہی معاملہ باقی کا معلوم ہوا۔

تنقید کا دَور چلا تو پہلے مہیب خاموشی نے گھیر لیا، کسی کو بات کا یارا نہ ہوا۔ سچ بھی یہی ہے کہ اکثر تجرِبات اپنی ندرت کے باوجود اُس جگہ سے علاقہ رکھتے ہیں، جہاں لفظ کو دخل نہیں ہوتا۔ پھر ایک صاحب، جن کی ڈاڑھی خشخاش تھی، اور چہرہ حماقت کی علامت، قدرے ہکلاہٹ کے ساتھ بولنے لگے: سیدھی سی غزلیں ہیں، مضافاتی خیال… اس کم سواد آدمی کی گفتگو ہی کیا کم تھی کہ ایک اور شخص کہنے لگا، ’’اِنھی کی بات کو بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں، غزل میں کچھ نہیں، مضافاتی رنگ نمایاں ہے۔۔۔‘‘ بس اب تو بولنے والے یوں بہک رہے تھے کہ نہ پوچھیے۔ سعدی: ’’ہر کہ آمد، عمارت نو ساخت۔‘‘ ’’مضافاتی خیال‘‘ کی ترکیب ایسی بھائی کہ سب نا عاقبت اندیشوں نے اُسے جُزوِ حرف بنا لیا۔

باقی کے چہرے پر ایک تأثّر آ رہا تھا، ایک جا رہا تھا۔ یوں لگا ابھی اُبل پڑیں گے۔ عرقِ جَبیں سرخ پڑتی گئی۔ دور سے یوں لگا کسی نے قشقہ کھینچ دیا ہے۔ حتیٰ کہ نقطۂ عروج آ گیا۔ کوئی شعلہ مستعجل تھا یا چھلاوا، وہ آنِ واحد میں اُٹھے، اپنے سامنے پڑی غزل کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں اور بجلی کی تیزی سے باہر نکل گئے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا:

دیوانہ بہ راہے رود و طفلان بہ راہے

یاراں، مگر ایں شہرِ شما سنگ نہ دارد

اس کے بعد مجلس میں کیا ہوا، اُس کے لیے الگ دفتر چاہیے۔ اب اس سب ٹنٹے کی یافت کی ہمت کہاں۔ آخر میں بہت سی باتوں کے بعد احسان دانش کی رائے سنائی گئی تو آگ کچھ ٹھنڈی ہوئی۔ میں اور عثمان مال روڈ پر آئے، دَم بَہ خود ایسے کہ چلتے جا رہے تھے مگر بات کا حوصلہ نہیں۔ پندرہ بیس منٹ گزرے ہوں گے، ایک ڈھابہ دکھائی پڑا۔ قسمت دیکھیے، اُسی ڈھابے میں ایک طرف باقی صدیقی بھی دبک کے بیٹھے تھے۔ دنیا و ما فیھا سے لا تعلُّق، کہیں گہرائی میں۔

ہم نے دست بستہ ہو کر سلام کیا تو یوں لگا کہ اُنھیں اپنی ذہنی پناہ گاہ سے واپسی پر دقّت ہو رہی ہو۔ اپنی مخروطی انگلیوں سے بیٹھ جانے کو کہا — الامر فوق الادب۔ ہم نے مشکل ہی سے اپنا تعارف کروایا تھا کہ باقی کے چہرے پر خوش گواری کے سائے لہرائے۔ مُڑ کے دیکھا، دو آدمی کھڑے تھے۔ چشمِ زَدن میں باقی اُٹھ کر اُن کے پاس چلے گئے۔ تعارف ہوا: ’’یہ موصوف راجہ عبدُ الرّحمٰن ہیں، باقی کے اُستاد۔ باقی نے ہائی سکول میں اِنھی سے پڑھا تھا۔‘‘ باقی کی بشاشت دیکھ کر ہمیں تسلی ہونے لگی۔

راجہ صاحب ہی نے باقی کو شعر گوئی کی طرف راغب کیا تھا۔ وہ سکول کے بچوں کی تربیت کے لیے ہر مہینے ایک رسالہ نکالتے تھے ’’سخن وَر‘‘؛ باقی نے بہت سی غزلیں، نظمیں اور قطعے اس رسالے میں چھپوائے۔ خدا جانے اب کسی کتاب خانے میں اُس کا نشان ہو گا کہ نہیں۔ راجہ صاحب بزرگ ہو چلے تھے، سر اور ڈاڑھی کے بال بالکل بگلا۔ اُن کے ساتھ اُن کا بھتیجا تھا، محمد یحییٰ۔ تیس پینتیس برس کا ہو گا، چوڑا اینٹھا ہوا چہرہ۔ اپنا قلمی نام بتایا، منیر الدین احمد۔ افسانہ نویس منیر الدین احمد!

اُن کے قلم سے کیسے کیسے افسانے نکلے، ایک سے بڑھ کر ایک۔ میں نے اُن کے المانوی شاعروں کے تراجم بھی پڑھ رکھے تھے۔ بعد میں اُن کی بہت سی کتابیں دل پر نقش ہوئیں۔ کہانیاں ’’لافانی عشق اور دوسرے افسانے‘‘ اور خود نوشت ’’ڈھلتے سائے‘‘ کا تو جواب نہیں، تحیُّر کی ہفت رنگ دنیا میں لے جاتی ہیں۔ اُسی لمحے مجھے رشک نے آ لیا: کاش میں بھی کسی مرکزی شہر کا باسی ہوتا تو بڑے لوگوں سے چلتے پھرتے ملاقاتیں ہوتیں۔

راجہ صاحب جلدی میں تھے، اُٹھ کھڑے ہوئے۔ باقی نے میرے ہاتھ میں ’’بارِ سفر‘‘ دیکھی تو میرا مَیلان جان گئے۔ آج کے واقعے پر طبیعت مُکدّر تو تھی، خاصی دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئے: ’’بیٹا یاد رکھو، نعمت بغیر ظرف کے مل جائے تو گلے کا طوق بن جاتی ہے، یہی حال اُن نا خواندہ نقادوں کا ہے۔‘‘ باقی کے مزاج کو دیکھتے ہوئے اُن سے غزل سنانے کا تقاضا معلوم، لیکن جہاں دیدہ آدمی تھے، مردم شناسی اُن سے مخصوص تھی۔ میرے دل کی آرزو کو سمجھ گئے، ایک شعر سنایا، دوسرا سنایا، ہوتے ہوتے غزل مکمل ہو گئی۔

اِس غزل کی دھوم اب تو مشرق و مغرب میں ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر اقبال بانو کی آواز میں اُسے سنتے ہی ہر چھوٹا بڑا دم سادھے کھو سا جاتا ہے:

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے 

لوگ اپنے دیے جلانے لگے

بعد کے برسوں میں میں نے یہ غزل دن میں بیسویں بار سنی۔ اقبال بانو نے اُسے جس آہنگ میں گایا ہے، گویا ایک ایک لفظ تیر ہے — جو کبھی تو دل کو زخمی کرتا ہے اور کبھی اُس خون پر پھاہا رکھتا ہے۔ جوانی میں انسان شتاب رَو ہوتا ہے۔ اس ملاقات میں مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ باقی میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ۱۹۷۵ء میں جب اقبال بانو نے اپنی آواز سے باقی کا اقبال مزید بلند کیا، تو باقی کی غزل پورے ملک کو حفظ ہو گئی۔

مجھے یاد ہے، یہ غزل ریڈیو پر رات آٹھ بجے لگتی تھی۔ سردیوں کی لمبی، دُودی اور مضافاتی راتوں میں، مہیب خاموشی میں اِس غزل کا اپنا ہی ذائقہ تھا۔ چاندنی رات میں جب آنگن کے زیتونوں کا سایہ پُر اَسرار دکھائی دیتا، اِس غزل کا مقطع بڑا مرموز معلوم ہوتا۔ باقی کی رِحلت کے تقریباً دس سال بعد خوش بختی سے میری ملاقات اقبال بانو سے ہوئی۔ یہ ملتان کی ایک نجی محفل تھی — موسیقی کی باریکی اور کان کی ملاحت رکھنے والے اہلِ ذوق سے بھری پُری۔

مرحومہ سے اُن کے پسندیدہ کلام کا سوال ہوا تو اُنھوں نے باقی صدیقی کا نام لیا۔ کہنے لگیں:

’’خاں صاحب! سچی بات تو یہ ہے کہ اِس غزل (داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے) نے گانے کی تہذیب سے لے کر غم کی شائستگی تک سب کچھ سکھا ڈالا۔ میری عادت ہے، گانے سے پہلے کلام کو بار بار پڑھتی ہوں، اُسے خود پر گزارتی ہوں، خیال میں اُتارتی ہوں۔ بچپن پرانی دلّی میں گزرا، گھر گھر ہنر کے پُتلوں سے بھرا تھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، تلفّظ کی صحت کا تو وہ عالم تھا کہ ادھر غلط لفظ مُنھ سے نکلا، اُدھر ٹخنے نے قمچی دیکھی۔ قمچیاں کھا کھا کر پاؤں میں گھٹے پڑ گئے۔ فارسی پڑھی، عربی سیکھی، ہندی میں سوجھ بوجھ پیدا کی۔ استادوں کے رنگ کو خوب سمجھتی ہوں۔ خدا بخشے، میرے استاد چاند خاں صاحب فرماتے تھے: سُر، لفظ کے محیط میں شناوری سے پیدا ہوتا ہے۔ باقی کی غزل کو گانے کے لیے میں نے اُسے بیسیوں بار پڑھا، سمجھا، شناسائی پیدا کی۔ استادانہ غزل ہے — بات کی بات، فلسفے کا فلسفہ۔ پہلے مجھے لگا کوئی دلّی کا غم زدہ ہو گا لیکن یہ ’داغی‘ تو کُہساری نکلا۔ افسوس کہ زندگی نے اِس غریب سے وفا نہ کی۔ سُنا ہے، اُنھوں نے بمبئی جا کے فلموں کے لیے گیت بھی لکھے۔ ایسا درد رکھنے والا سینہ اُس چکا چوند شہر میں کیسے رہ سکتا تھا، اللہ!‘‘

ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے

بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

یہ تو سن پچاسی کا قصہ ہوا۔ باقی سے پہلی ملاقات میں جب یہ غزل سنی، خصوصاً مقطع:

شام کا وقت ہو گیا باقی

بستیوں سے شرار آنے لگے

تو میرے دل میں سُود و زیاں کی ملی جُلی اور نا قابلِ انفکاک کیفیت پیدا ہوئی۔ میں نے چھوٹتے ہی پوچھا، ایسا پُر کیف مقطع آپ کو کیسے سوجھا؟ اِس کا جواب دینے سے پہلے ٹھٹکے، مجھے غور سے دیکھا اور کہنے لگے: ’’بس، آج رات آپ سہام میں بسر کریں، آپ کو اِس کا رمز سمجھ آ جائے گا۔‘‘

جویندہ یابندہ۔ میں نے اور عثمان نے تائیدی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ سہام، راول پنڈی کی مضافاتی بستی ہے، جس کے اطراف میں ذیلی گاؤں ہیں۔ ارد گرد کی چھوٹی پہاڑیوں نے اُسے گولے کی شکل دے دی ہے۔ مال روڈ سے سہام تک کم سے کم چودہ کلومیٹر فاصلہ تھا۔ اُس وقت میں تو اُس نواحی بستی کے نام سے بھی آشنا نہیں تھا۔ بعد میں باقی کے کلام میں بھی اِس کا ذکر پڑھا:

اِن خشک وادیوں سے کوئی آشنا نہ تھا

باقی ہے میرے نام سے شہرت سہام کی

ڈھابے پر بیٹھے بیٹھے وقت کا احساس نہ ہوا۔ باقی اور عثمان تا دیر شعر و سخن میں محو رہے لیکن میرے چہرے پر تھکن نے جالے بُن رکھے تھے۔ دن بھر کا سفر، آرام ندارد۔ جمائیوں کو ضبط کی مہر سے باندھ رکھا تھا، لیکن کب تک۔ حضرت نے مجھے اُونگھتے دیکھا تو 

مخمور لہجے میں پڑھا:

گاؤں جا کر کرو گے کیا باقی

شور کچھ دیر شہر کا سنتے

واہ! حافظے کی براقی کہیے یا برجستگی — دن بھر کی ورق گردانی سے جو شعر یاد ہوا، کام آ گیا۔ میں نے فوراً جواب دیا:

زندگی دل کا سکوں چاہتی ہے

رونقِ شہرِ صبا کیا دیکھیں

باقی کے چہرے کی شکنوں میں ستائش کی چمک کھیلنے لگی۔ میرا کاندھا تھپتھپایا اور اُٹھ کھڑے ہوئے۔ قریب ہی تانگوں کا اڈہ تھا۔ بھلا ہو، اِن محنت کشوں کا — اِس کڑکڑاتے جاڑے میں بھی اپنے سروں کو پرانی سوزنیوں میں دبائے تانگے میں دبکے تھے۔ گھوڑوں نے جسم ایسے سمیٹے ہوئے تھے کہ بَر کا چوڑان نہ ہونے کے برابر معلوم ہوتا تھا۔ چار آنے میں سہام سے تین کلومیٹر اِدھر کی بات ٹھہری، باقی فاصلہ پیدل طے کرنا تھا۔

دو سواریاں پہلے ہی بیٹھی تھیں۔ ہم تینوں کے نام پر کوچوان نے آسرا کیا اور گھوڑے کو چابک دکھایا۔ دُلکی چال کے ساتھ گھوڑا، اونچے نیچے راستوں پر چلنے لگا۔ راستے میں اندھیرا تھا، کہیں کہیں ننھی ننھی روشنیاں دکھائی پڑتیں، لیکن جیسے سردی اور پالے میں پناہ لے رکھی ہو۔ مہیب خاموشی میں گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز ماحول کو خوابیدہ بنائے جا رہی تھی۔ اردگرد کچھ سجھائی نہ دیا تو میں آسمان کو دیکھنے لگا۔ ستارے سردی و گرمی سے بے نیاز چمکے جا رہے تھے۔

باقی نے محبت سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا: ’’میری آدھی شاعری تو شام ڈھلے تانگے کے اِس سفر میں سمجھ آ سکتی ہے‘‘:

یہ راستے کی لکیریں بھی گم نہ ہو جائیں

وہ جھاڑیوں کا نیا سلسلہ نظر آیا

یہ روشنی کی کرن ہے کہ آگ کا شعلہ

ہر ایک گھر مجھے جلتا ہوا نظر آیا

راستے میں شعر و شاعری پر خوب خوب باتیں ہوئیں۔ باقی، داغ کی زبان کے رَسیا نکلے۔ کہا: ’’بھائی، اگر شعر میں ما فی الضّمیر بیان کرنا سیکھنا ہے تو ممکن نہیں کہ داغ سے اعراض برتو۔ افسوس کہ ہمارے پروفیسروں نے داغ کو طوائف و معشوق سے اوپر اُٹھ کر نہ سمجھا۔‘‘ اُس وقت تو کم سِنی کے باعث یہ بات مجھے زیادہ سمجھ نہ آئی، پھر یہ بھی کہ خود باقی کا رنگِ غزل داغ سے یک سَر مختلف تھا۔ لیکن آج میں اِس بات کو الگ طرح سے دیکھتا ہوں۔

باقی کو نئے نئے خیال کے ابلاغ میں جو غیر معمولی اظہار کی قوّت حاصل ہے، اُس کے پیچھے زبان فہمی کا جوہر چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ باقی، بیسویں صدی کے کسی شاعر سے بھی خاطر خواہ مرعُوب نہ تھے۔ میں نے فراق کا نام لیا تو چُپ ہو گئے۔ کھل کر تو نہیں کہا لیکن فراق کی زُود گوئی سے نالاں دکھائی دیے۔ کہنے لگے: ’’میرے بھائی، شعر کہنا بہت سہل ہے، اچھا شعر کہنا بہت دشوار۔ ہر شعر لکھنے کے قابل نہیں، چاہے کتنا ہی معروف شاعر اُسے اُڑاتا پھرے۔‘‘

میں نے ادب سے پوچھا کہ پھر ہم صاحبِ کتاب شاعر اور غیر شاعر میں کیسے فرق کریں گے؟ کہا: ’’یہ بھی ٹیڑھی کھیر ہے۔ شعر کے بارے میں سِکّہ بند اصول کام نہیں آتے، اس لیے میں اچھے شعر کی خصوصیات بیان کرنے کے بجائے، اچھا شعر پڑھ دیتا ہوں۔ اچھا شعر ہی وہ آئینہ ہے جو بتا سکتا ہے کہ اچھا شاعر کیا ہوتا ہے۔ لفظوں میں اِن معاملات کا بیان مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ، مخلصانہ سَہو سے بڑھ کر اور کچھ نہ ہو گا۔‘‘

’’کل ہی یہاں لاہور کے مشہور پروفیسر عابد علی عابد، راول پنڈی تشریف لائے تھے۔ میری طبیعت ناساز تھی، باوجود کسالت کے میں ملاقات کو گیا تا کِہ اندازہ ہو سکے کہ مرکز میں کیا لکھا اور سوچا جا رہا ہے۔ لیکن بھائی، صورتِ حال زیادہ اُمید افزا نہیں۔‘‘

اچھے شعر کی بابت، باقی کی وفات کی دو دہائیوں بعد، بالکل ایسی ہی بات مجھے ’’میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے‘‘ کے خالق، سلیم کوثر نے بھی کہی تھی۔ سلیم کوثر کے ذکر سے یاد آیا، وہ مملکتِ خداداد کے دوسرے کنارے پر ہونے کے باوجود، باقی سے نہ صرف شناسا بھی تھے، بل کہ اُن کے معترف بھی۔

تانگے والے نے جہاں اُتارا، وہاں دور تک جھاڑیوں کے سوا کوئی شے دکھائی نہ پڑتی تھی۔ کہیں کہیں جگنو، نشانِ سحر اُٹھائے پھرتے تھے۔ پہلے تو تین کلومیٹر پیدل چلنا دشوار معلوم ہو رہا تھا، لیکن باقی کی باتوں میں وہ تأثیر تھی کہ یہ فاصلہ چشم زدن میں طے ہو گیا۔ باقی لہجے کے اُتار چڑھاؤ سے خوب واقف تھے۔ میری دانست میں، اُن کی گفتگو سے شاید ہی کوئی اُکتاہٹ محسوس کرتا ہو۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ وہ فطری طور پر کم گو تھے۔

سہام پہنچے تو گہری خاموشی نے استقبال کیا۔ گاؤں کے عین وسط میں تالاب تھا۔ تالاب کے کنارے انتہائی بڑے گھیر والا برگد کا درخت، درخت کی لانبی لانبی ڈاڑھی رات کے اس وقت عجب سماں پیدا کر رہی تھی۔ ساتھ ہی ایک کنواں تھا، اندھیرے میں خاک سُوجھنا تھا، لیکن قرینے سے مجھے اندازہ ہوا کہ ڈیڑھ پونے دو سو فٹ گہرا ہو گا۔ یہی کنواں گاؤں بھر کے استِعمال میں رہتا تھا۔

دن بھر لڑکیاں کنویں سے پانی کے ڈول بھر بھر کر اپنے گھڑے بھرتی رہتیں۔ آس پاس ننگ دھڑنگ بالک کودتے پھرتے۔ ناریوں کی موجودگی میں نوجوان لڑکوں کا ٹھہرنا معیوب سمجھا جاتا۔ بہت بعد میں باقی کے مُنھ بولے بیٹے نے مجھے بتایا، ایک دوپہر باقی کسی کام سے کنویں کے پاس بے نیازی کے عالم میں کھڑے تھے۔ ساتھ ہی شوخ لڑکیاں پانی بھر رہی تھیں۔ پاس سے گزرنے والے رہ گیر نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ باقی کو دیکھا۔ باقی اُس تبسم پر بڑے سٹپٹائے، رہ گیر کو روکا اور لجاجت سے کہا، ’’بھائی، ویسا کچھ نہیں، جیسا تم سوچ رہے ہو۔‘‘

ظاہر ہے، جس آدمی نے ساری عمر کنوارے پن میں گزار دی ہو، وہ تُہمت کے بار کو کیوں کر برداشت کرنا چاہے گا۔ کنویں کے پہلو میں دائیں ہاتھ کو شہرِ خاموشاں آباد تھا۔ قبرستان سے مُتّصل چھوٹی اینٹوں سے پختہ کیا گیا پرانا تکیہ تھا۔ معلوم ہوا، گاؤں کے پیر و جوان، لڑکے بالک سبھی اسی تکیے پر سستاتے ہیں۔ چاندنی راتوں میں عِشاء کے بعد یہیں پر ادبی و نیم ادبی محفلیں جمتی ہیں، جن میں وارث شاہ کی ’’ہیر‘‘، شاہ حسین کی کافیاں اور بلھے شاہ کا کلام سنایا جاتا ہے۔

اس ماحول کا ظاہر ہے، باقی کی شعری طبع پر ضرور اثر ہوا ہو گا۔ وہیں کھڑے ہو کر باقی نے ایک دو پوٹھوہاری بیت اور نظم بھی سنائی۔ مجھے چوں کہ پنجابی شعر سے زیادہ رغبت نہ تھی، لہٰذا وہ کلام نَسیاً مَنسیًا ہو گیا۔ نظم کے تین با کمال مصرعے ذہن میں جڑ پکڑ گئے:

اُچّیاں کَنداں

ڈَک نہ سَکّن

پُھلّاں نی خوش بُو

باقی کا گھر گلی کے کنارے ہی واقع تھا۔ گلی کھلی اور بے کنار تھی، اطراف میں سادہ اور ایک منزلہ مکان پہلو سے پہلو ملائے تھے۔ رُوکار کے بائیں ہاتھ سُکھ چین کا درخت تھا۔ تھالے میں ہاتھ ہاتھ خود رَو گھاس تھی۔ ایک ہی دو ثانیوں بعد کوئی جگنو چمکتا دکھائی دیتا۔ جھینگروں کی آواز سے بے لوث زندگی کا نشان مستحکم ہو رہا تھا۔

اس عام سی گلی کو باقی کے مرحوم ہو جانے کے بعد، باقیاتُ الصّالحات میں شامل کر کے ’’باقی سٹریٹ‘‘ کا نام دے دیا گیا — ھُو الباقی!

گھر زیادہ بڑا نہ تھا۔ چاندنی رات کے باعث دَر و دیوار آئینہ ہوئے جاتے تھے۔ کچے صحن اور پختہ برآمدے والے اِس مکان کی صفائی تاریکی میں بھی مترشح تھی۔ لالٹین کی پیلی روشنی میں پہلو کی دیوار پر اونچا اور کٹیلا سایہ لہرا رہا تھا۔ آنگن میں نیم کا گھنا پیڑ تھا، اُس کے ساتھ ہی دو چارپائیاں سلیقے سے دھری تھیں۔ سامنے کی دیوار کے ساتھ بائیسِکل کھڑی تھی۔ پتلے کناروں والی گھڑونجی پر دو گھڑوں کی جوڑی تھی، پیتل کے کٹورے چمک رہے تھے۔

بائیں ہاتھ رسوئی کا کھلا چوکا تھا، جہاں سلیقے سے دھلے برتن اُوندھے پڑے تھے۔ چوکے کے ساتھ ہی رات کی رانی کی خوش بُو دار جھاڑی نہایت خوش گوار معلوم ہو رہی تھی۔ گھر میں باقی اپنی چھوٹی مطلّقہ بہن اور اپنی بھانجی کے بیٹے، شاہد نصیر کے ساتھ مقیم تھے۔ چھوٹی بہن کی تنہائی اُنھیں بہت کھاتی تھی۔ شاید یہی امر شادی کرنے میں مانِع رہا ہو۔

دو کمروں کے اِس سادہ اور بَہ ظاہر بے آرائش مکان میں ایک غسل خانہ اور مہمان خانہ زیرِ تعمیر تھا۔ باقی نے باتوں باتوں میں بتایا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے قریبی نواح، چوہڑ ہرپال میں منتقل ہو گئے تھے، لیکن کچھ دن سے اُن کے دل میں آبائی مکان کی تزئِین کا خیال پیدا ہوا ہے۔ اس موقعے پر اُنھوں نے بے طرح مجھے دیکھا اور کہا:

’’جب محبت زیادہ بڑھ جائے تو جُدائی قریب ہوتی ہے۔‘‘

مجھے لالٹین کی روشنی میں اُن کی چمکتی ہوئی آنکھوں پر حسرت ناک سایے دکھائی دیے۔ آسمان پر چاند تانبا ہو رہا تھا۔ مجھے محو دیکھ کر باقی نے قریب قریب جھومتے ہوئے شعر سنایا:

رات مہتاب دیکھتے گزری

زندگی خواب دیکھتے گزری

عثمان اور میرے مُنھ سے ایک ساتھ ’’واہ‘‘ نکلا۔ یوں لگا چاند کا نور کِھچ کر باقی کے چہرے پر آ گیا ہو۔ یہ شعر اُن کے عزیز دوست، شاہد نصیر کا تھا (اِنھی کے نام پر اُنھوں نے اپنی بھانجی کے بیٹے کا نام رکھا تھا)۔

باقی کے پیچھے پیچھے ہم صحن سے گزر کر کمرے میں آ گئے۔ کمرے سے پہلے چھوٹا سا برآمدہ تھا، جس میں کمرے کی کھڑکی کھلتی تھی۔ کھڑکی کے باہر ساق ساق دو گملوں میں گیندے کے پودے لگے تھے — مستقل اور سدا بہار پتّیوں والے، باقی کی شخصیت کا آئینہ۔

کمرے میں دو چارپائیاں بچھی تھیں، جن پر بھورے رنگ کی سوزنیاں اور دُولائیاں سلیقے سے بچھی تھیں۔ ایک طرف کو چھوٹے سے چوبی میز پر ریڈیو پڑا تھا۔ دائیں ہاتھ چھت کے قریب ایک چھجے پر چادروں، بادلوں اور رضائیوں کو تہہ لگایا گیا تھا۔ ریڈیو والے میز پر پانی کا صاف جگ اور گلاس سجا تھا، دونوں کے اوپر اپنے اپنے محیط کی گول کشیدہ چھت گیریاں تھیں۔

ساتھ ہی کسی حکیم کی دوا اور اُس کا تازہ دَونا بھی دھرا تھا۔ بائیں ہاتھ پر، جہاں کھڑکی کے کواڑ صحن میں کھلتے تھے، دیوار میں دو فرشی خانے بنا دیے گئے تھے، اِن میں کچھ کتابیں سلیقے سے ترتیب دی گئی تھیں۔ چراغ کی روشنی میں تو بس اِن کے ہیولے دکھائی دے رہے تھے۔ دائیں پہلو کی دیوار پر تصویر تھی جس پر خوش خطی سے میر کا شعر لکھا تھا:

صاف میداں لا مکاں سا ہو تو میرا دل کھلے

تنگ ہوں معمورۂ دنیا کی دیواروں کے بیچ

صبح اُٹھ کے دیکھا تو شعر کے اوپر ہی آبی رنگوں میں دنیا کا عکس بنایا گیا تھا۔ ہلکے ہاتھ کے مو قلم سے اُس میں ایک بے دست و پا کی خیالی شبیہ کھینچی ہوئی تھی، جو اس مدوّر زندان سے نکلنے کو ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ تصویر دیکھتے ہی مجھے باقی کی شخصیت اور اُن کے شعر مرمُوز معلوم ہونے لگے۔

بعض اوقات پسِ منظر کی چھوٹی اور معمولی چیز بے رنگ خاکے کو ہفت انداز بنا دیتی ہے۔ اس تصویر سے پہلے مجھے باقی کے سادہ لیکن دل کو چھو لینے والے شعروں کے ما بعدُ الطّبیعیاتی سروکار نہ ہونے کے برابر معلوم ہو رہے تھے۔ اب میرے دھیان میں دن بھر کے شعروں کی بازگشت گونجنے لگی:

اگر چِہ اِس میں تری کوششیں بھی شامل ہیں

یہ کائنات مری کائنات ہے پھر بھی

باقی کے اِسی شعر کو زیرِ لب گُنگناتے کب مجھے نیند نے دبوچ لیا، معلوم نہیں ہوا۔ اجنبی ماحول اور نئی جگہ کے باعث جم کر نیند نہ آئی۔ صبحِ کاذب کے وقت آنکھ کھل گئی۔ میں نے بے چینی کے عالم میں بستر چھوڑ کر کتابوں کا رُخ کیا اور ہلکی روشنی میں اُن کے سَر ورق دیکھنے لگا۔

اِن میں تاریخِ طبری اور رسائل و مسائل کی دو چار جلدیں تھیں۔ گلستان و بوستان متصل سجائی گئی تھیں۔ داغ، اصغر، احمد فراز، فیض، فراق اور عدم کے شعری مجموعوں کے پہلو میں نارنجی جلد والا دیوانِ مؤمن بھی تھا۔ کچھ کتابیں طب پر بھی تھیں۔

میں نے فراق کی کتاب ’’شعلۂ ساز‘‘ کھولی، تو اُس کے ہر صفحے پر کچھ نہ کچھ لکھا تھا — باریک اور خوش سُواد خط میں۔ یہی حال باقی کتابوں کا بھی تھا۔ اِس مشاہدے نے باقی کا احترام دل میں اور بڑھا دیا۔ کتابوں کے ساتھ ہی فرش پر ایک کیرم بورڈ بھی پڑا تھا، جو فرصت اور غیر مطالعاتی لمحات میں اُن کا سب سے بڑا رفیق تھا۔

کتابوں کے عنوان سے اُن کی شخصیت بھی کھلتی چلی گئی: تاریخ، تہذیب، مسلم اُمّت، ملّت، شناخت — یہ الفاظ اُن کی زبان پر بھی رہتے اور کتابوں کی جلدوں پر بھی۔ بعد میں پڑھنے پر معلوم ہوا کہ یہی اُن کی شاعری کا مسئلہ بھی ہیں۔

پو پھوٹ چلی تھی۔ چڑیوں کی آواز نے آنگن کے پیڑ کو زمزمہ خانہ بنا لیا تھا۔ میں وضو کے لیے باہر آیا تو باقی پہلے ہی جائے نماز کے ساحل پر تھے۔ قریب ہی رَحل پر قرآن قرینے سے رکھا تھا۔ دھیمی لیکن پُر سوز آواز میں وظیفۂ کائنات جاری تھا۔

میں حوائج سے فارغ ہو کر، صحن کے مغربی گوشے میں آ گیا، دستی پمپ سے وضو کیا، نماز پڑھی، کچھ دیر تہلیل کرتا رہا۔ پندرہ بیس منٹ گزر گئے۔ فراغت ہوئی تو مُڑ کر دیکھا، باقی آنگن میں بچھی چارپائی پر نِیم دراز، زرد کاغذ لیے کچھ لکھ رہے تھے۔

میں نے مُخل ہونا مناسب نہیں سمجھا اور اندر چلا آیا۔ کچھ دیر کتابوں کو جانچتا رہا۔ دوبارہ باہر دیکھا تو باقی کے ہاتھ میں سگریٹ تھا۔ اپنے آپ میں مگن تھے۔ تھوڑی دیر تک مجھے اندازہ نہ ہوا کہ اصل لذّت کا باعث کیا ہے — لکھنا یا سگار نوشی۔

اُن کا انداز ابھی بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے: ایک ایک کَش کے بعد سگریٹ کو ٰتأمّل سے دیکھتے، اُن کی نظروں میں نہ تسخیر کی بلند آہنگی تھی نہ عِجز کی حسرت، بل کہ خود نگری سے پیدا ہونے والا مناسب اِعتماد تھا جو چیزوں کو دیکھنے میں اِعتِدال پیدا کرتا ہے۔

مجھے دیکھتے ہی تازہ شعر پڑھ کے سنائے:

کیا زیست کا راز پائیں گے ہم

کتنے پردے اُٹھائیں گے ہم

ہر رنگِ جہاں سے ہٹ کے دیکھو

اِس طرح نظر نہ آئیں گے ہم

جو دل پہ گزر رہی ہے باقی

وہ تجھ کو بھی اب نہ بتائیں گے ہم

ہائے! وہ اُن کا آخری شعر پڑھنے کا سلیقہ — یوں لگا، زندگی کی ساری حسرتیں اُن کی آنکھوں میں کِھنچ کے آ گئی ہوں۔ پہلے یوں محسوس ہوا کہ آخری شعر میں بچوں کا سا انداز ہو، جیسے دو بالک ایک کھلونے پر جھگڑ پڑے ہوں، پھر مایوس ہو کر آنکھیں پھیر لیں — دَم بھر کو زندگی سے رنجیدہ و کشیدہ، لیکن اگلے ہی لمحے زندگی گزارنے کو تیار۔

مجھے اُس دن احساس ہوا کہ شاعر اپنی نِہاد میں کتنے طِفلانہ، پاک اور معصوم جذبات سینے میں موج زَن لیے ہوئے پھرتا ہے۔ کچھ دیر میں سادہ سا ناشتہ آ گیا۔ ناشتے کے دوران ہی اُن کے دوست نجمی صدیقی بھی تشریف لے آئے۔ وہ اُن کی خلوت و جلوت کے مُونِس تھے۔ باقی پر جان چھڑکتے تھے، اُن کی ایک ادا کو اپنانے کی کوشش کرتے تھے۔

باقی نے اُن سے ہمارا تعارف کروایا، کہنے لگے: ’’نجمی ہی کے سہارے ہم زندہ ہیں۔‘‘ باتوں باتوں میں معلوم ہوا، نجمی صاحب باقی کے اِس حد تک گروِیدہ ہیں کہ درد کے باعِث باقی کی چال میں پیدا ہونے والے لَنگ کو بھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اِیں دیوانہ را ببین!

اِس نشست میں باقی نے اپنی جوانی کی محنت اور مجاہدے کے کچھ واقعات بھی سنائے۔ ڈھب سے یاد نہیں، کچھ ڈوبتے کچھ اُبھرتے نقش باقی رہ گئے۔ ہم پر حیرت چھا گئی جب اُنھوں نے بتایا کہ وہ بمبئی میں ہندوستانی فلموں میں بھی قسمت آزمائی کر چکے ہیں۔ ’’توپ کا بچہ‘‘ میں اُنھیں تھانے دار کا کردار ملا تھا۔ یہ کردار مقبول بھی رہا۔

بمبئی میں اُن کے شعر کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ تین چار فلموں کے گانے بھی لکھے، لیکن طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کچھ روز میں چپکے سے واپس چلے آئے:

زندگی دل کا سکوں چاہتی ہے

رونقِ شہرِ صبا کیا دیکھیں

فلموں میں کام کرنے کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ایک معزز گھرانے نے اُنھیں اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا — کہ ہم بھانڈوں سے نسبت بنانے کے روا دار نہیں۔ اسی داغ کو دھونے کے لیے وہ دوسری عالمی جنگ میں فوج میں بھی بھرتی ہوئے، لیکن انگریز سرکار کی وفاداری کا حلف نہ اُٹھانے پر اُنھیں قیدِ تنہائی کاٹنا پڑی اور مرتے مرتے بچے۔

۱۹۶۵ء کی جنگ میں مشہور پنجابی گیت ’’سیبر چلے پیا بھارت نا سینہ ہِلے پیا‘‘ اُنھی کے قلم سے نکلا تھا۔ اُنھوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا، لیکن سیرابی نہ ہوئی۔ آخرِ کار اُنھیں پشاور ریڈیو میں سٹاف آرٹسٹ کے طور پر رکھ لیا گیا۔ یہاں اُن کی راہ و رسم معروف شاعروں سے ہوئی۔ سترہ سال کا یہ زمانہ اُن کی شاعری کے لیے بڑا تخلیقی تھا۔

اُن کے ہم کاروں میں احمد فراز، خاطر غزنوی، رضا ہمدانی اور محسن احسان شامل تھے۔ احمد فراز تو اُن کی غزل کے مدّاح تھے، معروف رسالوں میں اُن کی غزلیں خود فراز ہی نے چھپوائیں۔ اِنھی دوستوں کے ساتھ مل کر اُنھوں نے ’’سنگِ میل‘‘ نام کا ادبی رسالہ بھی نکالا۔ افسوس، کچھ سال بعد اُس پر وقت نے اپنی گرد ڈال دی۔

میں نے اُن کی کتابوں والی الماری میں ’’سنگِ میل‘‘ کے کچھ پرچے بھی دیکھے۔ وہیں ساتھ، ’’آج کل‘‘، ’’ہمایوں‘‘، ’’نگار‘‘، ’’ادبی دنیا‘‘ اور کچھ دوسرے رسالے بھی بے ترتیبی سے دھرے تھے۔ اِن رسالوں کی اہمیت کا، ظاہر ہے، مجھے اُس وقت علم نہ تھا۔ بعد میں اِن کی حیثیت اور وقار کا اندازہ ہوا۔

بہت بعد میں اتفاقی طور پر میں نے ہندوستان کے بڑے رسالے ’’سوغات‘‘ میں بھی اُن کی تین غزلیں دیکھیں۔ ’’سوغات‘‘ بنگلور سے نکلتا تھا اور اُس کے مُدِیر محمود ایاز کا ادبی دنیا میں بڑا غُلغُلہ تھا۔

باقی نے زندگی کو سادہ سے پیچیدہ ہر سطح پر برتنے کی سعی کی تھی۔ ہمارے ایک پوٹھوہاری دوست کی معرفت کھلا کہ ہم دہقانی لوگ جن ماہیوں ٹپّوں پر جھومتے تھے، اُن میں سے کئی میں باقی کا رنگِ لطافت بھی شامل تھا۔ خدا بخشے، میں نے اپنی نانی مرحومہ سے کئی بار یہ ماہیا سنا تھا:

اُچّے اُچّے بوٹیاں تے نِمی نِمی چاننی

رات چٹا ریشمی دوپٹا پئی تاننی

اِس گیت نے میرے اندر کیسی گزری شاموں کو زندہ کر دیا ہے:

عریض آنگن میں موتیے کی بھری پُری جھاڑیاں، اناروں کے کھلتے شگوفے، لونگ کی شاخوں کی اُڑتی بہتی خوش بُو، عصر کا وقت، قطار میں بچھی چارپائیوں کی بے داغ چادریں، چمچماتے آبنوسی پائے، فرشی پنکھوں کی مخمور آوازیں، شام کی چائے۔

اِن بہشتوں میں باقی کے گیت پانی کی مہذّب، خوش خرام موجیں معلوم ہوتے — دھیمی اور شانت۔

دو ایک گیت جو یاد رہ گئے، آپ بھی سنیے:

وَگناں پیاں سواں ڈھولا

چھوڑ نہ دیوں بانھ ڈھولا

سَرگی نا ویلا ہویا جاگ پیاں گلیاں

کسے آں بُلاں پیاں اوٹھاں نیاں ٹلیاں

باقی کے پوٹھوہاری لحن کو قبولِ عام ملی۔ اِس کا ثبوت اُن کے واحد پوٹھوہاری شعری مجموعے ’’کچے گھڑے‘‘ کا جامِعۂِ پنجاب کے ایم اے پنجابی کے نصاب میں داخل ہونا ہے۔ ظاہر ہے، یہ بغیر کسی سہارے کے، خالص اُن کے شعری رچاؤ سے ممکن ہو پایا۔

معروف شاعروں کا داخلِ درس ہونا تو اکثر مُضر ہی پایا گیا ہے، البتہ مضافاتی شاعروں کی نوعیت مختلف ہے۔ کم از کم نصاب اُن کے نام مُنھ پر تو چڑھاتے ہے، باقی راہ اُن کا شعر خود ہم وار کر لیتا ہے۔

باقی سے ملاقات کی اِس واحد نشست میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا، جس نے میرے دل میں اُن کی محبت کو احترام کے منصب پر فائز کر دیا۔

ہماری باتوں کے دوران ہی اُن کے گھر میں ایک مسیحی خدمت گار آئی۔ صحن میں جھاڑو بہارو کے بعد اُس نے پانی مانگا تو باقی نے اُسے اپنے گلاس ہی میں پانی دیا۔ کچھ ہی دیر میں اُسی گلاس میں بے تکلف ہو کر خود بھی پانی پینے لگے۔ کہنے لگے:

’’بے چاری بہت دُکھوں ماری ہے۔‘‘

اُس زمانے میں بد احوالی سے مسیحی خدمت گاروں کو اپنے برتن میں کھانا پلانا عام طور پر معیُوب سمجھا جاتا تھا۔ اِن سب باتوں نے مِل کر اُن کے اندر ایک طرح کی فِروتَنی پیدا کر دی تھی۔ افسوس یہ ہے کہ ماحول قطعی طور پر نا مُوافق ملا تھا۔

فطری طور پر اُن کی زُود رنجی بڑھتی گئی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس کرنا، اُن پر سوچنا، بات کے ہر پیرائے اور پہلو پر نظر کرنا اُن کا خاصا تھا۔ ظاہر ہے، اِن سب نکتوں کا اندازہ مجھے اُس وقت نہیں تھا، لیکن آج جب پیچھے دیکھتا ہوں تو یہ سب باتیں کھلی کتاب محسوس ہوتی ہیں۔

اِس طرزِ حیات نے اُن کے شعر کی شکل بھی متعیّن کی تھی۔ باقی کا شعر زندگی کی عظیم قدروں کی تلاش نہیں، متین اور سادہ جذبوں پر اصرار ہے۔ اُن کی کائنات بہت وسیع نہیں، لیکن جو کچھ اُن کے سامنے ہے، اُسے وہ اِس قدر باریکی سے بھانپ چکے ہیں کہ ذہنی اعتبار سے تحلیل اور روحانی حوالے سے شرحِ صدر ہو گئی ہے۔

عُمر بسر کرنے کا یہ طور اُنھیں ایسا بھایا کہ سب تصنّع ہیچ معلوم ہونے لگے:

زندگی کتنی کٹھن راہوں سے

باتوں باتوں میں گزر آئی ہے

اُن سے مِل کے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اُنھوں نے اپنے گرد بے تکلّفی سے حد بندی کا حِصار کھینچ رکھا ہو۔ اُن کے تبسّم کا فریب عام ملنے والوں کو اِس گمان میں مبتلا کرتا کہ سبھی پردے اُٹھنے ہی لگے ہیں، حالاں کہ سچ یہ ہے کہ اپنی ذات کے پری خانے تک رسائی دینے میں وہ بہت وقت لگاتے تھے۔

ہم تو خیر ملاقاتی تھے، اِن سب باتوں کی تائید بعد میں ہمارے ایک مشترک دوست اور باقی کے قرابت دار نے بھی کی۔ کچھ دل چسپ واقعات بھی سنائے، جن کا ذکر دل چسپی سے خالی نہ ہو گا۔

باقی اپنے نہایت قریبی دوستوں (اور اُن کی تعداد مشکل سے دو چار رہی: عبدالعزیز فطرت، ایوب محسن، یوسف ظفر، صادق نسیم، شاہد نصیر) کے علاوہ دل کا احوال تو دُور، کسی کو ظاہری کیفیت کا اندازہ بھی نہ ہونے دیتے۔

ایک بار کافی دن بیمار رہے، ضُعف اور بخار نے زور پکڑ لیا۔ چہرہ بیماری کا غمّاز ہو گیا۔ خاندان کی ایک مُعمَّر عورت پوچھنے آ گئیں۔ باقی کو جب معلوم ہوا کہ تیمار داری کو آئی ہیں، تو بستر سے اُٹھ بیٹھے، کہنے لگے:

’’مجھے کیا ہوا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہے۔‘‘

وہ بے چاری جِز بِز ہو کر واپس ہو لیں۔

اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلسل تنہا زندگی سے اُنھیں خدشہ تھا کہ لوگ اُن پر رحم نہ کھانے لگیں:

ہر طرف پُرسشِ غم، پُرسشِ غم، پُرسشِ غم

چین سے بوجھ بھی ڈھونے نہیں دیتا کوئی

تجرّد سے یاد آیا، اُن کی چھوٹی مطلَّقہ بہن نے آخر تک اُن کا رشتہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ نجمی صدیقی کے بہ قول، اُس کا وہ ایک ہی جواب دیتے:

’’مجھے اب اِس عمر میں ایسے ساتھی کی ضرورت ہے جو میرے ناز و ادا کو برداشت کرے، نہ کہ نرم و نازک سی شخصیت جس کے نخرے میں اُٹھاتا پھروں۔‘‘

مجھے اِس جملے سے ہمیشہ مشہور ادیب چیخوف یاد آتا۔ اُس کے دوست جب اُس کی شادی پر اصرار کرتے تو وہ یہی کہتا:

’’مجھے ایک اچھی سی بیوی ڈھونڈ دو، جو دو تین دن میرا جی بہلائے، پھر کچھ ہفتے میری جان کو نہ آئے۔ میں اپنی مگن اور ترنگ میں گم رہوں۔ کچھ پل اختلاط کے، لمبے وقفے تنہائی سے لُطف اندوزی کے۔‘‘

دن گیارہ کے قریب ہم باقی کے گھر سے نکلے۔ دو ہی چار پہروں میں اُن سے ایسا تعلُّق پیدا ہو گیا تھا کہ واپسی کا عمل با قاعدہ مفارقت معلوم ہوا۔ باقی نے دست خط کے ساتھ اپنی کتابیں بھی عِنایت کیں۔

تانگوں کے سٹینڈ تک تین کلومیٹر کا فاصلہ، جو رات پلک جھپکنے میں طے ہوا، اب پہاڑ معلوم ہوا۔ آج سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے، اِس مختصر ملاقات کی محبت نے ایسا اثر کیا کہ یہ نشہ کبھی خُمار سے دوچار نہ ہوا۔ درد نے کیا شعر کہا ہے:

دے وہ شراب ساقی کہ تا روزِ رست خیز

جس کے نشے کا کام نہ پہنچے خُمار تک

میری باقی کے ساتھ خط و کتابت بھی رہی، لیکن برا ہو کاروبارِ دنیا کا کہ اُس نے دوبارہ مہلتِ دید نہ دی۔ جب بھی لکھنے میں تاخیر ہوئی، مجھے ہی ہوئی۔ اُن کا موتیوں جیسا ڈھلا نامہ دو چار روز ہی میں آ جاتا۔ خطوں میں اپنے شعر لکھنا نہ بھولتے، میرے ذوق کی داد دیتے۔ نئے شاعروں کی تحسین کرتے نہ تھکتے، بڑے شہروں کے ادبی رجحانوں سے شناسائی کی بابت اُن کا رویّہ رشک کا ہوتا۔

یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا کہ مجھے فکرِ دنیا میں سر کھپانا پڑا۔ کراچی کے قیام میں اُن کے خطوں کا جواب کون دیتا۔ تین چار خط آئے اور اُس کے بعد خاموشی ہو گئی۔ میں نے اُسے معمول کی شے سمجھا۔

آخری خط کے دو تین مہینے بعد میں نے ’’جنگ‘‘ اخبار کے چھوٹے سے گوشے میں اُن کی رِحلت کی خبر پڑھی تو دل دھک سا رہ گیا۔ کئی دن تک طبیعت پر ملال کا غلبہ رہا، نہ کھانے کو جی چاہتا نہ پہننے کو، لیکن دنیا آخر دنیا ہے، رفتہ رفتہ داغ مُندِمل ہونے لگا۔

لیکن اب اُن کے شعر میری گفتگو کا محاورہ بن گئے۔ میں جہاں گیا، لوگوں کو باقی صدیقی کا نام یاد رہا۔ رہے نام اللہ کا!

سن تہتر کے جاڑے میں سرکاری دورے پر سہام گاؤں کے مضاف میں گیا تو باقی کے مزار کی زیارت کو بھی گیا۔ قبر ویسی ہی سادہ جیسے باقی خود۔ یہ وہی قبرستان تھا، جس کے کنارے چاندنی رات میں باقی نے اپنے مخصوص لہجے میں سنایا تھا:

وہیں سمجھو ہماری داستاں ختم

جہاں کر دے کوئی افسانہ خواں ختم

میں نے لمبی آہ بھری اور سوچا: ٹھنڈی مٹی کی اِس لَحَد کا نام باقی تو نہیں، ہاں تعویذ پر کُھدے خونِ دل کی تحریر نے اُن کے نشان کا پتا دیا:

دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا

کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا

باقی! ابھی یہ کون تھا موجِ صبا کے ساتھ

صحرا میں اِک درخت لگا کر چلا گیا